Sultan Salah Uddin Ayyubi AL- Shafa'I Qist 13


صلاح الدین کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ایک دفعہ حاکم مدینہ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک تحفہ بھیجا۔لانے والے نے کہا کہ حاکم مدینہ نے آپ کے لئے ایک ایسا خاص تحفہ بھیجا ہے جو آج تک شائد آپ کو کسی نے نہ دیا ہو۔ سلطان نے جب اس تحفے کے لحاف کو کھولا تو اس میں کھجور کے پتوں کا بنا ہواایک پنکھا تھا۔ سلطان نے لانے والے سے پوچھاکہ  اس میں کیا خاص بات ہے؟
 جو تم لوگ اتنی دور سے میرے لئے یہ پنکھا لے کر آئے ہو۔
تحفہ لانے والوں نے کہا کہ  حضور اتنی جلدی نہ کیجئے ۔ ذرا اس کے دوسری طرف کی عبارت پڑھ لیجئے۔ سلطان نے پنکھے کو جب دوسری طرف الٹا تو اس پر لکھا تھا۔ کہ" یہ پنکھا حاکم مدینہ کی طرف سے سلطان کے لئے ایک خاص تحفہ ہے جو کہ اس کھجور کے پتوں سے بنایا گیا ہے جوبالکل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کے ساتھ متصل ہے۔"
سلطان نے جب یہ پڑھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے۔اور پنکھے کو چوم کراپنے سر پر رکھا اور درود شریف پڑھ کر کہنے لگا۔ کہ واقعی اس سے پہلے آج تک کسی نے مجھے ایسا تحفہ نہیں دیا۔


