جعفر بن محمد
بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب چھٹے امام ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ ) کی کنیت ابو
عبداللہ تھی اور کہا جاتا ہے ابن اسماعیل تھی، آپ (رضی اللہ عنہ ) کا لقب جو مشہور
عوام ہے، الصادق تھا۔ (وفیات الاعیان/علامہ ابن خلکان
۱ / ۱۰۵)
آپ (رضی
اللہ عنہ ) کی والدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیقی رضی اللہ عنہا اور
ام فروہ کی والدہ عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر تھی، اسی بنا پر
امام صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تحقیق مجھے ابوبکر نے دو بار جنا (میں دو طرف سے
ابوبکررضی اللہ عنہ کی آل ہوں)۔(شواہد النبوۃ /علامہ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ صفحہ 184، تذکرہ
مشائخ نقشبندیہ)
آپ رضی اللہ
عنہ مدینے میں ۸۰ہجری اورکہا جاتا ہے ۸۳ ہجری میں پیر کے دن جب کہ ربیع الاول کےتیرہ
روز باقی تھے پیدا ہوئے اور مدینے ہی میں ۱۵ رجب (نصف آزماہ رجب)ایک سو چالیس ہجری
میں پیر کے دن وفات پائی ۔آپ (رضی اللہ عنہ ) کی قبر جنت البقیع میں ہے۔ اس احاطے میں
آپ (رضی اللہ عنہ ) کے والد باقر دادا زین العابدین چچا حسن بن علی مدفون ہیں۔(تاریخ ابن کثیر)
بے شک لوگوں
نے روایت کی ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ ) کی قبر سے اس قدر کرامت اور انوار ظاہر ہوتے
ہیں جو اللہ تعالی کے نزدیک آپ (رضی اللہ عنہ ) کے بلند و برتر مراتب کی دلالت کرتے
ہیں اہل بیت کے عظما اور علمامیں سے تھے اور آپ (رضی اللہ عنہ ) کے اکثر علوم آپ
(رضی اللہ عنہ ) کے قلب پر وارد ہوتے تھے لوگوں کی فہم آپ (رضی اللہ عنہ ) کے علوم
کی انتہا دریافت کرنے میں قاصر رہتی تھی۔
بے شک یہ کہا
جاتا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ ایک کتاب جس کا نام "خیر"ہے اور جس کا رواج
مغرب میں بنو عبدالمومن میں رہا ہے وہ آپ (رضی اللہ عنہ ) ہی کا کلام ہے۔
یہ کتاب
"خیر" مشہور تصنیف ہے اور آپ (رضی اللہ عنہ ) کے علوم اور اصرار پر مشتمل
ہے، اس کا ذکر امام علی بن موسی الرضا رضی اللہ عنہ کے کلام میں صریح طور پر آیا ہے،
یہ جو کہا گیا کہ "جب مامون نے آپ (رضی اللہ عنہ ) کو اپنا ولی عہد بنایا"
الحضر والجامعہ دونوں اس کے خلاف جامع دلالت کرتی ہے، وہ صادق تھے جو فرماتے تھے کہ
ہمارا علم بے حد عمیق ہے، دلوں پر اثر کرتا ہے اور اس کا سننا تاثیر دکھاتا ہے۔(شواہد النبوۃ /علامہ عبدالرحمن جامی علیہ
الرحمہ صفحہ 184)
بے شک ہمارے
نزدیک جفر احمر، جفر ابیض اور مصحف فاطمہ رضی اللہ عنہ (محفوظ) ہے اور بے شک اس میں
وہ تمام باتیں جامع طور پر موجود ہیں جن کی (عام) لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔(سب ہی) دل
میں اترنے والی باتیں ہے پس علم ممکنات ہے لیکن تحریر شدہ۔ وہ علم جس سے دل کے بال
کھل جائیں الہام ہے لیکن وہ سننے کے ذریعہ تصرف کرتا ہے وہ ملائکہ علیہم السلام کا
کلام ہے، لوگ ان کا کلام سنتے ہیں لیکن انہیں دیکھ نہیں سکتے ہے، جفر احمر میں لوگوں
کے لئے خیروخوبی ہےمصحف فاطمہ میں وہ باتیں ہیں جن کا تعلق حادث سے ہے (نئی پیدا ہونے
والی چیزیں) اس میں قیامت تک پیدا ہونے والے بادشاہوں کے نام ہیں، لیکن یہ جامع اور
ضخیم کتاب ہے۔ اس کی طوالت سترؔ گزر ہے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے املا کرایا
ہے اور علی ابن طالب نے اسے تحریر کیا ہے۔ اس میں ہر وہ بات تحریر ہوئی ہے جس کی قیامت
تک ضرورت ہو گی حتی کہ راس الحرس اور خلدہ کا بھی ذکر ہے۔(اس کی) آدھی جلد موجود ہے۔(شواہد النبوۃ /علامہ عبدالرحمن جامی علیہ
الرحمہ صفحہ 187، تفریح الاذکیاء 2/565، وفیات الاعیان/ علامہ ابن خلکان1/130)
بعض ثقات کا
بیان ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ سے سنا ہے مجھ سے دریافت
کرو، اس سے پہلے کے مجھے بٹھادیں، پس بے شک میرے بعد کوئی تم سے ایسی باتیں نہ کہے
گا جو میں کہتا ہوں۔۔(شواہد
النبوۃ /علامہ عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ صفحہ 187)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے فلک وقار شاگرد
حضرت امام
جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کاشمارمشکل ہے بہت ممکن ہے مگر کچھ شاگردوں کا
تذکر حصول برکت کے لئے کئے دیتا ہوں عام مورخین نے بعض ناموں کو خصوصی طور پرپیش
کرکے آپ کی شاگردی کی سلک میں پروکرانہیں معزز بتایاہے ۔
ابن خلکان
لکھتے ہیں کہ امام صادق کیمیا میں ید طولی رکھتے تھے، ابوموسی جابر بن حیان طرطوسی
ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جابر نے ایک ہزار ورق پرمشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں
جعفر ابن محمد کی تعلیمات تھیں۔ ان کے سامنے بہت سے لوگوں نے زانوے ادب تہ کیا ہے
اور ان سے علمی فیض حاصل کیا ہے۔ ان میں ان کے بیٹےامام موسی کاظم، یحی بن سعید
انصاری، یزید بن عبداللہ، ابو حنیفہ، ابان بن تغلب ربعی کوفی، ابن جریح ، معاویہ
بن عمار، ابن اسحاق، سفیان، شبعہ ، مالک، اسماعیل بن جعفر، جابربن حیان طرطوسی ،وبب
بن خالد، حاتم بن اسماعیل، سلیمان بن بلال، سفیان بن عینیہ، حسن بن صالح، حسن بن
عیاش، زہیر بن محمد، ایوب سجستانی ،حفص بن غیاث، زید بن حسن، انماطی، سعید بن سفیان
اسلمی، عبدالہ بن میمون، عبدالعزیز بن عمران زہری، عبدالعزیز درآوری، عبدالوہاب
ثقفی، عثمان بن فرقد، محمد بن ثابت بنانی، محمد بن میمون زعفرانی، مسلم زنجی، یحی
قطان، ابو عاصم نبیل، امام اعظم ابوحنیفہ سمیت ہزاروں شامل ہیں۔ (وفیات الاعیان/ علامہ ابن خلکان1/130، الاعلام
/خیرالدین زرکلی صفحہ 183، ادارہ معارف القرآن/محمد فرید وجدی 3/109، مطالب
السؤل، صواعق محرقہ، نورالابصار)
آپ کے بعض شاگردوں کی جلالت قدراوران کی تصانیف اورعلمی خدمات
پرروشنی ڈالنی توبے انتہادشوارہے۔ اس ترقی یافتہ دنیا میں،ہوا میں اڑتے جہاز ،خلاء
میں منڈلاتے سفینوں سے لیکر سمندروں میں تیرتی کشتیاں،خشکیوں میں دندناتی گاڑیاں
تک،جگمگاتے شہروں کی روشنیاں،کارخانوں کو چلانے والی توانائیاں،ری ایکٹر کی
حرارتیں،بلکتے ہوئے مریضوں کی دوائیں غرض ہر چیز علم کیمیا (Chemistry)کے مرہون منت ہے، اور اس علم کیمیا کے
واضع امام صادق رضی اللہ عنہ کے شاگرد جابر ابن حیان الطرطوسی ہیں۔
تاریخ کے
دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ جابربن حیان الطرطوسی نے امام جعفر صادق (علیہ السلام)
کی عظمت کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ ساری کائنات میں کوئی ایسا نہیں جو امام کی طرح
سارے علوم پربول سکے ۔
حضرت امام
جعفر صادق (علیہ السلام) نے ایک کتاب کیمیا جفر رمل پرلکھی تھی آپ رضی اللہ عنہ ہی
کے شاگرد و مشہور و معروف کیمیاگر جابربن حیان الطرطوسی جو یورپ میں جبرکے نام سے
مشہورہیں جابرکو صوفی کالقب دیاگیاتھا اور حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ کی طرح آپ(جابر
بن حیان) بھی علم باطن (تصوف) سے ذوق رکھتے تھے۔
علامہ ابن خلکان نےحضرت امام جعفر صادق رضی اللہ
عنہ کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے مقالات علم
کیمیا (Chemistry) اورعلم جفر و فال (Geomancy)میں موجودہیں اورجابربن حیان طرطوسی
آپ کے شاگردتھے، جنہوں نے ایک ہزار ورق کی کتاب تالیف کی تھی، جس میں امام جعفر
صادق رضی اللہ عنہ کے پانچ سورسالوں کوجمع کیاتھا۔ (وفیات الاعیان/ابن خلکان1/130طبع مصر )
علامہ خیرالدین زرکلی نے بھی الاعلام جلد ۱ ص
۱۸۲ طبع مصرمیں یہی کچھ لکھاہے، اس کے بعد تحریر کیاہے کہ ان کی بے شمار تصانیف
ہیں جن کاذکرابن ندیم نے اپنی فہرست میں کیاہے علامہ محمدفریدوجدی نے دائرہ المعارف
القرآن الرابع عشر کی 3/901 طبع مصرمیں بھی لکھاہے کہ جابربن حیان نے امام جعفر
صادق کے پانچ سو رسائل کوجمع کرکے ایک کتاب ہزارصفحے کی تالیف کی تھی۔
علامہ ابن
خلدون نے بھی مقدمہ ابن خلدون مطبوعہ مصرص ۳۸۵ میں علم کیمیا(Chemistry) میں علم کیمیا کا ذکر کرتے ہوئے
جابربن حیان کا ذکر کیاہے اور فاضل ہنسوی نے اپنی ضخیم کتاب اورکتاب خانہ
غیرمطبوعہ میں بحوالہ مقدمہ ابن خلدون ص ۵۷۹ طبع مصرمیں لکھاہے کہ جابربن حیان علم
کیمیا (Chemistry) کے مدون کرنے والوں کا امام ہے، بلکہ
اس علم کے ماہرین نے اس کو جابرسے اتنامخصوص کردیاہے کہ اس علم کانام ہی ”علم
جابر“ رکھ دیاہے۔ (الجوادشمارہ ۱۱ جلد ۱ ص ۹)
مورخ ابن
القطفی لکھتے ہیں کہ جابربن حیان کوعلم طبیعات(Science) اور
کیمیا (Chemistry)میں تقدم حاصل ہے ان علوم میں اس نے
شہرۂ آفاق کتابیں تالیف کی ہیں ان کے علاوہ علوم فلسفہ وغیرہ میں شرف کمال
پرفائزتھے اوریہ تمام کمالات سے بھرپورہونا علم باطن کی پیروی کانتیجہ تھا ملاحظہ
ہو (طبقات الامم ص ۹۵ واخبارالحکماءص ۱۱۱ طبع
مصر)
یہ وہی خوش
قسمت مسلمان ہے جسے حضرت امام جعفر (رضی اللہ عنہ) کی شاگردی کاشرف حاصل تھا، اس
کے متعلق سائنس پروگریس نوشتہ جے ہولم یارڈایم ائے ایف آئی سی آفیسر اعلی شعبئہ
سائنس کفٹن کالج برسٹل نے لکھاہے کہ علم کیمیا(Chemistry) کے متعلق زمانہ وسطی کی اکثرتصانیف
ملتی ہیں جن میں گیبرکاذکرآتاہے اورعام طورپرگیبرابن حین اوربعض دفعہ
