خلفائےراشدین کا مقام
صحابہ ء کرام کو عمومی طور پر اور خلفائے راشدین (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم
اجمعین) کو خصوصی طور پر ، امت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے ، اس کے بارے میں صرف
اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ...انبیاء کرام علیہم السلام کے بعدیہ مقدس ترین
جماعت تھی جس نے خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی ، آپ
(صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہا ، اپنی جان و مال سے آپ (صلی اللہ علیہ
وسلم) کا دفاع کی ، راہِ حق میں بے مثال قربانیاں دیں ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ
وسلم) کے اسوۂ حسنہ کی بے چوں و چراں پیروی کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی
رحلت کے بعد اپنے عقیدہ و عمل کے ذریعے اس آخری دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت
کی۔
صحیح احادیث میں خلفائے راشدین (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے جو
فضائل بیان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے لیے کافی ہیں اس لیے کہ جہاں ہم ان کے ذریعے ان (رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اجمعین) کے حقیقی مقام و مرتبہ کو جان سکتے ہیں وہیں ان کی عقیدت میں غلو کے فساد
سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔
خلفائے راشدین (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) میں سب سے برتر فضیلت
حضرت سیدنا ابوبکرصدیق کو حاصل ہے ،اس کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم کو ،پھرحضرت
عثمان غنی کواور پھر حضرت مولاعلی مشکل کشاکو پھر نواسہ رسول
راکب دوش مصطفی حضرت سیدنا امام
حسن مجتبیٰ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)۔ (بحوالہ :بہار شریعت )
خلیفۂ اول امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایاکہ بے شک میرے اوپر لوگوں میں اپنی رفاقت اور مال میں سب سے
زیادہ احسان ابو بکر کا ہےاور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو دوست بناتا تو
ابو بکر کو بناتا ، لیکن ان کے ساتھ اسلامی اخوت و محبت کا تعلق ہے۔
مسجد میں ہر دروازہ بند کر دیا جائے سوائے ابو بکر کے دروازے کے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب المناقب ۔ حدیث : 3654)
خلیفۂ دوم امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے سابقہ قوموں میں صاحبِ
الہام یا صحیح گمان رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے، پس اگر میری امت میں ان میں سے
کوئی ہے تو وہ عمر ہیں۔(بحوالہ: صحیح بخاری ، کتاب المناقب ۔ حدیث : 3689 )
'' بے شک ، اللہ نے "حق" کو عمر کی زبان
اور دل پر ثابت کر دیا ہے۔"(بحوالہ: جامع ترمذی ۔ حدیث : 3682)
خلیفۂ سوم امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی ایک فضیلت ایسی تھی جو ان کی شناخت
اور پہچان بن گئی تھی۔ وہ فضیلت '' حیا و شرم '' کی صفت تھی چنانچہ حضرت عائشہ
(رضی اللہ عنہا) نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا جب ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے
کوئی خاص اہتمام نہیں فرمایا۔ پھر جب عمر آئے تو اس وقت بھی آپ نے کوئی اہمیت نہیں
دی لیکن جب عثمان آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے تھے؟
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
'' کیا میں ایسے آدمی سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے
بھی شرماتے ہیں ۔ ''(صحیح مسلم ۔ حدیث : 6209 )
خلیفۂ چہارم امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم
حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کے فضائل و مناقب میں جو صحیح احادیث مروی ہیں
، ان کی روشنی میں اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیرت مرتب کی جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو
سکتی ہے۔
حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے کسی
بھی درجے میں بغض و نفرت ، نفاق کی علامت ہے۔ جو لوگ ایک خاص طبقے کی مخالفت کی آڑ
میں حضرت علی (رضی کرم اللہ وجہہ الکریم )
کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کو درج ذیل ارشادِ نبوی کے آئینہ
میں اپنا خراب چہرہ دیکھ لینا چاہئے کہ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) نے فرمایا
: '' مجھ سے نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم
کا یہ وعدہ ہے کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے۔( ''صحیح مسلم ۔ حدیث : 240)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کی عیب جوئی سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ لوگ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) پر تنقید کریں اور ان کی ذات میں کیڑے نکالیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"علی میں عیب نہ نکالو ۔ بے شک ، علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اور میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست اور خیرخواہ "۔ (ترمذی ، كتاب المناقب، حدیث : 4077،سنن نسائی ، مسند احمد ، المستدرک الحاکم )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کی عیب جوئی سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سخت ناپسند فرماتے تھے کہ لوگ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) پر تنقید کریں اور ان کی ذات میں کیڑے نکالیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"علی میں عیب نہ نکالو ۔ بے شک ، علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اور میرے بعد وہ ہر مومن کا دوست اور خیرخواہ "۔ (ترمذی ، كتاب المناقب، حدیث : 4077،سنن نسائی ، مسند احمد ، المستدرک الحاکم )
خلیفہ پنجم امیر المؤمنین حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
آپ رضی اللہ عنہ اُن خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بِاَبِي وَاُمِّي یعنی تم پر میرے ماں باپ فِدا (معجم کبیر،ج3،ص65، حديث:2677)
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ نے حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُ سےصلح فرما کر اپنے نانا جان حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس فرمان کو عملاً پورا
فرمایا: میرایہ بیٹا سردار ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح
فرمائے گا۔(بخاری،ج2،ص214،حدیث:2704)
امیرالمؤمنین حضرت مولاعلی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد رمضان المبارک 40 ہجری میں
مسلمانوں نے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ دست حق پرست پر بیعت کی ۔
حضرت سفینہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا ۔ اس
کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی ۔ (ابن
حبان جلد 15، صفحہ 392، رقم 6943- احمد،
ترمذی، ابوداؤد)
صحیح روایات
اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا
ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال چھ ماہ،
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال ، حضرت عثمان غنی رضی
اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بارہ سال چھ
ماہ ، حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کا زمانہ چار سال چھ ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفاء کی مجموع مدت
خلافت انتیس سال چھ ماہ ہوتی ہے اورچھ
مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ
ہے، پس حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلفاء راشدین میں سے ہوئے۔ وہ
تیس سال امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے چھ ماہ ملاکر پورے ہوتے ہیں
پھر آپ کی خلافت پر خاموشی کیوں؟؟؟
کیا محبت اہل
بیت کا یہی حق ہے؟؟؟
ہم تو اولیاء اللہ کے عرس پر کئی جمعے پڑھادیتے ہیں کیونکہ ہم اہل
محبت ہیں اور جو اولیاء اللہ کا سردار ہے جنتی جوانوں کا سردار ہے ولایت جس کے باپ کی جاگیر ہے اس کی
شہادت پر کوئی جمعہ نہیں کوئی بیان نہیں بہت کم خطباء حضرات ہونگے جنہوں نے جمعہ
کے خطاب میں مولا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہوگا۔
پانچویں خلیفۂ راشد مولاامام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو فراموش
کرنے والے اور ان کی اطاعت سے انکار کرنے والے روزِ حشر کس منہ سے شفاعت ِ رسول
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امیدوار ہوں گے؟؟؟
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب
کو اہل بیت اطہار کی سچی مودت عطا فرمائے
آمین۔
از: عالمہ ام محامدالفت فاطمہ امجدی فاضلہ کلیۃ البنات امجدیہ گھوسی مئو
No comments:
Post a Comment