غوث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ


 

ولادت باسعادت: غوث العالم مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ (708 ہجری) میں بمقام سمنان پیداہوئے ۔

 والد ماجد:آپ کے والد ماجد کانام مبارک سلطان سید ابراہیم سمنانی نوربخشی السامانی قدس سرہ ہے جن کا شجرۂ نسب سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے حضرت مولاعلی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔ آپ کے دور حکومت میں بارہ ہزار طلبہ مختلف علوم و فنون میں ماہر وفاضل نکلے۔ سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ والد محترم کے عہد سلطنت میں بڑی عجیب و غریب کتب تالیف و تصنیف کی گئیں جو مختلف علوم و فنون پر لکھی گئیں تھیں انہی میں سےیہ ایک مذکورہ کتاب"سبعہ ابراہیم شاہ" تھی جسے بعد میں سبع المسابع کے نام سے مشہور کیا گیا یہ کتا ب علوم و فنون میں اپنی مثال آپ تھی۔ ( مکتوبات اشرفی جلد2 صفحہ 62مترجم ممتازاشرفی)

والدہ ماجدہ : سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کی والدہ محترمہ کا نام "سید ہ خدیجہ بیگم " جو سلطان العارفین حضرت خواجہ احمدیسوی قدس سرہ کی بیٹی تھیں ۔ بیگم صاحبہ نہایت عابدہ صالحہ تھیں اور کیوں نہ ہوتیں کہ وہ نسل خاندان سیادت سلطان العارفین سے تھیں ۔ قرأت قرآن کریم ، ادائے نوافل اور وظائف میں شب وروز بسرکرتیں ۔ اکثر شب بیداری کرتیں اور دن کوروزہ رکھتیں۔ مدت العمر میں کبھی آپ کی نماز تہجد قضا نہیں ہوتی۔ (لطائف اشرفی 22/32)

تعلیم وتربیت : جب آپ چار سال ، چار ماہ اور چار دن کے ہوئے تو خاندانی روایات کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغار کیا گیا ۔ اس روز دربارشاہی میں جلسۂ شادی وشادمانی منعقد ہوا، تمام شہر اور چارباغ سلطانی میں آئینہ بندی کی گئی طرح طرح کے عمدہ فرش اور قالین بچھائے گئے اور مسند شاہانہ بچھائی گئی جلیل القدرعالم دین حضرت مولانا عماد الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے بسم اللہ کرائی اور ابجد پڑھائی۔ پانچ برس کی عمر میں ساتویں قرأت کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا سات مہینہ 26دن میں یہ کمال حاصل کیا تھا ۔آپ کے اساتذہ میں علی بن حمزہ الکوفی علیہ الرحمہ کا نا م آتا ہےجو اپنے وقت کے جید عالم دین اور قرأت سبعہ کے ماہر تھے۔ جب سن شریف سات سال کو پہونچا نکات علمی اس خوبی کے ساتھ بیان فرماتے کہ بڑے بڑے علماء سن سن کر عش عش کرجاتے تھے۔آپ بارہ سال کی عمر میں علوم معانی وبلاغت ومعقول ومنقول تفسیر وفقہ وحدیث و اصول جملہ علوم سے فازغ ہوئے ۔ دستار فضیلت سراقدس پر باندھی گئی ۔ فن حدیث میں حضرت محبوب یزدانی نے حضرت سیدنا امام ؔعبداللہ یافعی قدس سرہ النورانی سے مکہ معظمہ میں سند حدیث حاصل کی اور مقام اسکندریہ میں حضرت سیدنا نجم الؔدین کبریٰ قدس سرہ النورانی کے صاحبزادے سے سند حدیث حضرت کو ملی تھی اور حضرت بابا مؔفرح سے سند حدیث حاصل کی جن کو بابا فؔرح محدث سے سند حدیث حاصل کی تھی اور حضرت سیدنا اؔحمد حقانی سے بھی حضرت کو سند حدیث حاصل ہوئی۔

حضرت مولانا الشاہ عضدالدین شبانگاہ علیہ الرحمہ جو استاذ علماء زمانہ تھے اور ہر علوم میں کمال رکھتے تھے فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دین اسلام میں ہر شروع صدی میں ایک عالم میری امت میں پیدا ہوگا ۔ اس کے وجود سے رواج کا ردین اسلام ہوگا اور اہل جہاں کا استاد اور رہنما ہوگا۔

علماء سلف رحمہم اللہ نے موافق اس حدیث کے ،

پہلےصدی ہجری میں حضرت سیدنا عمربن عبدالعزیز قدس سرہ کو مجدد اول صدی کا جانا ،

 دوسری صدی میں حضرت سیدنا اما م شافعی مطلبی قدس سرہ ،

 تیسری صدی میں حضرت سیدنا مولانا ابوالعباس احمد بن شریح قدس سرہ،

 چوتھی صدی میں حضرت سیدنا ابوبکر بن طیب باقلائی قدس سرہ ،

 پانچویں صدی میں حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمدبن محمد غزالی قدس سرہ ،

 چھٹی میں حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی محمد بن عمر الرازی قدس سرہ اور

ساتوں صدی میں تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ تھے۔

( حوالہ:صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ 115)

تخت و حکومت : اپنےوالد صاحب سلطان سید ابراہیم سمنانی نوربخشی السامانی علیہ الرحمہ کے اس دارفانی سے رحلت کے بعد سترہ سال کی عمر میں ریاست سمناں کے وارث بنے اور تخت حکومت پر متمکن ہوئے مگر چونکہ ان کا طبعی میلان فقر و فاقہ و درویشی کی طرف تھا اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ابوالعباس حضرت خضر علیہ السلام کی ترغیب سے اپنے بھائی سید اعرف محمدسمنانی نوربخشی السامانی کو تخت حکومت سپر د کرکے سلطنت سے دستبردار ہوگئے۔

جھاد فی سبیل اللہ :آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کافریضہ بھی بطریق احسن انجام دیا چنانچہ نہ صرف مالی اور لسانی جہاد کیا بلکہ جہاد بالسیف بھی کیا ۔ ترک حکومت سے قبل جب وہ سمنان کے حکمراں تھے ، کافروں کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور دشمنوں کو شکست فاش دی۔ آپ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھے ۔ کم عمری میں سپہ سالار کی حیثیت سے حصہ لینا اور اپنے سے بڑے دشمنوں کو شکست فاش دینا اس با ت کی دلیل ہے کہ ان کے اندر یہ تمام صلاحیتیں موجود تھی ۔

مسافرت ھندوستان: تخت سے دستبردار ی کے بعد آپ نے ہندوستان کی طرف چل پڑے ، گھڑ سوا ر اور پیا دہ فوج کچھ دور تک آپ کے ہمرکاب تھے لیکن آپ نے انہیں بالآخرواپس لوٹا دیا اور تنہا سفر اختیار کیا ۔