گیبرکی بجائے جیبربھی دیکھاگیاہے اورگیبریاجیبردراصل جابرہے، چنانچہ جہاں کہیں بھی
لاطینی کتب میں گیبرکاذکرآتاہے وہاں مرادعربی ماہرکیمیاجابربن حیان ہی ہے جسے(ج)
کے بجائے(گ) کاآناجانا آسانی سے سمجھ میں آجاتاہے لاطینی میں جے کے مترادف کوئی
آواز اور بعض علاقوں مثلا مصر وغیرہ میں جے کواب بھی بطور(جی) یعنی (گ) استعمال
کیاجاتا ہے ۔اس کے علاوہ خلیفہ ہارون رشیدکے زمانے میں سائنس کیمسٹری وغیرہ کاچرچہ
بہت ہوچکاہے اوراس علم کے جاننے والے دنیاکے گوشہ گوشہ سے کھینچ کر دربارخلافت سے
منسلک ہورہے تھے جابربن حیان کازمانہ بھی کم وبیش اس ہی دورمیں پھیلاتھا پچھلے بیس
پچیس سال میں انگلستان اورجرمنی میں جابرکے متعلق بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں لاطینی
زبان میں علم کیمیا(Chemistry)کے متعلق چندکتب سینکڑوں سال سے اس
مفکرکے نام سے منسوب ہیں جس میں مخصوص 1:سما 2:برفیکشن 3:ڈی
انویسٹی پرفیکشن 4:ڈی انویسٹی گیشن ورٹیلس 5:ٹٹیابھن لیکن ان کتابوں کے متعلق اب تک ایک طولانی بحث ہے اوراس
وقت مفکرین یورپ انہیں اپنے یہاں کی پیداواربتاتے ہیں اس لیے انہیں اس کی ضرورت
محسوس ہوتی ہے جابرکوحرف (جی)(گ) سے پکاریں اور بجائے عربی النسل کے اسے یورپین
ثابت کریں۔ حالانکہ سماکے کئی طبع شدہ ایڈیشنوں میں گیبرکوعربی ہی کہاگیاہے رسل کے
انگریزی ترجمہ میں اسے ایک مشہورعربی شہزادہ اور منطقی کہاگیاہے ۱۵۴۱ ء میں کی
نورن برگ کے ایڈیشن میں وہ صرف عرب ہے اسی طرح اوربہت سے قلمی نسخے ایسے مل جاتے
ہیں جن میں کہیں اسے ایرانیوں کے بادشاہ سے یادکیاگیاہے کسی جگہ اسے شاہ
بندکہاگیاہے ان اختلافات سے سمجھ میں آتاہے کہ جابربراعظم ایشیاسے نہ تھا بلکہ
اسلامی عرب کاایک درخشندہ ستارہ تھا۔ (پیام
اسلام 7/15)
انسائکلوپیڈیاآف
اسلامک کیمسٹری کے مطابق جعفربرمکی کے ذریعہ سے جابربن حیان کاخلیفہ ہارون
الرشیدکے دربارمیں آناجاناشروع ہوگیاچنانچہ انہوں نے خلیفہ کے نام سے علم کیمیا(Chemistry)میں ایک کتاب لکھی جس کانام ”شگوفہ“
رکھااس کتاب میں اس نے علم کیمیاکے جلی وخفی پہلوؤں کے متعلق نہایت مختصرطریقے
نہایت ستھراطریق عمل اورعجیب وغریب تجربات بیان کئے۔ جابرکی وجہ ہی سے قسطنطنیہ سے
دوسری دفعہ یونانی کتب بڑی تعدادمیں لائی گئیں ۔ منطق میں علامہ دہرمشہورہوگئے
اورنوے سال سے کچھ زائدعمرمیں آپ نے تین ہزارکتابیں لکھیں اوران کتابوں میں سے وہ
بعض پرنازکرتاتھا اپنی کسی تصنیف کے بارے میں اس نے لکھا ہے کہ ”روئے زمین پرہماری
اس کتاب کے مثل ایک کتاب بھی نہیں ہے نہ آج تک ایسی کتاب لکھی گئی ہے اورنہ قیامت
تک لکھی جائے گی۔ (سرفراز ۲/ دسمبر ۱۹۵۲ ء)
فاضل ہنسوی
اپنی کتاب” کتاب خانہ“ میں لکھتے ہیں کہ جابر بن حیان کے انتقال کے بعد دوبرس
بعدعزالدودولہ ابن معزالدولہ کے عہدمیں کوفہ کے شارع باب الشام کے قریب جابرکی
تجربہ گاہ کاانکشاف ہوچکاتھا جس کوکھودنے کے بعدبعض کیمیاوی چیزیں اورآلات بھی
دستیاب ہوئے ہیں۔ (فہرست ابن الندیم ۴۹۹) ۔
جابرکے بعض
قدیمی مخطوطات برٹش میوزیم میں اب تک موجودہیں جن میں سے کتاب الخواص قابل ذکرہے
اسی طرح قرون وسطی میں بعض کتابوں کاترجمہ لاطینی میں کیاگیامنجملہ ”ان تراجم کے
کتاب“ سبعین بھی ہے جوناقص و ناتمام ہے اسی طرح ”البحث عن الکمال“ کاترجمہ بھی
لاطینی میں کیاجاچکاہے یہ کتاب لاطینی زبان میں کیمیاپریورپ کی زبان میں سب سے
پہلی کتاب ہے اسی طرح اوردوسری کتابیں بھی مترجم ہوئیں جابرنے کیمیاکے علاوہ علم طبیعیات
(Chemistry) علم ہیئت (Astronomy) علم منطق (Philosophy)
علم طب (Medicine
science) علم رویا اوردوسرے
علوم پربھی کتابیں لکھیں اس کی ایک کتاب سمیات پربھی ہے ۔
یوسف الیاس
سرکس صاحب معجم المطبوعات بتلاتے ہیں کہ جابربن حیان کی ایک نفیس کتاب سمیات
(Toxicologist) پربھی ہے جوکتب خانہ تیموریہ قاہرہ
مصرمیں بہ ضمن مخطوطات ہے ان میں چندایسے مقالات کوجوبہت مفیدتھے بعدکرئہ حروف نے
رسالہ مقتطف جلد ۵۸،۵۹ میں شائع کیاہے ۔(معجم
المطبوعات العربیہ المعربہ جلد ۳ حرف جیم ص ۶۶۵)
جابرکی ایک
کتاب جس کومع متن عربی اور ترجمہ فرانسیسی پول کراؤ متشرق نے ۱۹۳۵ ء میں شائع
کیاہے ایسی بھی ہے جس میں اس نے تاریخ انتشارآراوعقائد وافکارہندی، یونانی اوران
تغیرات کاذکرکیاہے جومسلمانوں نے کئے ہیں اس کتاب کانام ”اخراج مافی القوة الی
الفعل “ ہے (الجوادج ۹،۱۰ ص ۱۰ طبع
بنارس)
علمائے کرام
لکھتے ہیں کتب رجال میں جن اصحاب آئمہ کے حالات وتراجم مذکورہیں ،ان کی مجموعی
تعدادچار ہزارپانچ سواصحاب ہیں جن میں سے صرف چارہزاراصحاب حضرت امام جعفر صادق
