غازی سرکار حضرت سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ

اسم گرامی :

 سالار مسعود

القاب :

سلطان الشہدافی الہند،غازی سرکار،

والد محترم کا نام:

 حضرت سالار ساہو

والدہ ماجدہ کانام:

بی بی سترمعلیٰ

سلسلہ نسب :

آپ علیہ الرحمہ کاسلسلہ نسب بارہویں پشت میں حضرت سیدنا مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتا ہے اسی لئے آپ کو علوی سادات میں سے جانا جاتاہے۔آپ علیہ الرحمہ سلطان محمود غزنوی کے حقیقی بھانجے ہیں ۔

 ولادت باسعادت:

آپ علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 21/رجب المرجب 405/ہجری کو بوقت صبح صادق اجمیر شریف میں ہوئی اس وقت آپ کے والد ماجد حضرت سالار ساہو سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کی طرف سے اجمیر کے گورنر مقرر تھے (یہ حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری رضی اللہ عنہ کی ہندوستان آمدسے181برس پہلے کا زمانہ ہے) آپ علیہ الرحمہ کے والد سالار ساہو نے فرزندکی خوشی میں تین شبانہ روز جشن کا اہتمام فرمایا،تمام شہر اجمیرکو مزین و آراستہ کیا اور فقراء ومساکین کو زر و جواہر عطا کیا۔407 ہجری میں والئی قنوج کی سرکوبی کےلئے جب سلطان محمود نے ہندوستان کا سفر کیا اور اجمیر پہونچے تو پہلی بار پیارے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ کا دیدار کیا پھرقنوج پہونچ کراس پر فتح حاصل کی ۔جب واپس ہوئے تو سالار ساہو کو ہندوستان کےتمام مفتوحہ علاقوں کانگراں بنادیا جس کا صدر مقام اجمیر تھا ۔

تعلیم وتربیت :

جب آپ علیہ الرحمہ کی عمر مبارک چارسال چارماہ چار دن کی ہوئی تو رسم بسم اللہ خوانی اداکی گئی، والد بزرگوار نے سید ابراہیم بارہ ہزاروی علیہ الرحمہ کوآپ کا استاذ مقرر کیا اس موقع پرآپ کے والد علیہ الرحمہ نے استاذ مکرم کو چار گھوڑے اور بیش قیمت زر و جواہر بطور نذرانہ پیش کیا، استاذ محترم علیہ الرحمہ کے زیر سایہ آپ نے 9/سال میں ظاہری وباطنی علوم میں کمال حاصل کرلیا ۔ جب آپ علیہ الرحمہ دس برس کی عمرکے پہونچے تو عبادت وریاضت کا ذوق اس قدر پروان چڑھ چکاتھا کہ پوری رات عبادت الٰہی میں گذارتے اور دن میں تلاوت قرآن، ذکر و فکر اور درود خوانی میں مشغول رہتے تھے،نماز چاشت پابندی سے ادا فرماتے اورباقی اوقات لوگوں کو پندو نصیحت اوران کی دینی اصلاح میں صرف کرتےتھے۔

کاہیلر میں قیام:

جب کاہیلر میں بغاوت رونما ہوئی تو سلطان محمود کے حکم پر سالار ساہو علیہ الرحمہ فوج لے کر اجمیر سے کاہیلر روانہ ہوئے اوروہاں پہونچ کر باغیوں کی سرکوبی فرمائی چونکہ کاہیلر ہی میں مستقل قیام کاارادہ تھااس لئے بیوی سترمعلی اور بیٹے مسعود غازی علیہ الرحمہ بھی سالار ساہو کےحکم پر کاہیلر روانہ ہوئے ۔راستے میں آپ علیہ الرحمہ نے قصبہ راول میں قیام فرمایا جہاں شیوکن اور بشنوز میں دار نے آپ علیہ الرحمہ کو مٹھائی میں زہر ملا کر پیش کیا مگر آپ نے اپنی نگاہ ولایت سےاس خطرناک سازش کو پہچان لیا اور اسے کھانے سے گریز کیا نیز اپنے ساتھیوں کو بھی اسے کھانے سے منع کردیا۔ آپ علیہ الرحمہ نے شیوکن کی اس خطرناک سازش کی وجہ سےاس سے جدال فرمایا اوراسے شکست سے دوچار کیا یہ سب سے پہلی مہم تھی جسے آپ علیہ الرحمہ نے دس سال کی عمرمیں انجام دیا اور اس کےبعد آپ والد سالار ساہو کے پاس کاہیلر پہونچے۔سالار ساہو نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔

ہندوستان سے غزنی کاسفر:

خراسان کی مہم سے فارغ ہوکر سلطان محمود جب غزنی واپس ہوئے تو سالار ساہو اور مسعود غازی علیہ الرحمہ کو غزنی بلایا جہاں کچھ دن رہ کر سالار ساہو واپس کاہیلر لوٹ آئے مگر مسعود غازی غزنی ہی میں رہےاور415/ہجری میں جب سلطان محمود معرکہ سومناتھ کےلئے روانہ ہوئے تو مسعود غازی بھی آپ کےساتھ آئے اوراپنی جاں بازی کاثبوت دیا، فتح ونصرت کے بعد مسعود غازی بھی سلطان کےساتھ واپس غزنی تشریف لےگئے۔

غزنی سے تبلیغ اسلام کےلئے ہندوستان کاسفر:

سلطان محمود کا ایک وزیر خواجہ حسن تھا جسے حضرت سالار مسعود علیہ الرحمہ سے ان کی مقبولیت اور سلطان کےنزدیک قدرومنزلت کی بناء پر عداوت تھی اسی وجہ سےوہ انتظامی امورمیں بھی قصور کرتا تھا سلطان اس کے حسد سے واقف تھے لیکن وہ حکومت کےایک اہم منصب وزارت عظمیٰ پر مامور تھا اس لئے عجلت میں کوئی اقدام کرنے کے بجائے آپ نے سالار مسعود علیہ الرحمہ کو کاہیلر والدین کےپاس بھیجنے کاا رادہ کیا، آپ نے سالار مسعود علیہ الرحمہ سے فرمایاکہ خواجہ حسن تم سے جلن رکھتاہے اسی لئے ہمارے انتظام میں بھی قصور کرتاہے اس لئے مصلحت کی بناء پرکچھ دنوں کےلئے تم کاہیلر والدین کےپاس چلے جاؤ ۔حالات سازگار ہونے پرجلدہی واپس بلالوں گا اس پرآپ علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ میری تو خواہش ہے کہ آپ علیہ الرحمہ مجھے ہندوستان میں اشاعت اسلام کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ اس کفروشرک کی زمین پراللہ کانام بلند کرنے کاراستہ نکل سکے ، کم عمری کے پیش نظر سلطان نے اولاََ روکنا چاہا مگرآپ علیہ الرحمہ کےجذبہ وشوق کودیکھتے ہوئے کلیجے سےلگاکرتبلیغ اسلام کےلئے روانہ فرمایا، گیارہ ہزارجاں نثاربھی اس عظیم مہم میں آپ علیہ الرحمہ کےہمرکاب ہوگئے، مبلغین اسلام کایہ قافلہ کابل سےگذرتاہواجلال آبادکےراستے سے کاہیلرپہونچا جہاں سلطان محمودکی خواہش کےمطابق سالارساہونےبھی روکناچاہا مگرآپ کےسینےمیں اشاعت اسلام کاجذبہ بیکراں موجزن تھا اس لئے والدین کی محبت پاؤں کی زنجیر نہ بن سکی بالآخر سالار ساہونے اسلام کےاس عظیم مجاہد کو اپنی دعاؤں اور اپنے لشکرکےمنتخب افراد کے ہمراہ روانہ کردیا۔

حضور سیدنا سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ کاہیلر سے روانہ ہوکر نہایت ہی شان وشوکت کےساتھ دریائےسندھ کے کنارے پہونچے اورکشتیوں کےانتظام سےدریاپارفرمایا، راستےمیں شیوپوراورمقام اوچ کےراجاؤں کوشکست دےکرآپ نےاجودھن پاک پٹن پراسلامی پرچم لہرایاپھرسال بھرتک یہیں قیام فرمایا ۔

دہلی آمد:

اس وقت دہلی کا راجہ مہیپال رائے تھا جب آپ علیہ الرحمہ دہلی کےلئے روانہ ہوئے تو راجہ نے مسعود غازی علیہ الرحمہ کو حقیر جانتے ہوئے مقابلہ کےلئے ایک بھاری فوج روانہ کی آپ نے سب سے پہلے راجہ کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جسے اس نے ٹھکرادیا بعدمیں جنگ کی نوبت آئی جوایک ماہ سے زائد جاری رہی مگر کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا آپ نے بارگاہ خداوندی میں فتح ونصرت کی دعا مانگی جو قبولیت سے سرفراز ہوئی اور خواجہ حسن کی شرارت سے تنگ آکر غزنی سے سالارساہو الدین، محی الدین بختیار، میرعز الدین، ملک دولت شاہ اور سالار رجب ایک لشکر جرار لے کر آگئے جسے مسعود غازی علیہ الرحمہ نے تائید غیبی جانا اور راجہ پر دہشت طاری ہوگئی اس لشکر کے پہونچنے سے مجاہدین اسلام کو فتح وکامرانی حاصل ہوئی اور دہلی کا تخت حضور مسعود غازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں آگیا..آپ نے امیر بایزید جعفر کو حکومت کی باگ ڈور عطا فرمائی اور اگلی منزل کےلئےروانہ ہوئے.. اس جنگ میں میرعزالدین اورآپ کےبہت سےرفقاء نےجام شہادت نوش فرمایا اور آپ کےدو دانت بھی شہید ہوگئےتھے۔ اس جنگ کے بعدبہت سےراجاؤں نے خودبخود اطاعت قبول کی۔

سترکھ میں قیام:

مسعود غازی علیہ الرحمہ کا نورانی قافلہ میرٹھ اور قنوج ہوتے ہوئے بارہ بنکی کے قصبہ سترکھ پہونچا جہاں آپ نے قیام فرمایا اس وقت کٹرامانک پور کا راجہ دیونرائن تھا اسے مسلمانوں کے بڑھتے قدم دیکھ کر سخت ناگواری ہوئی اوراس نے مسلمانوں سے کہا کہ اِس ملک سے واپس چلے جاؤ ورنہ ہم طاقت استعمال کرکے واپس کریں گے حضور مسعود غازی علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ پوری روئے زمین اللہ کی ہےکوئی انسان اس کامالک نہیں، وہ جسے چاہتاہے ملک عطا کرتاہے ہمارا مقصد جنگ وجدال نہیں بلکہ تبلیغ اسلام ہے،اور اگر زبردستی جنگ مسلط کی جائےگی توہم بھی جوابی کارروائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سترکھ قیام کےدوران بھی آپ علیہ الرحمہ کوزہردےکرمارنےکی کوشش کی گئی لیکن اللہ نےاس سےآپ علیہ الرحمہ کو محفوظ رکھا، جب اس کی خبر جب والدہ مکرمہ بی بی سترمعلّٰی کوہوئی توانہیں سخت صدمہ لاحق ہوا اور اسی غم میں 421ہجری میں آپ وصال فرماگئیں اور جنازہ کاہیلر سے غزنی بھیج دیاگیاجہاں آپ علیہ الرحمہ کی تجہیز و تدفین عمل میں آئی اُدھر چند ایام بعدغزنی میں 421ہجری میں 63/ سال کی عمرمیں سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ کابھی وصال پرملال ہوگیا۔بی بی سترمعلّٰی کے انتقال کے بعد حضرت سالار ساہو بھی کاہیلر سے سترکھ چلے آئے۔اُدھر بہرائچ، سنبولہ اورکٹراومانک پور کے راجاؤں نےخفیہ طورپرجنگ کی تیاریاں کرلیں اس لئے باتفاق رائے یہ طے پایاکہ سالارساہو کٹراومانک پور اور سیف الدین سرخرو سالار بہرائچ کارخ کریں سالارساہو علیہ الرحمہ نےکٹراومانک پورپہونچ کراپنی جنگی مہارت سے اسےجلدہی فتح کرلیا اسی اثنا میں یہ خبر موصول ہوئی کہ راجاؤوں نے سیف الدین سرخروسالار کوبہرائچ میں گرفتارکرلیاہے جس سے مسعود غازی علیہ الرحمہ رنجیدہ ہوئے اورآپ بھی بہرائچ کےلئے روانہ ہوگئے۔