بیعت طریقت : مقام جنت آباد پندوا شریف (بنگال ) پہنچے تو آپ کے مرشد کریم حضرت شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات خالدی ابن اسعد لاہوری پنڈوی قدس سرہ النورانی (المتوفی 800ہجری) مع خلفاء و مریدین آپ کے استقبال کے لئے شہر سے چار کوس باہر تشریف لائے ہوئے تھے اور سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو اپنی پالکی میں سوار کرکے اپنی قیا م گاہ تک لے گئےاور فرمایا "اے فرزند! جس دن سے تم تارک السلطنت ہوکر گھر سے نکلے ہو ، ہر منزل میں تمہارا نگران تھا اور مواصلت ملاقات ظاہری کی تمنارکھتا تھا ۔ الحمدللہ کہ جدائی مواصلت سے بدل گئی ۔ حضرت مخدوم شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات خالدی پنڈوی قدس سرہ اپنے وقت کے جلیل القدر بزرگ صاحب تقوی وروحانیت اور مقتدائے ارباب ولایت تھے یعنی علم و فضل زہد وتقویٰ وپرہیزگاری میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے ۔

 تربیت شیخ :حضرت شیخ علاؤ الحق گنج نبات قدس سرہ کی یہ عادت تھی یا یوں کہیے کہ یہ ان کی تربیت کا طریقہ تھا کہ جب کوئی ان کے پاس سلوک کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتا تو آپ اس سے سخت امتحان لیا کرتے تھے۔سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے عرض کیا حضور میرے لئے کوئی کام متعین فرمادیں یہ سن کر فرمایا :فرزند اشرف !حضرت خواجہ خضرت علیہ السلام نے تمہاری اتنی تعریف کی ہے کہ مجھے تم سے کوئی خدمت لیتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نوربخشی السامانی سے خدمت نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ترک سلطنت کرکے آئے تھے کیونکہ خدمت تو ان سے لی جاتی ہے جن کی اصلاح مقصود ہوتا ہے کہ ریاضت مجاہدے کےذریعے ان کے غرور تکبر اور انانیت کو ختم کیا جائے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کیا جائے تو جس نے سلطنت ترک کرکے پہلے ہی درویشی اختیار کرلی ہو اور اپنے نفس امارہ کو مارلیا ہو اس کو پھر کسی مجاہدے کی ضرورت نہیں ہوتی اس کو تو صر ف ایک کامل نگاہ کی ضرورت ہو تی ہے۔اسی لئے شیخ کامل نے آپ کے ذمہ کوئی خدمت نہیں لگائی۔

خطاب جہانگیر ی : جب چال سال کامل خدمت شیخ میں بسر کئے ۔ حضرت مخدومی کو خیال ہوا کہ ان کو کیا لقب دینا چاہئے کیو ں کہ الالقاب تنزل من السماء جو کچھ غیب سے نازل ہو ۔ایک رات حضرت مخدومی میں وظائف و اوراد شب براٰت میں مشغول تھے خلوت خانہ میں جاکر مراقبہ کر کے دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی یکبارگی خلوت کی درد و دیوار سے آواز آئی" جہانگیر جہانگیر" حضرت کے خاطر مبارک میں پہلے سے آپ کے لقب کا خیال تھا اس آواز غیبی کے سننے سے فرمایا الحمدللہ کہ فرزند اشرف کو خطاب جہانگیری ملا۔ جب حضرت محبوب یزدانی دوسری خلوت میں مشغول ذکروفکر تھے جب حضرت فجر کی نماز کے لئے تشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کی حسب قاعدہ معمول جب حضرت مخدومی کےدست میں پر گئے اور سب لوگ باہم مصافحہ کرنے لگے جو کوئی حضرت مخدوم میں میں محبوب یزدانی کے ہاتھ پرمصافحہ کرنے گئے اور سب لوگ باہم مصافحہ کرنے لگے جو حضرت محبوب یزدانی کے ہاتھ پر مصافحہ کرتا یہی کہتا خطاب جہانگیری مبارک ہو۔ (صحائف اشرفی اول)

وعظ ونصیحت:حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ نے جامع مسجد بغداد میں خلیفہ اور وہاں کے اہل معرفت و مکرمت کے بے حد اصرار پر وعظ فرمایا ۔ اس مجمع میں تقریباً پانچ ہزار اربابِ علم و فضل اورسرکاری امیرو سردار موجود تھے ۔ قاری صاحب نے سورۂ یوسف تلاوت کی تو حضرت پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی ۔اسی کیفیت میں آپ نے تقریر شروع کی اور اس وعظ میں معرفت وعرفان کے اس قدر نکات بیان فرمائے کہ سارے مجمع میں وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور گریہ وزاری کرنے لگے ۔ خاص طور پر آپ نے آیت پاک لولا ان رابرھان ربہ (اگراپنے رب کی پختہ دلیل نہ دیکھ لیتے) کی تفسیر میں ایسی ایسی عاشقانہ باتیں بیان کیں کہ سارے مجمع پر ان کا اثر ہوا یہاں تک کہ اکثر لوگ اپنے گھروں کی طرف دوڑے یا جنگل کی جانب نکل گئے۔

علمی خدمات ید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ بیشتر علوم و فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ آپ کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے ۔ بہت سی کتابیں آپ کی عربی ، فارسی ، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں جو تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول تھاکہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف ہوئے ہوں گے۔

تصانیف جلیلہ

 غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ

·  ترجمہ قرآن کریم ( بزبان فارسی)

·  رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین

·  رسالہ غوثیہ

·  بشارۃ الاخوان

·  ارشاد الاخوان

·  فوائدالاشرف

·  اشرف الفوائد

·  رسالہ بحث وحدۃ الوجود

·  تحقیقات عشق

·  مکتوبات اشرفی

·  شرف الانساب

·  مناقب السادات

·  فتاوائے اشرفی (بزبان عربی)

·  دیوان اشرف

·  رسالہ تصوف و اخلاق (بزبان اردو)

·  رسالہ حجۃ الذاکرین

·  بشارۃ المریدین

·  کنزالاسرار

·  لطائف اشرفی (ملفوظات سید اشرف سمنانی)

·  شرح سکندرنامہ

·  سرالاسرار

·  شرح عوارف المعارف

·  شرح فصول الحکم

·  قواعد العقائد

·  تنبیہ الاخوان

·  رسالہ مصطلحات تصوف

·  تفسیر نور بخشیہ

·  رسالہ در تجویز طعنہ یزید

·  بحرالحقائق

·  نحو اشرفیہ

·  کنزالدقائق

·  ذکراسمائے الہی

·  مرقومات اشرفی

·  بحرالاذکار

·  بشارۃ الذاکرین

·  ربح سامانی

·  رسالہ قبریہ

·  رقعات اشرفی

·  تسخیرکواکب

·  فصول اشرفی

·  شرح ہدایہ (فقہ)

·  حاشیہ بر حواشی مبارک وغیرہ

(حوالاجاتمعارف سلسلہ اشرفیہ ،حیات غوث العالم صفحہ ، صحائف اشرفی حصہ اول، سید اشرف جہانگیر سمنانی علمی دینی اور روحانی خدمات و دیگر مضامین سے ماخوذ)

غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے شاگردوں کے صر ف نام ہی درج کتاب کئے جائیں تو ایک طویل دفتر ہوجائے۔

آ پ کے ارشد تلامذہ میں حضرت مولانا حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین ابن سید عبدالغفور حسن جیلانی ابن سید ابوالعباس احمد جیلانی فرزند و صاحب سجادہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ تھے جنہوں نے تمام علوم کی تحصیل حضرت سے کرکے دستارفضیلت حاصل کی ۔

دوسرے حضرت مولانا اعظم کرکردی حضرت کے ارشدشاگردوں میں تھے۔

تیسرے حضرت علام الہدیٰ علام الدین جائسی حضرت کے جلیل القدر تلامذہ میں تھے۔

چوتھے حضرت مولانا عمادالدین ہروی

پانچویں مولانا عضدالدین ندیم اللہ بڑے مرتبہ والے شاگر تھے۔

آپ کا تعلق اس زمانے کے جید علماء و صوفیا ء سے تھا آپ کے معاصرین میں جو شخصیتیں ہمیں نظر آتی ہیں وہ علم وفضل کے لحاظ سے اپنے اپنے مقام پر بلند درجہ رکھتی تھیں۔ آپ کا تعلق اپنے معاصرین سے بڑا گہرا تھا۔وہ سب علمی روحانی عظمتیں رکھنے کے باوجود آپ کا بے حد ادب و احترام کرتے تھےاور آپ کی فضیلت کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

·  صحابی رسول حضرت بابا رتن ہندی رضی اللہ عنہ     

·  ابوالمکارم علاؤالدولہ سمنانی قدس سرہ      

·  شیخ کمال الدین عبدالرزاق کاشی قدس سرہ    

·  خواجہ صدرالدین ابوالفتح سید محمد بندہ نوازقدس سرہ 

·  حضرت امام عبداللہ یافعی الیمنی قدس سرہ     

·  سید خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہقدس سرہ  

·  حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری قدس سرہ 

·  حضرت خلیل اتا رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ   

·  حضرت میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ قدس سرہ           

·  حضرت شاہ نعمت اللہ ولی قدس سرہ 

·  حضرت میر صدرجہاں قدس سرہ      

·  حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ     

·  حضرت شیخ قوام الدین لکھنوی قدس سرہ    

·  حضرت خواجہ احمد قطب الدین چشتی قدس سرہ   

·  حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار قدس سرہ  

·  حضرت سید جمال الدین خورد سکندرپوری قدس سرہ

·  حضرت شیخ قثیم قدس سرہ         

·  حضرت خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ     

·  حضرت شیخ ابوالوفا خوارزمی قدس سرہ      

·  حضرت شیخ اسماعیل سمنانی    

·  حضرت شیخ نورالدین ابن سید اسدالدین قدس سرہ 

·  حضرت شیخ جعفر بہرائچی     

·  حضرت شیخ صالح سمرقندی قدس سرہ      

·  حضرت میر سدید اللہ قدس سرہ           

·  قطب عالم حضرت نورالحق پنڈوی قدس سرہ    

·  حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی قد س سرہ

·  حضرت شیخ صفی رودولوی قدس سرہ     

·  حضرت علامہ نجم الدین قدس سرہ ابن صاحب ہدایہ

·  حضرت برہان الدین محمد بن النقی قدس سرہ

خلفائے کرام: آپ کے خلفائے کرام کا ذکر تحریر میں لانا آسان نہیں ہے۔حق تعالیٰ نے حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی شان یہ بلند بنائی کہ آپ غوث العالم اولیائے روئے زمین کے سردار اورافسر تھے ۔ آپ نے تین بارساری دنیا کا سفر فرمایا پھر آپکے مریدان اور خلفاء کا کب شمار ہوسکتا ہے ۔ اللہ ہی جانے۔آپ کے خلفاء میں پہلا نام قدوۃ الآفاق شیخ الاسلام والمسلمین حاجی الحرمین الشریفین حضرت مولانا ابوالحسن سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی کا آتا ہے جو آپ کے فرزند معنوی اور پہلے سجادہ نشین تھے۔

