شادی کے
بعد بیوی کا اپنے نام کےساتھ شوہر کانام لگانا
نوٹ: پوسٹ کو شروع سے آخر تک ضرور پڑھیں
ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﻮﺭ سے پڑھیں ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﻣﺎﻥ ﻟﻮ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﺎﻡ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻋﻠﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺳﺎﺟﺪ ﺭکھ ﺩﯾﺎ۔ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﺉ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ
ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻟﮕﺎﮮٔ۔ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﯿﮟ
ﺍﺳﮑﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿئے۔
ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ
ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ -:
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ " ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﻮﮌﺍ ( ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ) ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ
ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ" ۔(ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ 2599)
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺩﺭ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ
ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ کہ ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ
ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻣﻼئیﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻔﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ
ﺟﻮﮌﺍ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﻟﮯ " ۔( ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ 3508)
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺱ
ﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
کہ ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﺣﺮﺍﻡ ہے (ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ 4072)
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ
ﻭﺍﺭﻧﻨﮓ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔
ﺣﻀﺮﺍﺕ! ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ
ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻧئے
ﺭﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ
ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﯽ۔
ﺍﮔﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ
ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯجیساکہﺣﻀﺮﺕ خدیجہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ خدیجہ
ﺑﻨﺖ ﺧﻮﺍﻟﺪ ﺭﮨﯿﮟ۔ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ
ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ
ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ
ﺻﻔﯿﮧ ﺑﻨﺖ حئی ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺩﺷﻤﻦ
ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﮐﻮ
ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﮮٔ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ۔ﺟﻨتی ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ
ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ ( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ) ﺭﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ۔
ﮔﺰﺍﺭﺵ ﺟﺲ ﺑﮩﻦ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ
ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﻻﻋﻠﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ
ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌﮮ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ
ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ
ﮨﮯ۔
الجواب
شادی کے
بعد بیوی کا اپنے نام کےساتھ شوہر کانام لگانا
تحرير:حضرت
مولانا ابوحذیفہ محمدبخش نعیمی
نقشبندی حفظہ اللہ
بسم اللہ
الرحمٰن الرحیم
آج کل سوشل میڈیا پر ایک بات کثرت سے پھیلائی جارہی ہے کہ بیوی
کیلئے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگانا حرام ہے، لیکن یہ بات علی الاطلاق
درست نہیں ہے کیونکہ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے جو دلائل دیئےپیش کئے جارہے ہیں ان
کا مذکورہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں
ایسے شخص کے بارے میں ممانعت آئی ہے جو اپنے حقیقی والد کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو
اپنا والد ظاہر کرے مثال کے طور پر کوئی شخص
کسی بچے (اس بچےکے والد کا علم ہو یا نہ ہو) کو لے پالک بناتا ہے یعنی اڈاپٹ
کرکے اس کی پرورش کرتا ہے توپرورش کرنے والے کیلئے جائز نہیں ہے کہ اپنے آپ
کو اس لے پالک بچے کا باپ ظاہر کرے،
کیونکہ قرآن ِ کریم میں اللہ تعالی ٰ نے لے پالک کے بارے میں حکم دیا ہے کہ اُس کو
اُس کے حقیقی والد کی طرف منسوب کیا جائے ،پرورش کرنے والا حقیقی باپ کے درجے میں
نہیں ہوتا ، لہذا اُس کو والد کےطور پر پکارنا اور کاغذات میں لکھنا جائز نہیں ،
گناہ ہے ، اور حدیث شریف میں ایسے شخص کے
لئے جنت کو حرام قرار دیاگیا ہے جو اپنے
والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے۔لہذا ہر موقع پر بچہ کی ولدیت
میں اصل والد ہی کا نام لکھا جائےگا ، جیساکہ خود اللہ تبارک وتعالی نے سورۃ الاحزاب میں فرمایا ہے:وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ
بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4)
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا
آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ (الأحزاب : 4 ، 5)