رضی اللہ عنہ کے ہیں سب کاتذکرہ ابوالعباس احمدبن محمدبن سعیدبن عقدہ نے اپنی کتاب
رجال میں کیاہے اورشیخ الطائفہ ابوجعفرالطوسی نے بھی ان سب کااحصاء اپنی کتاب رجال
میں کیاہے ۔
فضل بن
شاذان نے ایک سواسی کتابیں تالیف
کی ہیں،ابن دول نے سوکتابیں لکھیں ہیں اسی طرح برقی نے بھی تقریبا
سوکتابیں لکھیں ،ابن عمیرنے نوے کتابیں لکھیں اوراکثراصحاب آئمہ
ایسے تھے جنہوں نے تیس یاچالیس سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں غرضیکہ ایک ہزارتین
سومصنفین اصحاب آئمہ نے تقریبا پانچ ہزارتصانیف کیں،مجمع البحرین میں لفظ جبرکے
ماتحت ہے کہ صرف ایک جابرالجعفی،امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے
سترہزاراحادیث کے حافظ تھے۔
ہشام ابن
حکم (متوفی ۱۹۹ہجری)کا اعراض کے سلسلے میں نظریہ تھا کہ اعراض جیسے رنگ و بو اور
طعم وغیرہ جسمیت رکھتے ہیں، اس نظریہ کو ہشام کے شاگرد ابراہیم ابن سیار نے اور
وضاحت سے پیش کیا اور آج جدید علوم نے اسی نظریہ کی صحت کو ثابت بھی کیا کہ
''روشنی'' نہایت چھوٹے چھوٹے ذرات کے مجموعہ سے بنتی ہے جو خلاء اور شفاف اجسام سے
عبور کر سکتے ہیں اور ''بو'' اجسام سے بخار کی صورت میں اٹھنے والے نہایت چھوٹے
ذرات ہیں جو قوّۃشامّہ کو متأثر کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ
ہشام ابن حکم،جابر ابن حیان کی طرح علم کیمیا کے ماہر نہیں ہیں !بلکہ علم کلام
(وہ علم جس میں مقدمات نقلی کو دلائل عقلی سے ثابت
کریں) کے ماہر ہیں! اس کے باوجودیہ دانشگاہ امام جعفرصادق ( رضی اللہ عنہ ) کی
خصوصیت تھی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) استعداد اور ذوق و شوق کے مطابق علوم و فنون کے
مختلف شعبوں میں مہارت کی حد تک تربیت فرماتے تھےجو جتنا سوال کرتا تھا ،جسکا جتنا
اور جیسا ظرف تھا، آپ (رضی اللہ عنہ) اسی کے مطابق اسے فیضیاب کرتے تھے۔
اوکسیجن:
مشہور ہے کہ
برطانیہ کا سائنسداں جوزف پرسٹیلی نے سب سے پہلے اوکسیجن کا انکشاف کیا، حالانکہ
اس کے بہت سے خصوصیات اور ترکیبات کاپتا نہیں لگا سکا، جس کا بعد کے سائنسدانوں نے
پتا لگایالیکن حقیقت یہ ہے کہ امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ ) نے بہت پہلے اکسیجن کے
خصوصیات کی طرف اشارہ کیا،اور بتایا کہ ''ہوا'' عنصر بسیط نہیں بلکہ مختلف عناصر
سے مرکب ہے،جس میں سے بعض اجزاء ہرزندہ موجود کے سانس لینے میں مدد کرتے ہیں، اور
بعض اجزاء آگ پیدا کرنے مین معاون ہوتے ہیں،اگر ہوا کے اندرموجود عناصرکا تجزیہ
کردیاجائے تووہ اجسام میں نفوذ کرسکتے ہیں،اور لوھے کو پگھلا سکتے ہیں پرسٹیلی نے
اوکسیجن کا انکشاف تو کیا،لیکن عملاً اوکسیجن کے ذریعہ لوھے کو پگھلا نہ سکا؛بلکہ
یہ بعد کے سائنسدانوں نے کشف کیاکہ اگر لوھے کو گرم کرکے (یہاں تک کہ لال ہو
جائے)خالص اوکسیجن میں رکھ دیا جائے تو اس میں شدت پیدا ہو جاتی ہے،اس طرح اس سے
روشنی ساطع ہو سکتی ہے اور اسی نظریہ کے تحت آج کے بلب تیا ر کئے جاتے ہیں،جس میں
لوھے کے ایک تار کو بجلی کے ذریعہ گرمایا جاتا ہے،جو کہ شیشے میں موجود خالص
اوکسیجن کی مدد سے چمک اٹھتاہے ۔
نورکے انعکاس کانظریہ:
انعکاس نور
کے بارے میں امام صادق رضی اللہ عنہ کے افاضات کی بدولت اسلامی علماء کا یہ نظریہ
تھا کہ نور اجسام سے منعکس ہوکر انسان کی آنکھوں سے ٹکراتا ہے تو دیکھنے کا عمل
انجام پاتا ہے،اور چونکہ دور کے اجسام سے پوری طرح نور منعکس نہیں ہوپاتا لہذا ہم
اسے صحیح طریقہ سے نہیں دیکھتے، چنانچہ اگر کسی آلہ کے ذریعہ اس نور کو آنکھ کے
قریب کیا جاسکے تو ہم اسے واضح طور سے دیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نظریہ زمانے
کے عام نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے، یہ نہیں کہا کہ نور آنکھوں سے منعکس ہوکر
اجسام پر پڑتا ہے،بلکہ برعکس اجسام سے منعکس ہوکر آنکھوں پر پڑتا ہے،دلیل یہ ہے
کہ آنکھیں اندھرے میں نہیں دیکھ پاتیں،اور اگر نور آنکھوں سے منعکس ہوتا تو چاہے
اندھرا ہو یا اجالا آنکھیں بہرحال دیکھتیں، انعکاس نور کے علاوہ ،حرکت نور اور
سرعت نور کے بارے میں بھی امام جعفرصادق (علیہ السلام) کی کتابوں میں موجود ہیں ۔
علم نجوم و
فلکیات:
امام جعفرصادق
( رضی اللہ عنہ )نے علم نجوم و فلکیات کے بارے میں بھی مستعد شاگردوں کی تربیت
فرمائی ہے چنا نچہ آپ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات و افاضات کی بدولت اس علم میں
بھی نہایت اہم کارنامے انجام دیئے۔،رصد،تنجیم،تقویم، اور علم نجوم کے دیگر فروعات
