Sultan Salah Uddin Ayyubi AL- Shafa'I Qist 02

تعلیم و تربیت
حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ تکریت کے ایک قلعہ میں پیدا ہوئے تھے، گو کہ ان کی تربیت مکمل فوجی ماحول میں ہوئی لیکن ان کی ہمیشہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ ایک عالم بنیں اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ اس زمانے کے سب سے بہترین انسان نورالدین زنگی نے ان کی تربیت خود کی تھی۔آپ نے کم عمری ہی میں قرآن  کریم حفظ کر لیا تھا اور آپ خود اہلسنت و جماعت اورشافعی صوفی تھے۔

تاریخ اسلام میں  ہے کہ "شیرکو ہ اور صلاح الدین دونوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے ۔ صلاح الدین ایوبی نے شیعہ قاضیوں کو موقوف کرکے شافعی قضاۃ مامور کیا ۔ مدرسہ شافعیہ اور مدرسہ مالکیہ کی بنیاد رکھی ۔" (تاریخ اسلام جلد دوم صفحہ 722)
مزید آگے فرماتے ہیں کہ"صلاح الدین کی وجہ سے مصر میں دم بہ دم شیعیت کو تنزل اور سنی مذہب کو ترقی حاصل ہوئی۔"(ایضاً صفحہ 723)
یہ وہ وقت تھا جب عیسائی ایک بار پھر سے زور پکڑتے جا رہے تھے اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب آپ ان کی فتوحات کی خبریں نہ سنتے ہوں۔ ان کی والدہ کا بیان ہے کہ جب آپ ان کے پیٹ میں تھے جو انہوں نے خواب دیکھا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ان کے اندر ہے۔
آپ  نےمدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی  یا درہے کہ مشہور وزیر اعظم  نظام الملک طوسی دنیا ئے اسلام کے ایک سلطنت کے وزیر تھے  یہ مدرسہ انہوں نے قائم کیا  تھا جس میں  اسلامی تعلیم دی جاتی تھی اور بچوں کو اسلامی نظریات اور تاریخ سے بہر ور کیا جاتا تھا ۔  ( داستان ایمان فروشوں کی حصہ اول صفحہ 16)
حضرت علامہ نظام الملک خواجہ حسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۷ تا۱۰۹۲ عیسوی)  بہت بڑے عالم و فاضل باصفا  اور باعمل تھے، علم و فن کے نہایت اعلیٰ درجہ کے قدر دان بھی، آپ نے تعلیم کی افادیت پر زور دیا اور اس کے لئے عملی طور پر بہت کام کیا ، آپ ملک شاہ سلجوقی کے وزیر اعظم تھے، حکومت میں آپ کا بڑا عمل دخل تھا اور آپ کے مشوروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اور آپ کا تعلق بھی اسی دور سے تھا ۔ بلند پایہ، صوفی اور فلسفی  حجۃ الاسلام ابوحامد محمد غزالی الطوسی الصوفی الشافعی (1059-1111 عیسوی) کا تعلق اسی دور سے تھا۔عظیم مصلح غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ  470ہجری تا 561 ہجری بمطابق 1077-1166 عیسوی جوکہ سُنّی حنبلی طریقہ کے نہایت اہم صوفی شیخ (اور سلسلہ قادریہ  کے بانی ہیں بھی ) اسی دور سے تعلق رکھتے تھے۔ فارسی کے مشہور شاعرغیاث الدین ابوالفتح عمربن ابراہیم الخیام المروف عمر خیام اور محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی المعروف مولانا جلال الدین رومی تبریزی کا تعلق بھی اسی دور سے تھا۔       (ویکیپیڈیا  آزاد دارۃالمعارف)
پہلے پہلے مساجد میں مدارس کا کام ہوتا تھا، پھر چوتھی صدی ہجری میں سب سے پہلا مدرسہ علیحدہ عمارت میں قائم ہوا،مشہور مفکر عالم ناجی معروف لکھتے ہیں:
سب سے پہلے مدرسہ کا نام ”مدرسۃ الصادریہ “ تھا جس کی بنیاد شام میں ۳۵۰ہجری میں پڑی، پانچویں صدی ہجری میں مدرسہ صادریہ کے نہج پر کئی دوسرے مدارس قائم ہوئے جن میں قابل ذکر ”مدرسہ بیہقیہ “ اور مدرسہ سعدیہ ہیں جن کی بنیاد نیشاپور میں پڑی۔
( نشأة المدارس المستقلۃ فی الاسلام صفحہ 4-5)
 اس کے بعد اسلامی دنیا کا سب سے معروف و مقبول مدرسہ نظامیہ قائم ہوا،جس کو سلطان ارسلان سلجوقی کے علم دوست وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے قائم کیا۔ ( ایضاصفحہ 5)
تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ "حضرت نظام الملک طوسی  علیہ الرحمہ نے دارالخلافت بغداد میں بہت بڑا مدرسہ بنوایا جس کا نا م نظامیہ تھا ۔ شیخ ابواسحاق شیزاری اس مدرس اعلیٰ تھے 476 ہجری میں انہوں نے وفات پائی ۔ تب موید الملک ابن نظام الملک نے شیخ ابواسحاق شیرازی  کی جگہ ابوسعید کو مامور کیا لیکن یہ تقرری نظام الملک کو نہ بھائی، امام ابو نصر صباغ صاحب کو یہ خدمت سپردکی اسی سنہ کی ماہ شعبان میں امام ابو نصر نے بھی اس دنیائے فانی کو چھوڑدیا ۔ تب نظام الملک نے ابو سعید کو 478 ہجری میں اس خدمت پر متعین کیا اس کے بعد شریف علوی، ابو القاسم دبوسی  نظامیہ کےصدر مقرر ہوئے ۔ 482 ہجری میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔ ابو عبداللہ طہری اور قاضی عبدالوہاب شیرازی باری باری نظامیہ میں درس دنیے  لگے۔ 484 ہجری میں امام ابوحامد محمد غزالی ( علیہ الرحمہ) مسند درس و تدریس پر متمکن ہوئے جو ایک مدت تک اس خدمت مامور رہے ۔نظام الملک کے عہد وزارت میں تعلیم وتعلم کا بے حد چرچا ہوا چونکہ اس کا نتیجہ اچھا دکھتے تھے اس وجہ سے لوگوں کی توجہ علم دین کے حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھی۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ ہفتم صفحہ 41)

