Sultan Salah Uddin Ayyubi AL- Shafa'I Qist 14

شعائر مقدسہ کی حفاظت
جب بیت المقدس کا شہر دشمن سے خالی ہوگیا  تو سلطان صلا ح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے حکم دیا کہ اس کے مقدس شعائر اور اشیاء اپنی قدیم حالت کی طرف لوٹا دی جائیں کیونکہ فرنگیوں نے ان میں بہت تبدیلی کردی تھی لہذا انہیں اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹا دیا گیا۔

 مسجد  اقصٰی کی صفائی
اس  کے بعد غازی اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  نے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو نجاستوں سے پاک کر کے ان کے فرش اوردیوار یں گلاب ِ دمشقی سے دھلوائیں ۔ ان مقدس مقامات میں صلیبیوں نے حضرت عیسیٰ ومریم علیہم السلام کی خیالی تصویربنوارکھی تھی انہیں صاف کرنے اور جمعہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ قاضی محی الدین بن علی الشافعی علیہ الرحمہ نے خطبہ  پڑھا انہوں نے خطبے میں موجودہ حالات اور اسلام کی عظمت کو اس طرح بلاغت آمیز مؤثرانداز میں بیان کیا کہ اس کو سن کر مسلمانوں کے رونگٹے گھڑے ہوگئے ( یہ خطبہ اس قدر عمدہ تھا کہ ) راویو ں نے اور مؤرخوں نے اسے نقل کرکے  بیا ن کیا ۔

صلاح الدین کی امامت
بعد ازاں سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے مسجد اقصیٰ کی پنج وقتہ نمازیں امام اور خطیب کی حیثیت سے پڑھاتا رہا،اس نے حکم دیا کہ اس کے لئے منبر تیار کیا جائے اس پر مسلمانوں نے اسے آگاہ کیا کہ بیس سال ہوئے سلطان العادل حضرت  نورالدین محمود  زنگی الحنفی علیہ الرحمہ  کے لئے ایک منبر تیا رکیا گیا تھا اور حلب کا کاریگروں نے اکٹھے ہوکر کئی سالوں میں اس منبرکو عمدہ کاریگری سے تیا ر کیا تھا لہذا سلطان نے حکم دیا کہ وہ منبر لاکر مسجد اقصیٰ میں نصب کیا جائے۔آپ نے یہ بھی حکم دیا کہ مسجد اقصیٰ کو آباد کیا جائے اور اس کی مناسب تعمیرکی جائے اور قبۃ الصخرہ  کے اوپر سے سنگ مرمر اکھیڑ دیا جائے ، اس  کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیوں  کے پادری صخرہ کے پتھر کو فروخت کرنے لگے تھے وہ اس پتھر کو تراش کرکے اسے سونے کے بھاؤ پر فروخت کرتے تھے فرنگی عیسائی اس سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کی خریداری میں مقابلہ کرنے لگے اور پتھر کے ان ٹکڑوں کو اپنے گرجاؤں میں رکھنے لگے ۔ اس نتیجہ یہ ہوا کہ فرنگی بادشاہوں کے دلوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ صخرا  فنا نہ ہوجائے  لہذا  ( اس کی حفاظت کے لئے ) انہوں نے اس صخرہ کے اوپر سنگ مرمر کا فرش بچھا دیا ۔( مگر بیت المقدس کی فتح کے بعد ) سلطان صلاح الدین نے اس کے اکھیڑنے کا حکم دیا ۔ اب مسجد اقصی ٰ میں قرآن کریم کے بہت سے نسخے اکٹھے ہوگئےاور وہاں ( تلاوت قرآن  کے لئے) قاری مقر کیے گئے جن کی تنخواہ مقرر تھی سلطان نے وہاں خانقاہیں اور مدارس بھی تعمیر کرائے ۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ ہشتم صفحہ 539)
 بتادوں کہ بیت المقدس پر تقریباًً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948 عیسوی  میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔1967 عیسوی کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا ۔

تیسری صلیبی جنگ
جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔
عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان  صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباًً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں‌کام آئے۔
معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
B                        بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
B                        ارسوف، حیفہ، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
B                        عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
B                        زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
B                        صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔

تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین حکمران ہے ۔

No comments:

Post a Comment