حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی علیہ الرحمہ

 


آپ علیہ الرحمہ  سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ ہیں جو اپنے نام خواجہ بیرنگ سے بھی مشہور ہیں۔آپ علیہ الرحمہ کابل میں پیدا ہوئے۔ نام سے متعلق مختلف آرا ہیں۔ محمد باقی، عبدالباقی یا محمد رضی الدین نام تھا۔ ابو الموید کنیت تھی، جب کہ باقی باللہ کے نام سے معروف ہوئے۔ صوفیا کے حلقوں میں’’ خواجہ بے رنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سلسلہ نسب:

والد گرامی کا نام قاضی عبد السلام خلجی سمرقندی قریشی ہے جو اپنے زمانے کے معروف عالمِ باعمل اور صاحبِ وجد و حال و فضل و کمال بزرگ تھے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ کی ولادت 971ہجری بمطابق 1563عیسوی کابل میں ہوئی اور وہیں شادی فرمائی۔ یہی سال امام ربانی کی ولادت کا ہے اتصال روحی ہے۔

آپ کے نانا جان کا سلسلہ نسب حضرت شیخ عمر یاغستانی تک پہنچتا ہے جو حضرت خواجہ عبید اللہ احرار علیہ الرحمہ کے نانا تھے۔ آپ کی نانی سادات سے تھیں۔ بعض مؤرخین نے آپ کو صحیح النسب سید لکھا ہے۔ جبکہ اصلاً ترک تھے۔ حیاتِ باقی میں آپ کا سلسلہ نسب یوں درج ہے؛ خواجہ باقی باللہ بن قاضی عبد السلام بن قاضی عبد اللہ بن قاضی اجر بن قاضی حسین بن قاضی حسن بن محمد بن احمد بن محمود بن عبد اللہ بن علی اصغر بن جعفر ذکی خلیل بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب۔ تمام کتب تصوف میں آپ کو فاروقی النسب لکھا ہے۔

تحصیل علم:

آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اُس دور کے کابل کے مشہور عالمِ دین محمد صادق علیہ الرحمہ حلوائی سے تلمذ اختیار کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں علم و عمل کے آفتاب بن کر چمکنے لگے اور اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شہرتِ دوام حاصل کر لی۔ سمرقند میں فقہ، حدیث، تفسیر اور دوسرے دینی علوم کی تکمیل کی۔ بچپن سے آثار تجرید و تفرید اور علاماتِ فقر و درویشی آپ کی پیشانی سے عیاں تھیں۔

علم باطنی:

ایک مجذوب کی نظر کرم سے کتابوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور آپ کسی مرشد کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر میں امیر عبد اللہ بلخی علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچے۔ اب طبیعت کو استقامت ہوئی اور مدارج روحانی میں ترقی ہونے کے بعد پیر بابا بھائی دلی کشمیری کے حضور پہنچے اور فیض حاصل کیا۔ اس کے بعد پیر کامل کی تلاش میں دہلی وارد ہوئے اور حضرت شیخ عبد العزیز علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں ان کے صاحبزادے شیخ قطب العالم علیہ الرحمہ کے پاس رہ کر یاد حق میں مشغول ہو گئے۔ پھر اشارہ غیبی پاکر بخارا پہنچے اورخواجہ امکنگی علیہ الرحمہ حضرت کے مرید و خلیفہ تھے نقشبندی سلسلے کی تعلیم حاصل کی۔ محمد اور حضرت شاہ نقشبند بخاری علیہ الرحمہ کی روحانیت سے بلا واسطہ بطور اویسیت فیضیاب تھے۔

