نام و نسب:
شیخ عبد القدوس بن مولوی اسماعیل بن قاضی صفی الدین ردولوی
بن خواجہ نصیرالدین بن خواجہ نظام الدین بن خواجہ آدم بن خواجہ ظہیر
الدین بن خواجہ احمد بن خواجہ عبد الواسع بن خواجہ عبد القادر بن عبد الغنی بن
عثمان بن اسحاق بن عمر بن فضل اللہ بن نصیرالدین بن سعد الدین بن نجم الدین بن
داؤد بن جعفر بن حامد بن خیرالدین بن امام طاہر بن امام ابراہیم بن امام احمد بن
امام اعظم ابی حنیفہ ہے۔ آپ علیہ الرحمہ کے دادا حضرت سیدنا شیخ صفی الدین
ردولوی علیہ الرحمہ غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت حضرت میر سید اشرف
جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی کے مرید و خلیفہ
تھے۔
تاریخِ ولادت:
آپ ۸۶۱ھ مطابق ۱۴۵۶ء رودلی میں پیدا ہوئے۔ آپکی
ولادت کی بشارت شیخ عبدالحق رودلوی نے آپکے والدِ گرامی کو بایں الفاظ ارشاد
فرمائی تھی:"تمہاری پشت سے ایک ایسا فرزند پیدا ہوگا جو نور ہی نور ہوگا
اور ہماری نعمت اسکو ملے گی۔"
تحصیلِ علم:
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل
کی ،اسی طرح خوشنویسی کی تربیت بھی والدِ گرامی سے ہی حاصل ہوئی تھی ۔یہی وجہ ہے
کہ آپکے مکاتیب و مخطوطات اپنی خوشنویسی کیوجہ سے بہت دل آویز ہیں۔ آپکے فرزند
ارجمند شیخ رکن الدین فرماتے ہیں :" چوں حضرت شیخ بہ تعلیم ِکتا بَہا مشغول شدند در تمام روزمی خواند
و تمام شب بشغل ذکرو عبادت حق مشغول بودند۔ یعنی حضرت شیخ سارا دن کتب کے مطالعہ
اور تعلیم میں مشغول رہتے ،اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت و ذکر میں مشغول
رہتے تھے۔ (لطائفِ قدوسیہ)
آپکی علم کی دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ آپ کے مکتوبات اور چند کتب آپ کی یادگار ہیں ۔ آپ کے ملفوظات آپ کے
صاحبزادے اور خلیفہ حضرت شیخ رکن الدین نے جمع کیے ، جو ہندوستان اور پاکستان سے
طبع ہو چکے ہیں ۔
· بحر الانشعاب علم صرف کی کتاب ہے
جو زمانہٴ طالب علمی میں لکھی تھی۔
· شرح مصباح
· حاشیہ شرح صحائف
· شرح عوارف
· فوائد القراء ت
· رسالہٴ قدّوسی
· رشدنامہ
· نورا لمعانی، شرح قصیدہ امانی
· انوار العیون
· مظہر العجائب
· مجموعہٴ کلام فارسی
· رسالہ نورا لہدی
· رسالہ قرة العین
· مکتوبات قدّوسیہ
· اسرارالعجائب
· اورادِ شیخ عبد القدوس ۔(مکتوبات
قدوسیہ،کپتان واحد بخش سیال، صفحہ 52)
بیعت و خلافت:
آپ علیہ الرحمہ بظاہر شیخ محمد بن شیخ
مخدوم عارف بن شیخ احمد عبد الحق کے مرید و خلیفہ تھے؛ لیکن شیخ احمد عبد الحق
ردولوی سے انھیں بے انتہا عقیدت و تعلق تھا، اسی تعلق کی وجہ سے ان کو شیخ احمد
عبد الحق سے بھی فیضِ روحانی حاصل تھا، جس کا اظہار شیخ عبد القدوس گنگوہی نے خود
