خداوند بزرگ
وبرتررحمن ورحیم کا ہم ناتواں پہ کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نے ہمیں دولت ِ ایمان
اوردامن نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسی نعمت سے نوازا ۔ اللہ رب العزت جل جلالہ
نے انسان کی بھلائی کے لئے انبیاء و رسل
کو مبعوث فرمایا ۔ ان پاکیزہ ہستیوں نے انسان کو خلائق لم یزل کی اطاعت
وفرمابرداری کی دعوت دی ۔ انبیاء ورسل کی تشریف آوری کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور
خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ختم ہوگیا ۔ پھر دعوت اسلام کا کام
امت محمد ی کے ذ مے آگیا ۔ مصطفوی پیغام کو عام کرنے کے لئے اللہ نے یکے بعد دیگر حضور
پرنورغو ث الاعظم محبوب سبحانی الشیخ محی
الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اللہ عنہ جیسی عظیم ہستی
کو پیدا فرمائی جن کی فیض کا جھلک الملك الناصر
ابو المظفر صلاح الدين والدنيا يوسف بن ايوب بن شاذی بن مروان بن يعقوب
الدُوينی التكريتی (532-589ہجری ،1138-1193 عیسوی) ہیں۔
حیات
المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ میں نقل کیا گیا ہے کہ نائب مصطفے تاجداربغداد
پیر لاثانی، قطب ربانی محبوب سبحانی سیدنا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اپنے چند مریدین کے ساتھ عراق کے کردستان علاقہ
میں تشریف لے گئے۔ یہ پوری بستی کئی لاکھ افراد پر مشتمل تھی اور ان کا مذہب
عیسائیت تھا ۔ طبیعت کے لحاظ سے بہت سخت قوم تھی ۔ اسلام کا پیغام آنے کے باوجود
سینکڑوں برس گزر جانے کے بعد اس قوم کے لوگ عیسائیت پر قائم تھے۔ آپ نے ان کے مرکز
میں پہونچ کر ان کے بڑے بڑے سرداران قبائل کو دین اسلام کی دعوت دی۔ آپ کی اس دعوت
اسلام پر ان کاایک پادری سامنے آیا اور وہ اس قوم کا بہت بڑا عالم مانا جاتا تھا ۔
وہ کچھ عرصہ بغداد شریف اور مصر میں بھی رہ چکا تھا ۔اس نے مسلمان علمائے کرام سے
کچھ حدیثیں بھی سن رکھی تھی ۔ آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگاکہ کیا آپ کےنبی(صلی اللہ
علیہ والہ و اصحابہ وسلم) کا یہ فرمان ہے:
علماء امتی
کانبیاء بنی اسرائیل ترجمہ: میر ی امت
کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہوں گے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا تم کو اس میں کوئی
شک ہے؟
وہ
پادری کہنے لگا:حضرت عیسیٰ روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلواۃ والسلام جو اللہ
تعالیٰ کے پیغمبر تھے ۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ دیا تھا کہ وہ ٹھوکر سے
مردہ کو زندہ کردیتے تھے۔ اب اس حدیث کی
رو سے آپ کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ و
اصحابہ وسلم) کی امت کے علمائے کرام میں سے آپ ہیں۔ لہذا بنی اسرائیل کے پیغمبروں
کی طرح ہوئے ۔ وہ تو ٹھوکر سے مردہ زندہ کردیتے تھے تو ہم تو جب جانیں کہ آپ بھی
مردہ کو زندہ کرکے دکھائیں۔
آپ نے
ارشاد فرمایا : بلاشبہ ہمارے آقا سرور کائنات (صلی اللہ علیہ والہ و اصحابہ وسلم)
کی امت کے علمائے ربانیین یعنی اولیا ء اللہ کی شان یہی ہے ،۔ یہ تو کوئی مشکل بات
نہیں ۔ تم کون سے مردے کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو؟
چنانچہ
قریب ہی ایک قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس مردہ کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔
آپ اس قبر کے قریب تشریف لے گئے اور آپ نے اس قبر کو ٹھوکر مارتے ہوئے ارشاد
فرمایا :
قم باذن
اللہ ۔ "اللہ کے حکم سے اٹھ"!
