حضرت مخدوم احمد عبدالحق فاروقی ردولوی صابری علیہ الرحمہ

 


 آپ علیہ الرحمہ کا نام شیخ احمد ، لقب: دستگیر بیکساں شیخ العالم اور خطاب عبدالحق و نورالحق ہے۔

خاندانی حالات : آپ کا سلسلۂ پدری چند واسطوں سے امیرالمؤمنین حضرت عمر ابن الخطاب پر منتہی ہوتا ہے، آپ کے دادا شیخ داؤد بلخ میں رہتے تھے جب ہلاکوں خاں نے ملک کو برباد کیا اور انتشار اور ابتری رونما ہوئی تو انہوں نے بلخ سے سکونت ترک کر کے مع چند خاندانی افراد کے سلطان علاؤالدین خلجی کے عہد میں ہندوستان کا رخ کیا، سلطان علاؤالدین خلجی نے صوبہ اودھ میں ان کی رہائش کا انتطام کیا، وہ ردؤلی میں رہنے لگے اور نصیرالدین محمود چراغ دہلی کے مرید ہوگئے۔

والد ماجد :

آپ کے والد ماجد کا نام عمر ہے۔

بھائی : آپ کے بڑے بھائی شیخ تقی الدین عالم تھے اور دہلی میں رہتے تھے۔

ولادت باسعادت :

آپ ردؤلی میں پیدا ہوئے۔

خطاب :

 آپ ”عبدالحق“ کے خطاب سے مشہور ہوئے، آپ کی یہ عادت تھی کہ بیٹھتے اٹھتے، کھاتے پیتے، بات چیت کرتے وقت آپ کلمات حق حق حق تین بار بآوازِ بلند کہتے تھے، اس وجہ سے آپ کے پیرومرشد نے بحکم رَب آپ کو ”عبدالحق“ کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔

بچپن کا واقعہ :

سات سال کی عمر میں آپ تہجد کی نماز پابندی سے پڑھنے لگے، اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ آپ بھی اٹھتے اور چھپ کر نمازِ تہجد ادا کرتے جب آپ کی والدہ کو یہ معلوم ہوا تو آپ کو منع کیا، آپ کو ناگوار ہوا، اپنے دل میں کہا کہ ”یہ ماں راہ زن ہے جو مجھ کو خدا کی عبادت سے باز رکھتی ہے

دہلی میں آمد :

 وطن سے رخصت ہوکر دہلی کی راہ لی، اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کی تھی، دہلی پہنچ کر اپنے بڑھے بھائی شیخ تقی الدین کے پاس رہنے لگے اور ان سے علمِ ظاہری پڑھنے لگے۔

تعلیم و تربیت :

 آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے گھر پر ہوئی، دہلی میں اپنے بڑھے بھائی سے علومِ ظاہری حاصل کیا لیکن آپ کا رحجان اس طرف نہیں تھا، آپ کے بڑے بھائی آپ کو ایک مشہور عالم کے پاس لے گئے اور ان سے آپ کی شکایت کی، اس عالم سے آپ کے بڑے بھائی نے استدعا کی کہ وہ ہی کچھ آپ کو پڑھائیں، اس عالم نے آپ کو میزان الصرف پڑھانا شروع کیا جب آپ ضرب ضرباً کے مقام پر آئے اور اس کے معنی آپ کے استاد نے بتائے تو آپ نے اپنے استاد سے کہا ”راہ حق میں زدن اور زدہ شدن کا کیا کام“ آپ کو اس علم سے تسکین نہیں ہوئی، آپ ایسا علم حاصل کرنا چاہتے تھے جس سے معرفتِ حق تعالیٰ حاصل ہو، آپ کے بڑے بھائی آپ کا یہ حال دیکھ کر پریشان ہوئے، انہوں نے سوچا کہ اگر آپ کی شادی کردی جائے گی تو آپ میں تبدیلی پیدا ہوگی، چنانچہ انہوں نے آپ کی شادی کی کوشش کی، آپ نے شادی کرنے سے انکار کردیا اور اپنے متعلق یہ مشہور کردیا کہ شادی کے لائق نہیں ہیں۔

تلاشِ حق :