ہندوستان آمد

حضرت خواجہ محمد امکنگی علیہ الرحمہ نے اشارہ غیبی پاکر آپ کو ہندوستان کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا"تمہارے وجود سے طریقہ نقشبندیہ ہندوستان میں رونق عظیم اور شہرت فخیم حاصل کرے گااور وہاں کے تشنگان علم وعرفاں کا جامتجھ سے سیراب ہوگا۔چنانچہ آپ کے حکم پر ترکستان سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی تشریف لائے اور دریائے جمنا کے کنارے قلعہ فیروز آباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی تشریف آوری سے پانچ چھ سال کے اندر اندر روحانی حلقوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔ علماء و مشائخ اور عامۃ المسلمین کے علاوہ اُمراء سلطنت بھی آپ کے حلقہ بیعت میں شامل ہونے لگے۔ چنانچہ نواب مرتضی خان فرید بخاری، عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خان اور صدر جہاں وغیرہم بھی آپ کے نیاز مندوں میں شامل ہونے لگے۔ آپ نے دورِ اکبری کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی کے تحت بشمول انہی راسخ العقیدہ امرا و علما و صوفیا کی ایک جماعت تیار کی جن میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ ، شیخ عبدالحق محدث دہلوی بھی علیہ الرحمہ شامل تھے۔ ان حضرات نے علمائے سوء کے منفی کردار کے اثرات زائل کرنے کے لیے اکبر اعظم کے بعد نور الدین جہانگیر کی جانشینی پر اس شرط کے ساتھ حمایت کی کہ وہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں ان کا حامی و موئید ہو گا۔ اکبر اعظم کے دربار سے وابستہ بہت سے امرا بھی آپ کے متعقد تھے۔ آپ نے امرا کے طبقے کی اصلاح کی طرف توجہ دی یہ آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے عہد میں جو لامذہبیت پیدا ہو رہی تھی اس کا خاطر خواہ سدباب ہوااور طبقہ امرا میں مذہب سے وہ انس پیدا ہو گیا جس کے سامنے اکبر کے خیالات فروغ نہ پاسکے۔

مزاج و خواص

آپ کی نظر کیمیا، توجہ اکسیر اور دعا مستجاب تھی اور آپ سے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا۔ آپ بہت کم گو، کم خور اور کم خواب تھے۔

اولاد و امجاد

·       خواجہ محمد باقی باللہ کے دو صاحبزادے تھے۔

·       خواجہ عبیداللہ کلاں علیہ الرحمہ

·       خواجہ عبداللہ خورد علیہ الرحمہ

خلفاءکرام :

1008ہجری میں حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ خواجہ باقی باللہ سے بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے جن سے بالخصوص پاک و ہند اور بالعموم پوری دنیا میں سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعتِ عام ہوئی۔ آپ کے مشہور خلفاء کے نام درج ذیل ہیں۔

·       مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ

·       شیخ تاج الدین سنبھلی علیہ الرحمہ

·       خواجہ حسام الدین علیہ الرحمہ

وصال مبارک:

آپ علیہ الرحمہ کی عمر مبارک چالیس سال کے قریب ہوئی تو اپنی بی بی کو فرمایا ”جب میری عمر چالیس برس ہو گی تو مجھے ایک عظیم حادثہ پیش آئے گا۔“ پھر ایک دن فرمایا؛”مجھے خواب میں دِکھایا گیا ہے جس کام کے لیے تمہیں بھیجا گیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے۔“ پھر ایک دِن فرمایا؛ ”تھوڑے دنوں میں سلسلہ نقشبندیہ کے کسی بزرگ کا انتقال ہو گا وہ قطب ِزمانہ ہو گا۔غرض ماہِ جمادی الثانی 1012ہجری میں امراضِ جسمانی نے آپ پر غلبہ پا لیا اور 25 جمادی الثانی 1012ہجری، 1603ء بروز ہفتہ اسمِ ذات کا وِرد کرتے ہوئے جاں بحقِ تسلیم کی۔ انا للّٰہ و انا الَیہ رَاجعون۔

مرقد ِاقدس:

مزار شریف بیرون شہر دہلی بجانب اجمیری دروازہ قریب ِقدمِ رسول اللہﷺ ہے۔ آپ کی وصیت مبارک کے مطابق مرقد شریف پر گنبد نہیں بنا یاگیا۔ صرف بلند چبوترا بنا دیا57گیا ہے، جو خواجہ حسام الدین قدس سرہٗ کی کوشش سے نہایت زینت سے تیار ہوا۔(محمدیوسف مجددی جواہر نقشبندیہ۔ جواہر نقشبندیہ۔ مکتبہ انوار مجددیہ)

ارشادات زرین:

