Khilafat e Usmania Ya Khilafat e Rashida aur Masjid e Aqsa

سقوط خلافت وبیت المقدس پر ایک معلوماتی تحریر
خلافتِ عثمانیہ یا  خلافتِ راشدہ
خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعد اسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت تھی۔خلافت عثمانیہ تقریباً ۲کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط تھی۔اس میں تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ء تک 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔ ترکمان سردار عثمان خان نے عالم اسلام کی سب سے بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو تاریخ میں سلطنت عثمانیہ کہلاتی ہے۔عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان‘ مراد اوّل نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔
ساتویں عثمانی سلطان، محمد ثانی نے قسطنطنیہ (شہرِ قیصر) فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ یوں وہ حدیثِ رسول ﷺ پہ پورا اُترنے والا مجاہد بن گیا۔ تاریخ نے اسے محمد فاتح کا لقب دیا۔
پہلے 8 حکمران سلطان تھے۔ خلیفۃ المسلمین نہ تھے۔ انہیں اسلامی سلطنت کی سربراہی کا اعزاز تو حاصل تھا،خلافت کا روحانی منصب حاصل نہ تھا۔9 ویں حکمران سلطان سلیم اوّل سے لے کر 36 ویں حکمران سلطان وحید الدین محمد سادس تک 30 حضرات سلطان بھی تھے اور خلیفہ بھی، کیونکہ خلافتِ عباسیہ کےآخری حکمران نے سلطان سلیم کو منصب و اعزاز خلافت کی سپردگی کے ساتھ وہ تبرکاتِ نبویہ بھی بطورسند و یادگار دے دیے تھے جو کہ خلفائے بنو عباس کے پاس نسل در نسل محفوظ چلے آرہے تھے۔

عثمانی خلافت اس کی رواداری اور حکیمانہ اسلوب
اسپین کے قتل عام سے بچ جانے والے یہودی  کے ساتھ عثمانیوں کی ہمدردی کے باوجود ،یہودیوں کی یروشلم کو بار بار کی نقل مکانی کی عزائم  اور ان کی کوششوں  کے خلاف اپنے اقتدار کی مدت بھر میں عثمانیوں نے بند باندھےرکھا، جب کے ان کے لیے، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور فلسطین کے علاوہ اپنی پوری سلطنت  کے مقامات کو وسعت قلبی کے ساتھ کھول دیا ہے، لیکن یہ ان کے احسان مند نہ رہے بلکہ یروشلم اور فلسطین کے تئیں اپنے دیرینہ عزائم اور خواب کی تکمیل کو شروع کر دیا،اب سے کوئی 80 برس قبل تک پورے فلسطین میں کسی ایک جگہ بھی کوئی یہودی بستی موجود نہیں تھی۔عثمانی خلفاء نے پابندی لگا رکھی تھی کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وزٹ ویزے پر فلسطین آسکتے ہیں اور چند روز قیام کرسکتے ہیں لیکن انہیں فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ عثمانی خلفاء کے علم میں یہ بات تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر سکیں۔ اس لیے اس سلسلہ میں عثمانی خلافت کا رویہ بے لچک تھا اور وہ کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ 
