دبستان اردو کے پہلے ادیب و مصنف سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ

 

اردو زبان کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں لیکن ان تمام نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ اردو کی بنیاد برصغیر ہندوپاک میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی. بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اردو زبان کی ابتداء چاہے جب اور جس علاقے میں ہوئی ہو لیکن ایک بات مسلم ہے کہ اس کی نشو و نما میں خانقاہی ادارے خاص طور سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جہاں کے صوفی معاشرہ میں ہر طرح کے لوگوں کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے اس میں مذہب ، ذات پات اور طبقات کا فرق حائل نہیں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اقبال نے ایک موقع پر یہ شعر کہا ہے :

بندہ     و   صاحب   و    محتاج و غنی ایک ہوئے

تری سرکار    میں   پہنچے تو   سبھی ایک ہوئے

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ     کوئی      بندہ        رہا           اور           نہ             کوئی                 بندہ نواز

اردو زبان کےتشکیلی عہد میں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں اس سے ہر گزانکار نہیں کیا جا سکتا،اس ضمن میں جن صوفیاء کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ معین الدین چشتی: (متوفی 1235ء)خواجہ فرید الدین گنج شکر : (متوفی 1265ء)شیخ شرف الدین بو علی قلندر (متوفی 1323ء) امیر خسرو:(متوفی 1324ء)شیخ برہان الدین غریب: (متوفی1338ء)شیخ سراج الدین اخی سراج (متوفی 1365) اور شیخ شرف الدین یحیی منیری (متوفی 1370) شیخ عین الدین گنج العلم (متوفی1393) حاجی رومی (متوفی555ھ)سید شاہ مومن عارف اللہ (متوفی 597ھ)بابا مظہر طبل عالم (متوفی 662ھ)شاہ جلال الدین گنج رواں (متوفی 644ھ) سید احمد اکبر جہاں قلندر (متوفی659ھ)شاہ علی پہلوان (متوفی 672ھ)شاہ حسام الدین (680ھ)صوفی سرمست(متوفی 680ھ)بابا شرف الدین (متوفی 687ھ) بابا شہاب الدین (متوفی 691ھ) بابا فخر الدین (694ھ) سید اعزالدین حسینی(متوفی 699ھ)شیخ نورالحق پنڈوی متوفی (813ھ) حضرت قطب عالم (ولادت790ھ ،وفات 850ھ) حضرت شاہ عالم (ولادت 817ھ،وفات880ھ)شیخ بہاو الدین باجن (وفات 912ھ)سلطان شاہ غزنی (وفات 922ھ) شاہ علی جیو گام دھنی (وفات 972ھ) میاں خوب محمد چشتی (وفات 1023ھ)شاہ وجیہہ الدین علوی (وفات 998ھ) سید شاہ ہاشم علوی (وفات 1059ھ) خواجہ بندہ نواز گیسو دراز:(متوفی 1422ء)برہان الدین قطب عالم: (متوفی 1453ء)سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم :(متوفی 1475ء)شاہ صدر الدین :(متوفی 1471ء)شاہ میراں جی شمس العشاق : (متوفی 1496ء)سید محمد جونپوری : (متوفی 1504ء)قاضی محمود دریائی : (متوفی 1534ء)شیخ عبدالقدوس گنگوہی : (متوفی 1538ء)شیخ برہان الدین جانم : (متوفی 1582ء)شاہ حسین : (متوفی 1599ء)عبدالرحیم خان خاناں : (متوفی 1626ء)سلطان باہو : (متوفی 1690ء)بلھے شاہ : (متوفی 1787ء) وغیرہ جیسے سینکڑوں صوفیاء شامل ہیں۔ان تمام اکابر صوفیاء کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلا یا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔(ماخوذ:اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیا ئے کرام کا کام، مولوی عبدالحق/اردو کا ابتدائی زمانہ)

بقول انور سدید: درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت واپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلم بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشو نما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔”(اردو کا ابتدائی زمانہ ص:69)

اردو زبان کی ابتدائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ میں صوفیائے کرام کا نمایاں کردار رہا ہے زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و اصلاح تھامگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار و اخلاص کی کارفرمائی تھی۔ اثیارواخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا سفرشروع کیالیکن تاریخ کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کے وہ ابواب جہاں جہاں مذہبی رجحانات کی کارفرمائی رہی ہے ہمارے ادبی مورخوں نے دیدہ و دانستہ اسے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر اس حقیقت کے اعتراف میں کیا تردد ہے کہ اردو کے فروغ اور اس کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیا اور صوفیانہ افکار کا غیر معمولی کردار رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان صوفیاء کی گود میں پلی اور خانقاہوں میں پروان چڑھی اس زبان میں جو شیرینی اور حلاوت ہے وہ انھیں بزرگوں کا فیضان ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ جہاں بانی اور کشور صرف شہنشاہوں کا کام نہیں۔ تلواروں کی جھنکار حکومتوں کو زیر نگیں کرسکتی ہے مگر دلوں پر حکمرانی کا اصول ہی نرالا ہے زندگی کے مختلف میدانوں میں صوفیااسی اصول پر کار بند رہے۔ وہ خواہ علم و ادب کا میدان رہا ہو یا سلوک و معرفت کا۔ انھوں نے عشق کی وارفتگی اور جنوں کے پیرہن کے ساتھ دنیائے علم وادب پر جو اثرات مرتب کیے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ صوفیا کے حکیمانہ جمال کے سامنے بادشاہوں کا جاہ وجلال بھی نہیں ٹھہر سکا۔ انجذاب و انقیاد اور اخلاص و ایثار کا جو خمار ان بزرگوں کے عمل میں نظر آتا ہے اس کی مکمّل جھلک ان کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔ قلم کا رخ طویل بحث کی طرف مڑ گیا ہے جس کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں اس کے لئے ایک دفتر درکار ہے انشاءاللہ پھر کبھی اس موضوع پر گفتگو کی جائے گی اس وقت مجھے اپنے مضمون کے مرکزی پہلو کو اجاگر کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو زبان کی خدمات کے حوالے سے گروہِ صوفیاء میں ایک ایسا نام ہے جس کے بغیر اردو زبان کی تشکیلی تاریخ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہ مبارک نام ہے حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ کا جنھیں دبستانِ اردو کا پہلا ادیب و مصنف بھی کہا جاتا ہے پہاں پر ہم اس عظیم المرتبت شخصیت کے احوال وخدمات کے چند نقوش کو مختصراً قلمبند کرنا چاہیں گے تاکہ مضمون موضوع کے مطابق ہوسکے۔

