حسن سلوک
حضرت
سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے لڑائیوں میں عیسائیوں کے ساتھ اتنااچھا
سلوک کیا کہ عیسائی آج بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔ایک دفعہ جنگ کے دوران ایک
عیسائی عورت اپنے لشکر سے نکل کر روتی
پیٹتی مسلمانوں کے لشکر کی طرف آگئی۔ مسلمان سپاہیوں نے اسے پکڑ کرحضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کیا ۔ حضرت سلطان علیہ الرحمہ نے
اس سے بڑی شفقت سے پیش آئے اور رونے کی وجہ دریافت کی ۔ اس پر وہ عورت بولی کہ
"رات میرے بچے کو کوئی پکڑ کر لے گیا ہے ۔ جب میں اپنے بادشاہ کے پاس گئی تو
اس نے مجھے مشورہ دیا کہ تم مسلمانوں کے بادشاہ کے پاس جاؤ۔ وہ بہت رحمدل اور
خداترس انسان ہے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ۔خدا کے واسطے میری مدد کرو۔ میں
تمہارے پاس فریاد لے کر آئی ہوں "۔
اس عورت
کی آہ و بکا دیکھی نہیں جارہی تھی ۔ اس کی حالت دیکھ کر خود حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ بھی
آبدیدہ ہوگئے اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ چاروں طرف پھیل جاؤ اور اس عورت کا بچہ تلاش کرو۔
پھر
تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خود سلطان علیہ الرحمہ نے اپنے ہاتھوں سے اس بچے کو
اس عورت کے حوالے کیا اور اس کو زادِ راہ دے کر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کرنے کا
حکم صادر فرمایا ۔ وہ عورت شدت جذبات سے رونے لگی اور دیکھنے والوں نے یہ بھی
دیکھا کہ خود مسلمانوں کا سلطان بھی اس کے ساتھ آبدیدہ تھا ۔ یہ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی
غیرمعمولی رحم دلی، شفقت اور ان کے وجود میں روحانیت کی واضح دلیل ہے ۔ یہ ان کی
انسان دوستی کی ایسی مثال ہے کہ جس کی بدولت ان کے بدترین دشمن بھی مجبور ہیں کہ
ان کی شان میں آج تک تعریفی کلمات ادا
کرتے ہیں۔
ایک جنگ
کے دوران رچرڈ بادشاہ کا گھوڑا مارا گیا ۔
حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ
علیہ کی غیرت نے اس بات کو گورا نہیں کیا کہ وہ اپنی فوج کی قیادت گھوڑے میں بیٹھ
کر کریں اور اور ان کا دشمن بادشاہ زمین پر پیدل کھڑا ہو۔ حضرت سلطان علیہ الرحمہ نے جنگ رکوائی اور اپنا
بہترین گھوڑا رچرڈ کو دیااور اسے کہا کہ اس پر سوار ہوکر اپنی فوجوں کی قیادت کرو،
لیکن میں ایسے دشمن کو نہیں مارتاکہ میں گھوڑے پر ہوں اور وہ پیدل ۔
ابن
شداد لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر بادشاہ رچرڈ بیمار ہوگیا اور اس کے علاج کا کوئی
راستہ نہیں مل رہاتھا تو سلطان نے اپنا خاص طبیب بھیجا کہ جس نے عیسائی لشکر میں
جاکر رچرڈ کا علاج کیا اور اس کے ساتھ تحفے اور پھل بھی بھیجوائے تاکہ وہ جلد
صحتیاب ہو کر سلطان کے مقابلے آسکے۔ انسانی تاریخ نے اتنے اعلیٰ کردار کا جرنیل اس
سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ تمام تر تعصب کے باوجود خودعیسائی مؤرخ مجبور ہیں
کہ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ
علیہ کی شان میں قصیدے لکھیں۔
اسی طرح مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح
الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے عیسائیوں کو
بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے
انتظار کررہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لئے انتظام قائم رکھنا مشکل
ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی یہودی
یا عیسائیوں کو بیت المقدس میں داخل نہ
ہونے دیں گے ۔ سلطان نے جواب دیا ”زائرین
بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں“۔ سلطان
نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین
کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام کیا۔
صلاح
الدین ایوبی علیہ الرحمہ کا غیر مسلموں سے
سلوک عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی حکومت میں
غیر مسلموں کے حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہوئے ہیں جس طرح مسلمانوں کے ۔
اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے
جب ملک شام فتح کیا تو ان کے وزراء نے نئے مفتوحہ ملک کا جائزہ لینے کے بعد سلطان
کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ نصرانیوں کا ملک ہے ، یہاں کے لوگ نہایت ہی سرکش مزاج
اور سخت جان واقع ہوئے ہیں اس لئے ہمارا آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ ان کے لئے سخت
گیری کی ضرورت ہے، چونکہ اسلام کے سیاسی اصول بہت نرم ہیں ، لہذا آپ کو مشورہ
ہے کہ احکام اسلام کے علاوہ بھی اگر کچھ اور قوانین نافذ کردیئے جائیں تو یہاں کے
لوگوں پر قابو رکھنے میں آسانی ہوگی ، حکومت کو استحکام حاصل ہوگااور وہ تمام
قوتیں جو نظام حکومت کوکمزور کرنے والی ہیں ، کچلی جاسکیں گی۔
ان وزراء کی باتیں سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی
کا چہرہ متغیر ہوگیا ، فرمایا :"تمہارا کیا خیال ہے کہ میں نے یہ جو ملک فتح
کیا ہے اس لئے فتح کیا ہے کہ اپنی حکومت اورسلطنت قائم کروں اورلوگوں کی گردنوں پر
اپنی غلامی کو جوارکھوں ؟ تم میری بات کان کھول کر سن لوکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ،
بلکہ میں نے محض اللہ اور اس کے رسول ﷺکو
خوش کرنے کے لئے اور اس رضا کی خاطر یہ ساری کوششیں کی ہیں۔ میں تو صرف اللہ کا
بندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نوکر ہوں میں اپنا حکم ہرگز نہیں نافذ
کروں گا۔ یہ ملک رہے یا جائے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ تم اچھی طرح ذہن
نشین کرلوکہ میں کوئی بھی کام حکم قرآن اور سنت رسولﷺ کے خلاف صادر نہیں
کرسکتا اور قرآن وسنت کی مخالفت میں کوئی
بھی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہونے دوں گاکیونکہ قرآن اللہ جل جلالہ کا فرمان اور سنت
رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہے ، انسانیت کی فلاح مومن ہویا کافرانہی
دونوں پر عمل کرنےمیں ہے۔"
سلطان
نے قاضیوں اورمفتیوں کا تقررکیا ،ہرمذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی دی ، مملکت
کے ہرفرد کو تحفظ کا احساس ملا ، جس طرح مسجدیں محفوظ تھیں ، دیگرمذاہب کے عبادت
خانے بھی محفوظ تھے ۔ہر مذہب کا ماننے والا یہ محسوس کرتاتھا کہ وہ قرآن اور شریعت
اسلامیہ کے سائے میں زندگی بسر کررہا ہے۔ جس نے اعلان کررکھاتھا کہ لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔کچھ عرصہ بعدشام
میں عظیم انقلاب آیا دیکھتے ہی دیکھتے شام جو نصرانی اکثریت کا ملک تھا یہ تلوار
کے زور پر نہیں بلکہ قرآن و سنت اور حضرت
سلطان کی حسن و سلوک کی برکت سے مسلم اکثریت کا ملک بن گیا ۔
No comments:
Post a Comment