میں گرانقدر کتابیں تألیف و تصنیف کی، رصد خانے اورتجربہ گاہیں تأسیس کئے ۔آپ ( رضی
اللہ عنہ )کے شاگرد ابواسحاق ابراہیم بن حبیب الفزازی (متوفی ۱۶۱ھ)نے اس سلسلہ میں
نہایت گرانقدر کتابیں تحریر کی،جس میں کتاب العمل بالاسطرلاب ذوات الحلق اور کتاب
العمل بالاسطرلاب المسطح،قابل ذکر ہیں۔
دوسرے شاگرد
احمد بن حسن بن ابی الحسن الفلکی الطوسی ہیں ،جنہوں نے علم فلک میں مہارت حاصل کی،
یہاں تک کہ اسی نام سے مشہور بھی ہوئے،متعدد کتابیں تحریر کی،علم نجوم میں آپ کی
کتاب ریحانۃ المجالس و تحفۃ المؤانس، قابل ذکر ہے؛
سید ابن
طاؤوس نقل کرتے ہیں:ابن أبی الحسن فلکی کی کتاب فرج المہموم کا خطی نسخہ میرے
پاس موجود ہے،جس میں انہوں نے کواکب اور اس کے اسرار و رموز کے بارے میں لکھا ہے۔
دوسرے شاگرد
محمد بن مسعودتمیمی ہیں جن کے بارے میں ابن ندیم کاکہنا ہےکہ آپ علم و حکمت
و وسعت معلومات میں یکتائے روزگار تھے،آپ نے بھی جہاں علم طبّ، علم قیافہ و نفسیات
وغیرہ کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں،وہاں ان کی کتاب النجوم و الفأر نہایت گرانقدر
ہے۔ اسی طرح سے اگر صرف نام پر ہی اکتفاء کیا جائے تو ان فہرست کئی صفحوں پر تمام
ہوگی․․․!
حرکت اور کرویت زمین:
حالانکہ حرکت
زمین کے نظریہ کی نسبت گالیلؤ(1642)، یا اس سے بھی پہلےکپلر(1631) یکوپرنیک (1543)
کی طرف دی جاتی ہے ، اور کرویت زمین کو کسی ملا ّح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور
یہ نسبت مغربی دنیا کی حد تک صحیح بھی ہے،لیکن اگر اسلامی دانشمندوں کے آثار میں
ملاحظہ کریں تو اس قسم کے جدید نظریات ان کی کتابوں میں پہلے سے پائے جاتے تھے۔
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے اپنے شاگرد ہشام
الخفاف کے درمیان علمی مباحثات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ۱۳۰۰سال پہلے بھی
دانشگاہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ میں زمین اور سورج کی حرکت اور کرویت کے بارے
میں بحث و گفتگو ہوا کرتی تھی،ان کا نظریہ یہ تھا کہ زمین گول ہے جو اپنے گرد
چکّرلگاتی ہے اور گردش لیل و نہار زمین کی حرکت کے سبب ہے،نہ کہ سورج کے؛آپ سورج
کی حرکت کو مستدل طریقہ سے محال ثابت کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ زمین کی اپنے گرد
حرکت کی وجہ سے زمین کا نصف حصہ روشن اور دوسرا حصہ اندھیرے میں ڈھکا ہوتا ہے ۔
تاریخ اسلام
جلد ۵ ص ۳ میں ہے کہ ابان بن تغلب بن رباح (ابوسعید) کوفی صرف امام جعفر
صادق رضی اللہ عنہ کی تیس ہزاراحادیث کے حافظ تھے ان کی تصانیف میں تفسیرغریب
القرآن کتاب المفرد، کتاب الفضائل، کتاب الصفین قابل ذکرہیں، یہ قاری فقیہ لغوی
محدث تھے، انہیں حضرت امام زین العابدین اورحضرت امام محمدباقر،حضرت امام جعفر
صادق رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کاشرف حاصل تھا ۱۴۱ ہجری میں انتقال کیا۔
علم القرآن:
مختصریہ کہ
آپ کے علمی فیوض و برکات پرمفصل روشنی ڈالنی تودشوارہے جیساکہ میں نے پہلے عرض
کیاہے ،البتہ صرف یہ عرض کردیناچاہتاہوں کہ علم القرآن کے بارے میں دمعہ ساکبہ ص
۴۸۷ پرآپ کاقول موجودہے وہ فرماتے ہیں خداکی قسم میں قرآن مجیدکواول سے آخرتک اس
طرح جانتاہوں گویامیرے ہاتھ میں آسمان وزمین کی خبریں ہیں،اوروہ خبریں بھی ہیں
جوہوچکی ہیں،اورہورہی ہیں اورجوہونے والی ہیں اورکیوں نہ ہوجبکہ قرآن مجیدمیں ہے
کہ اس پرہرچیزعیاں ہے ایک مقام پرآپ نے فرمایاہے کہ ہم انبیاء اوررسل کے علوم کے
وارث ہیں۔ (دمعہ ساکبہ ص ۴۸۸)
علم منطق الطیر:
حضرت امام
جعفر صادق (علیہ السلام) دیگر آئمہ کی طرح منطق الطیر سے بھی باقاعدہ واقف تھے،
جوپرندہ یاکوئی جانورآپس میں بات چیت کرتاتھااسے آپ سمجھ لیاکرتے تھے اوربوقت
ضرورت اس کی زبان میں تکلم فرمایاکرتے تھے ۔
علم طب :
امام رضی اللہ عنہ کے شاگرد وں نے طب کو فروغ دینے کے
سلسلہ میں بھی نہایت گرانقدر سرمائے عالم بشریت کو دیئے ہیں،جسے علماء نے اپنی
اپنی کتابوں میں اکٹھا کیا جیسے علامہ مجلسی نے بحار الانور میں اور دیگر کتابوں
میں بھی درد و امراض کے علاج ،خواص اشیاء اور ان کے فوائد،طبائع و مزاج، پرہیز،
عوامل امراض،اشیاء کے منافع ومضرات کے سلسلہ میں احادیث و اقوال درج ہیں، اور بعض
علماء نے توطب میں مستقل طور پر ، طب الصادق یا طب الائمۃپرانسائکلوپیڈیا تیار کئے
ہیں۔
ابن ماسویہ اپنے زمانے کا مشہورطبیب امام جعفر صادق
(علیہ السلام) کی خدمت میں ز انوئے ادب تہہ کرتا ہے، اور طبّ و حکمت کے سلسلہ میں
آپ کے خرمن علم سے فیضیاب ہوتاہے،ایک مرتبہ ابو ہفان اور ابن ماسویہ کے درمیان