ولادت اور تعلیم و تربیت: آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف بزرگ سلسلۂِ اشرفیہ کے بانی غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت سمنان میں سن707ھ بقول دیگر 712ھ میں شہنشاہِ وقت ولیِ کامل حضرت ابراہیم علیہ الرحمہ کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی سات برس کی عمر میں قرأت سبعہ کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم متداولہ سے فارغ التحصیل ہوکر سند فراغت حاصل کرلیا۔

تخت نشینی اور ترک سلطنت : جب آپ عمر کی پندرہویں بہار میں داخل ہوئے تو تو والد گرامی کا وصال ہوگیا سمنان کے بادشاہ بن گئے۔آپ علیہ الرحمہ کے دور حکومت میں سمنان عدل و انصاف اور علم و فن کا مرکز بن گیا۔ 

لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت مخدوم سمنانی کے ذریعہ مخلوق کے رشدوہدایت کا کام لینا تھا اسی لئے آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ حضرت شیخ رکن الدین علاء الدین سمنانی متوفی ۷۳۶ھ شیخ عبدالرزاق کاشی، امام عبداللہ یافعی، سید علی ہمدانی ، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیاء و مشائخ سے علوم شریعت اور عرفان طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔(لطائف اشرفی ۱ص۲۰) بالآخر آپ نے 25 سال کی عمر میں رمضان المبارک کی ۲۷ویں شب میں سلطنت کو ٹھوکر ماردیا حضرت خضر علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور فرمایا :اشرف اب وقت آگیا ہے سمنان چھوڑ کر ہندوستان جاؤ تمہارے مرشد شیخ علاء الحق گنج نبات پنڈوی علیہ الرحمہ تمہارا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔آپ نے اپنی والدہ سے سفر کی اجازت طلب کی اور سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہندوستان کے مشہور ہندی وفارسی ادیب پدماوت کے مصنف ملک محمد جائسی (1542-1477) جائس شریف حال ضلع امیٹھی اتر پردیش کاقول ہے : امت محمدیہ کے صدقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم،دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔ (صحائف اشرفی ۱۱۳) حضرت مخدوم پاک،شہر سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچھ شریف پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۷۸۰ ھ کے روحانی تصرفات و رشد و ہدایت کا مرکز بنا ہوا تھا حضرت مخدوم سمنانی حضرت مخدوم جہاں کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ خود حضرت مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ حضرت مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے تمام روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔(خزینۃ الاصفیان ج۲ص۵۷تا۶۳) حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف پہنچے وہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ مَنِیرِی علیہ الرحمۃ(661ھ-783ھ)کی نماز جنازہ تیار تھا آپ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔

 بنگال آمد اور اشرف جہانگیر کا خطاب: بہار شریف سے بنگال پہنچے۔ صوبہ بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز حضرت شیخ علاء الحق والدین لاہور رشد و ہدایت بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم سمنانی کی آمد کی خبر پہلے ہی متعدد بار حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت شیخ علاء الحق کو دے دی تھی۔ حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی نے شاہانہ انداز میں حضرت مخدوم سمنانی کا استقبال کیا اور بکمالِ اعزاز،انہیں اپنی خانقاہ میں لائے۔ حضرت شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ ایک روز شیخ کی خانقاہ میں مجاہدہ میں مشغول تھے۔ اسی وقت درودیوار سے یہ غیبی آواز آنے لگی ’’اشرف جہانگیر ، اشرف جہانگیر‘‘ حضرت شیخ نے مسرت کا اظہار فرمایا اور اشارہ غیبی سے یہ معزز خطاب حضرت مخدوم سمنانی کو عطا فرمایا۔(مرأۃ الاسرار ،ص۱۰۴۶)۔صاحبِ لطائف اشرفی،خلیفہ مخدوم سمنانی ،حضرت نظام الدین یمنی نے لکھا ہے کہ حضرت مخدوم سمنانی نے راہ سلوک میں ۳۰؍ سال سیر و سیاحت کی اور ۵۰۰؍ سو اولیاء ومشائخ وقت سے علوم معرفت و فیوض و برکات حاصل کئے. تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لئے بنگال سے مختلف بلاد وامصار کا گشت کرتے ہوئے شیراز ہند جونپوراور بنارس کے راستے سے کچھوچھہ پہونچے جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے۔ جونپور میں ان دنوں سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی اور سلطان کی علماء نوازی و مشائخ دوستی کی بنیاد پر جونپورعلماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ حضرت مخدوم جونپور پہنچے تو وہاں پر سلطان ابراہیم شرقی اور علامہ قاضی شہاب الدین دولت آبادی اور دیگر علماء و مشائخ نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور کثیر تعداد میں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود سلطان آپ کا معتقد ہوا اور اپنے اہل خانہ کو آپ سے مرید کروادیا۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی مخدوم سمنانی کے علم و معرفت سے حد درجہ متاثر ہوئے اور آپ کے معتقد ہوگئے قاضی صاحب کا بعض مسائل میں حضرت مخدوم سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ (صحائف اشرفی ج۱،ص۶۰تا۷۵) کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور گمراہوں و فاسقوں نے اپنی گمراہی و فسق و فجور سے توبہ کی۔