اس کے خلاف یہودیوں نے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردیے اور باقاعدہ تحریکیں چلائیں ڈاکٹر علی جمعہ" تاریخ مدینۃ القدس"کے حوالے سےاس تحریک کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیںایک  شبتاي تاسفي نامی ترک یہودی کے ہاتھوں 1665 میں یہودیوں کو جمع اور منظم کرنے اور فلسطین کی طرف ھجرت کرنے کی پہلی دعوت شروع ہوئی ، پہلے پہل یہ ایک خفیہ تحریک رہی پھر اعلانیہ ہوگئی، پرشور مظاہروں کے ذریعےان کے پیروکاروں کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کر گئی اس کے بعد سلطان نے اس تحریک کے خاتمے کا حکم دیا، شبتائی نے اپنے متبعین کو اپنے مقاصد خبیثہ کو حاصل کرنے کے لئے خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور خفیہ طور پر کام کرنے کا حکم دیا اور یہودیوں نےاسے" الدونمہ"(Eldonmp) کا نام دیا ، اور وقت گزرنے کے ساتھ Shabtai کے پیروکاروں کی بڑی تعداد حکومت اور فوج میں اعلی عہدوں پر پہنچ گئی جو تھے توحکومت کا حصہ ، لیکن اس کے پیروکار تھے اور  بطور  خاص اس وقت جب سلطنت عثمانیہ شکست وریخت کے دور سے گزر رہی تھی اور بہت سے لوگ ان کے علاقوں پر قبضہ جمانے کے لالچ میں اس کے ساتھ تھے
مصر کے والی محمد علی پاشا نے1831 یروشلم کے شہر،شام پر قبضہ کر کےعثمانی حکومت سے  علیحدگی کا اعلان کردیا، اس کے دور میں فلسطین میں یہودی برادی کی حالت بہتر ہوگئ تھی ؛ اس نے عثمانی پاشا کی طرف سے  یہودیوں کے لیڈروں،مالداروں پر عائد ٹیکس، اور قرضوں کو معاف کردیا اور نئی مقامی کونسلوں میں ان کی نمائندگی کو قائم کردیا اور اسی طرح یہودیوں کو یروشلم میں ان کے معبدکو بحال کرنے کی اجازت دی تھی اس شرط کے ساتھ کے وہ پرانی عمارتوں پر کچھ بھی اضافہ نہیں کرینگے اور  نہ ہی دیوار گریہ،  کے ارد گرد،ٹائلیں لگائیں گے، چونکہ دیوار گریہ کے سامنے کا صحن سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے اوقاف کی ملکیت تھی اس لیے اس کے ذمہ دار کو سالانہ رقم کی ادائیگی کے بدلے  کسی بھی قانونی حق دیئے بغیر اس کی زیارت کرنے اور اس میں عبادت کرنے اور ھیکل سلیمانی کی بربادی اور زوال پر رونے کےلئے اجازت دے دی گئی تھی ۔(تاریخ مدینۃ القدس،از: رفیق)
 "مشہور یہودی اور صہیونی لیڈر تھیوڈور ہرتزل نے 1897ءمیں صہیونی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ وہ لوگ اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے لیے سرزمین فلسطین کا انتخاب کر چکے تھے۔طویل سالوں کی سازشوں اور منصوبہ بندی کے بعد 1901ءمیں ہرتزل نے سلطان عبدالحمید خان، سلطانِ ترکی کو باقاعدہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں، آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں مگر سلطان عبدالحمید خان نے اس پیغام پر تھوک دیا جس شخص کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا گیا تھا اس کا نام تھا حاخام قرہ صوآفندی۔ یہ سالونیکا کا یہودی باشندہ تھا اور ان یہودی خاندانوں میں سے تھا جو سپین سے نکالے جانے کے بعد ترکی میں آباد ہوئے تھے۔
سلطان عبدالحمید خان کا یہ جواب سُن کر ہرتزل کی طرف سے ان کو صاف صاف یہ دھمکی دے دی گئی کہ تم اس کا بُرا نتیجہ دیکھو گے۔ چنانچہ اس کے بعد فوراً ہی سلطان عبدالحمید کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں شروع ہو گئیں جن میں فری میسن، دونمہ اور وہ مسلمان نوجوان شریک تھے جو مغربی تعلیم کے زیر اثر آ کر ترکی کی قوم پرستی کے علمبردار بن گئے تھے۔ ان لوگوں نے ترکی فوج میں اپنے اثرات پھیلائے اور سات سال کے اندر ان کی سازشیں پختہ ہو کر اس منزل پر پہنچ گئیں کہ سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیں۔ اس موقع پر جو انتہائی عبرتناک واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ 1908ءمیں جو تین آدمی سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر ان کے پاس گئے تھے ان میں دو ترک تھے اور تیسرا وہی حاخام قرہ صوآفندی تھا جس کے ہاتھ ہرتزل نے فلسطین کو یہودیوںکے حوالے کرنے کا مطالبہ سلطان کے پاس بھیجا تھا۔ )بحوالہ: القدس(
