Haji Syed Abdur Razzaque Noorul Ain Ashrafi Qist 10

شادی
جب سلطان اشرف جہانگیر سمنانی اپنے فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ظاہری و باطنی تربیت فرما چکے اور انہیں علوم و فنون سے آراستہ فرمادیا تو آپ کو ان کی شادی کی فکرہوئی۔چنانچہ آپ نے ہندوستان کے سادات گھرانوں میں ان کے لئے تلاش شروع کی اور خانوادوں کے نسب کی تحقیق بھی کی آپ کے پاس پہلے سے ہی سادات کے شجرے تھے  کیونکہ آپ نے ایک کتاب" اشرف الانساب " کے نام سے تحریر کی تھی  جس میں ہندوستان میں رہنے والے تمام سادات کے شجروں کی تحقیق کی تھی۔ایک روایت متواترہ یہ بھی ہے کہ حضرت سلطان بحر وبر محی الدین اورنگ زیب  عالمگیرغازی و مجاہد فی سبیل اللہ مجد د قرن عاشر قد س سرہ نے اسی نسب نامہ کے بنیاد پر حضرات سادات کرام کے وظائف مقررکئے اور جاگیریں پیش کیں۔
 حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مخدوم حاجی نورالعین قد س سرہ کا نکاح " سادات ماہرو" میں کرایا ۔ مکتوبات اشرفی میں سادات ماہرو کے بارے میں تذکرہ ہے کہ یہ لوگ نہایت صحیح النسب ہیں جو کشفاق و کشلاق سے ہندوستان آئے ۔آپ کی اہلیہ محترمہ  کانام  بی بی سلطانہ خاتون تھا جن کا مزارشریف آستانہ حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی کے پورب اور دکھن جانب نیر شریف سے کچھ دور پر واقع ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔

فرزندان
زبدۃ الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ کے پانچ صاحبزادگان گرامی ہوئے سب کی پیدائش حضرت مخدوم  سمناں رضی اللہ عنہ کے حیات ظاہری میں ہوئی ۔
1.      سیدشاہ شمس الدین قد س سرہ
2.    سید شاہ حسن قد س سرہ
3.   سید شاہ حسین قدس سرہ
4.   سید شاہ احمد  قدس سرہ
5.   سید شاہ فرید  قد س سرہ
یہ پانچوں صاحبزادے علم و فضل اور تقوی وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے کیونکہ ان کی تربیت دو عظیم ہستیوں یعنی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اور مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین  کی زیر نگرانی ہوئی تھی جب تربیت کرنے والے ایسے ہوں تو پھر تربیت پانےوالوں کے مقام کا اندازہ کون کرسکتا ہے ۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے وصال سے قبل ان صاحبزادگان کو تبرکات عطافرمائے اور ان کے متعلق بشارتیں دیں  لطائف اشرف میں ان کا ذکر موجود ہے ۔
ابوالفضائل حضرت مولانا نظام الدین غریب یمنی قد س سرہ لکھتے ہیں کہ"آپ نے نورالعین کے فرزندوں کو طلب کیا  پہلے شیخ شمس الدین کو جن کی عمر اٹھارہ سال تھی اور جو علمی اعتبار سے عالم بن چکے تھے ۔ سبز رنگ کاجامہ عنایت فرمایا اورفرمایا کہ یہ فرزند علوم کا  بے حد حصہ رکھتا ہے لیکن اس کی عمر کم ہوگی ۔ اس کے بعد شیخ حسن کو طلب کیا اور انہیں تبرک عطاکرنے کے بعد فرمایا کہ حسن بہ احسن الوجود بڑے اطاعت گزار ہوں گے پھر شیخ حسین کو طلب کیا اور تبرک عنایت کیا  پھر فرمایا کہ یہ ہمارے حسین ثانی ہیں  ان سے ایک بڑا خاندان ظہور میں آئے گا اس کے بعد شاہ احمد کو طلب کیا تبرک عنایت کیا اور فرمایا کہ یہ احمد ثانی ہیں ان کا نام احمد نبی اکرم ﷺ کے اسم گرامی پر ہے اور صفات مصطفوی سے موصوف ہیں ان کی اولاد بزرگ اور سخی ہوگی  اس کے بعد شیخ فرید کو طلب کیا اور تبرک عطا کیا پھر فرمایا اے فرید ثانی ! آؤ تم سے اللہ تعالیٰ کی محبت اوردوستی کی خوشبو آتی ہے۔ پھر شیخ قتال کو جو نور پور کے ترکوں میں سے تھے تبرک عنایت کرکے فرمایا کہ میں تمہیں عبدالرزاق کے جملہ فرزندوں میں سے خیا ل کرتا ہوں تمہیں چاہیئے کہ فرزندگی کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ اس کے بعد دریتیم کو طلب کیا اور تبرک عنایت فرمایا پھر ارشاد ہو ا یہ ہمارے فرزند شیخ کبیر کی یادگار ہیں جو مجھے عزیز ہیں  چنانچہ جو شخص حلقے میں داخل ہوا سے چاہیئے کہ ان کا حلقہ بگوش ہو جس طرح میں نے عبدالرزاق کے فرزندوں کو خزانہ الٰہی اور گنج تامتناہی سپردکیا ہے  اسی طرح انہیں اور ان کی اولاد کے سپر د کیا ہے بشرطیکہ وہ قناعت اختیار کریں اس وقت ہم ان کے اسباب معاش کے ذمہ دار ہوں گے اس کے بعد فرمایا جو ہمارے فرزندوں کا دوست ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو ہمارے فرزندوں کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارادشمن وہ جملہ خاندان چشت اوردودمان اہل بہشت کا دشمن ہے۔  پھر یہ شعر پڑھا
دوست  دار   خاندان  اولیاء
دوست  دار  اولیاء   و   اصفیاء
دوست دار  اولیاء   و انبیاء
دوست دارحضرت عالی خداست
جو خاندان اولیاء کو دوست رکھنے والا ہے و ہ اولیاء کا دوست ہے اور اولیاء انبیاء کو دوست رکھنے والاخداکا دوست ہے۔ (لطائف اشرفی 60/677)
ان کے دشمنوں کے سروں پر  فرشتوں کی تلوار لٹکی رہے گی۔   ( حیات مخدوم الاولیا صفحہ  36)
یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی  ان سے عداوت کی  خائب و خاسر ہوا اور ہوتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ  عزوجل
حضرت نظام یمنی کی اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نورالعین کے صاحبزادگان کو نہ صرف یہ کہ تبرکات عطافرمائے بلکہ انہیں بشارتیں بھی دیں اور ان کے حق میں دعائیں فرمائیں اور وہ تمام بشارتیں اور دعائیں حرف بہ حرف پوری ہوئیں ۔ نورالعین کے بڑے صاحبزادے کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ علم کا بے حدحصہ رکھتا ہے لیکن ا س کی عمر کم ہوگی  چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ جید عالم ہوئے لیکن کم عمری میں انتقال کرگئے ان سے چھوٹے حضرت مخدوم شاہ حسن تھے ، فرزنداکبر کی وفات کے بعد آپ ہی فرزنداکبر کہلائے اور مخدوم الآفاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین جیلانی نے اپنی کنیت ابوالحسن قرار دی ۔
حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے مخدوم نورالعین کی سجادگی و جانشینی کے اعلان کے بعد حضرت شاہ حسن کو اپنے پیرو مرشد حضرت سلطان المرشدین مخدوم علاؤالحق والملۃ والدین گنج بنات چشتی نظامی رضی اللہ عنہ متوفی800 ہجری کا مرحمت کردہ خرقہ مبارکہ عطافرماکر زبان گوہر فشاں سے فرمایا:
"حسن ماء احسن الوجوہ واکبر الوقوہ"
 حضرت شاہ حسن تعلیم و تربیت اور علم شریعت حضرت نورالعین کی حسن توجہ سے مکمل ہوئی اور حضرت نورالعین نے حضرت شاہ  حسن کی ہر وجہ سے اکبریت کا خاص خیال فرمایا اور اپنا خلیفہ کیا اور اپنے بعد سجادہ نشین بنا یا اور آستانہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشر ف جہانگیر سمنانی کی خدمت اور جاروب کشی سپر د فرمائی ۔
صاحب حیات مخدوم الاولیا فرماتے ہیں کہ مولانا شیخ حضرت عبدالرحمن چشتی صابری عباسی العلوی امیٹھوی (مصنف مراۃ الاسرار) 1034 ہجری میں حضرت غوث العالم محبوب یزدانی کے آستانہ عالیہ پر حاضری دی اس وقت ان کو سید شاہ حسن سرکارکلاں نے خلافت دی اور حضرت غوث العالم کا وہ خرقہ تبرک جو حضرت مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت سے حاصل ہوا تھا مرحمت فرمایا ۔ انہوں نے کچھوچھا مقدسہ میں حاضری کے تقریباً دس برس بعد 1045 ہجری میں مراۃ الاسرار کی تصنیف شروع کیاور بقول ان کے عہد شاہ جہانی میں تکمیل کی بلکہ صحیح تر یہ ہے کہ اپنی آخری زندگی تک اس میں اضافے کئے ۔ ( حیات مخدوم الاولیا ء صفحہ 39)

No comments:

Post a Comment