ایک زندۂِ جاوید کرامت: ایک مرتبہ بنارس میں ہندوپنڈتوں سے آپ کا مباحثہ ہوا انہوں نے آپ سے دین اسلام کی حقانیت پر دلیل طلب کی، سامنے بت خانہ تھا اور لوگ پوجا میں مصروف تھے۔ آپ نے فرمایا : جس دین کا کلمہ میں پڑھتا ہوں اس کی حقانیت کی گواہی اگر تمہارے بت خود دے دیں تو؟ انہوں نے کہا:اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ حضرت مخدوم سمنانی نے ایک بت کو مخاطب کرکے کلمہ اسلام پڑھنے کو کہا تو وہ بت زندہ ہوگیا اور آپ کے ساتھ کلمہ پڑھنے لگا۔ آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اور اس کی شہرت سن کر اسی دن ایک لاکھ ہندو مسلمان ہوئے ۔ مقام کچھوچھہ جہاں پر آپ کا مزار پر انور ہے۔پہلے وہاں ایک بہت بڑا جوگی(جادوگر) اپنے پانچ سو تربیت یافتہ چیلوں کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ آپ کی بزرگی و کرامات سے متاثر ہو کر ان تمام کے تمام جادوگرآپ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کئے۔ اس جیسے بے شمار کرامتوں کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل فرمایا اور لاکھوں مسلمانوں کو داخل سلسلہ کر کے ان کی اصلاح و تزکیہ نفس کا سامان مہیا فرمایا۔حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ اپنے پیرومرشد حضرت شیخ علاء الحق گنج نبات علیہ الرحمہ کے حکم پر تبلیغ دین کی غرض سے پوری دنیا کی سیاحت کی اور اس دوران لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی ۔ آپ علیہ الرحمہ نے اس سلسلے میں صرف تقریر پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تحریری کام بھی جاری رکھا۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ بھی تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ تمام مروجہ علوم و فنون میں کامل مہارت اور ید طولیٰ رکھتے تھے. محبوب ربانی ہم شبیہ غوث صمدانی حضرت سید شاہ ابواحمد محمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی اپنی مشہور ومعروف کتاب صحائف اشرفی میں لطائف اشرفی کے حوالے سے رقمطراز ہیں: حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے بہت سی کتابیں آپ نے عربی ، فارسی ، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول ہے کہ جس قدر حضرت محبوب یزدانی نے تصانيف فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مالک ہوئے ہوں گے حضرت سلطا ن سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی خود فرماتے تھے کہ میری سلطنت میں میرے خاندان سادات نوربخشیہ سے ستر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں موجود تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی کی کہ پانچ پشتوں میں سلطان ابن سلطان، سید ابن سید، ولی ابن ولی، حافظ ابن حافظ، قاری ابن قاری اور عالم ابن عالم برابر نسلاً بعد نسلاٍ حضرت تک ہوتے چلے آئے۔ *علمی آثار*: آپ کی چند معروف کتب کے اسماء درج ذیل ہیں: (1) ترجمہ قرآن کریم ( بزبان فارسی)(2)رسالہ مناقب: اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین (3) رسالہ غوثیہ (4) بشارۃ الاخوان (5) ارشاد الاخوان(6) فوایدالاشرف (7) اشرف الفوائد (8) رسالہ بحث وحدۃ الوجود (9) تحقیقات عشق (10) مکتوبات اشرفی (11) شرف الانساب (12) مناقب السادات(13) فتاوائے اشرفی (14) دیوان اشرف (14) رسالہ تصوف و اخلاق (بزبان اردو)(15) رسالہ حجۃ الذاکرین (16) بشارۃ المریدین (17) کنزالاسرار (18) لطائف اشرفی(ملفوظات)(19) شرح سکندرنامہ(20) سرالاسرار (21)شرح عوارف المعارف (22) شرح فصول الحکم (23) قواعد العقائد (24) تنبیہ الاخوان(25) رسالہ مصطلحات تصوف(26) تفسیر نور بخشیہ (27) رسالہ در تجویز طعنہ یزید(28) بحرالحقائق (29) نحو اشرفیہ (30) کنزالدقائق(31) ذکراسمائے الہی (32) مرقومات اشرفی(33) بحرالاذکار(34) بشارۃ الذاکرین (35) ربح سامانی (36) رسالہ قبریہ (37) رقعات اشرفی(38) تسخیرکواکب (39) فصول اشرفی (40) شرح ہدایہ (فقہ)(41) حاشیہ بر حواشی مبارک(حوالاجات:معارف سلسلہ اشرفیہ ص11،حیات غوث العالم ص74 تا 77، صحائف اشرفی حصہ اول 115 تا 118،سید اشرف جہانگیر سمنانی علمی دینی اور روحانی خدمات صفحہ 173 تا 206) 

مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی و فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے تشکیلی عہد کے میر کارواں تھے جنہیں کچھ ماہرین لسانیات نے دبستانِ اردو کا سب سے پہلا مصنف و ادیب بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ (جسے ہم نے فہرست کتب میں چودھویں نمبر پر شمار کرایا ہے) اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی ہے جو اردو نثر کی پہلی تصنیف ہے۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو 758ھ مطابق 1308 ء میں تصنیف کیا گیا۔ در اصل یہ قلمی نسخہ جو ایک بزرگ مولانا سید وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے 28 صفحات ہیں۔ پروفیسر سید حامد حسن قادری صاحب نے اپنی تحقیق انیق سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں قادری صاحب اپنی کتاب داستان تاریخ اردو میں یہاں تک تحریر فرمایا ہے کہ : حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی کتب میں ایک کتاب "اخلاق و تصوف بزبان اردو بھی ہے محققین کے مطابق یہی اردو نثر کا پہلا رسالہ ہے اب تک کی تحقیق متفق الراۓ تھی کہ شمالی ہند میں اٹھاریوں صدری عیسوی /بارہویں صدی ہجری سے پہلے تصنیف و تالیف و نثر کا کوئی وجود نہ تھا یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چارسو برس پہلے اردو کی تصانیف کا آغاز ہوا لیکن اب سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ تصوف کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہوگیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ دکن میں اردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند دکن میں امیرخسرؔو اور سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نظم ونثر کی بنیاد ڈالی۔( داستان تاریخ اردو ص 24)