فیضان غوث الاعظم
ایک بار حضرت نجم الدین ایوب  بغداد معلیٰ حاضر ہوکر اپنے دس سالہ بیٹے حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ  کی خدمت بابرکت میں پیش کردیا اور عرض کی کہ یا سیدی  یا مرشدی ! اس بچے کے سرپر اپنا نورانی ہاتھ رکھ دیں اور اس کے لئے دعا فرمادیں کہ یہ اسلام کا عظیم مجاہد اور فاتح بنے ۔ چنا نچہ حضور غوث الاعظم نے اس بچے کے سر پر دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ " یہ بچہ تاریخ عالم کی ایک عظیم نامورشخصیت ہوگااور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے بہت بڑی اسلام کی فتح کرائے گا۔" (حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ صفحہ 152- 154 )  و (اسلامی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا  صفحہ 443)
چنانچہ پھر دنیا نے دیکھا کہ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی جو سلطان نورالدین زنگی کی افواج میں ترقی پاکر جرنیل بنے اور پھر صلیبی جنگوں کے دوران سلطان نورالدین کی اچانک وفات کے بعد سلطان بنائے گئے اور پھر سلطان بن جا نے کے بعد حضرت سلطان صلاح الدین ایو بی نے عظیم کارنامے انجام دئے وہ تاریخ اسلام کا زریں باب ہیں۔یہ سب کچھ سید نا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شان کرامت اور دعاؤں کا نتیجہ تھا۔
اسی طرح  جس زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبی شام میں فتوحات حاصل کررہے تھے اس وقت مسلم دنیا میں کوئی بھی ان کے پائے کا حکمراں نہیں تھا گوکہ حضرت سلطان شہاب الدین غوری علیہ الرحمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر تھے مگر وہ ہندوستان میں فتوحات حاصل کررہے تھے ۔ وہ پہلے افغان مسلمان سپہ سالار تھے  جنہوں نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر دہلی پر پہلی اسلامی حکومت قائم کی ۔ آپ کا یہ دور سلطان الہند عطائے رسول خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کادور ہےاور خودسلطان غوری بھی حضرت خواجہ غریب نواز  سے فیض لیا کرتے تھے۔ (تاریخ اسلام)
مسلمان غازیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جہاں ا ن کی جنگی فتوحات اور جنگی حکمت عملی کا ذکر ہوتاہے ، وہیں یہ پہلوبھی باربار ہمارے سامنے آتاہے کہ ان غازیوں کے شخصیت میں ایک پراسرارروحانی جہت بھی تھی ۔ یاد رہے کہ  حضرت نورالدین زنگی  علیہ الرحمہ کا حضور ﷺ سے قریبی روحانی تعلق تھا یہ حضور کافیضان تھا کہ پوری دنیا سے صرف انہی کو مدینہ منورہ کی مہم کے لئے منتخب کیاگیا چنانچہ اس کا ذکر  آگے کیا جائے گا۔یہ ایک غیرمعولی روحانی پہلو ہے کہ جس کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔وہ تمام مسلمان جرنیل ،غازی، اور حکمراں کہ جنہوں نے تاریخ میں نئے باب رقم کئے ۔ ان سب میں یہ پر اسرار روحانی پہلو نظر آتی ہے ۔اللہ اور اس کے رسول سے ان کا روحانی تعلق کبھی ظاہر ہوتاہے اور کبھی پوشیدہ ہی رہتاہے لیکن یہ پہلو اِ ن سب میں موجود ضرور ہوتا ہے۔