طبائع کے سلسلہ میں علمی مباحثہ کے دوران ، ابو ہفان نےآپ( علیہ السلام)تعلیم کردہ
تشریح کو بیان کیا تو ابن ماسویہ خوشی سے کھڑے ہوکر کہنے لگا،اعدعلی، فواللّہ ما
یحسن جالینوس ان یصف ہذا الوصف خدا کی قسم اس سے بہتر تو جالینوس نے بھی بیان نہیں
کیا۔
علمائے کرام
فرماتے ہیں کہ ہندوستان کاایک مشہورطبیب منصوردوانقی کے دربارمیں طلب
کیاگیا،بادشاہ نے حضرت سے اس کی ملاقات کرائی، امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے علم
تشریح الاجسام اورافعال الاعضاء کے متعلق اس سے انیس سوالات کئے وہ اگرچہ اپنے فن
میں پوراکمال رکھتاتھا لیکن جواب نہ دے سکابالاخرکلمہ پڑھ کرمسلمان ہوگیا،مزید
لکھتے ہیں کہ اس طبیب سے حضرت نے بیس سوالات کئے تھے اوراس انداز سے پرازمعلومات
تقریرفرمائی کہ وہ بول اٹھا ”من این لک ہذا العلم“اے حضرت یہ بے پناہ علم آپ نے
کہاں سے حاصل فرمایا؟
آپ نے کہاکہ
میں نے اپنے باپ داداسے ،انہوں نے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ،انہوں نے
جبرئیل رضی اللہ عنہ سے ،انہوں نے خداوند عالم عزوجل سے اسے حاصل کیاہے ،جس نے
اجسام وارواح کوپیداکیاہے ”فقال الھندی صدقت“ اس نے کہابے شک آپ نے سچ فرمایا،اس
کے بعد اس نے کلمہ پڑھ کراسلام قبول کرلیااورکہا ”انک اعلم اہل زمانہ“ میں گواہی
دیتاہوں کہ آپ عہدحاضرکے سب سے بڑے عالم ہیں ۔
اہل سنت والجماعت
کے چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق( رضی اللہ عنہ )کے
شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام اعظم ابوحنیفہ نے تقریباً دوسال تک
براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام
ابوحنیفہ نے کہا ہے : "میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ عالم کوئی اور شخص نہیں
دیکھا۔"
ایک اور
مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے
میں کہا : اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔ (مختصرالتحفۃ الانثیٰ عشریہ1/18)
علامہ سیوطی
الشافعی المتوفی(911 ہجری) میں آپ کا حفاظ حدیث کے طبقات خامس میں ذکر کیا ہے (طبقات الحفاظ/سیوطی صفحہ 79)
بڑے بڑے محدثین
نے آپ سے روایت لی جن میں امام موسی کاظم، ابن جریح، امام مالک بن انس، سفیان عینیہ،
سفیان ثوری، امام شعبہ، ایوب سختیانی، حاتم بن اسماعیل،یحیٰ قطان، ابوعاصم نبیل، امام
اعظم ابو حنیفہ وغیرہم ۔
امام اعظم ابوحنیفہ
تو جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے خصوصی شاگردوں میں شمار ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ کا
پہلا علمی رابطہ امام باقر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ پھرآپ نے یہ علمی رابطہ امام
جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قائم کر لیا اور متواتر دو سال امام جعفر صادق علیہ
الرحمہ کی شاگردی میں رہے۔
امام مالک فرماتے
ہیں کہ میں امام جعفر صادق کے پاس آیا کرتا تھا جب آپ کے پاس آتا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا ذکر ہوتا تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتا، میں جب بھی آپ کے پاس آتا تو آپ
نماز پڑھتے ہوتے یا حالت روزہ میں ہوتے یا قرآن پاک پڑھتے ہوتے۔ آپ جب بھی حدیث رسول
بیان کرنے لگتے تو پہلے وضو فرماتے پھر حدیث رسول بیان کرتے۔
علامہ ابن
خلکان لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق سادات اہل بیت سے تھے وفضلہ اشہر من ان یذکر اور
ان کی فضیلت اس سے زیادہ ہے کہ اس کو بیان کیا جائے۔ ( وفیات الاعیان 105/1)
حافظ ابن حجر
عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق سے روایت کرنے والے امام شعبہ، سفیان بن
عینیہ، سفیان ثوری، امام مالک، ابن جریح، امام اعظم ابو حنیفہ، امام موسی کاظم،
وہیب بن خالد، قطان ابو عاصم اور خلق کثیر ہے۔ آپ سے روایت لینے والوں میں یحیٰ بن
سعید انصاری اور برصغیر یزید بن الہاد بھی ہے۔
امام جعفر صادق
کے بارے میں اسحٰق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے آپ کے بارے میں پوچھا
تو انہوں نے فرمایا کہ امام جعفر صادق ثقہ ہیں۔
ابن ابی حاتم
نے اپنے باپ سے امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ
آپ جیسی شخصیت کے بارے میں ایسا سوال نہیں کیا جاسکتا یعنی امام جعفر صادق کے بارے
میں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ تو ثقہ ہی ثقہ ہیں ۔
ابن عدی نے کہا
کہ جب میں نے امام جعفر صادق کو دیکھا کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ خاندان نبوت سے ہیں۔
امام نسائی نے کہا کہ آپ ثقہ ہیں (تہذیب التہذیب