قبر شق
ہوگئی اور اس میں سے ایک شخص باہر نکلا اور نکلتے ہی سلام کیا اور پوچھا کیا قیامت
ہوگئی ؟
سیدنا
غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نہیں ابھی قیامت نہیں ہوئی بلکہ تمہیں اٹھایا
گیا ہے ۔ تم اپنے بارے میں بتاؤ۔
اس نے
کہا : میں حضرت دانیال علیہ السلام کا امتی ہوں اور میں ان کے ماننےوالوں میں سے
تھا ۔ میراحال اچھا ہےاور اس دین اسلا م ہی برحق ہے اور فلاح و کامرانی اورنجات کا
دارومداراسی دین کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
سرکارغوث
الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اب تم واپس جاؤ، تمہیں قیامت میں پھر اٹھایا جائے
گا۔ یہ عظیم کرامت دیکھ کر وہاں موجود تمام کردوں نے اور اس عالم نے اسلام قبول
کرلیا اور اس طرح کرد قبائل نوراسلام سے منور ہوگئے۔ پھریہ لوگ اسلامی لشکر میں
شامل ہوگئے ۔
مصنف حیات
المعظم علیہ الرحمہ مزید آگے فرماتے ہیں
کہ " اس کے بعد اس قوم میں سے ایسے مجاہدین پیداہوئے جنہوں نے اسلام کے لئے
بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں ۔ ان میں سے ایک فاتح ، مجاہد اسلام حضرت سلطان صلاح
الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کرد قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد بھی
اسی دوران اپنی برادری کے ساتھ مسلمان ہوکر حضور غوث الاعظم سے بیعت ہوئے تھے اور بعد میں ملک شام کے زنگی
سلاطین کے بہت بڑے فوجی جرنیل بنے۔
(حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ صفحہ 152- 154)
کچھ
دنوں بعد حضرت نجم الدین ایوب کو تکریت کی گورنر ی ملی۔ولایہ "تکریت" کے
گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ہونے تک شادی سے انکار کر تے رہے۔
ایک دن
اس کے بھائی اسد الدین شیر کوہ نے ان سے کہا : بھائی تم شادی کیوں نہیں کرتے؟
نجم
الدین نے کہا : میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتا۔
اسد الدین نے کہا: میں آپ کے لیے رشتہ مانگوں؟
نجم الدین نے کہا : کس کا؟
اسد الدین: ملک شاہ بنت سلطان محمد بن ملک شاہ
سلجوقی سلطان کی بیٹی کا یا وزیر الملک کی بیٹی کا۔
نجم الدین: وہ میرے لائق نہیں۔
اسد الدین حیرانگی سے : پھر کون تیرے لائق ہو
گی؟
نجم الدین نے جواب دیا: مجھے ایسی نیک بیوی
چاہیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر جنت لے جائے اور اس سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو جس
کی وہ بہترین تربیت کرے جو شہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لے۔ اسد الدین
کو نجم الدین کی بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے کہا : ایسی تجھے کہاں ملے گی ؟
نجم
الدین نے کہا : نیت میں اخلاص ہو تو اللہ نصیب کرے گا۔
ایک دن نجم الدین مسجد میں تکریت کے ایک شیخ کے
پاس بیٹھے ہوئے تھے،ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی، شیخ نے
لڑکی سے بات کرنے کے لیے نجم الدین سے معذرت کی ۔ نجم الدین سنتا رہا کہ شیخ لڑکی سے کیا کہہ رہے ہیں؟
شیخ نے
لڑکی سے کہا کہ تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کیا جس کو میں نے بھیجا تھا؟
لڑکی نے کہا : اے شیخ وہ ہمارے مفتی لڑکا واقعی خوبصورت اور رتبے
والا تھا مگر میرے لائق نہیں تھا۔
شیخ نے کہا : تم کیا چاہتی ہو؟
لڑکی نے
کہا : شیخ مجھے ایسا لڑکا چاہیے جو میرا
ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت لے جائے اور اللہ اس سے مجھے ایسا بیٹا دے جو شہسوار ہو اور
مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لےلے۔
حضرت نجم الدین ایوب حیران رہ گئے کیونکہ جو وہ سوچتے
تھے وہ لڑکی بھی وہی سوچتی ہے۔
حضرت نجم
الدین ایوب جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی
بیٹیوں کا رشتہ ٹھکرایا تھا۔
شیخ سے کہا : شیخ اس لڑکی سے میری شادی کرادیں۔
شیخ نے
کہا : یہ اس محلے کے سب سے فقیر گھرانے کی لڑکی ہے۔
نجم الدین نے کہا : میں یہی چاہتا ہوں۔ نجم
الدین نے اس فقیر مگر متقی لڑکی سے شادی کر لی اور اسی سے وہ شہسوار پیدا ہوا جن
کو دنیا سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment