اب آئیے
اصل مقصود کی طرف جیسا کہ ابن خلکان وغیرہ
نے کہا کہ سلطان نورالدین محمود بن عمادالدین زنگی ایک عادل بادشاہ تھا۔ کنیت
ابوالقاسم تھی۔ یہی وہ بادشاہ تھا جس نے زمین پر دارالحدیث بنانے کا سب سے پہلے
شرف حاصل کیا ۔ اس نے بہت زیادہ کتابیں
تصنیف کیں اور ہر نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا تھا۔ مساجد اور دینی مدارس
بلاد اسلامیہ میں تعمیر کئے دینی علوم پھیلائے اور بہت سے اوقاف قائم کئےاور دین
کے جاننے اور پڑھنے پڑھانے والوں سے بہت محبت کرتےتھے۔ نیکی کمانے کا بڑا حریص تھے
اور لڑائی میں ڈٹ جانے والا اور بہترین تیرانداز تھے صرف اپنی خاص مِلک سے کھاتے ،
پیتے، پہنتے اور صدقہ وخیرات کرتے تھے۔ یا پھر غنیمت میں سے جو حصہ ملتا اس سے یہ
کام سرانجام دیتے تھے۔ آپ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے جو آپ اپنی تلوار اور نیزے
سے کرتے تھے۔ مال غنیمت میں سے اسقدر حصہ لیتے جتنا علماء کرام اس کا حصہ بتاتے ،
کسی دوسرے پر زیادتی نہ کرتا اور جو چیز پہننی اللہ نے حرام کردی ہے۔ یعنی سونا،
ریشم اور چاندی، ان میں سے کوئی چیز بھی نہ پہنتے۔ اس نے اپنی تمام حکومت میں شراب
پینے اور اس کے لین دین پر پابندی لگادی تھی۔ عوام میں اس کی شہرت اچھی ہوگئی اور
اس کے انصاف کا چرچا مشرق و مغرب اور ہرجگہ پھیل گیا تھا ۔ شام کی تمام فصیلیں
بنوائیں۔ حلب ، حمص، حماۃ اور دمشق وغیرہ میں قلعے تعمیر کئے۔ اس نے اپنے لیے بڑے
بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں
کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتے۔ دمشق میں اس نے ایک
شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا
بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے کا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا
تھا۔ آپ نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتے اور
اس کی تفتیش بھی کیا کرتے تھے۔ نور الدین
کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مؤرخ ابن اثیر نے لکھا ہے
کہ: ”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ
کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ
بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا“۔ (البدایہ
والنہایہ جلد12 صفحہ 361)
آپ امام
الائمہ ،سراج الامہ ،رئیس الفقہاء والمجتہدین ،سیدالاولیاء والمحدثین حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب کے فقیہ تھے ۔آپ نے حدیث کا سماع کیا اورکرایا ۔(ایضاً)
حافظ
ابن کثیر دمشقی علیہ الرحمہ
(707-774ہجری) فرماتے ہیں کہ آپ نے
خانقاہیں بنوائیں اور فقہاء مشائخ اور صوفیا ء آپ کے پاس جمع ہوتے تھےاور آپ ان کا
اعزاز واکرام کرتے تھے اور آپ صالحین سے محبت کرتے تھےاور ایک دفعہ ایک امیر نے آپ
کے پاس ایک فقیہ کا گالی دی اور وہ قطب الدین نشیا پوری تھے ، نورالدین علیہ
الرحمہ نے اسے کہا تو ہلاک ہو جائے تو نے
جو بات کہی ہے اگروہ سچی ہے وہ تو اس کی بہت سی نیکیاں ہیں جو اسے مٹادے گی جو
تیرے پاس نہیں جس سے اس کی برائی کا کفارہ دیا جائے۔قسم بخد ا میں تیری تصدیق نہیں
کروں گااور اگرتونے دوبار اس کا ذکر کیا یا کسی نے کسی اور کا میرے پاس برائی سے ذکر کیا تو میں تجھے ضرور ایذا
دوں گا پس اس سے رک جا اور اس کے بعد اس کاذکر نہ کر ۔
ابن اثیر
نے بیا ن کیا ہے کہ آپ بارعب اور باوقار تھے اورامراء کے دلوں میں آپ کا بہت خوف
تھا ، آپ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص آپ کے سامنے بیٹھنے کی جسارت نہ کرتا تھا مگر
امیر نجم الدین ایوب (والد صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ )کے سوا۔ کوئی امیر بغیر اجازت بیٹھ نہیں سکتا
تھا اور اسدالدین شیرکوہ اور مجددالدین بن الدایۃ نائب حلب اور دیگر اکابر آپ کے
سامنے کھڑے رہتے تھےاور اس کے باوجود جب کوئی فقیہ یا فقیرآتا تو آپ اس کے لئے
کھڑے ہوجاتے اور چند قدم چلتے اور وقار و سکون کے ساتھ اسے اپنے سجادہ پر بٹھاتے
اور جب ان میں سے کسی کو کوئی چیز دیتے تو اکثر کہتے یہ لوگ اللہ کے سپاہی ہیں ان
کی دعاؤں سے ہم دشمن پر فتح پاتے ہیں اور جو میں انہیں دیتاہوں ، بیت المال میں ان
کا حق اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور جب وہ ہم سے اپنا کچھ حق لے کر راضی ہوجاتے ہیں
تو یہ ان کا ہم پر احسان ہے۔
کسی کی ادا کو ادا کررہا ہوں
ایک مربتہ آپ کوایک حدیث سنایا گیا جس میں تھا کہ رسو ل
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلوار گلے میں
لٹکائے باہر نکلے توآپ تعجب کرنے لگے کہ جو عادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
ثابت ہیں لوگ ان سے کیسے بدل گئے ہیں اور سپاہی اور امراء تلواروں کو اپنی کمروں
میں کیسے باندھتے ہیں اور اس طرح نہیں کرتےجیسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نےکیا ہے ، پھر آپ نے سپاہیوں کو حکم
دیا کہ وہ تلواروں کو اپنے گلوں میں ڈالیں ۔ پھر آپ دوسرے روز فوج کی طرف گئے تو
آپ تلوار گلے میں لٹکائے ہوئے تھےاور سپاہیوں کا بھی یہی حال تھا اس سے آپ کا مقصد
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنا تھا ۔ رحمۃ اللہ علیہ (البدایہ والنہایہ جلد 12 صفحہ 346)
سلطان
نورالدین زنگی ایک عبادت گزار، شب بیدار بادشاہ تھا، ایک عظیم الشان سلطنت کا
فرماں روا ہونے کے باوجود ایسا مردِ درویش تھا جس کی راتیں مصلیٰ پر گزرتی تھیں
اور دن میدان جہاد میں۔ مصر کے اس مجاہد، دین دار بادشاہ کی حکومت حرمین شریفین تک
تھی اور یہ سارا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا۔ وہ عظمت وکردار کا ایک عظیم پیکر تھا
،جس نے اپنی نوک شمشیر سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب لکھا۔ سلطان نورالدین زنگی
نے رات کا بیشتر حصہ عبادت ومناجات میں گزارتا تھا اورآپ معمول تھا کہ نماز عشا کے بعد بکثرت نوافل پڑھتے
او رپھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم پر سینکڑوں مرتبہ درود شریف بھیج کر تھوڑی
دیر کے لیے بستر پر لیٹ جاتے تھے۔ چند ساعتوں کے بعد پھر نماز تہجد کے لیے اٹھ کھڑےہوتے
تھے او رصبح تک نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول رہتے۔
اور اسی
طرح آپ کی بیوی عصمت الدین خاتون بنت اتابک معین الدین رات کو بہت قیام کرتی تھی ۔
ایک شب وہ اپنے ورد سے غافل ہوگئی تو صبح کو غضبناک حالت میں تھی ، نورالدین نے اس
سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ نیند کی وجہ سے اس کا ورد نہیں ہوسکا ، پس اسی وقت
نورالدین نے قلعہ میں سحر کے وقت طبل بجانے کا حکم دیا تاکہ وہ سونے والے کو اس
وقت قیام اللیل لئے جگا دے اور اس نے طبل خانہ کو بہت اجرت اوروظیفہ دیا ۔ (ایضاً 362)
خواب میں زیارتِ رسول صلی الله علیہ وسلم
557
ہجری ،1162عیسوی کی ایک شب اورادووظائف سے
فارغ ہو کر بستر پر لیٹا تو خواب میں تین بار حضور انور صلی الله علیہ وسلم کی
زیارت سے مشرف ہوا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ سلطان نے متواتر تین رات حضور اکرم صلی
الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ ہر مرتبہ دو آدمیوں (انسانی شیطانوں) کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے سرور کونین صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نور الدین ! یہ دو
آدمی مجھے ستارہے ہیں۔ ان کے شر کا استحصال کرو۔“ نور الدین یہ خواب دیکھ کر سخت
مضطرب ہوا، بار با ر استغفار پڑھتا اور رو رو کر کہتا۔" میرے آقا ومولا کو
میرے جیتے جی کوئی ستائے یہ نہیں ہو سکتا۔ میری جان ، مال، آل واولاد سب آقائے
مدنی صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر نثار ہے۔ خدا اس دن کے لیے نو رالدین کو زندہ نہ
رکھے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم غلام کو یاد فرمائیں اور وہ دمشق میں آرام سے
بیٹھا رہے۔"
ایک
عشقِ مصطفی ہے اگر ہو سکے نصیب
ورنہ
دھرا ہی کیا ہے جہان خراب میں
فاتح
کون ومکاں ہے جذبہ عشقِ رسول
کچھ
نہیں ہوتا یہاں بے گرمئی سوزِ بلال
سلطان نورالدین زنگی کی بے چینی
حضرت نورالدین علیہ الرحمہ زیارت رسول الله صلی الله علیہ وسلم او رارشاد ِرسول
کے بعد بے چین ہو گیا او راسے یقین ہو گیا کہ مدینہ طیبہ میں ضرور کوئی ایسا
ناشدنی واقعہ ہوا ہے، جس سے رحمت دارین صلی الله علیہ وسلم کی روح اقدس کو تکلیف
پہنچی ہے ۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی اس نے بیس اعیانِ حکومت کو ساتھ لیا اور بہت
ساخزانہ گھوڑوں پر لدوا کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ دمشق کے لوگ سلطان کے
یکا یک عازمِ سفر ہونے سے بہت حیران ہوئے، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ اصل بات
کیا ہے؟
اہل مدینہ کی دعوت
دمشق سے
مدینہ منورہ پہنچنے میں عام طور پر بیس پچیس دن لگتے تھے لیکن سلطان نے یہ فاصلہ
نہایت تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا اور سولہویں دن ہی مدینہ طیبہ جا پہنچا۔ اہل
مدینہ اس کی اچانک آمد پر حیران رہ گئے۔ سلطان نے آتے ہی شہر میں آنے جانے کے
دروازے بند کر دایے۔ پھر منادی کرادی کہ آج تمام اہل مدینہ اس کے ساتھ کھانا
کھائیں، تمام اہل مدینہ نے نہایت خوش دلی سے سلطان کی دعوت قبول کی۔ اس طرح مدینہ
منورہ کے تمام لوگ سلطان کی نظر سے گزر گئے، لیکن ان میں وہ دو آدمی نہ تھے جن کی
شکلیں اسے سچے خواب کے ذریعے دکھائی گئی تھیں۔
بزرگ صورت شیطان
سلطان نورالدین زنگی علیہ الرحمہ نے اکابر شہر سے
پوچھا کہ کوئی ایسا شخص تو باقی نہیں رہا جو کسی وجہ سے دعوت میں شریک نہ ہو سکا
ہو؟
انہوں
نے کہا کوئی ایسا تو نہ رہا، البتہ دو خدار رسیدہ مغربی زائر، جو مدت سے یہاں مقیم
ہیں، نہیں آئے۔ یہ دونوں بزرگ عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر کچھ وقت بچتا ہے تو
جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ،سوائے اس کے کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔
سلطان کا خون کھول گیا
سلطان
نے حکم دیا ان دونوں کو بھی یہاں لاؤ۔ جب وہ دونوں سلطان کے سامنے حاضر کیے گئے تو
اس نے ایک نظر ہی میں پہچان لیا کہ یہی وہ دو ( شیطان صفت) آدمی ہیں جو اسے خواب
میں دکھائے گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سلطان کا خون کھول اُٹھا، لیکن تحقیق حال ضرور
ی تھی، کیوں کہ ان (مکاروں) کا لباس زاہدانہ اور شکل وصورت مومنوں کی سی تھی۔
سلطان نے پوچھا تم دونوں کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے بتا یاکہ روضہٴ اقدس کے پا س ایک
مکان کرایہ پر لے رکھا ہے اور اسی میں ہر وقت ذکر الہٰی او رعبادت خداوندی میں
مشغول رہتے ہیں۔
خوف ناک انکشاف
سلطان
نورالدین علیہ الرحمہ نے وہیں ان دونوں کو
اپنے آدمیوں کی نگرانی میں چھوڑا اور خود اکابر شہر کے ہم راہ اس مکان میں جا
پہنچا، یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا، جس میں نہایت مختصر سامان مکینوں کی زاہدانہ
زندگی کی خبر دے رہا تھا، اہل شہر (دھوکے سے) ان دونوں کی تعر یف میں رطب اللسان
تھے اور بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نظر نہیں آتی تھی، لیکن سلطان کا دل مطمئن نہ
تھا اس نے مکان کافرش ٹھونک بجا کر دیکھنا شروع کیا۔ یکا یک سلطان کو ایک چٹائی کے
نیچے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا، چٹائی ہٹا کر دیکھا تو وہ ایک چوڑی سل تھی، اسے سر
کایا گیا توا یک خوف ناک انکشاف ہوا۔ یہ ایک سرنگ تھی جو روضہٴ اقدس کی طرف جاتی
تھی ۔سلطان سارا معاملہ آناً فاناً سمجھ گیا اور بے اختیار منہ سے نکلا: صدق الله
وصدق رسولہ النبی الکریم
بھیڑ نما بھیڑئیے
سادہ
مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئے، سلطان اب
قہر وجلال کی مجسم تصویر بن گیا اور اس نے دونوں ملعونوں کو پابہ زنجیر کرکے اپنے
سامنے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ سلطان کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے ان سے نہایت غضب
ناک لہجے میں مخاطب ہو کر پوچھا۔ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو ؟ اور اس ناپاک حرکت سے
تمہارا کیا مقصد ہے ؟ ۔ دنووں ملعونوں نے نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے جواب دیا۔”
اے بادشاہ! ہم نصرانی ہیں ( بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یہ دونوں یہودی تھے) اور
اپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کی لاش چرانے پر مامور ہوئے ہیں ۔ ہمارے نزدیک
اس سے بڑھ کر اور کوئی کار ثواب نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہمارا کام
بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا تم نے ہمیں گرفتارکر لیا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ سرنگ
حضرت عمر فارق اعظم رضی الله عنہ کے جسد مبارک تک پہنچ چکی تھی، یہاں تک کہ ان کا
ایک پاؤں ننگاہو گیا تھا۔
گستاخانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کا انجام
سلطان
نورالدین کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا، اس
نے تلوار کھینچ کر ان دونوں بدبختوں کی گردنیں اڑا دیں اور ان کی لاشیں بھڑکتی
ہوئی آگ کے الاؤ میں ڈلوادیں۔ یہ کام انجام دے کر سلطان پر رقت طاری ہو گئی اور
شدت گریہ سے اس کی گھگی بندھ گئی۔ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا
تھا او رکہتا تھا: زہے نصیب کہ اس خدمت کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس غلام
کا انتخاب فرمایا۔
منت منہ
کہ خدمت سلطان ہمیں کنی
منت
شناس ازوکہ بخدمت گذاشت
﴿ یختص برحمته من
یشاءوالله ذوالفضل العظیم ﴾
جب ذرا
قرار آیا تو سلطان نے حکم دیا کہ روضہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے گرد گہری خندق
کھود کر اسے سیسہ سے بھر دیا جائے، چنانچہ اتنی گہری خندق کھودی گئی کہ زمین سے
پانی نکل آیا ،اس کے بعد اس میں سیسہ بھر دیا گیا، تاکہ زمانے کی دست بر دسے ہر
طرح محفوظ رہے، آج بھی اہل مدینہ سلطان نورالدین کا نام نہایت محبت واحترام سے
لیتے ہیں او راس کا شماران نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پر سید البشر صلی الله علیہ
وسلم نے خود اعتماد کااظہار فرمایا اور ان کے محب رسول ہونے کی تصدیق فرمائی
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
آپ ہر وقت
شہادت کی تمنا اور جستجو میں رہتے تھے اسی وجہ سے لوگوں نے آپ کو نورالدین الشہید
کا لقب دیا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی 532/20 )
11 شوال 569 ہجری میں سلطان نے انتقال فرمایا
اور دمشق شام کے قلعہ میں دفن کیا گیا۔ یہ مدرسہ سلطان نے خوامین کے پڑوس میں
مغربی جانب احناف (حنفی المسلک) حضرات کے لیئے تعمیر کرایا تھا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آپ کی قبر پر مانگی دعا قبول ہوتی ہے۔
ابن
حورانی نے کتاب "الاشارات الیٰ اماکن الزیارات"میں
سلطان کی ایک کرامت نقل کی ہے۔ اس کتاب میں زیارات سے مراد زیاراتِ دمشق ہیں۔ اور
ظاہر ہے یہ ہے کہ ابن حورانی دسویں ہجری کے علماء میں سے تھے ۔ جیسا کہ “کشف
الظنون” سے مفہوم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ سلطان محمود زنگی کی قبر پر دعا مستحاب
ہوتی ہے ۔ یہ بات اہل علم کے ہاں بہت مشہور ہے۔ حافظ محمد بن حسن صاحب “مجمع
الاحباب” اور کمال دمیری نے “حیات الحیوان” اور صاحب “طبقات الحنفیہ” اور بصروی نے
“فضائل سلطان” میں اسے ذکر کیا ہے۔ ہمارے شیخ جناب ابوالعباس طیبی فرمایا کرتےہیں
کہ یقیناً یہ بات مجرب ہے ہم نے بارہا اس کا تجربہ بھی کیا ہے۔"۔ (جامع
کرامات الاوليا، جلد 2 صفحہ ۴۴۹/۴۵۰ )
No comments:
Post a Comment