اسلام وہ مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی جو انسانی جبلت کے موافق اور اس کی دنیوی و اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں نے دلوں پر حکومت کی۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے اسلامی اصولوں کو”تصوف“کا عنوان دیا گیا اور اس کے ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔
جب بھارت میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت دین کا جذبہ لے کر آباد
ہوئے،اپنے حسنِ اخلاق اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کیا تو دیکھتے
ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے۔پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباً سات
سو سال حکومت کی۔یاد رہے کہ زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید میں مقید
کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اور زمانے کے گزرنے کے
ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا جاسکتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے
کہ صوفیائے کرام نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی
ہے۔لہٰذا!ان صوفیاء کرام کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبتِ
اولیاء کے آثار کو کوئی جبراً مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہراً فراموش کروا سکا ہے۔جاگتی
آنکھوں سے یہ ناقابلِ تردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی
اولیائے کرام کا راج ہے۔یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی اور نہ ہی ان سرکاروں کا بول
بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے۔
توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا۔اس شہر
کی مٹی بہت ہی نرم تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہو جاتی
تھیں اس لئے اس نئے شہر کا نام”دہلی“ رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے اس شہر پر حکومت
کی۔راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب الدین غوری سے شکست کھائی اور یوں
دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی۔(تاریخ فرشتہ 138 /1)
جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیاء میں ایک طوفان
اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علماء کرام و مشائخ عظام اور شعرا و ادباء کا رُخ دہلی کی جانب
ہوا اور اس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی شہر اپنی علمی،سماجی،ثقافتی،
علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکز بنا اور اپنی اسی اہمیت کی بنا پر تقریباً
ہر دور ہی میں”دارالحکومت “رہا ہے۔
یوں تو بھارت کے کئی شہروں میں جلیل القدر اور
عظیم المرتبت صوفیا آرام فرما ہیں مگر دہلی کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ
بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد اور سکونت کی بدولت
دہلی ”دارالاولیاء“قرار پایا۔دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے۔یہ وہ مبارک
سر زمین ہے کہ جس نے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین سید حسن اجمیری علیہ
الرحمہ کے قدموں سے فیض پایا ہے اور خواجہ خواجگان نے یہاں پرچمِ اسلام نصب فرمایا۔اس
سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے:جب حضرت معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ غزنی سے دہلی
تشریف لائے تو آپ رحمتہ الله علیہ نے کچھ لوگوں کو شرک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی
دعوت دی۔زبان خواجہ سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً
کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ اس گروہ میں ایک سردار بھی موجود تھا جسے لسانِ خواجہ سے
حمید الدین کا لقب عطا ہوا اور پھر یہی حمید الدین”حضرت حمید الدین دہلوی رحمۃ الله
علیہ“کے نام سے مشہور ہوئے۔(تحفۃ الابرار: 96 )
ان مشائخِ کرام کا کردار خلق محمدی ﷺ کا آئینہ
دار تھا۔اسی لئے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے۔لوگوں کی وارفتگی جاننے کے لئے یہ دلچسپ
واقعہ ملاحظہ کیجیے:جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
رَحْمَۃُ الله عَلَیْہ نے دہلی کو اپنا مسکن بنایا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی
آپ رحمتہ الله علیہ کا گرویدہ ہوگیا۔جب خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ الله علیہ نے حضرت
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کو اپنے ساتھ اجمیر لے جانا چاہا تو اس خبر
سے دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رحمتہ الله علیہ دہلی سے رخصت ہونے لگے تو سلطان
شمس الدین التمش علیہ الرحمہ سمیت تمام شہر آپ علیہ الرحمہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا۔لوگوں
کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ
الرحمہ قدم رکھتے اس جگہ کی خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھا لیا جاتا۔یہ تمام صورت حال دیکھ
کر حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے فرمایا: بختیار!تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوقِ
خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار ہے اور میں ہرگز اس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے
شمار دل خراب و کباب کروں۔جاؤ!میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا۔(سیر اولیا:
113)
جن مشائخ کرام نے مذہب اسلام کی آبیاری کی ان
فلک پیما شخصیتوں میں سے ایک عظیم شخصیت حضرت شیخ سلیم چشتی بن بہاؤ الدین چشتی قدس
سره کی بھی ہے۔آپ حضرت مسعود شکر گنج علیہ الرحمہ کی اولاد سے تھے۔ برصغیر میں آپ شیخ
اسلیم کے نام سے مشہور ہوئے مگر عرب و عراق میں آپ کو شیخ الہند کے نام سے شہرت ملی۔والد
کا اسم گرامی بہاء الدین اور والدہ کا نام نامی بی بی احد تھا۔آپ کی ولادت سے قبل آپ
کے والدین لودھ یانہ(پنجاب) میں قیام پذیر تھے۔وہاں سے الله رب العزت کے حکم سے دہلی
تشریف لے آئے اور ھلہ پیر علاء الدین میں قیام فرمایا۔.