بہرائچ آمد:

شعبان 423ہجری میں حضور مسعود غازی علیہ الرحمہ اپنے والد محترم سے اجازت لےکر بہرائچ پہونچے جب راجاؤوں کوآپ کے آنے کی خبر ہوئی توانہوں سیف الدین سالار کو چھوڑدیا۔ آپ علیہ الرحمہ کے بہرائچ آنے کے دوماہ بعد سترکھ میں والد مکرم حضرت سالار ساہو کا وصال پرملال ہوگیا اورآپ علیہ الرحمہ کو سترکھ ہی میں دفن کیاگیا باپ کے انتقال کے غم نے آپ علیہ الرحمہ کو بےچین کردیا پھر بھی آپ علیہ الرحمہ کے پایہ ثبات میں کوئی کوئی لغزش نہ آئی بلکہ تبلیغ دین کے لئے جانفشانی کے ساتھ لگے رہے۔ مؤرخین کابیان ہے کہ موجودہ درگاہ شریف کے پاس ایک مہوہ کا درخت تھا جس کے نیچے آپ اکثر قیام فرمایا کرتے تھے۔ علیہ الرحمہ آپ فرما تےتھے کہ ہندوستان آنے کے بعد مجھے کہیں سکون نہیں ملا اس درخت کے نیچے سکون محسوس کرتاہوں۔ یہ آپ علیہ الرحمہ کی شہادت کی جانب غیبی اشارہ تھا۔آپ علیہ الرحمہ کے بہرائچ آمد کے بعد ہر طرف مخالفت کی ہوائیں چلنے لگیں، بہرائچ و قرب وجوار کے راجاؤں کو آپ علیہ الرحمہ کی اقامت سے سخت ناگواری ہوئی۔ انہوں نے آپ علیہ الرحمہ کو بھگانا چاہا اور کہاکہ اگر یہاں سےنہیں گئے تو لڑائی سے معاملہ طے ہوگا۔ آپ علیہ الرحمہ نے صلح کی بات رکھتے ہوئے فرمایا کہ چند روز بعد چلاجاؤں گا پھر بھی وہ نہ مانے یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئی ۔مخالفین نے دریائے بھکلہ پر پڑاؤ ڈالا جہاں دونوں فوجوں کے مابین جم کر مقابلہ ہوا اسلام کے شیروں نے اس قدر جواں مردی کامظاہرہ فرمایا کہ دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور ان کے کئی سردار بھی گرفتار ہوئے ۔ اس جنگ کے بعد تقریباََ ایک ہفتہ تک سرکار غازی نے یہیں قیام فرمایا مگر مخالفین میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ دوبارہ آپ علیہ الرحمہ کے سامنے آتے۔ اس شکشت سے تمام راجاؤں میں بے چینی پیدا ہوگئی تھی اوروہ دوبارہ جوش وخروش کےساتھ جنگ کی تیاری میں لگ گئے، راجا سہر دیو نے مشورہ دیا کہ اس بار میدان جنگ میں لوہے کی زھر آلود کیلیں بچھا دی جائیں اور بارودی گولے تیار کئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیاگیا اور بھکلہ ندی کے شمالی میدان میں دونوں فوجیں ایک بار پھر آمنے سامنے ہوئیں اس جنگ میں مختلف راجاؤں نے حصہ لیا جن میں شنکر، کرن، اجے پال، ہر کرن، نرائن وغیرہ کےنام شامل ہیں اس بار بھی کوششوں کےباوجود دشمنوں کو شکشت کا منہ دیکھنا پڑا اور نصرت الٰہی نے مجاہدین اسلام کو فتح مبین کا مژدہ سنایا اس جنگ میں سرکار غازی کے ایک تہائ احباب نے جام شہادت نوش فرمایا۔