مذکورہ بالا شواہد سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہٗ النورانی صرف ایک روحانی شخصیت ہی کے مالک نہیں تھے بلکہ علمی وادبی میدان میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ آپ نے جہاں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں اہم کردار اداکیا ہے وہیں علمی وادبی لحاظ سے بھی عظیم خدمات انجام دیں اور تاریخ کا ایک حصہ بن گئے لیکن افسو س کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس عظیم شخصیت پر وہ تحقیقی کام نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا اگرچہ مختلف حضرات نے آ پ کی سیرت پر لکھا لیکن صرف کشف و کرامات ہی پر اکتفا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپ کو صرف ایک ولی کامل کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ آپ کی شخصیت کا ادبی پہلو پردۂ خفا میں رہ گیا ضرورت اس بات کی ہے کہ کشف وکرامات کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت کے ادبی و علمی پہلو کو بھی اجاگر کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں آپ کی جامع الکمالات شخصیت سے کماحقہ آشنا ہوسکیں۔

 وصال:حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ نے۲۸محرم الحرام ۸۰۸ھ کو داعئ اجل کو لبیک کہا ۔ آپ کا مزار پر انوار کچھوچھہ مقدسہ ضلع امبیڈکرنگر یوپی میں ہے آپ کی ذات اقدس سے آج تک خلق خدا مستفیض و مستنیر ہورہی ہے ہرسال ماہ محرم کے آخری عشرہ میں 27 1ور 28 تاریخ کو تقریبات عرس نہایت ہی احترام و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں مریدین و زائرین شرکت فرماتے ہیں۔ مولیٰ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے۔

(بشکریہ: تحریر محمد ہاشم اعظمی مصباحی نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی )

 

 


Wazoo Ka Masnoon Tareeqa


 

Wuzoo Ka Masnoon Tareeqa Hadees Nabwi Ke Mutabiq Yeh Hai :

Hazrat Syeduna Imam Hussain Razi Allah Anho Se Marwi Hai Ki Mere Waalid e Muhtarm Hazrat Syeduna Moula Ali Bin Abi Taalib Razi Allah Anho Ne Mujh Se Wuzoo Ka Pani Talab Farmaya. Mein Ne Wuzoo Ka Pani Laa Kar Haazir e Khidmat Kiya. Aap Razi Allah Anhu Ne Wudu Farmana Shuroo Kiya. Aap Razi Allah Anho Ne Pani Mein Haath Daalne Se Qabal Dono Hathon Ko Teen Dafaa Dhoya.

Us Ke Baad Teen Martaba Kulli Farmai Aur Teen Dafaa Naak Saaf Farma-i Us Ke Baad Aap Ne Munh Ko Teen Dafaa Dhoya Phir Aap Ne Dayen Haath Ko Kohni Tak Teen Martaba Dhoya Phir Bayen Haath Ko Isi Terhan Dhoya Phir Aap Ne Apne Sir Mubarak Par Aek Dafaa Maseh Farmaya. Us Ke Baad Dayen Paon Ko Takhnon Tak Teen Dafaa Dhoya Phir Aise Hi Bayen Ko Is Ke Baad Aap Ne Khade Ho Kar Pani Laane Ka Hukum Sadir Farmaya. Mein Ne Bartan Jis Mein Wudu Ka Bacha Huwa Pani Tha,

Haazir e Khidmat Kiya To Aap Ne Khade Khade Is Se Pani Pi Liya. Mein Hairan Huwa To Phir Aap Ne Mujhe Dekh Kar Irshad Farmaya :' ' Hairan Nah Hooh Kyunki Mein Ne Aap Ke Nana Jaan Ko Aise Hi Karte Huwe Dekha Jaise Tum Mujhe Karta Dekh Rahe Ho. Huzoor Nabi Akram Isi Terhan Wudu Farmate Aur Aap Wudu Ka Bacha Huwa Pani Khade Ho Kar Peete The.' '(Nisai Al Sunan 1:51-52 Al Hadith 95)


Wazu Karne Ka Sunnat Tariqa

(1) Bismillah Padhna

Jab Wazu Karne Ka Irada Kare To Sab Se Pehle (Bismilla-Hirrahmanir-Rahim) Padh Le Tab Wazu Karna Shuru Karen. Jab Tak Ba Wazu Rahenge Farishte Nekiyan Likhte Rahenge. (Al Muazam Al Sagheer Lil Tabrani 01:73 Al Hadith 184)

(2) Hathon Ko Gatte Tak Dhona

Phir Dono Haatho Ko Gatto Tak(Kalaiyon) Teen Martaba Dhoye.

(3) Miswak Karna

Phir Miswak Kar Ke Right Hand Se 3 Baar Kulli Kare Apne Halaq Aur Daanton Ko Acchi Tarah Saaf Kare,Agar Daant Ya Taali Me Koi Cheez Chipki Ho To Usko Saaf Kare. Imam Ghazil Alaihirrahmah Farmate Hain Ki Miswak Karte Waqt Allah TaAla Ke liye Zikr Aur Quran e Kareem Padhne Ki Niyat Honi Chahiye. (Ahyaul Uloom 1:182)

 (4) Naak Me Paani Dalna

Phir Dahine Haath Se 3 Baar Naak Me Pani Dale Pani Yahan Tak Ko Dale Ki Naak Ki Naram Haddi Tak Paani Pahunch Jaye Phir Bayein(Left) Hand Ko Choti Ungli Se Naak Saaf Kare .