·  ابوالفضائل حضرت علامہ مولانا نظام الدین غریب یمنی قدس سرہ

·  شیخ الاسلام وسلالۃ الاکابر حضرت مولانا الشیخ کبیرالعباسی قدس سرہ

·  حضرت شیخ محمد عرف دریتیم قدس سرہ

·  حضرت شیخ شمس الدین بن نظام الدین اودھی قدس سرہ

·  اجل السادات سید عثمان بن خضر قدس سرہ

·  قدوۃ المحدثین حضرت شیخ سلیمان محدث قدس سرہ

·  شیخ المشائخ حضرت شیخ معروف قدس سرہ

·  حضرت شیخ رکن الدین قدس سرہ

·  حضرت شیخ قیام الدین شاہباز قدس سرہ

·  شیخ اصیل الدین جزہ بار قدس سرہ

·  حضرت شیخ جمیل الدین سپید باز قدس سرہ

·  قاضی القضاہ حضرت شیخ قاضی حجت قدس سرہ

·  حضرت شیخ عارف مکرانی قدس سرہ

·  حضرت شیخ ابوالمکارم ہروی قدس سرہ

·  حضرت شیخ صفی الدین رودولوی قدس سرہ

·  حضرت شیخ سماء الدین ردولوی قدس سرہ

·  حضرت شیخ خیرالدین سدھوری قدس سرہ

·  حضرت شیخ قاضی ابو محمد عرف معین مٹھن سدھوری قدس سرہ

·  حضرت مولانا ابوالمظفر محمد لکھنوی قدس سرہ

·   غلام الہدیٰ مولانا غلام الدین جائسی قدس سرہ

·  حضرت شیخ کمال جائسی قدس سرہ

·  حضرت شیخ سید عبدالوہاب قدس سرہ

·  حضرت شیخ راجا قدس سرہ

·  حضرت جمشید بیگ قدس سرہ

·  ملک العلماء حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی قدس سرہ

·  حضرت شیخ حاجی فخرالدین جونپوری قدس سرہ

·  حضرت شیخ داؤد قدس سرہ

·  حضرت شیخ قاضی رکن الدین قدس سرہ

·  حضرت شیخ تاج الدین قدس سرہ

·  حضرت شیخ نورالدین ظفرآبادی قدس سرہ

·  شیخ الاسلام حضرت شیخ وجیہ الدین احمدآبادی قدس سرہ

·  حضرت شیخ مبارک گجراتی قدس سرہ

·  حضرت شیخ حسین بہاری قدس سرہ

·  حضرت شیخ سیف الدین مسند عالی سیف خاں قدس سرہ

·  حضرت شیخ محمود کنتوری قدس سرہ

·  حضرت شیخ سعداللہ کیسہ دراز قدس سرہ

·  قدوۃ العلماء زبدۃ الصلحاء حضرت شیخ عبداللہ الصدیقی بنارسی قدس سرہ

·  حضرت ابوالوفا خوارزمی قدس سرہ

·  حضرت ملک محمود قدس سرہ

·  بابا حسین کتابدار قدس سرہ

·  سید حسن علم بردار قدس سرہ

·  شیخ جمال الدین راوت قدس سرہ

·  شیخ حسام الدین زنجانی قدس سرہ

·  الشیخ مولانا شفیع الدین ارویلی قدس سرہ

·  سید علی لاہوری قدس سرہ

·  شیخ نظام الدین بریلی قدس سرہ

·  شیخ علی دوستی سمنانی قدس سرہ

·  الشیخ ابوسعید خضری قدس سرہ

·  خواجہ سعدالدین خالد قدس سرہ

·  شیخ زاہد نور قدس سرہ

·  شیخ پیر علی ترکی قدس سرہ

·  مولانا شرف اللہ امام قدس سرہ

·  شیخ یحیی کلدادیر قدس سرہ

·  شیخ میر ملا قدس سرہ

·  قاضی بیگ قدس سرہ

·  شیخ قطب الدین یحیی قدس سرہ

·  شیخ امیر ننگر قلی قدس سرہ    

 

مزارات کی زیارت: حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی جب صالحیہ ( دمشق) اور جبل الفتح کے مزارات کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تو پاؤں سے جوتیاں نکال لیتے تھے اور برہنہ پا زیازیارت فرمایا کرتے تھے ۔ یہی صورت ہندوستان میں بھی تھی ۔ جب آپ دہلی، بدایوں ، سرزمین جائس، بہار شریف ، اودھ اور کڑو کے مزارات کی زیارت کرتے تھے تو ہمیشہ برہنہ پا ہوتے تھے۔ واللہ اعلم (لطائف اشرفی 17/689)

 منصب غوثیت : بمقام گلبرگہ شریف یکم رجب المرجب 770 ہجری میں فائز ہوئے۔

صحابی رسول حاجی رتن ہندی رضی اللہ عنہ سے ملاقات: غوثیت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے حضرت سیدنا ابوالرضا حاجی رتن ابن ہندی رضی اللہ عنہ کے دیدار و ملاقات کا شرف بھی حاصل فرمایا ۔

مسافرت جہان اور حج بیت اللہ شریف: آپ نے اللہ تعالی کے فرمان " سیروا فی الارض " کا حق پوری طرح ادا کیا ہے ۔ آپ نے ہند و پاک کے علاوہ ایران، عراق ، روم، ترکی، دمشق، فلسطین، شام اور ممالک عرف کے تمام شہروں کا سفر کیا اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں تشریف لے گئے اور راہ گم کردہ لوگوں کو صراط مستقیم دکھائے رہے۔

محبوب یزدانی کا خطاب: بمقام روح آباد کچھوچھہ شریف27 شب ماہ رمضان المبارک 782 ہجری میں ملا۔ ہاتف غیبی نے لاکھوں تعظیم و تکریم کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی کہ " اشرف میرا محبوب ہے"۔ حضرت محبوب یزدانی کے معمول سےتھا کہ آپ ہمیشہ نماز فجر خانہ کعبہ میں ادا کرنے کے لئے کعبہ شریف میں لے گے حضرت شیخ نجم الدین اصفہانی جو اہل حرم کے قبلہ محترم تھے ۔ حضرت محبوب یزدانی کو دیکھتے ہی فرمایا کہ آپ کو محبوب یزادنی یہ خطاب حق تعالی کی طرف سے اشرف سمنانی مبارک ہو۔ (صحائف اشرفی اول مولف محبوب ربانی سید اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ)

 وصال مبارک:حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی سیاحت و تبلیغ دین میں گزاری اور سیاحت کے دوران کئی سو بزرگان دین سے فیض حاصل کیا ۔ سن 808 ہجری میں ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی ۔

سلسلہ اشرفیہ : حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نسبت سے یہ سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔ حضرت مخدوم سمنانی نے کیونکہ مناکحت نہیں فرمائی تھی اس لئے کوئی صلبی اولاد حضرت نے نہیں چھوڑی حضرت شاہ عبد الرزاق نورالعین حضرت کے روحانی فرزند خلیفہ اول اور پہلے سجادہ نشین تھے اس لئے آپکی اولاد ہی حضرت مخدوم کی اولاد کہلاتی ہے ۔اور اسی نسبت سے یہ خاندان خاندان اشرفیہ اور اس کے مریدین کا سلسلہ،سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔اس سلسلہ اشرفیہ میں وقتاً فوقتاً بڑی علمی و روحانی جلیل القدر ہستیاں گذری ہیں جن میں حضرت شیخ مبارک بودلے (پیرومرشد حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی و ملک محمد جائسی ) حضرت مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی جیلانی عرف مُلاَّ باسو جائسی علیہ الرحمہ ، مُلاَّ علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ (استاذ مُلاَّنظام الدین فرنگی محلی ) ، حضرت مولانا سید باقر اشرفی جیلانی ملقب بہ فاضل جائسی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا امام اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا سید امین اشرف جیلانی جائسی علیہ الرحمہ ، ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی حضرت ابو احمد محمد علی حسین اشرفی المعروف اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اﷲ علیہ ، عالم ربانی سلطان الواعظین سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت سید محمد المعروف محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ،حضور سرکارکلاں سیدمختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ، مجاہد دوراں سید محمد مظفر حسین علیہ الرحمہ، قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ، صوفی ملت سید امیر اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ،اشرف العلما ء سید محمد حامد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ ،حکیم الملت سید شاہ قطب الدین اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ، شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی قدس سرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔سلسلہ اشرفیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے مریدین و معتقدین اسوقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں علماء و مشائخ بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ (صحائف اشرفی ، لطائف اشرفی ، محبوب یزدانی ، گلزار اشرف ،خانواہ اشرفیہ کی عالمی درسگاہیں کے علاوہ دیگر مضامین سے ماخوذ)