2/103)
ابو حاتم نے
کہا کہ ان جیسے عظیم الشان والے شخص کے بارے سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے (میزان الاعتدال1/415)
ابن حجر مکی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ امام جعفر
صادق اپنے باپ کے خلیفہ اور وصی قرار پائے کیونکہ آپ افضل و اکمل تھے (صواعق محرقہ صفحہ 199)
علامہ عبدالرحمن
جامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ آپ کے علوم کا احاطہ فہم و ادراک سے بلند ہے۔ (شواہد النبوت صفحہ 108)
علامہ حضرمی
لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق سے امام مالک بن انس، امام اعظم ابو حنیفہ اور اکثر علماء
مدینہ نے روایت لی ہے مگر امام بخاری نے ان سے کوئی روایت نہیں لی (تاریخ فقہ صفحہ 273)
امام بخاری نے
جیسا کہ امام جعفرصادق سے اپنی صحیح بخاری میں روایت نہیں لی اسی طرح جو چار امام اہل
بیت اطہار سے امام بخاری کے زمانے میں تھے ان سے بھی روایت نہیں لی وہ یہ ہیں کہ
امام ہشتم سیدنا امام موسی رضا (متوفیٰ 208 ہجری) علیہ السلام، امام نہم حضرت
سیدنا امام تقی (متوفیٰ 220 ہجری) علیہ السلام، امام دہم سیدنا امام نقی(متوفیٰ
245 ہجری) علیہ السلام،امام یازدہم سیدنا امام حسن عسکری (متوفیٰ 260 ہجری) علیہ
السلام۔
امام بخاری نے
ان چاروں اماموں کا زمانہ پایا لیکن ان سے روایت نہیں لی امام بخاری کی عظیم کتاب صحیح
بخاری ان آئمہ اہل بیت اطہار کی روایت سے خالی پڑی ہے۔ حالانکہ حدیث ان ائمہ اہل بیت
رسول کے گھر کی چیز تھی اور یہ بات مشہور ہے اہل بیت ادریٰ بما فیھما یعنی گھر والا
گھر کے حالت کو بہتر جانتاہے۔ امام بخاری کو چاہیے تھا کہ ان ائمہ اہل بیت رسول سے
روایت لیتے جو کہ حدیث کا ماخذ تھے لیکن امام بخاری نے بعض مجبوریوں کی بنا پر ان آئمہ
اہل بیت اطہار سے ک سے روایت نہیں لی۔ چنانچہ محمد بن اسماعیل بخاری (المتوفی 256
ہجری) جو کہ حکومت عباسیہ کے دور میں ہوئے ہیں ۔ جب انہوں نے جامع بخاری کو مرتب کیا
تو کہا ماوضعت فیہ الا الصحیح وما ترکت من الصحاح اکثر کہ میں نے اپنے جامع صحیح بخاری
میں جو احادیث ذکر کی ہیں وہ صحیح ہیں اور جو میں نے صحیح احادیث چھوڑی ہیں وہ تو ان
سے بھی زیادہ (صحیح) ہیں۔
علامہ عبد الحلیم جندی لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے
اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں نے جو احادیث چھوڑی ہیں یہ وہی روایات ہیں جو حضرت
علی اور حضرت ہلبیت اطہار کی شان میں وارد ہیں۔ امام بخاری حکومت عباسیہ کے خوف و رعب
کی وجہ سے ان کو اپنے جامع میں نہیں لا سکے نیز صاحب تاریخ النواصب بحوالہ کتاب الجرح
و تعدیل (ابن حاتم رازی) ذکر کیا ہے کہ حافظ ابو عبداللہ سے سوال کیا گیا کہ امام بخاری
نے ابوالطفیل عامر بن واثلہ صحابی کی روایت کیوں نہیں لی؟ ابو عبداللہ نے کہاکہ اس
لیے کہاا بوالطفیل تشیع میں افراط کرتے تھے۔
سید انور شاہ
کشمیری دیوبندی(المتوفی 1252 ہجری) لکھتے ہیں کہ العرف الشذی میں لکھتےہیں کہ حارث
کو شیعہ کہا گیاہے اور اسی طرح ابوالطفیل کے حق میں کہا گیا ہے کہ دونوں علی
المرتضی ٰ شیرخدا سے محبت کرتے تھے تھے۔ ( تاریخ النواصب صفحہ 196)
اس سے ثابت ہے
کہ امام بخاری حضرت ابوالطفیل صحابی سے اس وجہ سے روایت نہیں لے رہے ہیں کہ وہ حضرت
علی شیر خدا کے ساتھ زیادہ محبت کرتے تھے۔ گویا کہ امام بخاری پر حکومت عباسیہ کا خوف
و رعب تھا اسی بنا پرانہوں نے ائمہ اہل بیت اطہار سے روایت نہیں لی یہ بات ظاہر ہے
کہ دونوں حکومتوں بنو امیہ اور بنوعباسیہ کے دور میں اہل بیت رسول اور ان کے ماننے
والوں پر تشدد اور ظلم ہوتا رہا۔ جو بھی اہل بیت رسول سے تعلق و ربط پیدا کرتا یا
روایت لیتا وہ بھی موردِ عتاب بن جاتا چنانچہ امام شعبی (المتوفی104 ہجری) فرماتے
ہیں کہ ما ذا لقینا من آل ابی طالب ان احينا قتلنا وان الغضبناھم دخلنا فی النار کہ
آل ابی طالب سے ہم کو کیا ملا ہے اگر ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں تو قتل ہوتے ہیں
اور اگر ہم ان سے بغض اور دشمنی رکھے تو دوزخ میں جاتے ہیں۔ یہ شعبی اموی حکومت کے
قاضی تھے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر اہل بیت رسول سے محبت کا اظہار کریں تو حکومت وقت
ہم کو قتل کردے اور اگر عداوت رکھے تو بےایمان ہو کر مریں اور دوزخ میں جائیں جب یہ
حالت تھی تو اہل بیت اطہار سےروایت لینا کو ئی آسان کام نہیں تھا۔
حافظ ابن حجر
عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام مالک بھی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں لیتے
تھے یہاں تک کہ بنو عباس کا امر ظاہر ہوا یعنی بنوعباس جب پورے طور پر برسراقتدار آگئے
تو امام مالک نے امام جعفر صادق سے روایت بیان کرنا شروع کی ۔ اس سے پہلے روایت
نہیں لی (تہذیب
التہذیب2/103)
جیسے بنو امیہ
اپنے دور حکومت میں اہل بیت اطہار اور ان کے عقیدت مندوں پر ظلم و تشدد کیا کرتے تھے
اسی طرح بنو عباس جب برسر اقتدار آئے تو انہوں نے بھی ظلم و تشدد شروع کر دیا چنانچہ
حکومت عباس کے پہلے خلیفہ اور بادشاہ سفاح ہوئے ان کا نام ابو العباس عبداللہ بن محمد
بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف تھا اور 132 ہجری میں
ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ انہوں نے تمام بنوامیہ کا خاتمہ کیا اور عباسی حکومت کی بنیاد
رکھی اور اس کو مضبوط کیا اور 136 میں سفاح کی وفات ہوگئی ان کے بعد ان کا بھائی ابوجعفرمنصور
حکمران ہوا۔ منصور نے اپنے دور حکومت میں زیادہ غلط یہ کام کیا کہ امام حسن سبط
رسول کی اولاد کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا چنانچہ عبدالمحض اور ان کی اولاد کو
گرفتار کیا ان سب کو زنجیریں پہنائیں اور قید میں بند کیا یہاں تک تمام قید ہی میں
وفات پاگئے۔
وہ حقائق و معارف
اور حکمت کی دقیق باتیں جو آپ (رضی اللہ عنہ ) کی زبان مبارک سے ادا ہوئیں وہ مشہور
ہیں اور اہل اسلام کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔ یہاں آپ (رضی اللہ عنہ ) کی کرامت اور
خوراق کا ذکر مختصر طور پر کیا جاتا ہے۔
علامہ ابن
جوزی علیہ الرحمہ نے اپنی کی کتاب ("صفۃ الصفوۃ"میں سعدسےبہ اسناد خود) تحریر
کیا ہے کہ میں حج کے دنوں میں مکے میں تھا نماز عصر ادا کرکے میں کوہ قبیس پر چڑھ گیا،
وہاں میں نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا جو دعا مانگ رہا تھا، اس نے اپنا سانس ٹوٹنے
تک "یارب" کی تکرارکی، پھر سانس منقطع ہونے تک "یا رباہ" بار بار
کہا اسی طرح سانس ختم ہونے تک حی حی اور "الرحم الراحمین" کی رٹ لگائی اس
کے بعد سات مرتبہ کہا اللھم انی اشتھی من ھذہ الغیب اللھم وان یروی (خدایا میں پردہ
غیب سے کھانا طلب کرتا ہوں اور ایسی چیز جو مجھے سیراب کردے) اس نے ابھی دعا پوری نہ
کی تھی کہ انگور کی ٹوکریں اور دو سنترے اس کے آگے رکھ دئیے گئے۔ اس کے سامنے بے موسم
انگور لائے گئے۔ میں نے کہا میں تمہارا شریک ہوں، اس نے پوچھا تم کس وجہ سے شریک ہو۔
میں نے کہا تم دعا کرتے تھے اور میں آمین کہتا تھا۔ اس نے کہا پھر آگے آؤ، ذخیرہ
(اکٹھا) بالکل نہ کرنا۔ وہ بے دانہ انگور تھے۔ میں نے ایسے لذیذ انگور کبھی نہیں کھائے۔
میں نے خا صے انگور کھائے۔ لیکن ٹو کری خا لی نہ ہوئی، پھر مجھ سے کہا تھوڑے سے لے
لو لیکن میں نے نہیں لیے۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ تم کہیں چھپ جاؤ تاک کپڑے
پہن لوں میں چھپ گیا۔ اس نے کپڑے پہنے۔ ایک کا تہبند بنایا اور روسری دھار دار پرانی
چادر جسم پر ڈالی، اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔ میں اس کے عقب میں چلا۔ ایک شخص آیا اور
کہا اے ابن رسول اللہ! اللہ تعالی نے آپ (رضی اللہ عنہ ) کو پہنایا مجھے بھی پہناؤ۔
اس نے وہ دھاری دار چادر سائل کے حوالے کر دی، جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ
وہ جعفر بن محمد تھے۔ (صفۃ
الصفوۃ/ ابن جوزی4/97، کشف الغمہ 2/374، بحارالانوار8/144، مراۃ الکونین صفحہ 61/صواعق
محرقہ صفحہ 121)
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کوبال بچوں سمیت جلادینے
کامنصوبہ:
حضرت امام
جعفر صادق رضی اللہ عنہ کاعام شہرہ ہوگیااورلوگوں کے قلوب پہلے سے زیادہ آپ کی طرف
مائل ہوگئے، دوست اوردشمن آپ کے علمی کمالات کاذکرکرنے لگے یہ دیکھ کربادشاہ منصورکے
دل میں آگ لگ گئی ،اوروہ اپنی شرارت کے تقاضوں سے مجبورہوکریہ منصوبہ بنانے لگاکہ
اب جلدسے جلدانہیں ہلاک کردیناچاہئے،چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ علیہ
فرماتے ہیں کہ مات مسموما ایام المنصور، منصورکے زمانہ میں آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں۔
(صواعق محرقہ ص ۱۲۱، ۴۵۰)
وصال ومدفن:
آپ رضی اللہ عنہ کا وصال 15رجب المرجب 148 ہجری کو 68 سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جنت البقیع آپ کے دادا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور والد امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کی قبور مبارکہ کے پاس ہوئی۔(الثقات لابن حبان،3 / 251،وفیات الاعیان، 1/168)
No comments:
Post a Comment