(5) Chehre Ko Dhona

Uske Baad Dono Hathon Me Paani Lekar 3 Baar Is Tarah Se Dhoye Ki Baal Ke Ugne Ki Jagah Se Lekar Thody Tak Dahini Kanpati Aur Bayien Kanpati Tak Koi Jagah Chootne Na Paaye. Aur Dadhi Ka Khilal Kare Yani Dadhi Me Ungliyan Daal Kar Bahar Ki Taraf Kheenche Taqi Pani Andar Tak Chala Jaye.

Note :-Agar Ihraam Bandhe Huye Ho To Dhadhi (Beard) Me Khilal Na Kare.

 

(6) Kuhniyon Sameet Haath Dhona

Phir Kuhniyon Sameet Ya Kuch Upar Tak Dono Hathon Ko 3 Teen Baat Acchi Tarah Dhoye.

(7) Masah Karna

Phir 1 Baar Masah Kare Masah Is Tarah Ki Dono Haat Paani Se Tar Karke Angoothe Aur Kalme Ki Ungli Chhod Kar Dono Hathon Ko Teen Teen Ungliyon Ki Nok Ek Dusre Se Milaye Aur Poori 6 Ungliyon Ke Pet Ki Jad Maathe Per Rakh Kar Piche Guddi Tak Le Jaye Aur Is Tarah Karen Ki Kalme Ki Dono Ungliyan Aur Dono Angoothe Aur Hatheli Sir Per Na Lagne Paaye.Ab Guddi Se Haath Wapis Maathe Ki Taraf Is Tarah Layen Ki Dono Guddiyan Sar Ke Dahini Aur Bayien Hisse Per Se Hoti Hui Maathe Tak Wapis Aajaye.Ab Kalme Ki Ungli Ke Pet Se Kaan Ke Andar Ke Hisso Kaa Aur Angoothe Ke Pet Se Kaan Ke Upar Ka Masah Kare.Aur Ungliyon Ki Peeth Se Gerdan Ka Masah Kare Lekin Haath Gale Per Na Jaye Kyunki Gale Ka Masah Karna Makrooh Hai.

(8) Dono Pairon Ko Dhona

Masah Karne Ke Baad Ab Dahina Pair Ungliyon Ki Taraf Se Takhne Tak Dhoye Rakhne Ke Saath Kuch Uper Tak Dhoye ,Phir Isi Tarah Bayaan Pair Bhi Dhoye, Haath Aur Pair Ki Ungliyon Me Khilal Kare .Ab Wazu Kahtam Huwa. (Dur Mukhtar/ Raddul Muhtar/ Bahar e Shariat/Anwar e Shariat Page 20-21)

وضو کا آسان طریقہ حدیث نبوی کے مطابق


 حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت سیدنا مولیٰ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔  میں حیران ہوا تو پھر آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا : ’’حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم مجھے کرتا دیکھ رہے ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺاسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔‘‘(نسائی، السنن، کتاب الطہارة، باب صفۃ الوضوء، 1 : 51، 52، رقم : 95)

وضو کرنے کاآسان  طریقہ

وضو کیلئے نیت کرنا سنت ہے، نیت نہ ہو تب بھی وضو ہو جا ئے گامگر ثواب نہیں ملے گا۔ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، دل میں نیت ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا افضل ہے لہٰذا زبان سے اس طرح نیت کیجئے کہ میں حکم الہی  بجا لانے اور پاکی حاصل کرنے کیلئے وضو کر رہا ہوں ۔

 بسم اللّٰہ کہہ لیجئے کہ یہ بھی سنت ہے ۔بلکہ بسمِ اللّٰہِ وَالحمدُ لِلّٰہِ کہہ لیجئے کہ جب تک باوُضو رہیں گے فرشتے نیکیاں لکھتے رہیں گے۔(الْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث ۱۸۶)

 اب دونوں ہاتھ تین تین بارپہنچوں تک دھوئیے، (نل بند کرکے ) دونوں ہاتھوں کی ا نگلیوں کا خلال بھی کیجئے ۔ کم از کم تین تین بار دائیں بائیں اوپر نیچے کے دانتوں میں مسواک کیجئے اور ہر بارمسواک کو دھولیجئے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمدبن محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ’’مسواک کرتے وقت نماز میں قراٰن مجید کی قراءت اورذکر اللہ لئے منہ پاک کرنے کی نیت کرنی چاہئے۔(احیاء العلوم ج۱ص۱۸۲)

 اب سیدھے ہاتھ کے تین چلو پانی سے( ہر بار نل بند کرکے) اس طرح تین کلیاں کیجئے کہ ہر بارمنہ کے ہر پرزے پر (حلق کے کنارے تک ) پانی بہ جائے ،اگر روزہ نہ ہو تو غرغرہ بھی کرلیجئے۔

پھر سیدھے ہی ہاتھ کے تین چلو (اب ہر بار آدھا چلو پانی کافی ہے ) سے ( ہر بار نل بند کرکے) تین بار ناک میں نرم گوشت تک پانی چڑھائیے اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیے، اب(نل بند کرکے) الٹے ہاتھ سے ناک صاف کرلیجئے اور چھوٹی انگلی ناک کے سوراخوں میں ڈالئے ۔

تین بار سارا چہرہ اس طرح دھوئیے کہ جہاں سے عادتاًسر کے بال اگنا شروع ہوتے ہیں وہاں سے لیکرٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک ہر جگہ پانی بہ جائے ۔ اگر داڑھی ہے اور احرام باندھے ہوئے نہیں ہیں تو( نل بند کرنے کے بعد) اس طرح خلال کیجئے کہ انگلیوں کو گلے کی طرف سے داخل کر کے سامنے کی طرف نکالئے ۔