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا اکثر محققین کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان تحقیقی لائے تو پھر اس کا ایمان کبھی رد نہیں ہوتا اور جو شخص ایمان لانے کے بعد مردُود ہو گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایمان تحقیقی نہ تھا اور تقلید کی حد تک تھا۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا اگر کسی کو ہمارے طریقہ کے درویش (جس میں اکابر طریقہ کے اوصاف موجود ہوں) سے محبت ہو جائے کہ ان کی غیبت (غیر موجودگی) میں بھی اس کی صورت حاضر رہتی ہو۔ تو طریقہ رابطہ اختیار کرنا چاہیے لیکن پھر طالب کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے اس درویش کو اس کی جانب سے کراہت پیدا ہو۔ طالب کو چاہیے کہ اپنی مرادوں کو دل سے نکال کر اس مرشدکی مراد پر قائم رہے۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ بالجملہ اس طریق سے سلوک کا مدار جانبین کے اِرتباط پر ہے،جس طرح رُوئی آتشی شیشہ کے مقابل ہو کر آفتاب سے حرارت حاصل کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح باطن بوجہ اِرتباط حرارت آگاہی حق تعالیٰ کسب حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ طالب اور اس درویش کی مثال روئی اور آتشی شیشہ اور آفتاب کی ہے۔یہ طریقہ حقیقت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے کہ ان کو جنابِ رسول اللہﷺ سے محبت بدرجہ کمال حاصل تھی اور اِسی راہ سے انھوں نے فیضِ عظیم حاصل کیا۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ طریقہ خواجگان قدس اللہ اسرارہم جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ وہ اسی نسبت حُبی کے لحاظ سے ہے کیونکہ ان کا طریقہ اس نسبت کی نگہداشت ہے۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ہمارے طریقہ ذکر سے جذبہ پیدا ہوتا ہے اور جذبہ کی مدد سے جمیع مقامات بسہولت و استقامت حاصل ہو جاتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مراقبہ اپنے افعال و توانائی سے باہر آنے اور فیضانِ الٰہی کے منتظر رہنے کو کہتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ دوامِ مراقبہ بڑی دولت ہے۔ اس سے دِلوں میں قبولیت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں قبولیت اللہ تعالیٰ کی قبولیت کی نشانی ہے۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ذکر ما سوأ اللہ کے ذکر سے باہر آنے کو کہتے ہیں اور کمالِ ذکر ہے کہ خود اپنے ذِکر سے باہر آجائے اور ظہو رِسر ہو الذاکر والمذکور ہو۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ہمارے طریقہ کا دارومدار تین باتوں پر ہے اوّل عقائدِ اہل سنت و جماعت پر استقامت۔ دوم آگاہی اور سوم عبادت۔

اگر کسی شخص کی ان تینوں چیزوں میں سے ایک میں خلل اور فتور آجائے تو وہ ہمارے طریقہ سے خارِج ہے۔ ہم عزت کے بعد ذِلت اور قبول کے بعد ردّ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ توکل رویتِ اسباب سے باہر نکلنے کو کہتے ہیں اور کمال توکل یہ ہے کہ وجودِ اسباب سے باہر آجائے۔ فرمایا، قناعت ترکِ فضول واِکتفا بقدرِ حاجت اور عمدہ کھانے اور لباس اور مسکن سے پرہیز کو کہتے ہیں اور کمالِ قناعت یہ ہے کہ صرف ہستی اور محبت ِحق تعالیٰ پر اکتفا اور آرام پائے۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ نفس کی رضا کو ترک کرنا اور رضائے الٰہی میں مشغول رہنا۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ عزلت (گوشہ نشینی) مخلوق کے میل جول سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں، اس کا کمال یہ ہے کہ خلق کو دیکھنے سے چھٹکارہ ہو جائے۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تمام خواہشات سے نکل جانے اور پورے طور پر حق سبحانہ ٗکی طرف متوجہ ہونے کو کہتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ نفس کی لذتوں کو ترک کرنے اور اپنی پیاری اور محبوب اشیا سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ گناہ سے باز آنے کو کہتے ہیں چونکہ ہر ایک حجاب گناہ ہے اِس لیے خلق سے قلبی جدائی میں توبہ کا کمال ہے۔

 

 


No comments:

Post a Comment