 دہلی سے آپ تلاشِ حق میں نکلے، شیخ نور قطب عالم کی خدمت میں پہنچ کر ہری گھاس یہ کہہ کر پیش کی کہ ”بابا صفا ست“ شیخ نور قطب عالم مسکرائے اور فرمایا کہ ”بابا عزت ست“ ان سے رخصت ہوکر بہار آئے اور وہاں شیخ علاؤالدین اور ایک بزرگ سے ملے جن کو ”نیم لنگوٹی“ کہتے تھے، نیم لنگوٹی کی صحبت سے آپ کو قدرے تسکین ہوئی، ذوق شوق میں اضافہ ہوا، طلب اور جستجو میں زیادتی ہوئی، ان سے رخصت ہو کر اودھ تشریف لائے اور شیخ فتح اللہ اودھی سے ملے، ان سے بھی آپ کی تسکین نہ ہوئی، نا امید ہوکر اپنے دل میں کہا، ”احمد ! زندوں سے تو مقصود کی خبر نہ ملی، اب مردوں کی صحبت میں چلو“ شاید کچھ بوئے مقصودہاتھ آئے“ یہ خیال کر کے آپ نے اس شہر کے قبرستانوں اور آس پاس کے جنگلوں میں ”یا ہادی“ ”یا ہادی“ کہتے ہوئے گھومنا شروع کیا، اس طرح چند سال گھومتے رہے لیکن در مقصود ہاتھ نہ آیا، اس طرح سے بھی جب مقصد بر آری نہیں ہوئی تو آپ نے اپنے دل میں کہا کہ ”اے احمد ! اب مرجاؤ اور زندہ در گور ہوجاؤ“ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک قبر کھودی اور اس میں چھ مہینے ”یاد حق“ میں مشغول رہے۔

بشارت عظمیٰ :

 ریاضت و مجاہدہ کے بعد بھی جب آپ کو تسکین نہ ہوئی تو ایک روز آپ کو عالم غیب سے بشارت ہوئی کہ جلد پانی پت جاکر حضرت شیخ جلال الدین کبیرالاؤلیا کی سعادت خدمت حاصل کرو۔

پانی پت میں آمد :

 اس بشارت سے آپ بہت خوش ہوئے اور پانی پت خنداں و فرحاں روانہ ہوئے، حضرت جلال الدین کبیرالاؤلیا کو بذریعہ کشف آپ کا آنا معلوم ہوا، انہوں نے آپ کے عقائد کا امتحان لینے کی غرض سے چند گھوڑے کسوا کر خانقاہ کے دروازے پر کھڑے کرا دیئے اور خانقاہ کے اندر دسترخوان بچھوا کر اس پر مختلف قسم کے کھانے چنوا دئے، آپ جب خانقاہ کے دروازے پر پہنچے تو گھوڑے کھڑے دیکھے، جب خانقاہ کے اندر گئے تو دسترخوان بچھا ہوا پایا اور پر تکلف کھانے چنے ہوئے پائے، آپ نے دل میں کہا جو شخص ایسی شاہانہ زندگی گزارتا ہو اس کو محبت و معرفتِ الٰہی سے کیا کام، خانقاہ سے باہر آکر اپنی راہ لی، دن بھر چلتے رہے، شام کو ایک مقام پر پہنچ کر نام دریافت کیا، جب آپ کو معلوم ہوا کہ پانی پت ہے تو آپ کو حیرت ہوئی، رات شہر سے باہر گزاری، دوسرے دن صبح پھر روانہ ہوئے، تھوڑی دور جاکر راستہ بھول گئے، ایک خشک درخت پر ایک شخص کو ٹوپی پہنے بیٹھے دیکھا، اس سے راستہ دریافت کیا، اس شخص نے آپ کو بتایا کہ شیخ جلال الدین کے دروازے کے سامنے راستہ گیا ہے اور اگر ان کو یقین نہ آئے تو دو شخص جو آتے ہیں ان سے پوچھ لیں، کچھ دور چل کر آپ دو آدمیوں سے ملے، ان سے راستہ دریافت کیا تو انہوں نے بھی وہی بتایا، یہ سن کر آپ نے سوچا کہ خداوند تعالیٰ کا حکم یہی کہ حضرت جلال الدین کبیرالاؤلیا کے پاس جایا جائے اور ان سے بیعت کی جائے، پس آپ کبیرالاؤلیا کی خانقاہ پہنچے۔راستے میں آپ کے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ کیا اچھا ہو اگرحضرت جلال الدین کبیرالاؤلیا بیعت کرتے وقت اپنی ٹوپی اپنے پیرومرشد حضرت شمس الدین ترک کے مزار سے مس کر ان کے سرپر رکھیں اور نان اور حلوا مرحمت فرمائیں۔

بیعت و خلافت :

آپ خانقاہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت جلال الدین کبیرالاؤلیا اپنے پیرومرشد کے مزار پر گئے ہوئے ہیں، آپ بھی وہیں پہنچے، قدم بوسی کا شرف حاصل کیا، حضرت جلال الدین کبیرالاؤلیا نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر اور اپنے پیرومرشد کے مزار سے مس کر کے آپ کے سر پر رکھی، اتنے میں ایک شخص نان اور حلوہ لایا، حضرت کبیرالاؤلیا نے آپ کو عنایت فرمایا اور کہا ”یہ آرزو تمہاری ہے“ بعد ازاں حضرت کبیرالاؤلیا نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت فرمایا، کچھ عرصے بعد حضرت کبیرالاؤلیا نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔آپ ردولی تشریف لاکر یاد حق میں مشغول ہوگئے۔

شادی اور اولاد :

آپ نے شادی کی ان سے تین لڑکے ہوئے، بڑے صاحبزادے شیخ عزیز اور دوسرے صاحبزادے پیدا ہونے کے چند روز بعد فوت ہوئے، آپ کے تیسرے صاحبزادے شیخ عارف صاحبِ سلسلہ ہوئے۔

وفات شریف :

 آپ 18 جمادی الثانی 837ہجری کو رحمتِ حق میں پیوست ہوئے۔

سیرتِ مبارک :

آپ صاحب عظمت، صاحبِ کرامت صاحبِ نعمت اور صاحبِ ترک و تجرید تھے، ریاضت، عبادت اور مجاہدہ میں یکتا تھے جو کچھ زبان سے فرماتے ویسا ہی ہوتا، استغراق کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے کان میں ’’حق حق حق‘‘ کہا جاتا تو ہوش میں آتے، آپ جامع مسجد گئے لیکن راستہ نہیں جانتے تھے، آپ کے مریدوں میں سے کوئی ’’حق حق حق‘‘ کہتا اور آپ اسی طرف جاتے، آپ نے دنیا کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔

تعلیمات عارفہ :

آپ کی تعلیمات عارفانہ ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ حق کی ذات پاک بے نام و نشان ہے لیکن اگر اس ذات پاک کے اسما میں سے کوئی اسم ذات پاک پر اطلاق کریں تو وہ حق کے اسم سے بہتر اور بزرگ تر نہ ہوگا لیکن اس حق کے معنیٰ جملہ کائنات کے سزاوار اور ثابت بذات ہیں پس ذاتِ پاک پر اسم حق کا اطلاق بر منتہائے کمال ہے۔

صحبت سرورِ عالم :

آپ فرماتے ہیں کہ نظامی ناقص شاعر تھے جو یہ شعر کہا ہے۔

صحبت نیکاں زجہاں دور گشت

 خوان غسل خانۂ زنبور گشت

کیوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت جیسی کہ صحابۂ کرام کو حاصل تھی ویسی ہی اربابِ حال اور محبان ذوالجلال کو اب بھی حاصل ہے

اقوال و نصائح :

 منصور بچہ تھا، ضبط کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اسرار کو فاش کردیا، بعض ایسے مردِ خدا ہیں کہ سمندر پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے، چتربادشاہ ہے، ہمارے لڑکوں کے سرپر سوار ہے۔

کشف و کرامات :

آپ نے ایک دیگ پکائی اور اس دیگ کو راستے میں رکھ دیا، ہر شخص کو اجازت تھی کہ اس میں سے کھانا لے اور کھائے، تین روز تک ہزاروں آدمی اس میں سے کھانا لیتے رہے اور کھاتے رہے، کھانا کم نہیں ہوا، تین دن کے بعد آپ نے اس دیگ کو اٹھا لیا۔

آپ کے وصال کے بعد بھی کرامتوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کام کے واسطے آپ کے نام کا توشہ پیش کرے، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو، آپ کے نام مبارک کی تسبیح کو بھی حصول مقصد کے لئے مجرب بتایا جاتا ہے، اگر کوئی شخص با وضو روزانہ ایک نشست میں تین سو ساٹھ مرتبہ پڑھے۔"اغثنی و امددنی یا شیخ احمد عبدالحق" تو اس کی مراد بر آئے۔

فرمودات کریمہ:

آپ علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی نے خدا سے لو لگانی ہے اور بارگاہ الٰہی تک رسائی پیدا کرنی ہے اسے چاہیے کہ وہ خود کو فنا کرلے کیونکہ خود کو فنا کرنے کے بعد ہی دل میں عشق الٰہی پیدا ہوتا ہے۔ آپ کہا کرتے تھے جس طرح نمک پانی میں مل کر حل ہوجاتا ہے اور اس کی اپنی علاحدہ شناخت ختم ہوجاتی ہے اسی طرح انسان بھی اگر درگاہ خداوندی کا طلب گار ہے تو اپنی ہستی کو ذات الٰہی میں فنا کر دے۔

معاصرین:

آپ کے معاصرین میں غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی، نور قطب عالم پنڈوی،شیخ صفی ردولوی، بندہ نواز گیسو دراز، شیخ فتح اللہ اودھی علیہم الرضوان کے اسماء گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


No comments:

Post a Comment