یہی وہ عنصر ہے جوکہ ان کو پراسرار بناتا ہے اور یہ مافوق الفطرت وجود معلوم ہوتےہیں اور ایسے ایسے جنگی کارنامے انجام دیتےہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ روحانی پہلو ہمیں غازی کے وجود میں نظر آتی ہےچاہے وہ امیر حمزہ ، حضرت عمر فاروق اعظم،  عمر بن عاص، قتیبہ بن مسلم، سعد بن ابی وقاص،  سعد بن زید ،عتبہ بن نافع، خالد بن ولید ،  سلطان نورالدین زنگی  الحنفی ، موسیٰ بن نصیر،عمادالدین زنگی ،سلطان صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، سلطان محمد غزنوی الشافعی ، عمر المختار المالکی   ، عبدالقادر الجرائری المالکی ، عمر المختار المالکی ،ناصرالدین محمود ، یوسف بن تاشقین مالکی،  الپ ارسلان ،  سلطان محمد فاتح الحنفی ، اما م شامل الحنبلی نقشبدی ،الشیخ عزالدین قسام الشافعی ، خیرالدین باربروسہ وغیرہ بھی ایسے ہی پراسرار مجاہد تھے جن کی تلوار سے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے دفاع کا کام لیا ہے اور ان کو یہ توفیق بخشی ہے حضور ﷺ کی خاص الخاص خدمت کرسکیں۔ اس کے بعد اس شخص کی خوش نصیبی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
جب قائد اپنے بلند مقام پر ہو کہ ان کے ہرکام کی نگرانی خود ارسول اعظم فرمارہے ہوں تو پھر قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے پروں کے سائے میں ایسے شہباز فتح ہی ملے گی  ۔
یہاں پر ایک عجیب و غریب واقعہ رو نما ہوتا ہے ۔ سلطان کی فوج میں ہمیشہ بھاری تعداد میں امت مسلمہ کے علماء عظام  ،مشائخ کرام، درویش، فقراء اور صوفیاء شامل ہوا کرتے تھے اور ان کا کام دعائیں کرنا اورمجاہدین کے حوصلہ بڑھانا ہوتا تھا اور ضرورت پڑنے پر سلطان ان سے فتویٰ بھی لیا کرتے تھے ۔ لیکن یہ علماء ، مشائخ ،صوفیاء، فقراء اور درویش کبھی بھی خود تلوار ہاتھ میں لے کر جنگ نہیں کرتے تھے ان کے علم ، مقام اور مرتبے کی وجہ سے ان کو ایک الگ مقام حاصل تھا اور ان کا زیادہ تر وقت فوج کی اخلاقی و روحانی تربیت اور دعاؤں میں گزرتاتھا۔سلطان ایوبی  ان کا خاص خیال رکھتے تھے اور فوجیوں میں بھاری اکثریت حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی تھی۔ جو علماء اور فضلاء تھے  اور باقی کچھ مدرسہ نظام الملک (جو حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی )کے مدرسےکے تھے  اور جو چیف ایڈوائزر (Chief Advisor) تھے جن کا نام امام موفق الدین ابن قدامہ  المقدسی الحنبلی ہیں وہ سیدناسرکار غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی الحنبلی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ، مرید اور خلیفہ ہیں ۔ یہ  جو تاریخ میں سنہرہ باب حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کی وہ روحانی فیض حضور سیدنا سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا  تھا۔

No comments:

Post a Comment