سلطان عبدالحمید نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا،،۔ سلطان مراد کے بعد خوش قسمتی سے سلطان عبدالحمید دوم 34 واں سلطان بنے تھے۔ یہ وہ آخری شخص تھے جو برادری(فری میسن) کے زیر اثر نہ تھے بلکہ ان کی چالوں کو سمجھتےاور ان کے توڑ کی فکر میں رہتے تھے۔ یہ الگ بات تھی دشمن کا جال بڑے کھونٹے گاڑ چکا تھا۔ برادری نے اس کو جب ڈھب پر لانے کی کوشش کوناکام ہوتے دیکھا تو ترکیب نمبر دو شروع کی۔ اس پر قاتلانہ حملے شروع ہوگئے تاکہ اگلے فری میسن حکمران کا راستہ صاف کیا جائے۔ اس کے خلاف پروپیگنڈے کے طوفان کا یہ عالم تھا کہ یورپی وظیفہ خور قلم کار اسے مردود عبدل کہتے تھے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے برادری اس رکاوٹ کو اپنے راستے میں حائل دیکھ کر کس حد تک براَفروختہ ہوچکی تھی؟
سلطان عبدالحمید دوم نے قاتلانہ حملوں کے باوجود حکمرانی جاری رکھی۔ اس کے مخالفین کی قیادت برادری کا تیار کردہ پرویزی جرنیل محمود شفقت پاشا کررہا تھا۔ وہ سالونیکا میں تیسری فوج کا کمانڈر تھا۔ اس نے اپنے مقدونی سپاہیوں کے ساتھ اپریل 1909ء میں استنبول کا محاصرہ کرلیا۔ 22 اپریل 1909ء کو بہت سے منتشر ارکان ایوان اور وزرا خفیہ طور پر سان سٹیفانو میں جمع ہوئے۔ سعید پاشاکی چیئر مین شپ میں فیصلہ کیا سلطان عبدالحمید کو معزول کردیا جائے، چنانچہ اس کا اقتدار 27 اپریل 1909ء کو ختم ہوگیا۔ دو دن بعد اسے سالونیکا میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس نے اپنی بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ اس کا جرم کیا تھا؟ ’’جرمِ ضعیفی‘‘ کے بعد اس کا اصل جرم تھا اس نے برادری کے کہنے پر اسے فلسطین منہ مانگی رشوت کے عوض دینے سے انکار کردیا تھا۔ آئیے! اس کی روئیداد بھی سن لیجیے: ’’1901ء میں صہیونی تحریک کے سربراہ تھیوڈور ہرٹزل نے خلافتِ عثمانیہ کے 25 ویں خلیفہ اور عثمانی سلطنت کے 34 ویں سلطان، سلطان عبدالحمید ثانی کو پیشکش کی کہ اگر آپ سرزمین فلسطین میں یہودی آبادکاری کی اجازت دے دیں تو ہم آپ کو سونے کے 150 ملین برطانوی پونڈز دیں گے۔‘‘ سلطان نے جواب دیا: ’’اگر تم مجھے 150 ملین برطانوی پونڈز کے بجائے وہ سارا سونا بھی دے دو جو پوری دنیا میں پایا جاتا ہے تو بھی مجھے تمہاری پیشکش قبول نہیں، کیونکہ میں پچھلے 30 سال سے اسلامی دنیا اور اُمت محمدیہ کے مفادات کا نگہبان ہوں۔ میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاؤں گا جس سے مسلمانوں، میرے آباء و اجداد اور خلفا وسلاطین پر دھبہ لگے۔ میں یہودیوں کو سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی نہیں دینے والا، کیونکہ یہ میری ملکیت نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کی ملکیت ہے جنہوں نے اس کے دفاع کے لیے خون کی ندیاں بہائی ہیں۔‘‘