ارشادات زریں :

آپ فرماتے تھے کہ ہر چند کہ اس فقیر(اشرف) نے متعدداکابر اور بکثرت اماثر سے بہرہ پایا متعدد شیوخ سے بہرہ وور مند ہواہوں جس کی صارحت اور توضیح نا ممکن ہے لیکن حقیقت میں بندہ خاندان بہشتی اور دودمان چشتی کا پروردہ اور خاک سے اٹھایا ہوا ہے۔

ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ جو ہمارے فرزندوں کا دوست ہے وہ ہمارا دوست اور جو ہمارے فرزندوں کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارا دشمن وہ جملہ خاندان چشؔت وہ دودمان اہل بہؔشت کا دشمن ہے۔ (بحوالہ: لطائف اشرفی حصہ سوم صفحہ 676)

·  ایمان و توحید کے بعد بندہ پر سب سے پہلے عقائد حقہ شریعہ کا جاننا فرض ہے۔

·  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب و نسب کے علم حاصل کرنا شریف ترین عمل ہے اور آپ کے اجداد میں سے چار جدوں کے نام یاد ہونا مسلمان ہونے کی شرط ہے۔

·  علم حاصل کرو کہ زاہد بے علم شیطان کا تابعدار ہوتاہے اور عابد بے فقہ کمہار کے گدھوں کی طرح۔

·  علم ایک چمکتا ہو اآفتاب ہے اور تمام ہنر اس کی شعائیں ہیں۔

·  خدا کا دوست جاہل نہیں ہوتا۔

·  عالم بے عمل ایساہے جیسے بے قلعی کا آئینہ ۔

·  عالم دین اورعالم دنیا میں فرق وہی ہے جو کھرے اورکھوٹے چاندی میں ہوتاہے۔

·  جاننا شریعت ہے ، جاننے کے مطابق عمل کرنا طریقت ہے اور دونوں کے مقصود ہوتو ان کا حاصل کرنا حقیقت ہے۔

·  جو شخص بے محل علمی گفتگو کرتا ہے تو اسکے کلام کے نور کا دو حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔

·  اگر کوئی جان لے کہ اب اسکی زندگی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گئے تو چاہیئے کہ علم فقہ میں مشغول ہوجائے کیونکہ علوم دین سے ایک مسئلہ جان لینا ہزار رکعت سے افضل ہے۔

·  کسی کو حقارت سے نہ دیکھو اس لئے کہ بہت سے خداکے دوست اس میں چھپے رہتے ہیں ۔

·  سلوک میں اگربارگاہ نبوی و سرکارمصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری واطاعت کے راستے سے کچھ بھی انحراف ہو تو منزل مقصود تک پہونچنا ممکن نہیں ۔

·  بند وں کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کرنا اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی دوستی میں مستغرق کرنا مشائخ طریقت کا کام ہے۔

·  پیر وہ ہونا چاہیئے کہ طالبان طریقت و سلوک کی ایک جماعت نے اس کی تربیت کی پناہ میں اور احباب اس کی درگاہ حمایت میں اپنے مقصود کو پہونچی ہو۔

·  ولی وہ ہے جس کا دل حق سبحانہ وتعالیٰ سے انس رکھےاور غیرحق سے متواحش اور گریزاں ہو ۔

·  شرط ولی یہ ہے کہ گناہوں سے محفوظ ہو جس طرح نبی کی شرط یہ ہے کہ معصوم ہواور جس کسی پر بھی ازراہ شریعت اعتراض ہو پس وہ مغرور اور فریب خوردہ ہے ولی نہیں ہے۔

·  ہر بزرگ کی کوئی بات یاد کرلو اگریہ نہ ہوسکے تو ان کے نام ہی یاد کرلو کہ اس سے نفع پاؤگے۔

·  اگر علم کا چراغ ولی کے دل میں نہ ہو تو اسے شر کی خبر نہیں ہوسکتی اور وہ صحرائے ظلمت اور دشت کدورت میں مارا مارا پھرتا رہےگا۔

·  صالحین کا ذکر اورعارفین کا تذکرہ ایک نور ہےجو ہدایت طلب کرنے والوں پر ضوء فگن رہتاہے۔

·  شیخ طبیب حاذق اور تجربہ کارحکیم کی طرح ہے جو ہر مریض کا علاج اور اس کی دوا اس کے مزاج کے مطابق تجویز کرتاہے۔

·  جس شخص کا قدم شریعت میں جم جائے گا طریقت کا راستہ خودبخود کھل جائے گا اور جب شریعت کے ساتھ طریقت حاصل ہوجائے گی تو حقیقت کی تجلی خود بخود رونما ہوجائے گی۔

·  صوفی وہ ہے جو صفات الہیہ سے سوائے صفت وجوب (وجب الوجود) اور قدم موصوف ہو۔

·  اگر کسی صوفی کو دیکھو اور وہ تمہاری نظر میں نہ جچے تو اس کو ذلیل نہ سمجھوکہ یہ محرومی اورحجاب کی دلیل ہے۔

·  حسن خلق اس بلند پایہ گروہ یعنی صوفیہ کی خاص خصلت ہے جو انہیں ہی زیب دیتی ہے کہ یہ حق کے زیور اور کلام کے لباس سےروشن ہوتےہیں تمام اقوال وافعال میں صوفی کی نظر چونکہ حق تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ اس لئے لازم آتاہے کہ وہ تمام مخلوق سے خوش اخلاق کا برتاؤ کرے۔ اگر شریعت کےمطابق کسی محل پر سختی درکارہے تو سختی کرے ، لیکن باطن کے مطابق اسی وقت اللہ سےمغفرت طلب کرے۔

·  شیخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرید کے احوال سے واقف ہو ، ترک دنیا اور تنہائی کے علوم کا عالم ہو تاکہ اس کی خیر خواہی کرسکے اور مرید کو راہ راست دکھا سکے۔ اس کے حال کے مناسب اس کو اس راہ کے خطرات اور فسادات سے آگاہ کرسکے ۔ اگر شیخ اس اوصاف مذکورہ سے متصف نہیں ہوگا تو اس کی پیروی کرنا کس طرح جائز ہوسکتاہے۔ اور ان سے کلاہ حاصل کرنا کس طرح روا ہوسکتا ہے۔

·  مرید کے لئے ایک شیخ کامل ضروری ہے جس کی اقتداء کی جائے کیونکہ وہ رفیق سفر ہے اور جا ن لو کہ اس امر کے لئے کسوٹی اور معیار ہے اور وہ قرآن و حدیث و اجماع امت با ایمان ہے تو جو معیار کے موافق ہوا اور کسوٹی سے کھرا اور آمیزش سے صاف نکلا تو وہ ٹھیک ہے اور جو اس کے خلاف ہوا وہ فاسد اور بے کار ہے۔