 دوبارہ شکشت کے بعد ہندوؤں کے مذہبی لیڈروں نے دھرم رکشا کے نام پر لوگوں کو ابھارنا شروع کیا، سورج دیوتا کے نام پر پورے شمالی ہندوستان میں نفرت کی آگ لگادی گئی اورلوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کیاگیا۔ ہمالیہ کے دامن سے لیکر گھا گھر اندی تک دشمنوں کا ٹڈی دل لشکر مقابلے کے تیار ہوگیا۔ اُدھر مسعود غازی علیہ الرحمہ بھی اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ میدان میں جلوہ بار ہوئے۔ جنگ کا نقارہ بجتے ہی تمام متوالے شوق شہادت میں چل دئیے، جنگ جاری ہوئی کئی روز تک آپ علیہ الرحمہ اورآپ کے رفقاء دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے مگر اتنی کثیر فوج سے کب تک مقابلہ کرتے،مجاہدین اسلام جام شہادت سے سرفراز ہورہے تھے جب اکثر جاں نثار شہید ہوگئے اورحضرت سیف الدین سرخرو سالار علیہ الرحمہ بھی بہت سے دشمنوں کو انجام تک پہونچا کر جام شہادت سے سرفراز ہوئے تو صرف چند دیوانے آپ علیہ الرحمہ کےساتھ باقی بچے جو دشمنوں کے تیر آپ سے روک رہےتھے۔ دشمنوں نے موقع غنیمت دیکھ کر آپ علیہ الرحمہ پر تیروں کی بارش شروع کردی جس سے آپ علیہ الرحمہ کا جسم پاک لہولہان ہوگیا۔

شہادت عظمیٰ :

آپ علیہ الرحمہ اپنی محبوب سواری اسپ نیلی پر خون میں شرابور سوار تھے اس کے باوجود جدھر رخ فرماتے دشمن لرزہ براندام ہوجاتے ۔ اسی درمیان دشمنوں کے سردار سہردیو نے ٹیلوں کی آڑلیتے ہوئے بہت نزدیک آکر ایسا تیر مارا جو آپ علیہ الرحمہ کے گلوئے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ تیر لگتے ہی آپ علیہ الرحمہ کا توازن سواری پر قائم نہ رہ سکا، غشی طاری ہوئی قریب تھاکہ آپ علیہ الرحمہ گھوڑے سے نیچے آجاتے مگر آپ علیہ الرحمہ کے سچے عاشق سکندر دیوانہ نے آپ علیہ الرحمہ کو سنبھالا اور سور ج کھنڈ کے نیچے مہوہ کے درخت کے نیچے لٹایا اس وقت آپ علیہ الرحمہ کے ہونٹوں پرتبسم کھیل رہاتھا اور زبان مبارک پر کلمہ طیبہ جاری تھا، بالآخر 14رجب المرجب 424 ہجری مطابق 10 جولائی 1033عیسوی کو عصر ومغرب کے درمیانی وقت آپ علیہ الرحمہ نے جام شہادت نوش فرمایااور اس دار فانی کو خیر آباد کہا۔

روحانی مقام:

حضرت سلطان الشہداء کا مزار پر انوار مرجع خاص وعام ہے لطائف اشرفی اور حیات سید اشرف جہانگیر علیہ الرحمہ کےحوالے یہ بات ثابت ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ مسعود غازی علیہ الرحمہ کے آستانے پردن میں 70/بار حضرت خضر علیہ السلام سےمیری ملاقات ہوئی آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ حضرت خضر سے جتنی ملاقاتیں بہرائچ میں ہوئیں روئے زمین پر کہیں نہیں ہوئیں۔

مرأۃ الاسرارمیں تاریخ مرأۃ سکندری کے حوالےسے حضرت شاہ محبوب عالم گجراتی قدس سرہ کایہ فرمان مرقوم ہے کہ جب اکثرلوگ اپنی حاجات سلطان الہندخواجہ خواجگاں عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کرتےہیں حضرت خواجہ ان کو سالار مسعود غازی کی روحانیت کے حوالہ کرکےخودآزادہوجاتےہیں۔ (مرأۃ الاسراص 440/مضمون غزانامہ مسعود/ مرأۃ مسعودی، مرأۃ الاسرار/تاریخ سیدسالارمسعودغازی/ انوارمسعودی/ بشکریہ : کریم پشاہ سہروردی قادری حفظہ اللہ )

No comments:

Post a Comment