انوار العیون میں تحریر فرمایا ہے: اس فقیر کو اجازت جناب (شیخ العالم شیح احمد
عبد الحق) سے معاملے کے پہلے ہی عالم میں حاصل ہو گئی تھی، اس کے بعد شیخ العالم
کے پوتے شیخ الوقت شیخ محمد سے بیعت کی اور اجازت کے شرف سے مشرف ہوا اور شیخ
العالم نے اس فقیر پر معاملے کے عالم میں کئی بار لطف فرمایا اور ہاتھ پکڑ کر
اکرام و الطاف کی زبان سے فرمایا کہ میں نے تمھیں خدا تک پہنچایا، اسی طرح سے یہ
معاملات شیخ العالم کے ساتھ اتنی بار ہوئے کہ شمار و قطارمیں نہیں آتے، یہ معاملات
ہمیں شیخ العالم کی رحلت کے چالیس سال بعد ولایت کی شکل میں حاصل ہوئے۔(انو ارالعیون،شیخ عبد
القدوس،ص25)
سلاسل اربعہ:
آپ علیہ الرحمہ کو چاروں سلاسل طریقت میں اجازت
حاصل تھی،سلسلہ چشتیہ صابر یہ میں بظاہر انھیں شیخ محمد بن شیح عارف
سے اجازت حاصل تھی؛چشتیہ نظامیہ میں شیخ عبد القدوس کو شیخ درویش محمد اودھیبن قاسم اودھ( خلیفہ سید بڈھن بہرائچی) سے اجازت حاصل تھی، نیزاسی واسطے
سے انھیں سہروردیہ،نقشبندیہ اور قادریہ میں بھی اجازت حاصل تھی۔ شاہ سید
محمدحسین مراد آبادی نے شیخ عبد القدوس کے روحانی سلاسل کی تفصیل میں ”سلاسلِ
اربعین“ کے نام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔( مکتوبات قدوسیہ،کپتان واحد بخش
سیال، صفحہ 36 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور)
سیرت و خصائص:
آپ مادر زاد ولی تھے۔ بچپن میں ہی جو بات
زبان سے نکل جاتی وہ پوری ہوکے رہتی۔ ریاضات و مجاہدات میں آپ بایزید دہر اور فرید
عصر تھے۔ سرورِ عالم ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ ہر وقت مخلوقِ خدا
کی تعلیم و تربیت میں مشغول میں رہتے، اور آپکی تربیت و صحبت میں ایسا اثر تھا کہ
تھوڑی سی توجہ سے اسکے باطن کو صاف کرکے واصل باللہ کر دیتے تھے۔آپ فرماتے ہیں کہ
میں ایک دن شیخ عبدالحق رودلوی علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضر ہوا ،اور میرے ہاتھ
میں علم النحو کی مشہور کتاب "کافیہ" تھی۔ میں مزار شریف کی صفائی کر
رہا تھا کہ اچانک مزار سے "حق حق" کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اس سے میں
بیخود ہوکر گر پڑا، اور اس بیخودی کی حالت میں نعمت ازلی و ابدی نصیب ہوئی۔پھر
فرماتے ہیں کہ میں جب کسی دنیاوی کام میں مشغول ہونا چاہتا تھا تو وہی "حق حق
" کی صدا کانوں میں آتی تھی تو میں دنیاوی مشاغل ترک کرکے حق تعالیٰ کی طرف
متوجہ ہوجاتا تھا ۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت میری طرف اس
حد تک متوجہ تھی کہ ہمیشہ آخر شب مجھے بیدار کر کے نماز تہجد کا حکم دیا جاتا تھا۔
آپ میں عاجزی و انکساری اس حد تک تھی کہ نماز ادا کرنیکے بعد نمازیوں کی جوتیاں
سیدھی کرکے رکھتے تھے۔
شادی خانہ آبادی:
قیام ردولی کے زمانے ہی میں آپ علیہ الرحمہ کی شادی، شیخ عارف کی صاحبزادی
سے ہو گئی تھی۔ یہ خاتون بڑی عابدہ اور زاہدہ بی بی تھیں۔ والد اور دادا دونوں کی
نسبت وتعلق کے تمام اثرات موصوفہ میں موجود تھے۔ آپ کے صاحبزادگان کی تعداد 7 ہے۔ آپ کی اولاد میں کئی
نامور اولیا الله ہوئے ، جن میں شیخ ابو سعیدگنگوہی ، شیخ محمد صادق گنگوہی، شیخ
محمد داود گنگوہی اور شیخ محمد گنگوہی شامل ہیں ۔
خلفائے کرام:
حضرت کے خلفاء کی مقدار بہت زیادہ بتائی جاتی
ہے۔مشاہیران میں سے یہ ہیں۔شيخ سيد نادر مست بابا.شیخ بھورو، شیخ عمر، شیخ عبد
الغفور اعظم پوری، شیخ رکن الدین، شیخ عبد الکبیر مشہور بہ بالا پیر۔ یہ ہر دو
حضرات حضرت کے نسبی اور روحانی دونوں طرح کے فرزند ہیں۔
سماع سے رغبت:
آپ علیہ الرحمہ کو سماع سے غیر
معمولی رغبت تھی۔ اپنی اس رغبت کے باوجود انھوں نے کبھی سماع کے مسئلے کو شرعی
نقطہ نظر سے جواز کا رنگ نہیں دیا؛ بلکہ جب کبھی یہ مسئلہ شرعی نقطہ نظر سے ان کے
سامنے رکھا گیا ہمیشہ شرعیت کے حکم کو اپنے پر ترجیح دی اور اپنے عملِ سماع کو ایک
مجبور و معذور کا عمل بتایا ہے۔سلسلہٴ چشتیہ کے اکابرین سماع کو روحانی غذا قرار
دیتے ہیں؛ لیکن اس کے لیے مقررہ آداب کی پابندی بھی لازمی قرار دیتے ہیں۔ عبد
القدوس گنگوہی رشد نامہ میں سماع کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: ”آبِ چاہ بیرون
نیا یدتا آنکہ اور اکشندہ بناشد ہم چناں اسرارِ الٰہی ست کہ دردل ست سماع پدید
آرندہ آں اسرار است، و درباب سماع فتوی شرع است جائز لاھلہ وحرام بغیر واہل سماع
کسے راگویند کہ ہیچ صوت جزپیام دوست نہ شنود وہیچ جمال بغیر جمال دوست
نبیند۔ترجمہ: کنویں سے اس وقت تک پانی باہر نہیں آتا جب تک اسے کوئی نکالنے والا
نہ ہو، یہی حال اسرارِ الٰہی کا ہے کہ جو تیرے دل میں ہے، سماع ان اسرار کونکال کر
ظاہر کرنے والا ہے اور سماع کے باب میں شریعت کا فتوی ہے کہ وہ اہل کے لیے جائز
اور نا اہل کے لیے حرام ہے اور سماع کا اہل اس شخص کو کہتے ہیں کہ سوائے دوست کے
پیغام کی آواز کے کوئی دوسری چیز نہ سنے اور کوئی جمال سوائے جمال دوست کے نہ
دیکھے۔(رشدنامہ، ص25)
وصال مبارک:
آپ علیہ الرحمہ اپنی وفات سے تین سال قبل گوشہ نشینی اور تنہائی کی زندگی اختیار کر چکے تھے، زیادہ تر ان پر محویت اور بے خودی کا عالم طاری رہتا تھا۔ نماز کے اوقات میں خدام انھیں مطلع کرتے، ادائیگی نماز کے بعد پھر اسی عالمِ جذب ومستی میں غرق ہوجایا کرتے تھے، آخری ایام میں کئی روز تک بخار کے مرض میں مبتلا رہے، بالآخر آپ علیہ الرحمہ کا وصال ۲۳/جمادی الثانی،۹۴۴ہجری مطابق۱۵۳۷ء کو ہوا۔ مزار شریف گنگوہ ضلع انبالہ (انڈیا) میں مرجع خاص و عام ہے۔
No comments:
Post a Comment