جذبہ جہاد
آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ اس کے نچلے دھڑ
میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے تھے لیکن اس حالت
میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر
گھوڑے کی پیٹھ پر رہتے۔ آپ کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتےتھے کہ جب تک گھوڑے
کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع
ہوجاتی ہے ۔
سوانح
نگار بہاء الدین کےمطابق’’اللہ کی راہ میں جہاد کا جذبہ اسکے دل و دماغ پر ہر وقت
چھایا رہتا۔ یہی ذکر اسکی زبان پر ہوتا۔ کوئی چیز اگر اسکے خیالات اور سوچ بچار کا
مرکز تھی تو وہ جنگی ہتھیار تھے۔ وہ لوگوں کو جہاد میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا‘‘۔
ولی اللہ کی بشارت
آپ کو
علماء ، فقراء ، درویش اور مشائخ عظام سے بے حد محبت تھی اور انکے دعائیں لئے بغیر
کو ئی بھی کام نہ کرتے تھے اور ہر کام کی
شروعات بعدنماز جمعہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب صلاح الدین ایوبی صلیبی جنگوں میں
مصروف تھے تو دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی
تھی۔ایک دفعہ انھیں اطلاع ملی کہ دشمن کا بحری بیڑہ آرہا ہے۔ اس پر صلاح الدین
ایوبی کو بڑی ہوئی کہ مسلمانوں کی تعداد پہلے ہی تھوڑی ہے اور اوپر سے دشمن کا
بحری بیڑہ آرہا ہے۔ تو یہ تو مسلمانوں پر ایک مشکل وقت آگیا ہے۔ چنانچہ وہ بیت
المقدس پہنچے اور ساری رات رکوع و سجود میں گزار دی ۔ اللہ کے حضور رونے اور
دعائیں مانگنے میں گزار دی۔صبح کی نماز پڑھ کی جب باہر نکلے تو دیکھتے ہیں کہ ایک
اللہ والے کھڑے ہیں۔ جن کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اللہ نے انھیں کوئی روحانی طاقت
بخشی ہے۔ صلاح الدین ایوبی قریب ہوئے کہ ان سے دعا کرواتا ہوں۔ چنانچہ سلام کیا ۔
عرض کیا کہ حضرت دعا فرمائیے۔ دشمن کا بحری بیڑہ آرہا ہے۔ انھوں نے صلاح الدین
ایوبی کے چہرے کو دیکھا۔ ان کو بھی اللہ نے کوئی بصیرت دی ہوئی تھی۔ پہچان گئے،
فرمانے لگے، صلاح الدین ایوبی تیرے رات کے
آنسوؤں نے دشمن کے بحری بیڑہ کو ڈبودیا ہے اور واقعی تین دن کے بعد اطلاع ملی کہ دشمن
کا بحری بیڑہ راستہ میں غرق ہو چکا ہے۔
کارنامے
صلاح
الدین اپنے کارناموں میں نور الدین پر بھی بازی لے گئے۔ اس میں جہاد کا جذبہ کوٹ
کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح اس کی سب سے بڑی خواہش تھی۔
مصر کے
بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لئے۔ اس دوران صلیبی
سردار ریجی نالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک
دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی
بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ
رہے۔
No comments:
Post a Comment