عظیم جنگی
کارنامے
یہاں
کچھ اور بھی عظیم کارنامے ہیں جنہیں سلطان علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کے آخری
برسوں کے دوران سرانجام دیا اور شاید چھ برس سے زائد نہ ہوں گےاور یہ مختلف النوع
کامیابیوں سے بھر پو ر ہیں اور وہ یہ ہیں :فتح بیت المقدس ، حماۃ، بعلبک،قلعہ
عزاز،قلعہ البیرہ، قلعہ شقیف، بیسان، رُہا، حران، رقہ، بلادخاربور، بزریہ، قلعہ
طرطوس ، دربساک، نفراس، انطاکیہ، قلعہ کوکب،عسقلان، بکاس، شغر، سرمین،نصیبین، تل
خالد،عتناب، طبریہ ، الناصرۃ، ارسوف، ہونین، جبلہ ، انطرطوس، الاذقیہ، حص، عنصری،
حصن الغازریہ، البرج الاحمر، حصن الخلیل،تل الصافیہ، قلعہ الحبیب الفوقانی، الحبیب
التحتانی، الحصن الاحمر، لد، قلنوسہ، القاقون، قیمون، الکرک، حلب، قلعہ حارم،
میارفارقین، قلعہ الشوبک، قلعہ السلع، الوعیرۃ، قلعہ الجمع، قلعہ الطفیلہ،طبریہ،
عکا، قلعہ الھرمز، صفد، حصن بازو، حصن اسکندرونہ صور اور عکاکے ما بین، قلعہ ابی
الحسن، بالائی ساحل پر ایک شہر، المرقید، حصن یحمور (جبلہ اور مرقب کے مابین) ،
بلنیاس ، محیون، بلانس، حص الجماہریہ، قلعہ ایسذو ، بکسرائیل، انسرمانیہ، قلعہ
برزیہ، طبریہ ، دربساک (انطاکیہ کے قریب)،
حیفا، نابلس، تنین ، صیدام بفراس (ارض بیروت میں) الدامور (صیدا کے
نزدیک)، السوفند اس کے علاوہ اور بھی ہیں
جنکے نام کچھ کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔
( تاریخ ابن خلدون، ایوبی کی یلغاریں صفحہ 79)
حضرت
سلطان ایوبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ ساحل
کے بقیہ علاقے اللہ تعالیٰ کب فتح کروائے گا!!! میں جب پورے ملک میں بنظر غائر
دیکھتاہوں تو دل میں یہ بات اٹھتی ہے کہ لوگوں کو خیرباد کہوں ..... گھنے جنگلوں
تک پہونچوں.....سمندر کی پشت پر سوار ہوکر .....ایک ایک جزیرہ تک پہونچوں
.....زمین کا ایک ایک چپہ تلاش کروں ..... روئے زمین پر اللہ تعالیٰ اور اس کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی کرنے والوں کو زندہ باقی نہ رکھوں .....
یا پھر میں خود شہید ہوجاؤں۔
وصال پرملال
جہاد کی
پر مشقت زندگی اورمسلسل بے آرامی نے سلطان کو مریض بنادیا تھا ، مرض کی شدت میں رمضان کے کئی روزے قضا ہوگئے مگر جہاد نہ چھوٹا،
اب جو موقع ملا توقضا روزے ادا کرنا شروع کردیئے ، معالج نے ان کی تکلیف کا لحاظ کرتے
ہوئے اس سے منع کیا مگر سلطان نےاس اتفاق نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ " معلوم
نہیں آئندہ کیا ہو، چنانچہ وہ مسلسل روزے رکھتے رہے اور اپنی قضا کا پورا کفارہ
کردیا ۔اسی قیام میں شہر پناہ کی مرمت کروائی ، خندق کھدوائی، نئے اوقاف قائم کیے
اور پھر بیت المقدس کا نظام امیرعزالدین جرء کے سپر د کرکے دمشق روانہ ہوگئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس سال سلطان نے اپنی کمزوری اور نقاہت کے باوجود دمشق سے باہر
آکر حج حرمین الشریفین سے لوٹنے والوں کا گرم جوشی اور پرتپاک انداز سے استقبال
کیا ۔ وہ اگلے سال خود بھی حج پاجانے کا ارادہ رکھتے تھےلیکن وسط صفر المظفر میں
مرض شدت اختیار کرگیا اور وصال سے تین روز قبل غشی کی سی حالت طاری ہوگئی، معلوم
ہوتاتھاکہ بیس سال کا تھکاماندہ مجاہد تکان اتار رہا ہے 27 صفر المظفر 589ہجری کی
صبح کا ستارہ افق نمودار ہوا تو سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کی نبضیں ڈوب
رہی تھیں ۔حضرت شیخ ابوجعفرعلیہ الرحمہ نے سکرات موت کے آثار محسوس کرکے سورۃ حشر
کی تلاوت شروع کی جب آیت ھواللہ لا الہ الا ھو عالم ال پر پہونچے تویکایک سلطان نے آنکھیں کھول دیں مسکرائے اور تبسم ریز
لہجےمیں کہا "سچ ہے"یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں ۔
شیخ
ضیاء الدین ابوالقاسم عبدالمالک نے غسل دیا اور قلعہ کے باغ کی بارہ دری میں عصر
کے وقت اسی مقام دفن کردیا ۔جہاں انہوں نے انتقال فرمایا تھا ، جوتلوار جہادوں میں
ان کے زیب کمرتھی ان کے برابر میں رکھ دی گئی اور اسے وہ جنت میں اپنے ساتھ لے گیا
۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت سلطان صلاح الدین
ایوبی علیہ الرحمہ فاتح
بیت المقدس، فلسطین، شام ، یمن ، لبنان ،
اردن، عراق، مصر ،حجاز ،بصریٰ ،دمشق ،حمص کا جب وصال ہوا تو ان کے کفن کےلئے قرض
حاصل کرکے ان کی تدفین کا انتظام کیا گیا حتی کہ اور لکڑیاں تک جو قبر میں لگیں
قرض پر منگوائی گئیں۔ان کی وصال کے بعد جب ذاتی مال و ملکیت کا حساب کیا گیا تو
ایک گھوڑا، ایک تلوار، ایک زرہ ، اور 36 چھتیس درہم کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔ آپ شدید خواہش کے
باوجود حج نہ کرسکے کیونکہ کے حج کے لئے رقم نہ تھی۔
لوگوں
ہر اس قدر ہجوم الم تھا کہ ان کی زبانیں گنگ ہوگئی تھی ۔ دبن کے بعدہر شخص گھر چلا
گیا اور ماتم میں مکان کے دروازے بند کرکے بیٹھ رہا ۔ صرف خاموشی اور سنسان سڑکیں
بتاتی تھیں کہ لوگوں پر کس قدر عظیم صدمہ گزراہے ۔
B
طبیب عبداللطیف نے لکھا ہے کہ " اس کے
علم میں صرف اسی ایک سلطان کی نظیر ہے ۔جس کے لئے واقعی رعایا نے ماتم کیا
"۔
B
مورخ ابن خلکان کے مطابق ”ان کی وفات کا دن
اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی
موت کے بعد کبھی نہیں آیا“ ۔
B
سلطان العادل حضرت نورالدین زنگی الحنفی علیہ
الرحمہ اپنے دورحیات میں فرمایا کرتے تھےکہ اسلام کو ہر دور میں ایک صلاح الدین
ایوبی (علیہ الرحمہ) کی
ضرورت ہوگی ۔
B
انگریز مؤرخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی
تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ”اس کے ہمعصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔
بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور انہوں نے عوام سے محبت
اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔
B
مشہورمؤر خ ولیم آف ٹائر نے سلطان کی شان میں
کہا ہے کہ بے مثال ذہانت کاحامل ، دوران جنگ ایک برق رفتار وجود اور انسان کی توقع
سے بھی زیادہ شریف اورکریم النفس۔
B
مشہور انگریزداں دانتے نے کہا ہے صلاح الدین
کی ذات ایسی منفرد اور عظیم الشان ہے کہ جس کو دیکھ کر میں بھی اپنے انسان ہونے کو
فخر کرسکتاہوں۔
اللہ
عزوجل کی سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ پر کروڑہا کروڑرحمتیں نازل ہو اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ
واصحابہ و سلم کے وسیلے سے اسلام کو پھر ایسے حکمران عطا کرے۔ جن میں ایسا جذبہ
جہاد ہو۔ جومسلمانوں پر ہونے والے ہرظلم وستم کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔
No comments:
Post a Comment