یہ جواب سن کر صہیونی زعما پھنکارتے سانپ کی طرح غصے سے بے تاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ سلطان کی طرف پھیر دیا۔ زبانیں زہر اُگلنے لگیں۔ قلم ناگ کی طرح پھنکارنے لگے۔ تمام وسائل جھونک دیے گئے۔ مہرے متحرک کردیے گئے۔ سلطان کو معزولی اور پھر جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن فلسطین بیچنے کا داغ ماتھے پر لینے سے بچ گیا۔ یہ کلنک کا ٹیکا برطانیہ کی قسمت میں لکھا تھا۔ سلطان عبدالحمید دوم کی معزولی کے بعد برادری کے رستے میں رکاوٹ نہ رہی۔ اگلی نسل اس کی تابعدار تھی۔
ڈاکٹر علی جمعہ مصری "الأطماع الصهيونية في القدس" کے حوالے سے یہودیوں کے فلسطین ہتھیانے کی کوششوں اور اس میں کامیابی کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں، یہودیوں نےمختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جیسا کہ  صیہونی اجلاس،اسمبلی کے صدر Hrtzl نےسلطان عبدالحمید کے ساتھ یہودیوں کو ھجرت(امیگریشن) کی اجازت دلانے کے لیے ملاقات کی اور،  اسے یقین دلانے کی کوشش کی اس حالت میں (جب ترکی کو جنگ کےلیے پیسوں کی ضرورت ہے) یہودی سلطان اور عثمانی ریاست کو  بھاری مقدار میں مال ودولت دیں گے لیکن ھرتزل کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکی جیسا کہ سلطان کا یہ قول تاریخ کے صفحات میں رقم ہے "میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دونگا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے خون بہایا ہے، سلطان کے اس موقف نے یہودیوں کو عثمانی خلافت کو ختم کرنے کی طرف مائل تاکہ اس کے بعد وہ فلسطین پر پل پڑیں، ، اور اس کے بعد جنگ  سلطنت عثمانیہ اور یورپی ممالک کے درمیان منتقل ہوگئی جنھوں نے یہودیوں کے موقف کو اپنایا (الأطماع الصهيونية في القدس لعبد العزيز محمد عوض(
اس کے بعد تو یہودیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کی راہ نہایت آسان نظر آئی پھر انھوں نے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کردیے، ملک شام دوبارہ عثمانیوں کے قبضہ سے جانے کے بعد ، یہودی مطالبات فیصلہ کن پوزیشن  حاصل کرنے کےلیے عثمانی حکومت سے ٹکراتے رہے اسی لیے انھوں سلطنت عثمانیہ کے خلاف کام کرنے کے لئے دنیا بھر کے یہودیوں سے ملاقات کی . اس کے بعد سلطنت عثمانیہ  نے فلسطین کے امور شام کی ریاست سے الگ کر کے براہ راست استنبول میں وزارت داخلہ سے منسلک کردیا اور ان  اوقات میں  یہودی کالونیاں وجود میں آئیں، اور اس مسئلہ اور یہودی کنٹرول میں یروشلم کے چلے جانے کے سلطنت عثمانیہ کے خوف نے یہودیوں کے فلسطین کے ہجرت کرنے کے خلاف عثمانی حکام کو بیدار کیا اور ،1882 میں ہائی اتھارٹی کی طرف سےیروشلیم اور یہودی امیگریشن کےلیے خاص قانون جاری کیا گیا، جس کا مضمون یہ تھا یہودیوں کوصرف ایک ہی صورت یعنی مقدس حج اور زیارت کرنے کے لے تین ماہ کی مدت کے لئے فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت تھی اس شرط کے ساتھ کے وہ وزیٹر سفر کی بکنگ کریں اورپولیس سٹیشنوں  میں اسے جمع کریں گے جہاں وہ عارضی طور زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کے لئےسرخ پاسپورٹ سے تبدیل کیے جاتے، لیکن یہودیوں نےیورپی ممالک کے قونصل خانوں کی مدد سے ہے ان قوانین کو توڑا اور یہودیوں کی تعداد، میں ہر روز اضافہ ہوتا رہا ، یہ1886 میں فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپوں کا سبب بنا، اس بات نے عثمانی ریاست کو نئے اقدامات کرنےکی حوصلہ افزائی کی اور  ؛ اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غیر ملکی قونصل خانوں سے رابطہ کا تقاضہ ہوا تاکہ عثمانی سلطان اور حکام  کی ناراضی کے بارے میں مطلع کیا جائے کہ یروشلم میں غیر ملکی قونصل خانے  کیوں نہیں  اپنے ان یہودی شہریوں کو جن کی مدت اقامت ختم ہوچکی سہولت کے ساتھ واپس لے جاتے ہیں ۔(مشاريع الاستيطان اليهودي منذ قيام الثورة الفرنسية حتى نهاية الحرب العالمية الأولي لأمين عبد الله محمود)
 کثیر غیر ملکی ممالک جہاں یہودیوں کے اثرات تھےوہ ہجرت کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھےان کی حمایت کے سبب نے عربوں کو اس بات پر ابھارا کےحکومت ترکی سے موثر طریقے سے عثمانی قوانین کو نافذ کروانے کی کوشش کریں ، لیکن ان کے مطالبات کی کامیاب نہ ہوسکے. اس وجہ سے کہ  سلطان عبدالحمید، جو یہودی عزائم کے سامنے ایک مضبوط دفاعی چار دیواری بن کرکھڑے تھے 1908، میں معزول کردیے گیے،یہ واقعہ اس وقت یہودیوں کے لئے خوشی اور مسرت کی لہر بن گیا، اور یروشلم اور دیگر فلسطین میں یہودی تارکین وطن کی ھجرت کا ریلِہ بہہ نکلا،  ترکی سے خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ایک فری میسن ترک مصطفی کمال پاشا کو ترکی پر مسلط کر دیا گیا۔ اس نے ترکی کو مکمل طور پر ایک لادین ریاست بنا دیا۔ یکم نومبر 1922ء کو چونکہ مصطفی کمال پاشا نے مغربی طاقتوں اور ’’برادری‘‘ کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کرکے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کی اٹلی کی طرف ملک بدری کے احکامات جاری کردیے تھے، اس لیے اس نامبارک دن سلطنت ختم ہوگئی، البتہ خلافت اب بھی باقی تھی۔ سلطان وحید الدین ششم کی جلا وطنی کے بعد ان کے پہلے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری عثمانی خلیفہ بنایا گیا، 3 مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی (جو مصطفی کمال پاشا کے زیر نگیں تھی) نے اسلام دشمنی اور مغرب پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کرلیا۔ یو ں دنیا سے خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اورں کی عیاری بھی دیکھ
اور ترکی کا حال یہ ہیکہ اس ملک کا دستور آج تک سیکولر ہے۔ اسلامسٹ نجم الدین اربکان مرحوم 1995ءمیں مختصر عرصے کے لیے برسراقتدار آئے مگر ان کے پاس اکثریت نہ تھی۔ ان کی بساطِ اقتدار چند ہی مہینوں کے بعد لپیٹ دی گئی اور ان کو سیاست کے میدان سے مستقل طور پر خارج کر دیا گیا۔ اربکان کے تربیت یافتہ عبداللہ گل اور رجب طیب اردگان 2002ءمیں برسر اقتدار آئے ۔ ان کے پاس بلاشبہ اکثریت ہے مگر دستور میں تبدیلی لانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ان کے پاس ارکان پارلیمان موجود نہیں ہیں۔ اسلامسٹ حکمرانوں کے باوجود ترکی آج بھی سیکولر ریاست ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو بیت المقدس اور مرد آہن اسلام کی شکل میں واپس لائے جب مسلمان ساری دنیا کو محبت و الفت، سلامتی اور امن کے سمیت ہمارے لئے ایک  ہونے کے دور  سے دوبارہ تابانئی عروج اسلام کی یادگار سے مزین کردیں گے آمین
نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں کی مضامین سے مدد لی گئی ہے
ازقلم: وجیہہ اللہ اشرفی بنگلور کرناٹک  

No comments:

Post a Comment