فتح بیت المقدس
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 90 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔
 یاد رہے کہ جب صلیبی فوج نے بیت المقدس شریف مسلمانوں سے چھینا تھا تو اس موقع پر بیت المقدس شریف میں تقریباً ایک لاکھ مسلمانوں کو ذبح کیا گیا تھا ۔ تمام بڑےبڑے مغربی مؤرخ کہ جنہوں نے صلیبی جنگوں کی تاریخ ہے خود شرمندگی سے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ تاریخ انسانی میں اس سے زیادہ درندگی ، دہشت گردی ، قتل عام وخونریزی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی کہ جیسی اس جنونی صلیبی فوج نے بیت المقدس میں بے گناہ اورنہتے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی ۔ مسجدعمر میں مسلمانوں کا خون گھوڑوں کے گھٹنے تک پہونچ آیا ۔ بیت المقدس کے اندر مسجد اقصیٰ کے صحن میں ستر ہزار مسلمان ذبح کئے گئے جن میں علماء،  مشائخ، زہاد، مہاجرین اور رؤسا تھے ۔ چالیس قندیلیں کلاں نقرئی ( ہر ایک کا وزن تین ہزار چھ سو درہم مطابق وزن رائج الوقت بیس بیس سیر کا تھا) ایک سو پچاس قندیلیں خوردنقرئی، ایک تنورنقرئی وزنی چالیس رطل شامی(مطابق وزن رائج الوقت ایک من) اور ان کے علاوہ بہت سامال واسباب جوکہ حدود شمار تھا لوٹ لیا۔ ( تاریخ ابن خلدون حصہ ہفتم صفحہ57)
          اس کے علاوہ تاریخ کی  اور کتابوں میں ایسے اور بھی سینکڑوں واقعات موجود ہیں کہ جن کو بیان کرتے انسانی روح کانپ جاتی ہیں۔ ایک یورپی مؤرخ خود بھی اس کو بیان کرتے ہوئے شرمندہ ہوجاتے ہیں کہ صرف ایک ہفتے میں ایک لاکھ مسلمان بیت المقدس میں ذبح کئے گئے ۔ مسجداقصیٰ میں دس ہزار مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ۔ جب یورپی بادشاہ کو فتح کی اطلاع دی گئی تو خط میں یہ تحریر کیا گیا کہ مسلمانوں کا خون ہمارے گھوڑوں کے گھٹنوں تک آپہونچاہے۔ مسجد عمر کہ جہاں امیر المؤمنین نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد پہلی نمازادا کی تھی ،میں مسلمانوں کے لاشوں کے ٹکڑوں اور جمے ہوئے خون کی وجہ سے طویل عرصے تک داخل نہ ہوسکا۔ مسلمان بچوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر دیواروں پر اور صلیبوں پر  پٹخا جاتا ۔ عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو بڑی بڑی عمارتوں کے برجوں سے نیچے گرایا جا تا یا آگ میں زندہ جلایا جاتا  حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک  کئے گئے ، علماء کرام اور مشائخ عظام کو تیل چھڑک کر جلادیا گیا ۔دنیا کا کوئی ایسا ظلم نہیں تھا کہ جوان صلبیوں نے عیسائیت کے نام پر مسلمانوں سے روانہ رکھا ہو۔ مسلمانوں کے گروہوں کو کمروں میں بند کرکے آگ لگادی جاتی ۔ یعنی ظلم اور جبر بھی یہاں ایک چھوٹا لفظ ہے ، یہ درندگی کا وہ شیطانی کھیل تھاکہ جو پوپ کے حکم اور اجازت سے برپا کیا جارہا تھا ۔
حضرت شیخ سعدی شیزاری علیہ الرحمہ نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لوگ صلیبی راستوں میں اور مکانوں کی چھتوں پر دوڑ رہے تھے اور اس شیرنی کی طرح جس کے بچے چھین لے گئے ہوں  اور صلیبی قتل عام کے مزے لے رہے تھے  کسی متنفس کو بھی نہ چھورے ، جلد فراغت حاصل کرنے کی غرض سے ایک ہی رسی میں کئی کئی آدمیوں کو لٹکادیتے تھے۔
ایک عینی شاہد ریمانڈواژیل پوئی کے تیس بیان کریتا ہے کہ " بیت المقدس کے راستوں اور ہرجگہ پر سروں ہاتھوں اور رانوں کے انبار لگے ہوئے تھےاور لاشوں پر سے چلنا پڑتا تھا، ہیکل سلیمانی ، مسجد عمر میں اس قدر خون بھرا تھا کہ اس کے صحن میں لاشیں تیرتی پھرتی تھیں، کسی کا ہاتھ کسی کا پیر بے جوڑ اس طرح سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے کہ انہیں پہچاننا مشکل تھا ۔ صلیبوں نے اس قتل عام کو ناکافی سمجھ کر ایک محفل منعقد کی جس میں قرار پایا کہ کل  تمام باشندان بیت المقدس کو تہ تیغ کردیا جائے ،یہ قتل عام کا بازار باوجود حامیان دین عیسوی کی مستعدی کے آٹھ روز تک گرم رہا ، عورتیں بچے ، بوڑھے سب مارے گئے ، کوئی متنفس زندہ نہ رہا۔
اب نوے سال کے بعد بیت المقدس حضرت سلطان  علیہ الرحمہ نے حاصل کرلی اور سلطان نے قسم کھا رکھی تھی  کہ صلیبیوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ نوے سے قبل کیا تھا ۔ اس مجاہد کا ایک جلالی فیصلہ تھا لیکن جلد ہی انہوں نے اپنےجلال پر قابو پالیا اور جب صلیبیوں نے ان سے امن معاہدے کی درخواست کی تو حضرت سلطان علیہ الرحمہ نے بھی فتح مکہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے عام معافی کااعلان کردیا ، اس سے پہلے صلیبیوں  کے دماغ میں یہ خناس بھی موجود تھا کہ بیت المقدس  کو مسلمانوں کے حوالے کرنے سے پہلے مسجد اقصیٰ کو شہید کردیا جائے اور گنبدصخرہ  کو بھی تباہ کردیا جائے ، سلطان نے انہیں تنبیہ کی کہ ایسانہ کرنا ورنہ تمہارے ساتھ براسلوک کیا جائے گا۔ اس کے بعد اتنی آسان شرائط کے پر ان صلیبیوں کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ آج کی متعصب مغربی دنیا بھی اس بات پر مجبور ہے کہ وہ سلطا ن کے کردار کی تعریف کرے۔
اب ذرا معاہدہ امن کی شرائط بھی دیکھ لیجئے ۔ یہ شرائط اس قدر ناقابل یقین ہیں کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال صرف مسلمان ہی دے سکتے ہیں ۔
B   بیت المقدس کے تمام صلیبی اورعیسائی قیدیوں کو امان دے دی گئی۔حتی کہ ٹمپلز اور پاسپٹلز نائٹس کو بھی اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی تمام تر دولت لیکر یہاں سے نکل جائیں۔
B   چرچ اور پادریوں کو اجازت تھی کہ چرچ کی تمام دولت اپنے ساتھ لے جاسکیں۔
B   ہر مرد اور عورت کو صرف ایک معمولی سا فدیہ اداکرکے رہائی کی اجازت دے دی گئی بلکہ ان تمام خاندانوں کو بھی حفاظت کے ساتھ سمند ر تک کہ جہاں اب بھی ایک آدھ عیسائی قلعہ موجودتھا پہونچانے کے لئے مسلمان فوج خود ان قیدیوں کے ساتھ گئے۔
B   ان میں سے تقریباً دس ہزار لوگ ایسے تھے کہ جو اپنا فدیہ اداکرنے کے قابل نہیں تھے ان کا فدیہ خود سلطان نے اپنی جیب سے ادا کیا۔
B   ایسی کئی سو عورتیں سلطا ن کے پاس آئیں کہ ہمیں آپ نے جانے کی اجازت تودے دی ہے لیکن ہمارے مرد آپ کے پاس جنگی قیدی ہیں( یہ لوگ حطین اوردوسری لڑائیوں میں قید ہوئے تھے)، ہم اپنے مردوں کے بغیر تباہ ہوجائیں گی،ہم پر رحم کریں اورہمارے مرد ہمیں واپس کردیں۔ ان کی آہ وازی دیکھ کر سلطان روپڑےاور فوج میں ان تمام مردوں کوبلایا گیا کہ جو مسلمانوں کے قید میں تھے۔انہیں عزت کے ساتھ خرچ دے کر ان کے بچوں اور بیویوں کے ساتھ عیسائی اکثریتی علاقوں کی جانب رخصت کردیا گیا ۔
B   اسی طرح سلطان کے بھائی نے بھی کئی ہزارقیدیوں کا فدیہ ادا کیا ۔ ان میں تقریباً چالیس ہزار کے قریب ایسے قیدی بھی تھے جو بغیر فدیہ کے آزاد کردیئے گئے۔ کیا دنیا کی تاریخ اتنے اعلیٰ اخلاق کی کوئی مثال بھی پیش کر سکتی ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد جو عام معافی دی وہ محدود نہیں رہی بلکہ ہر آنے والے دور میں ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بعد میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئےایسی ہی  شاندارمثالیں قائم کیں ہیں۔ تاریخ انسانی اٹھاکر دیکھ لیں کہ جب بھی ہمارے دشمنوں نے ہمارے شہر فتح کیا تو انہوں نے مسلمانوں کوسخت نقصان پہونچایا ، مگر مسلمانوں نے اپنے دشمنوں سے ہمیشہ احسان کا معاملہ رکھا۔

No comments:

Post a Comment