اللہ تعالی نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا نہیں
بنایا، یہ تو باتیں ہی باتیں ہیں جو تم اپنے منہ سے کہہ دیتے ہو ، اور اللہ وہی بات کہتا ہے جو حق ہو، اور وہی
صحیح راستہ بتلاتا ہے۔تم ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا
کرو۔یہی طریقہ اللہ کے نزدیک پورے انصاف کا ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ
ہوں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔
مزید تفصیلات کیلئے مذکورہ آیات کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں، نیز
مختلف احادیث میں بھی کسی دوسرے شخص کو اپنا والد ظاہر کرنے پر وعیدیں وارد ہوئی
ہیں، جیساکہ بخاری شریف میں آیا ہے کہ :
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: لا ترغبوا عن
آبائكم، فمن رغب عن أبيه فهو كفر( صحيح البخاري 8/ 156)
ترجمہ:’’نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے باپ کا کوئی انکار نہ کرے کیونکہ جو اپنے
باپ سے منہ موڑتا ہے(اور اپنے کو دوسرے کا بیٹا ظاہر کرتا ہے تو)یہ کفر ہے۔“
عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:
«من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام ( صحيح البخاري
(8/ 156)
ترجمہ:جس
شخص نے اپنے آپ کو( حقیقی والد کے علاوہ)کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا، حالانکہ
وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا والد نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
قرآن و
حدیث کے مذکورہ اور دیگر دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اپنے آپ
کوحقیقی باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کا بیٹا ظاہر کرنا ناجائز و حرام ہے، جبکہ کسی
لڑکی کا شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ
اپنے شوہر کا نام لگانا اس لئے نہیں ہوتا
کہ وہ اپنا والد تبدیل کررہی ہے اور اپنے آپ کو کسی اور کی بیٹی ثابت کررہی
ہے،بلکہ یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی عورت کیلئے تعارف کے طورپراپنے نام کے ساتھ
والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں ، صرف تعارف کے لئے والد یا شوہر کا
نام لکھا جاتا ہے، عام طور پر شادی سے پہلےوالد کانام لکھتے ہیں اور اس میں اثبات
ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہے۔اورشادی کے بعدشوہر کانام لکھتے ہیں،اور چونکہ
تعارف کیلئے شوہر کا نام لکھنے کی کوئی
ممانعت نہیں ہے، اس لئے یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو،
البتہ اگر کسی عورت کیلئے اپنے شوہر کا نام لکھنے میں نسب مشتبہ ہوتا
ہواور(مثال کے طورپر)لوگ اس کے شوہر کو اس
کا والد سمجھنے لگتے ہوں تو اس عورت کیلئے اپنے
نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لکھنا درست نہ ہوگا۔
بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ
علیہن نے اپنے نام کے ساتھ آپﷺ کا نام
نہیں لگایا اس لئے یہ ناجائز ہے تو اس جواب اوپر ہی آچکا ہے کہ عورت کیلئے اپنے
نام کے ساتھ بطور تعارف والد یا شوہر میں
سے کسی کا نام لگانا ضروری نہیں بلکہ کوئی
لگانا چاہے تو جائز ہے اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ بیوی کیلئےاپنے نام کے ساتھ اپنے
شوہر کا نام لگانا ضروری ہے تو پھر یہ اعتراض درست تھا کہ جب ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے اپنے ناموں کے ساتھ آپﷺ کا نام نہیں لگایا
توہمارے لئے کیوں ضروری ہے؟ لیکن چونکہ ہم اسے ضروری نہیں کہہ رہے بلکہ جواز کی
بات کررہے ہیں ،اس لئے مذکورہ اعتراض یا استدلال بھی درست نہیں ہے۔
نیز بیوی کا اپنےنام کے ساتھ شوہر کا نام لگاناتعریف کے باب سے ہے،
جس میں وہم یا اختلاط نسب نہیں ہوتا جیساکہ اوپر کی وضاحت سے معلوم ہوچکا ہے، اور
تعریف کا باب بہت وسیع ہے،تعریف کبھی ولاء سے ہوتی ہے جیسے عکرمہ مولی ابن عباس ،
کبھی حرفت سے ہوتی ہے جیسے غزالی ،کبھی لقب اور کنیت سے ہوتی ہے جیسے أعرج اور ابو
محمدأعمش، کبھی ماں کی طرف نسبت کر کے ہوتی ہے حالانکہ باپ معروف ہوتا ہے
جیسےاسماعیل ابن علیۃ،اور کبھی زوجیت کے ساتھ ہوتی ہےجیسا قرآ ن مجید میں ایک
جگہ’’ امرأۃ نوح وامرأۃ لوط ‘‘ ( التحریم:۱۰)
اور دوسری جگہ ’’ امرأۃ فرعون ‘‘ (
التحریم:۱۱) وارد ہے۔بخاری و مسلم کی روایت ہے ،سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ:
جَاءَتْ زَيْنَبُ، امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تَسْتَأْذِنُ
عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: أَيُّ
الزَّيَانِبِ؟ فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «نَعَمْ، ائْذَنُوا
لَهَا» (بخاری :۱۴۶۲)
ترجمہ:ابن
مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب آئیں اور اجازت طلب کی ،کہا گیا :یا رسول اللہ !
یہ زینب آئی ہیں،آپ نے پوچھا: کونسی زینب؟ کیا گیا :ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی
بیوی،فرمایا: ہاں اسے آنے کی اجازت دے دو۔
یاد رہے کہ
نسبت وہ حرام ہے جس میں بنوت کے لفظ کے ساتھ غیر باپ کی طرف نسبت کی جائے۔مطلقاً
نسبت یا تعریف کے لئے نسبت کرنا حرام نہیں ہے۔
لہذا قرآن
و احادیث کی روشنی میں پوری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ:
’’عورت
کے نام کے ساتھ والد یا شوہر کا نام لکھنا شرعاً ضروری نہیں ، صرف تعارف کے لئے
والد یا شوہر کا نام لکھا جاتا ہے، عام طور پر شادی سے پہلےوالد کانام لکھتے ہیں
اور اس میں اثبات ِ نسب ہے جو شریعت کے مطابق ہےاورشادی کے بعدشوہر کانام لکھتے
ہیں،اور چونکہ اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے(وہ نسبت حرام ہے جس میں اپنے باپ کو
تبدیل کیا جائے یعنی حقیقی باپ کو چھوڑ کر دوسرے کو باپ بنایا جائے)، اس لئے یہ
بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی عورت کا نسب مشتبہ نہ ہو‘‘۔
No comments:
Post a Comment