نام
و نسب:
اسم
گرامی: شیخ سلیم چشتی۔
لقب:
عرب میں آپ کو "شیخ الہند" کے لقب
سے پکارا جاتا ہے۔
سلسلہ نسب اس طرح ہے: شیخ سلیم الدین بن بہاءالدین بن
شیخ سلطان بن شیخ آدم بن شیخ موسیٰ بن شیخ مودودبن شیخ بدرالدین بن شیخ فرید الدین
مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ عنہم اجمعین۔ آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرر رحمۃ اللّٰه
علیہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی احد ہے۔آپ کے آباؤ اجداد اجودھن
سے ہجرت کرکے لدھیانہ آئے، کچھ عرصہ لدھیانہ میں رہے، پھر دہلی میں سکونت اختیار کی،
آپ کے والدین دہلی سے ترک سکونت کرکے فتح پور سیکری میں رہنے لگے۔
تاریخِ
ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت 897ھ، مطابق1492ء کو دہلی کے
اس وقت کے محلہ سرائے علاءالدین زندہ پیر میں ہوئی۔ (اخبار الاخیار:656/سفینۃ الاولیاء:241/چشتی
خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:133)
بچپن
کی کرامت:
آپ علیہ الرحمہ نے پیدا ہوتے ہی سجدہ کیا۔ آپ کی
پیشانی میں دھان کا ایک دانہ چبھ گیا۔ اس کا نشان پیشانی پر تمام عمر رہا۔ ایک بار
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ دھان کے دانےچبھنے سے کافی تکلیف ہوتی
تھی۔ اس کو نکالنا چاہا، لیکن اس خیال سے نہیں نکالاکہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوگا۔
تحصیلِ
علم:
ابھی آپ علیہ الرحمہ کم سن ہی تھےکہ والدین کا سایہ
سر سے اٹھ گیا۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے بڑے بھائی کے زیرِ سایہ ہوئی۔ آپ کے بڑے
بھائی شیخ موسیٰ نے آپ کی تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ سنِ بلوغ پر پہنچ کر آپ نے تحصیلِ
علم کےلئے سفر کا ارادہ کیا، اپنے بڑے بھائی سے اجازت مانگی، آپ کے بڑے بھائی نے آپ
کو اجازت نہیں دی اورکہا کہ میری اولاد نہیں
ہے، اور میں نے تمہیں اولاد کی طرح پالا ہے، لہذا تمہاری جدائی برداشت نہیں ہوگی۔ یہ
سن کر آپ نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ ناامید نہ ہونا چاہیے، آپ کے ہاں انشاء اللہ
لڑکا پیدا ہوگا اور تمھارا گھر روشن ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا، نو مہینے کے بعد شیخ
موسیٰ کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔
پھر
آپ علیہ الرحمہ نے برادر اکبر کی اجازت و رضامندی سے مزید تحصیل علم کےلئے فتح پور
سیکری سے سرہندتشریف لائےاور ملک العلماء شیخ مجدالدین رحمۃ اللّٰه علیہ سے علوم ظاہری
کی تکمیل کی، جس زمانے میں آپ کا قیام سرہند میں تھا، آپ کبھی کبھی قصبہ بدالی جاتے
اورحضرت شیخ زین العابدین چشتی کے مزار سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ (تذکرہ اولیائے
پاک وہند:209)۔ آپ کو تمام علوم کے جامع تھے۔
بیعت
و خلافت:
سیر و سیاحت کے دوران آپ بہت سے بزرگوں اور درویشوں
سے ملےاور ان سے فیوض و برکات حاصل کئے، حضرت شیخ ابراہیم چشتی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر آپ بیعت ہوئے اور
ان سے خرقہ خلافت پایا۔
سیرت
و خصائص:
سید
الاولیاء، سندا لاتقیاء، رئیس الصوفیاء، جامع الکمالات، عارف بااللہ، واصل باللہ، متصرف
الامور، نادرالوجود، صاحب الیقین حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ علیہ
الرحمہ کمالات علمیہ و روحانیہ میں اپنی مثال
آپ تھے۔ حضرت شیخ الاسلام فریدالدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ سے خاندانی تعلق تھا۔
آپ حضرت گنج شکر کے روحانی کمالات کے پرتوِ جمیل تھے۔ آپ کے تصرفات و کرامات کا شہرہ
چہار دانگ عالم میں تھا۔ آپ کوہ سیکری کے بیابان
جنگلات وغاروں میں اقامت گزیں ہوتے، لیکن اس کے باوجود مخلوق خدا کا ایک جم غفیر آپ
کی خدمت میں حاضر رہتا۔ آپ نےاس جنگل کو اپنی عبادت ریاضت کی برکت سے مخلوق خدا کی
دلوں کی تسکین بنادیا تھا۔ جہاں بھی آپ تشریف لے جاتے آپ کی ذات مرجعِ خلائق بن جاتی،
جب آپ حرمین طیبین تشریف لےگئے تو عرب شریف میں’’شیخ الہند‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔
تمام عمر صوم وصال رکھتے، بےانتہا عبادت و ریاضت گزار تھے۔ آپ کی مشقتیں دیکھ کر حضرت
بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجاہدات شاقہ کی یاد تازہ ہوجاتی۔ ابتدائی ایام
جوانی میں مجاہدین جیسا لباس زیب تن فرماتے۔ (اخبار الاخیار:656)
آپ
علیہ الرحمہ صاحب علم و فضل، جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ، ریاضت، مجاہدات،
ترک و تجرید، تحمل، بردباری میں یگانہ عصر تھے، جب تک آپ بہت کمزور و ضعیف نہ ہوگئے،
آپ نےطے کے روزے نہیں چھوڑے، آپ کو پرانا سرکہ اور ٹھنڈی ترکاریاں بہت مرغوب تھیں،
ٹھنڈے پانی سے روزانہ غسل فرماتے تھے، کیسی ہی سردی ہو، آپ کے لباس میں کوئی تبدیلی
نہیں ہوتی تھی، جاڑے کے موسم میں بھی باریک کرتا زیب تن فرماتے تھے، نماز اول وقت پڑھتے
تھے۔ آپ کی نشست گاہ بالکل امیروں اور حاکموں کی طرح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان باتوں سے جو خلاف
شریعت ہیں طاقت سے روکتے تھے، جب آپ محفل میں رونق افروز ہوتے تو ہر شخص پر نگاہ رکھتے،
کسی کو ڈانٹتے، کسی کو نصیحت فرماتے اور کسی کو تعلیم و تلقین فرماتے۔ (اخبارا لاخیار:657/تذکرہ
اولیائے پاک وہند:210)
تعلیم
سے فراغت کےبعد 1525ء کو حج کےلئے تشریف لےگئے۔ مکہ معظمہ و مدینہ کے علاوہ بلاد اسلامیہ
کی سیاحت فرماتے ہوئے، ہندوستان فتح پور سیکری تشریف لائے۔ یہاں خانقاہ تعمیر کرائی،
کنوئیں کھدوائے، اور تلقین و ارشاد میں مصروف ہوگئے۔ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ
نے 24 حج کیے تھے۔ جب آخری مرتبہ حج کےلیے تشریف لےگئے تو چار سال مکہ میں اور چار
سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ حج کے ایام مکے میں اور میلاد کے ایام مدینے میں گزارتے
تھے۔ (چشتی خانقاہیں اور سربراہان برصغیر:134)
سلاطین
سے تعلقات: علاوہ امراء کے سلاطین بھی آپ کے معتقد تھے۔ خواص خاں جو امرائے کبار میں
تھا، آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا، کئی بادشاہ آپ کے معتقد تھے۔ شیرشاہ، سلیم شاہ
(جہانگیر) اور اکبر آپ سے ارادت و عقیدت رکھتے تھے اور بہت خلوص، محبت اور عزت اور
تعظیم و تکریم سے آپ سے پیش آتے تھے۔
ایک
مرتبہ کا واقعہ ہےکہ آپ حجرے سے نماز کےلئے مسجد جارہے تھے، ایک فقیر کو دیکھا کہ
سو رہا تھا، آپ نے اس کو جگایا اور اس سے فرمایا۔ "فقیروں کو کسی سے لڑنا نہیں
چاہیے"۔ وہ فقیر یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اقرار کیا کہ واقعی وہ خواب میں لڑ رہا
تھا۔آپ نے فتح پور سیکری کے لوگوں سے شاہی عمارت تعمیر ہونے والی پندرہ سال قبل فرمایا
تھاکہ لوگوں کو چاہیےکہ مکانات کشادہ بنالیں، ورنہ پھر جگہ نہیں ملے گی۔
تاریخِ
وصال: آپ کا وصال 29/ رمضان المبارک 979ہجری مطابق ماہ فروری 1572ء کو ہوا۔ آپ علیہ الرحمہ کا
عالی شان مزار فتح پور سیکری میں مرجعِ خلائق ہے۔ (ماخذ و مراجع: تذکرہ اولیائے پاک
و ہند۔ اخبار الاخیار۔ چشتی خانقاہیں اور سربراہان بر صغیر/بشکریہ :کریم پاشاہ سہروردی
قادری حفظہ اللہ)
No comments:
Post a Comment