 پھر پہلے سیدھا ہاتھ انگلیوں کے سرے سے دھونا شروع کر کے کہنیوں سمیت تین بار دھوئیے ۔اسی طرح پھر الٹا ہاتھ دھولیجئے۔ دونوں ہاتھ آدھے بازو تک دھونا مستحب ہے ۔اکثر لوگ چلو میں پانی لیکر پہنچے سے تین بار چھوڑ دیتے ہیں کہ کہنی تک بہتا چلا جاتا ہے اس طرح کرنے سے کہنی اور کلائی کی کروٹوں پر پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا بیان کردہ طریقے پر ہاتھ دھوئیے۔ اب چلو بھر کر کہنی تک پانی بہانے کی حاجت نہیں بلکہ( بغیر اجازت صحیحہ ایسا کرنا) یہ پانی کا اسرا ف ہے۔

 اب(نل بند کرکے) سر کا مسح اس طرح کیجئے کہ دونوں انگوٹھوں اور کلمے کی انگلیوں کو چھوڑ کر دونوں ہاتھ کی تین تین انگلیوں کے سرے ایک دوسرے سے ملا لیجئے اور پیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر کھینچتے ہوئے گدی تک اس طرح لے جائیے کہ ہتھیلیاں سر سے جدا ر ہیں ، پھر گدی سے ہتھیلیاں کھینچتے ہوئے پیشانی تک لے آئیے،کلمے کی انگلیاں اور انگوٹھے اس دَوران سَر پر بالکل مَس نہیں ہونے چاہئیں ، پھر کلمے کی انگلیوں سے کانوں کی اندرونی سَطح کا اور انگوٹھوں سے کانوں کی باہری سطح کا مسح کیجئے اورچھنگلیاں (یعنی چھوٹی انگلیاں ) کانوں کے سوراخوں میں داخل کیجئے اور انگلیوں کی پشت سے گردن کے پچھلے حصے کامسح کیجئے۔ بعض لوگ گلے کا اور دھلے ہوئے ہاتھوں کی کہنیوں اور کلائیوں کا مسح کرتے ہیں یہ سنت نہیں ہے۔ سر کا مسح کرنے سے قبل ٹونٹی اچھی طرح بند کر نے کی عادت بنالیجئے بلا وجہ نل کھلا چھوڑ دینا یا ادھورا بند کرنا کہ پانی ٹپک کر ضائع ہوتارہے اسراف وگنا ہ ہے ۔ پہلے سیدھا پھر الٹا پاؤں ہر بار انگلیوں سے شروع کرکے ٹخنوں کے او پر تک بلکہ مستحَب ہے کہ آدھی پنڈلی تک تین تین باردھولیجئے۔ دونوں پاؤں کی انگلیوں کا خِال کرنا سنت ہے۔(خلال کے دوران نل بند رکھئے ) اس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ الٹے ہاتھ کی چھنگلیا سے سیدھے پاؤں کی چھنگلیا کا خلا ل شروع کر کے انگوٹھے پر ختم کیجئے اور الٹے ہی ہاتھ کی چھنگلیا سے الٹے پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیاپر ختم کرلیجئے۔ حجۃ الاسلام حضرت سیدنا  امام محمدبن محمد بن محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :ہر عضو دھوتے وقت یہ امید کرتا رہے کہ میرے اس عضو کے گناہ نکل رہے ہیں ۔(احیاء العلوم 1:183/انوار شریعت صفحہ 20-21)

Namaz Padhne Ka Asaan Tariqa (Hanfi)

Namaz Padhne Se Pehle Yeh Zaroori Hai Ki Namazi Ka Badan, Kapde Aur Namaz Ki Jagah Paak Ho, Sitr Dhanpna Huwa Ho Aur Namaz Ka Waqt Hogaya Ho. Phir Ba-Wudu Qibla (Kaabe Sharif) Ki Taraf Munh Kar Ke Dono Paon Ke Darmiyan Kam Se Kam 04 Ungeliyan Aur Ziyada Se Ziyada Aik Balisht Ka Faasla Karke Khada Ho. Jo Namaz Padhni Hai Us Ki Dil Se Niyat Kare Aur Zubaan Se Kehna Mustahib Hai. Niyat Kar ne Ka Tariqa Yeh Hain Jaise:

Farz Namaz Ki Niyat: Jis Waqt Ki Namaz Aur Jitni Raka’At Hoon, Niyat Mein Un Ka Zikar Kiya Jaye. Jaise Ki Zohar Ke Farzon Ki Niyat Yun Ki Jaye Gi Ki Main Niyat Karta / Karti Hoon 04 Rak-At Farz Namaz e Zahar Ki, Waste Allah TaAla Ke, Munh Mera Kaaba Shareef Ke Taraf. Agar Imam Ke Peeche Hoon To Phir Kaha Jaye :' Peeche Is Imam Ke.' Us Ke Baad Takbir E Tehrima Yani Allah Akbar Keh Kar Haath Bandh Le.

Sunnat Namaz Ki Niyat:  Main Niyat Karta / Karti Hoon.... Rak-At Sunnat Namaz.... Ki, Waste Allah TaAla Ke, Munh Taraf e Kaaba Shareef Ke, Allahu Akbar.

Nafil Namaz Ki Niyat: Main Niyat Karta / Karti Hoon.... Rak-At Nafil Namaz.... Ki, Waste Allah TaAla Ke, Munh Taraf e Kaaba Shareef Ke, Allahu Akbar.

Wajib Namaz Ki Niyat: Main Niyat Karta / Karti Hoon 03 Rak-At Witr Wajib Namaz Esha Ki, Waste Allah TaAla Ke, Munh Taraf e Kaaba Shareef Ke, Allahu Akbar.

