سلطان صلاح الدین اورعیسائیوں کے کردار کا موازنہ
سلطان
نے کبھی کسی معاہدہ کے خلاف نہیں کیا ۔ اس کے برعکس متواتر خلاف ورزیاں کرتے رہتے
چنانچہ اس معاہدہ صلح کی خلاف ورزی کرتے ہوئے والئ کرک ریجی نالڈ نے مکہ معظمہ اور
مدینۃ المنورہ ﷺ پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور روضۂ رسول اللہ ﷺ کے بارت میں اپنے
مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے فوجیں ساحل حجاز پر اتاردیں۔
جب یہ
خبر سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ
کو ملی یہ سنتے ہی آپ سکتہ طاری ہوگیا ۔سلطان فوراً دمشق سے مصر کے طرف
روانہ ہوئےاور بحری بیڑے کے سربراہ لولوکو طلب کیا اور مختصر طور پر والئی کرک کے
شیطانی عزائم کا ذکر کرتے ہوئےکہا میں نے اپنے تمام دشمنوں کوبھی معاف کیا جو میرے
خون کے پیاسے رہے ہیں لیکن ریجی ینالڈ کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا میرا فرض عین ہے تم
اس بات سے میری نفرتوں کا اندازہ لگاسکتے ہو۔اس فتنہ کو روکو چاہے اس مزاحمت میں
پورا سمندر انسانی خون سے سرخ ہوجائے بس میری زندگی میں اس کے ناپاک قدم مقامات
مقدسہ تک نہ پہونچنے پائیں ورنہ بروزحشر ہم سب کے لئے شرمندگی کے سوا کچھ نہیں
ہوگا۔
امیر
البحر لولو نے جب خبیث ریجی نالڈ کا منصوبہ سنا تو چہرے سے نفرت وغضب کے رنگ ابھر
آیا۔ شیروں کی طرح دھاڑتے ہوئے کہا کہ اگر حق تعالیٰ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ
رہی تو سلطان محترم بہت جلد سمندر کی تاریخ بدلتے دیکھیں گے۔
سلطان
نے ساحل سمندر پر امیرالبحر لولو کو رخصت کیا ۔
پھر
شیطانوں کی یہ جماعت سلطان صلاح الدین ایوبی کی جانثاروں کے تلواروں کی زد میں
آگئی تو پھر انہوں نے دشمنوں سے کوئی رعایت نہیں برتی ۔
ریجی نالڈکی تمام فوج ذلت کی موت ماری گئی لیکن ریجی نالڈ فرار ہونے میں کامیاب
ہوگیا ۔
ریجی نالڈ
کی سفاکی وبربریت کا اندازہ آپ اس کے قول سے لگاسکتے ہیں جو وہ اکثر رقص و سرور کی
محفلوں میں کہا کرتا تھا :
B
بے شک اس رقاصہ کا رقص بہت دلکش ہے مگر میرے
نزدیک دنیا کا سب سے زیادہ دلکش رقص وہ ہے جب ایک زخمی مسلمان زمین پر گر کر
تڑپتاہے۔
B
مجھے شراب پینے سے بھی زیادہ لذت اس وقت حاصل
ہوتی ہے جب میں مسلمان کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرتاہوں ۔یہی میرا مقدس ترین فریضہ
ہے اور یہی میری نجات کا راستہ۔
گستاخ رسول کی سزا
اپنی
اسی بہیمانہ فطرت سے مجبورہوکر یہی شیطان نما انسان ایک مرتبہ مسلمانوں کے حاجیوں کے قافلے پر حملہ
کردیا ۔ اتقاق سے اسی قافلے کے ساتھ سلطان
صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کی بیٹی مونسہ خاتون بھی تھیں ۔ ریجی نالڈ نہ صرف
لوٹ مار کرتا رہا بلکہ بے دریغ نوجوان حاجیوں کو بے دریغ قتل بھی کرتے رہے اور جس
کو قتل کرتے اس یہ کہتا کہ بلاؤ اپنے پیغمبر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو کہ آکر
تمہیں بچائیں ۔ تمہارا ایمان تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے انہی کو پکارو وہی تمہیں بچائیں گے۔
حجاج
کرام سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ
کی دہائی دیتے ہوئے شہید ہوتے رہے۔ کچھ افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور باقی
لوگوں کو اور عورتوں کو پکڑ کر زہزن کرک کے قلعے میں لے گئے۔ فرار ہونے والے حاجی
سید ھے موصل پہونچے جہان ان دنوں سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ شدید علیل
حالت میں ٹھہرے ہوئے
تھے۔جاجیوں کی زبانی یہ سن کر ریجی نالڈ حاجیوں
کو قتل کرتے وقت کہہ رہا تھا کہ بلاؤ اپنے رسول ( ﷺ) کو آکرتمہیں بچائے.........
سلطان
ایوبی شدید علیل ہونے کے باوجود غم و غصہ سے سرخ ہوگئے اور مدینہ منورہ کی جانب رخ
کرکے عرض کیا کہ " یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ہمت دیں کہ میں آپ
کے گستاخ کو اپنے ہاتھ سے سزادوں ، بادشاہ
بادشاہ کو نہیں مارتا لیکن میں ریجی نالڈ کو اپنے ہاتھ سے واصل جہنم کروں گا۔
اور پھر
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سلطان کی عرض بارگاہ رسالت ﷺ میں منظور ہوئی اور سلطان
دیکھتے ہی دیکھتے صحتیاب ہوگئے ۔ جنگ حطین کے بعد ریجی نالڈ کو بھی بادشاہ جیفری
کے ساتھ گرفتار کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے پیش کیا گیا ۔ سلطان ایوبی
نے برف سے سرد کیا ہوا پانی منگوایا اور بادشاہ جیفری کو پیش کیا ۔ جیفری نے پانی
کر وہ پیالہ ریجی نالڈ کے طرف بڑھا دیا ۔ یہ دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ
الرحمہ جلال سے سرخ ہوگئےاور جیفری سے کہا کہ "اس کو یہ پانی تم نے پلایا ہے
میں نے نہیں ۔"
عربوں
کی روایات میں یہ بات شامل ہے کہ اگردشمن بھی ان کے ہاں کھا پی لیتا ہے توپھر اس
کی جان بخشی کردیتےہیں جبکہ سلطان یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ ریجی نالڈ کو جان بخشی
نہیں کی جائے گی۔ آپ نے ریجی نالڈ کو قریب بلایا اور اس کو وہ گستاخانہ الفاظ یاد
دلائے جو اس نے قافلہ لوٹنے کے دوران ایک مسلمان کو کہے تھے ۔ بڑے جلال میں ریجی
نالڈ سے فرماتے ہیں کہ"میں اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کے لئے موجود ہوں"۔
سلطان
صلاح الدین ایوبی نے اس کو ایک اور موقع
دیا اور اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی ۔ جب اس نے پھر انکار کیا تب آپ نے اپنی
تلوار سے اس کی گردن اڑادی۔
یہ سب
دیکھ کر بادشاہ جیفری پر وہشت طاری ہوگئی ۔سلطان نے اس کو تسلی دی اور کہا کہ
بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کرتے ، لیکن ریجی نالڈ نے گستاخی کی
وہ حد پار کردی تھی کہ مجھے اس کا سر اپنے ہاتھوں سے قلم کرناپڑا۔ (سلطان
نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی صفحہ)
No comments:
Post a Comment