·  شیخ کو چاہئے کہ مرید کا بیکار اور غلط کاموں کا مواخدہ کرے۔ خواہ وہ کم ہویا ذیادہ۔ صغیر ہو یا کبیر ۔ اس سلسلہ میں مواخذ ہ کو نظر انداز نہ کرے اور تساہل کو روزانہ رکھے۔

·  پاک غذا ایک بیج کی طرح ہے جو معدہ کی زمین میں بویا جاتا ہےاگر وہ بیج پاک اورحلال غداکا ہے تواس سے اعمال صالحہ کا درخت پیدا ہوگا اور اگر مشتبہ روزی کا بیج بویا گیا ہے تو اس خطرات فاسدہ اور عبادت میں کسائل پیدا ہوگی یعنی عبادت میں سستی اور دل میں وسوسے پیدا ہوں گے اور اگر حرام روزی ہے تو معصیت و نافرمانی کا درخت نشودنما پائے گا۔

·  مرید کو چاہیئے کہ اس کا مقصود ومراد اپنے پیر کے سوا کوئی نہ ہو اور سارا مقصد اس کا ، ذاتِ شیخ کے سوا کچھ نہ ہو کیو نکہ شیخ کی صورت میں حق تعالیٰ کی تجلیاں ہےاور جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کردے۔یہ اللہ تعالی ٰ کی شان ہے پیر بیچ میں سبب ہونے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

·  بادشاہوں اور امیروں سے درویشوں کو ضرور ملنا چاہیئے اور باحسن وجوہ اصلاح کرنا چاہیئے۔

·  جب کسی شہر میں پہونچوتو وہاں کے بزرگوں کی زیارت کرو پھر وہاں کے بزرگوں کی زیارت کے لئے جاؤ۔

·  کلمہ طیبہ پابندی سے پڑھنے کا نام اذکار ہے خدائے تعالیٰ کے اذکار عشق الہی کے میخانہ کی شراب ہے آب رداں اور کبھی نہ ختم ہونے والے چشمہ کا پانی ہے۔ جو بالکل پوشیدہ طریقہ سے حلق اور ناطق کے ذہن میں پہونچتاہے۔

·  جو خلق میں مشغول رہا وہ خالق کا طالب نہیں بن سکتا۔

·  جوکوئی لاالہ الا اللہ کو زندہ یا مردہ کی نجات و بخشش کے لئے پڑھے تو اس کو ضرور نجات حاصل ہوگی۔

·  ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کریں جو ہم خیال نہ ہوں اور خاص طور پر ایسے لوگوں کی صحبت سے بچے جو نورایمان سے دور ہیں اور طبیعت کی ظلمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔

·  وجود کا آئینہ میں معائنہ کرنا اور چشم یقین سے دیکھنا مشاہدہ ہے۔

·  خرقہ عاشقوں کی علامت اور فاسقوں کے لیے ایک ہیبت ہے۔

·  مشائخ سلاسل کا سلسلہ شجرہ مقصو د تک پہونچتاہے اور جس نے اس سلسلہ سے رابطہ پیدا کر لیا بہت سی غلامیوں سے آزاد ہوگیا۔

·  مشائخ کا دیدار ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر وہ فوت ہوجائے تو اس عبادت کی قضا اداکرنے کا وقت نہیں ہے۔

·  جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے مرشد ، استاد اور والدین کی جانب بغیر وضو نظر نہ کرے۔

·  لباس کی زینت نماز کے لئے مخصوص ہونا چاہیئے لوگوں کے دکھاوے کے لئے نہیں ہونا چاہیے۔

·  مرنے والے زیارت کرنے والے کی آمد سےاور اس کی توجہ سے باخبر ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ عالم ارواح بہت ہی لطیف ہے۔

·  جب مشائخ کی زیارت کے لئے جائے تو بغیر شیرینی ، پھول اور سبزہ کے نہ جائے۔

·  مختلف آوازوں کو سنکر فہم میں جو معانی پیدا ہوتے ہیں ان کے اثر سے صوفیہ کا وجد کر ناسماع ہے۔

·  جس مسئلہ میں حلت و حرمت مختلف فیہ ہواس میں دلیرانہ اور بے باکانہ گفتگو نہیں کرنا چاہیئے بلکہ غور وتامل کے بعد اس سلسلے میں بات کرنا چاہیئے۔

·  ترک یہ ہے کہ نفس سے روگردانی کی جائے اور بشریت کے میل کچیل سے قطع تعلق کیا جائے۔

·  ایمان ایسا آفتاب ہے جو قلب انسانی کے مشرق سے شروع ہوتاہے اور اس کے نور سے شرک و طغیان کے ذرہ فنا ہوجاتے ہیں ۔

·  اصحاب تحیر وتفکر اس وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام رہتے ہیں اور جب پلک جھپکاتےہیں تو اگلا درجہ طلب کرتے ہیں ۔اخص الخواص جب عالم ملکوت عبور کرلیتے ہیں تو ان پر تحیر طاری ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر تحیر عالم جبروت ولاہوت میں ہوتا ہے۔اس کی علامت خاموشی ہے۔

·  شریعت ان امور کا بجاآوری ہے جس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان باتوں سے رکنا ہے جن سے منع کیا گیا ہے۔

·  علم شریعت ہے اور اس علم کے مطابق عمل کرنا طریقت ہے اور حقیقت ان دونوں کےمقصود کاحصول ہے۔جو شخص تین رکھتا ہے اس کے پاس تین ہیں،جو دو رکھتا ہے اس کے پاس دو ہیں اور جوصرف ایک رکھتاہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

·  جو شخص طریقت میں شریعت کی پابندی نہیں کرتا وہ طریقت کی نعمت سے محروم رہتاہے۔

·  توبہ برے کاموں سے بچنے اور اچھے کاموں پر توجہ دینے کو کہتے ہیں ینز بشری کدورتوں اور بنیادی عادتوں سے بھی احترازکرنا ہے۔

·  توبہ کاحکم تمام لوگوں کے لئے ہےلوگ ہرگھڑی توبہ کے دامن سے لپٹے رہیں تاکہ وصول کے گریباں تک رسائی ہوسکے۔کافر اپنے کفر سے توبہ کریں ۔ گناہ گار گناہوں سے تاکہ مخلص اور اطاعت گزاروں میں شامل کئے جائیں۔

·  توبہ اتنی پختہ کریں کہ پھر برے افعال میں مبتلانہ ہوں بلکہ دل میں برے افعال کا خیال بھی نہ ہو۔