Phir Dono Haath Apne Kaanon Ki Lo Tak Le Jayen Is Terhan Ke Hatheliyan Qibla Sharif Rukh Hoon Aur Ungelian Nah Khuli Huwi Ho. Nah Mili Huwi, Balke Apni Normal Haalat Mein Hoon. Allahu Akbar Kehta Huwa Haath Neeche Laaye Aur Naaf Ke Neeche Bandh Le Is Terhan Ke Dahni Hatheli Bayen Kalayi Ke Sire Par Ho Aur Beech Ki Teen Ungelian Bayen Kalayi Ke Pusht Par Aur Angotha Aur Chungilayan (Chhoti Ungli) Kalayi Ke Agal Bagal Ho Aur Sanaa Padhen.

سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ۔

''Aye Allah! Hum Teri Paki Bayan Karte Hain, Teri Tareef Karte Hain, Tera Naam Bahut Barket Wala Hai, Teri Shaan Bahut Buland Hai Aur Tere Siwa Koi Ibadat Ke La-iq Nahi.' ' (Tirmizi, 1 : 283, Al Hadith : 243 )

Phir Tauooz Padhen:

أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

''Main Shaitan Mardood Se Allah Ki Panaah Mangta / Maangti Hoon.' '

Phir Tasmiyah Padhen:

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

“Allah Ke Naam Se Shuru Jo Nihayat Meharban Hamesha Reham Farmane Wala Hai.' '

Phir Surah Al Fatiha Padhen:

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَO

( 1 ) Sab Khoobiyan Allah Ko Jo Maalik Saare Jahan Walon Ka, ( 2 ) Bahut Meharban Rehmat Wala, ( 3 ) Roz e Jaza Ka Maalik, ( 4 ) Hum Tujhi Ko Poojain Aur Tujhi Se Madad Chahain, ( 5 ) Hum Ko Seedha Rasta Chala, ( 6 ) Rasta Un Ka Jin Par Tu Ne Ahsaan Kiya, ( 7 ) Na Un Ka Jin Par Gazabb Huwa Aur Na Behke Huoon Ka , (Al Quran:01)

Khatam Par Ameen Aahista Kahe, Us Ke Baad Koi Surat Ya Teen Ayatain Padhe Ya Aik Aayat Ke Teen Ke Barabar Ho, Ab Allahu Akbar Kehta Huwa Ruku Mein Jaye Aur Ghutnon Ko Haath Se Pakde, Is Terhan Ke Hatheliyan Ghutne Par Ho Aur Ungeliyan Khoob Phaili Ho, Nah Yun Ke Sab Ungeliyan Aik Taraf Ho Aur Nah Yun Ki Chaar Ungeliyan Aik Taraf, Aik Taraf Faqat Anghutha Aur Peeth Bichhi Ho Aur Sir Peeth Ke Barabar Ho, Ouncha Neecha Nah Ho Aur Kam Se Kam Teen Baar

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ

'' Pak Hai Mera Parwar-Digaar Azmat Wala.' ' (Tirmizi Shareef, , 1:300, Al Hahidh : 261 )

Kahe Phir

سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَهْ

'' Allah TaAla Ne Is Bande Ki Baat Sun Li Jis Ne Us Ki Tareef Ki.'  Kahta Huwa Seedha Khada Ho Jaye Aur Munfrid (Akela) Ho To Us Ke Baad.

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ

'' Aye Hamare Parwar-Digaar! Tamam Tareefen Tere Liye Hain.' ' (Muslim, Al Sahih 1:239-234 Al Hadith 392)

Kahe Phir Allahu Akbar Kahta Huwa Sajda Me Jaye Yun Ki Pehle Ghutne Zameen Par Rakhe Phir Haath Phir Dono Hathon Ke Beech Mein Sir Rakhe, Nah Yun Ke Sirf Peshani Chhu Jaye Aur Naak Ki Noak Lag Jaye, Balki Peshani Aur Naak Ki Haddi Jamaye Aur Baazuon Ko Karwaton Aur Pait Ko Ranon Aur Ranon Ko Pindliyon Se Juda Rakhe Aur Dono Paon Ki Sab Ungliyon Ke Pait Qibla Roo Jame Ho Aur Hatheliyan Bichhi Ho Aur Ungeliyan Qibla Ko Ho Aur Kam Az Kam Teen Baar

سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی

Translation: Paak Hai Mera Parwar-Digaar Jo Buland Tar Hai.' ' (Abu Dawood, 1: 337, Al Hadith : 886) Kahe Phir Phir Haath Aur Dahna Qadam Khada Kar Ke Is Ki Ungeliyan Qibla Rukh Kare Aur Baayaan Qadam Bichhaa Kar Us Par Khoob Seedha Baith Jaye Aur Hatheliyan Bichhaa Kar Ranon Par Ghutnon Ke Paas Rakhe Ki Dono Haath Ki Ungeliyan Qibla Ko Ho Usay Jalsa Kehte Hain. Hazrat Syedna Ibn Abbas Razi Allah Anho Se Marwi Hai Ki Huzoor Nabi Akram Dono Sajdon Ke Darmiyan Darj Zail Dua Mangte :

اَللَّهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَعَافِنِي وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ

''Translation: Aye Allah! Mujhe Bakhash De, Mujh Par Raham Farma, Mujhe Aafiat De, Mujhe Hadaayat Par Qaim Rakh Aur Mujhe Rozi Ataa Farma.' ' (Abu Dawood, Al Sunnan 1:322 Al Hadith 850) Phir Allahu Akbar Kehta Huwa Sajde Ko Jaye Aur Isi Terhan Sajda Kare, Phir Sir Uthaye, Phir Haath Ko Ghutne Par Rakh Kar Panjoo Ke Bal Khada Ho Jaye, Ab Sirf Bismillahir Rahmanir Raheem Padh Kar Qirat Shuru Kar De Phir Isi Tarah Rooku Aur Sajde Kar ke Dahina Qadam Khada Kar Ke Bayan Qadam Bichha Kar Ke Baith Jaye Aur Attihiyat Padhen:

اَلتَّحِيَّاتُ ﷲِِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهٗ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصّٰلِحِيْنَ. اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهٗ

''Translation: Tamam Qauli, Fe-a-li Aur Maali Ebaadaten Allah Hi Ke Liye Hain, Aye Nabi! Aap Par Salam Ho Aur Allah Ki Rehmat Aur Barkaten Ho, Ham Par Aur Allah Ke Tamam Naik Bundon Par Bhi Salam Ho, Mein Gawahi Deta Hoon Ki Allah Ke Siwa Koi Mabood Nahi Aur Mein Gawahi Deta Hoon Ki Hazrat Muhammad Allah Ke Bande Aur Us Ke Rasool Hain.' ' (Tirmizi Sharif, 5:542, Al Hadith 3587)

Khiyal Rahe Ki Is Mein Koi Harf Kam O Besh Nah Kare Aur Is Ko Tashahhud Kehte Hain Aur Jab Kalima Laa Ke Qareeb Puhanche, Dahine Haath Ki Beech Ki Ungli Aur Angothe Ka Halqa Banaye Aur Chhungliyan Aur Is Ke Paas Wali Ko Hathely Se Mila De Aur Lafz Laa Par Kalima Ki Ungli Uthaye Magar Is Ko Junbish Nah De Aur Kalima iIla Par Gira De Aur Sab Ungeliyan Foran Seedhi Kar Le, Agar Do Se Ziyada Rakaate Padni Hain To Uth Khara Ho Aur Isi Terhan Parhe Magar Farzom Ki Un Rakaato Mein Alhamd  Ke Sath Surah Milana Zaroori Nahi, Ab Pichhla Qaidah Jis Ke Baad Namaz Khatam Karega, Is Mein Tashahhud  Ke Baad Durood e Ibrahimi Padhe : Huzoor Nabi Akram 02, 03 Ya 04 Rak-At Wali Namaz Ke Qaidah Akhirah Mein Hamesha Durood e Ibrahim Padhte The Jo Darj Zail Hain:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.

'' Aye Allah! Rahmaten Nazil Farma Hazrat Muhammad Par Aur Un Ki Aal Par, Jis Terhan Tune Rahmaten Nazil Ki Hazrat Ibrahim Alaihis Salam Par Aur Un Ki Aal Par, Be-Shak Tu Tareef Ka Mustahiq Badi Buzurgi Wala Hai. ''Aye Allah! Tu Barkaten Nazil Farma Hazrat Mohammad Par Aur Un Ki Aal Par, Jis Terhan Tune Barkaten Nazil Farmayen Hazrat Ibrahim Alaihis Salam Par Aur Un Ki Aal Par, Be-Shak Tu Tareef Ka Mustahiq Badi Buzurgi Wala Hai. (Bukhari Al Saheeh 3: 1233 Al Hadith 3190)

Durood Shareef Ke Baad Dua e Masurah Padhen:

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ تَوَالَدَ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَاءِ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ اِنَّکَ مُجِیْبُ الدَّعْوَاتِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔

Translation: Aye Allah! Tu Bakhash De Mujh Ko Aur Mere Walidain Ko Aur Us Ko Jo Paida Huwa Aur Tamam Momnin O Mominat Aur Ko, Be-Shak To Duaon Ka Qubool Karne Wala Hai Apni Rehmat Se, Ae Sab Meharbaanon Se Ziyada Meharban .

Ya Koi Dua e Masura Padhen Jaise:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیرًا وَّ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِی مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔

Translation: Ae Allah! Mein Ne Apni Jaan Par Bahut Zulm Kiya Hai Aur Beshak Tere Siwa Gunaaho Ka Bakhsne Wala Koi Nahi Hai, Tu Apni Taraf Se Meri Mughfirat farma Aur Mujh Par Reham Kar, Be Shak Tu Hi Bakhsne Wala Meharban Hai.

 Ya Yeh Dua Padhen:

  اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ فِتْنَۃِ الْمَمَاتِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاْثَمِ وَمِنَ الْمَغْرَمِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَال ۔

Transalion: Aye Allah! Teri Panah Mangta Hoon Azaab e Qabar Se Aur Teri Panah Mangta Hoon Maseeh Dajjal Ke Fitnah Se Aur Teri Panah Mangta Hoon Zindagi Aur Mout Ke Fitnah Se Aye Allah! Teri Panah Mangta Hoon Gunah Aur Tawan Se Aur Teri Panah Mangta Hoon Deen Ke Ghalba Aur Mardon Ke Qehar Se .

Ya Yeh Padhen:

اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

Aye Hamare Parvar-Digaar! Tu Hum Ko Duniya Mein Neki De Aur Akhirat Mein Neki De Aur Hum Ko Jahannam Ke Azaab Se Bacha. Aur Is Ko Baghair Allahumma Ke Nah Padhe, Phir Daahine Shane Ki Taraf Munh Kar Ke اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہ  Kahe,

Phir Bayen Taraf اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہ Kahe Ab Aap, Ki Imam Ya Tanha Mard Ki Namaz Mukammal Huwi. Muqtadi Ke Liye Is Mein Ki Baaz Baat Jaaiz Nahi, Maslan Imam Ke Peechhe Surah Fatiha Ya Aur Koi Surat Padhna. Aurat Bhi Baaz Umoor Mein Mus’tasna Hai, Maslan Haath Bandhne Aur Sajda Ki Haalat Aur Qadah Ki Soorat Mein Farq Hai. Jis Ko Ham Bayan Karenge. (Insha Allah)