قطب عالم خواجہ نور محمد حضرت شاہ عبدالطیف چشتی ستھنوی علیہ الرحمہ

 

Mazar e Sharif 

اسم مبارک : قطب عالم خواجہ نور محمد

المعروف: حضرت شاہ عبداللطیف چشتی ستھنوی علیہ الرحمہ

نسب اور وطن:آپ علیہ الرحمہ  کے نسب اور وطن کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ دہلی کے شاہی خاندان مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کے شہزادے تھے۔

تعلیم: چونکہ آپ کی ابتدائی حالات پردہ خفا میں رہے اس لئے آپ کے تعلیم کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کی جاسکی کہ آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی۔البتہ فارسی عبارات بخوبی سمجھتے تھے۔عارف باللہ حضرت جلال الدین  رومی علیہ الرحمہ  علیہ کی مثنوی شریف سے آپ کو عشق کی حد تک لگاؤ تھا ۔عربی بلا تکلیف بولتے اور سمجھتے بھی تھے مجلسی گفتگو بر محل قرآن پاک کی آیتیں پڑھتے تھے۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عالم بھی تھے ۔

استقامت علی الدین: یہ و کٹھن منزل ہے جو ہاتھوں میں چنگاری پکڑنے کے مانند ہے۔ صوفیائے کرام فرما تے ہیں استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے استقامت تصلب فی الدین میں حضرت شاہ عبداللطیف چشتی ستھنوی علیہ الرحمہ ممتاز نظر آتے ہیں۔

خدمت خلق: آپ علیہ الرحمہ  نے ہندوستان کے کئی علاقوں میں دین اسلام کا بہت خدمتِ انجام دیں ہیں بالخصوص ستھن کے علاقے گمراہیت و بے دینی گڑھے میں تقریبا غرقاب ہونے والے تھے ۔اللہ کے عطا کردہ فضائل و کمالات سے اس مرد حق آگاہ نے تنہا صرف اپنی روحانیت سے اس علاقے میں وہ کمال پیدا کیا کہ آج ہر چہار جانب اس کا اثر مدرسوں اور مسجدوں کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے

اتباع شریعت:شیخ المشائخ حضور شعیب لاولیاء حضرت شاہ یارعلی علیہ الرحمہ (بانی دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف)اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہند و پاک کا سفر کیا تین بار حج و زیارت سے مشرف ہوا،ہزاروں علماء و صوفیاء کی صحبت حاصل ہوئی مگر حضرت شاہ عبداللطیف چشتی ستھنوی علیہ الرحمہ جیسا متبع سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پابند شریعت کو میں نے بہت ہی کم پایا ۔

ایک سو تیس سال (۱۳۰) کی عمر میں جبکہ حضرت مرض الموت میں مبتلا تھےضعیف و نقاہت اس درجہ تک پہنچ چکی تھی کہ دوسرے کے سہارے پر بھی دو قدم چلنے سے معذور تھے مگر اس حالت میں بھی نماز با جماعت کے اس قدر پابند تھے کہ کبھی تکبیر اولی فوت نہ ہوئی۔

کرامات:اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں۔قرآن و حدیث سے ثابت ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر اور ان کی امت کے ولی حضرت آصف بن برخیا کی کرامت کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے کہ سینکڑوں میل دور سے بڑا وزنی تخت پلک جھپکنے سے پہلے لاکر پیش کر دیا اور اسی طرح حضرت مریم کے پاس بے موسم پھلوں کا پایا جانے کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے ۔عقائد کی کتاب شرح العقائد جو ہر دینی مدرسہ میں پڑھائی جاتی ہے ۔اس میں ہے  کہ  حق ہے۔ولی کے ہاتھ پر کرامت اللہ تعالی کی قدرت اور اس کے اذن سے ظاہر ہوتی ہے۔علماء فرماتے ہیں امت کے اولیاء کی کرامات در حقیقت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے معجزات ہیں اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے طفیل اولیاء اللہ کو کمالات و تصرفات عطا فرماتا ہے۔آپ  علیہ الرحمہ سے سیکڑوں کرامتوں کا ظہور ہوا آپ کی بے شمار کرامتوں میں سے ایک عظیم کرامت یہ ہے کہ شیخ المشائخ حضور شعیب لاولیاء حضرت شاہ یارعلی علیہ الرحمہ جب ایک بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رخصت ہوتے وقت حضرت شاہ یارعلی صاحب قبلہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس طرح ارشاد فرمایا :میاں نماز تو نماز،جماعت تو جماعت تکبیر اولی فوت نہ ہواور یہی نماز اللہ تعالی سے ملا دے گی۔

حضرت شاہ عبداللطیف چشتی ستھنوی علیہ الرحمہ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے یہ چند جملے حضرت شاہ یار علی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ  کے لئے پتھر کی لکیر بن گئے کہ اس واقعہ کو کم و بیش اڑتالیس ۴۸ سال گزر گئے تھے لیکن سفر و حضر اور سخت سے سخت بیماری کی حالت میں بھی آپ کی نماز تو نماز جماعت تو جماعت کبھی تکبیر اولی فوت نہ ہوئی۔

سفر آخرت: ایک دن ردولی شریف ضلع فیض آباد یوپی میں ملک محمد نظام الدین کے یہاں تشریف لے گئے اور سلام و دعا کے بعد فرمایا کہ میں تیرے یہاں مرنے کے لئے آیا ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا ۹ جمادی الاولی ہجری ۱۳۳۹ بمطابق ۱۹۲۰ کو بارہ بجکر پچپن منٹ پر ردولی شریف میں ہی مالک حقیقی سے جا ملے دوسرے دن ۲ ۳۰ ڈھائی بجے دن میں بمقام ستھن شریف ضلع امیٹھی یوپی میں تدفین عمل میں آئی ۔آپ  علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں تقریبا تیس ہزار آدمی شریک تھے ستھن شریف میں آپ کا مزار پاک مرجع خلائق اور منبع فیض و برکات ہے۔


No comments:

Post a Comment