·  شریعت کی روسے ظاہری نماز کا تعلق اعضا سے ہے ، طریقت کی رو سےباطنی نماز کاتعلق دل کےتفکرسے ہےاور ازروئے حقیقت نمازِ روحانی کا تعلق فیض الٰہی کے ساتھ استغراق سے ہے۔

·  خشوع اورخضوع کے بغیر نماز اس جسم کے مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔

·  نماز کی راحت چھ چیزوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ دل کی حضوری، معنی کی سمجھ، ماہیت کی تعظیم ، خوف، امید اورحیا۔

·  نماز ِعادت سے پناہ مانگنا چاہیئے خیالا ت کے انتشار اور نفسانی وسوسوں سے جو نماز کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں استغفار کرنا چاہیے۔

·  اگرچہ نماز اسلام کا محض ایک رکن نظر آتی ہے لیکن تفصیل میں جائیں تو اسلام کے پانچوں ارکان اسی میں شامل ہیں ۔

·  روزہ رکھنے کا مقصد کم خوراکی ہے اگر صائم روزہ رکھے اور رات کو پیٹ کی زنبیل بھرے تو یہ بات باعث شرم ہے۔

·  حج دلوں کے کعبے کے طواف کا قصد کرنا ہے اور جہاد نفس کے ساتھ جنگ کرنا ہے۔

·  ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ پتھر اورمٹی سے بنے ہوئے کعبے کو ایک نظر دیکھ کر شرف پالیتےہیں اور واپس چلے جاتےہیں اور قبلۂ دل پر قطعاً نگاہ نہیں ڈالتے جس پر اللہ تعالیٰ کے ہمہ وقت نظر رہتی ہے۔

·  امت کانام امت اس لئے ہوا کہ وہ بہر طور شارع کے حکم پر مجتمع ہوتی ہے۔

·  اعلیٰ ترین دولت ونعمت جس سے انسان سرفراز فرمایا گیا ہے وہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ یہ جماعت میدان الٰہی کے سوار اور مکان نا متناہی کی محافظ ہے اس لیے اس نعمت سے بہر ہ مند ہوئی۔

·  معنوی انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے صفات و تعریفات سے موصوف ومعروف ہو اور سلوک کے حقائق نیز درویش کے رموز کے شرف سے مشرف کیاگیا ہو۔ ظاہری انسان وہ ہے جس کی زندگی مذکورہ اوصاف و کمالات کے برعکس ہو اور مجازی اسلام و ایمان سے بھی بہرور نہ ہو۔

·  مسافرت میں اگرچہ بہت سی تکالیف اور سختیاں برداست کرنی پڑتی ہیں اور لوگ اپنی اصلی وطن سے دور ہوجاتے ہیں لیکن راحت اور خیریت سے قریب رہتےہیں اور بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔

·  جو شخص کامل مرد نہ ہو اور اپنی طبیعت کے عیبوں سے واقف نہ ہو وہ سفر اختیار نہ کرے اور تنہا رہے۔

·  سفر ہمیشہ جمعرات یا ہفتے کو کرنا چاہیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات اور ہفتے کو سفر پر تشریف لے جاتے تھے اور دعا بھی فرماتے تھے۔ خدایا میری امت کو ان دونوں دنوں کی صبح میں برکت عطافرما، لہذا جمعرات اور ہفتہ کی صبح مبارک ہے۔

·  میں نے موجودات اور مخلوقات سے متعلق جو عجیب و غریب باتیں دیکھی ہیں اگر انہیں بیان کروں تو بعض لوگ یقین نہ کریں ۔

·  جس نے دیر سے (شدید بھوک کے وقت ) کھایا وہ (صحیح) کھانے والاہے اور جس شخص نے اس طریقے پر نہ کھایا وہ بوجھ اٹھانے والا ہے۔

·  کھانا عورت ہے اسے چھپاؤ یعنی اس کے عیب ظاہر نہ کرو۔

·  اگر کھانے کے دوران مشائخ کے اقوال اور ان کے حالات جو بھی مجلس کی کیفیت کے مطابق ہو بیان کئے جائیں تو بہتر ہے۔ یہ عمل رافضیوں کے برعکس ہے۔

·  روٹی کی عزت کرنی چاہیئے۔ روٹی کی عزت یہ ہے کہ اس پر رکابی اور نمک دان نہ ہو اور نہ نمک دان پر روٹی یہ ایک درجے میں روٹی کو بےحیثیت جاننا ہے ۔ اور ہمیشہ زمین پر کھانا چاہیئے۔

·  کھانا بے پرواہی اور بے دلی سے نہ کھائے بلکہ حضور دل کے ساتھ کھانا کھا نا چاہیئے۔

·  کھانا تین طرح کا ہوتا ہے : فرض، سنت، مباح کھانے کی وہ مقدار جو انسان کو ہلاکت سے بچائے فرض ہےاور جتنی غذا عبادت یا پیشہ کے لئے ضروری ہو سنت ہے اور پیٹ بھر کھانا مباح ہے لیکن سیری سے زیادہ کھانا حرام ہے ۔

·  رات کا کھانا کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اس لئے کہ اس ضعف اور بڑھاپا پیدا ہوتا ہے۔

·  اہل ریاضت ہمیشہ نفس کشی نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی اس کی مراد بھی پوری کردیتےہیں ۔ یہ سختی مبتدیوں کے لئے ہے۔ کامل حضرات کےلئے لذیذ چیزوں کا کھانا پینا مانع ریاضت نہیں ہے۔

·  مہمان کے قدموں کی تشریف کے سبب میزبان کے گھر میں بے حد برکت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ میزبان جس شئے سے مہمان کی ضیافت کرتاہے اللہ تعالیٰ اسی روز اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔

·  جب مہمان گھر آئے تو سنت یہ ہےکہ گھر میں جو کچھ موجود ہو اس کے سامنے رکھے۔زیادہ تکلف کا قصد نہ کرے کہ مشکلات پیدا ہوتی ہے۔البتہ اگر قدرت ہے تو مناسب حال تکلف کیا جاسکتاہے۔

·  اگر کوئی شخص کسی سے ملاقات کرنے آئے تو اس کے پاس کھانے کے جو چیز ہو پیش کردے خواہ تھوڑے سے چنے ہوں اگر کچھ نہ ہوں تو ایک پیالہ پانی یا شربت پیش کرے۔

·  جب دسترخوان پر روٹی رکھیں تو اسی روٹی سے کھانے کی ابتدا کریں اور سالن کاانتظار نہ کریں۔ سالن کا انتظار روٹی کی توہین ہے اور حد درجہ ممنوع ہے۔

·  عبادت کے دس حصے ہیں اس میں نو حصے خلق سے دوری اور ایک حصہ خاموش رہناہے۔

·  گروہ صوفیہ اور زمرۂ علیہ کے نزدیک سب سے بہترین نوافل اور خوب ترین شغل تہجد کی نمازہے۔ تمام مشائخ اور علماء نے اس نیک وقت اور پاکیزہ ساعت کے فوائد حاصل کئے ہیں ۔ اسے سعادت دارین اور عبادت کونین کا سبب جانا ہے۔

·  تہجد کی نماز اللہ تعالیٰ کی محبت کی کنجی ہے یہ صدیقوں کا نورنظر ہے یہ فرائض میں کمی ہوجانے کی تلافی کرتی ہےاور یہ صالحین کے آداب میں سے ہے۔

·  رات کے پچھلے پہر جاگنے کا اس قدر فائدہ ہےکہ اگر کوئی شخص گناہوں میں مشغول ہو تب بھی فیض سے محروم نہ رہے گا۔

·  مجھے جو دینی سعادت اور یقینی افادات حاصل ہوئی ہےتمام کی تمام پچھلے پہر جاگنے کی برکت سے عطاہوئی ہے۔

·  زہد خالص نفس سے علیحدہ ہوجانا ہے۔

·  توکل (درحقیقت اپنے ) معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیناہے۔ (اللہ فرماتاہے) جو اللہ پر بھروسہ کرے اللہ کے لئے کافی ہے۔

·  درحقیقت متوکل وہ شخص ہوتا ہے جس کی نظر اسباب پر نہ ہو بلکہ اسباب پیدا کرنے والے پر ہو۔

·  متوکل کی تین علامتیں ہیں ۔ اول سوال نہ کرے، دوسرے فتوح آئےتو واپس نہ کرے اور تیسرے جو آئے اس کو جمع نہ کرے۔

·  اکثر مشائخ نے ہمیشہ دست کاری کے ذریعے روزی کمائی ہے اور دل و جان سے اس پر عمل کیا ہے۔

·  وہ عزیز بند ہ جس سے مسبب (اللہ تعالیٰ) اسباب لیتاہے وہ حق تعالیٰ کے رضا کا منتظر رہتاہے اور ہر صورت حال میں کسی قسم کی تدبیر یں نہیں کرتا کہ تدبیر میں آفت اور سپردگی میں سلامتی ہے۔

·  شیطان ہر شکل کے مشابہ ہوکر سامنے آسکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں نہیں۔

·  کنجوسی اپنے ذمے حق کو ادا کرنے سے رک جانا ہےاور سخاوت اللہ تعالیٰ کے راہ میں واجب کے ساتھ نفس کو فنا کرنا ہے۔

·  اگر ایثار کی تفصیل میں درختوں کے پتے ایک ضخیم کتاب اور سمندر کی پانی روشنائی بن جائیں تو ایک حرف سے زیادہ نہیں لکھا جاسکتا۔ خدانہ کرے کہ کوئی بندہ صفت بخل سے موصوف ہو۔

·  اللہ کی پناہ !اللہ کی پناہ ! اگرمیں اپنے احباب واصحاب کے بارے میں سنوں کہ ان اوصاف ( بخل/ کنجوسی) کا ایک شمہ اُن میں ہے تو اپنی بیعت اورخلافت کے بندھن سے آزاد کردوں گا۔

·  خدا ہر مسلمان کو بخل سے بچائے اس لئے کہ بخل کافروں کی خصوصیت ہے۔

·  بری رسم فی الحقیقت شریعت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی اس لئے ناپسندیدہ اور نامقبول ہوتی ہے۔

·  واعظوں کی باتیں سننا اور نصیحت کرنے والوں کی نصیحتوں کا علم حاصل کرنا خوشگوار نعمت ہےاوریہ نعمت کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔

·  جو شخص ریاضت و مجاہدہ نہ کرے گا اس کو دولت مشاہدہ نہیں حاصل ہوسکتی۔

·  غصہ بدترین خصلت و علامت ہے جس سے وصول کی نعمت میں زوال ہونے لگتاہے اور حصول میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہرحال میں اس عادت سے گریز کرنا چاہیئے۔ اللہ کی پناہ! اگر کسی سے یہ فعل کسی بھی نوعیت سے سرزد ہوجائےتو اسے فوراً استغفار کرنا چاہیئے۔

·  مخلوق میں انسانوں کے تعلق سے پسندیدہ اور بہترین صفت شفقت کرنا ہے۔ جسے یہ نعمت کلی طور پر حاصل ہوجائے اسے ثمرۂ حقیقت بھی بخشا جاتاہے۔

·  شریعت کے معاملات اور طریقت کے کام چونکہ شریعت کے اصول پر مبنی ہے ۔ اس لئے انہیں ظاہر شرع کے مطابق انجام دیا جائے۔

·  مومن وہ ہے جو ہر حال میں مبتداپر یقین کرنے والا ہو۔

·  امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لائق وہ شخص ہوتا ہے جو شریعت کے تمام باریکیوں کا عالم ہو اور ان تمام باریکیوں پر عمل کرتا ہوکہ وہ اس تنبیہ کے تحت نہ آسکے لم تقولون مالاتفعلون (کیوں کہتے ہو وہ بات جو کرتے نہیں)۔

·  امربالمعروف اور وعظ کے سلسلے میں واعظ کو خاص طور پر نرم مزاج اور نفع رساں ہونا چاہیے۔

·  بہت سے مسائل ہیں جنہیں علماء پوشیدہ رکھتے ہیں انہی بیان نہ کرنا ہی فرض ہے اسی بنا پر فقہ کی کتابوں میں تحریر ہے یہ مسئلہ جاننے کے لائق ہے اور فتویٰ دینے کے لائق نہیں ہے۔

·  امام بنی کا نائب ہوتا ہے ۔ ولی راستے کا مددگار اور رسول اللہ ﷺ کے بارگاہ سے متصل ہوتاہےاور اپنے قول و فعل میں نبی کا تابعدارہوتا ہے۔

·  نفس تاریک غبار ہے جو دل سے اٹھتا ہے، روح نورانی جوہر ہے اور جسم فانی تاریکی ہے۔

·  قبض ارواح کی تکلیف لوگوں کے درجات کی نسبت سے ہوتی ہےبعض بزرگوں کی روح اتنی آسانی سے ہوتی ہےجیسے شربت پیتے ہیں یہ نصیب چند اہل نعمت کو حاصل ہوتاہے۔

·  مسلمانوں میں جس کسی کو شکستگی پیش آئے اور اس سے ایمان میں سستی پیدا ہو تو ہزگز مایوس نہ ہو کیونکہ اس (صبر و آزما ) واقعے میں فتح و نصر ت کی بشارت مضمر ہوتی ہے۔

 

 

 

No comments:

Post a Comment