تعلیم تربیت:
آپ
نے ان کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی
اور اکثر علوم و فنون خود انہیں پڑھائے خصوصاً علم تصوف و طریقت کی تعلیم سے
آراستہ کی اور اپنی صحبت بافیض سے مستفیض فرمایا ۔
سید
سلطان اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ مکتوبات اشرفی میں فرماتے ہیں کہ "سلسلہ
نوربخشیہ میں ستر(70) اشخاص نے اس
درویش سے ایک سال میں قرآن حفظ کیا جن میں بندہ عبدالرزاق نے بھی
ایک سال کے دوران مخدومی خدمت میں قرآن پاک کو قرأت
سبعہ کے ساتھ حفظ کیا اس کے بعد علوم شرعیہ اور اصول فرعیہ کو حاصل کیا ۔ (مکتوبات
اشرفی 2/342)
اس سے پتہ چلا کہ سید عبدالرزاق
نورالعین حافظ قرآن بھی تھے اور آپ نے سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانیرضی اللہ
عنہ کی زیر نگرانی میں قرآن پاک کو سبعہ قرأت سے حفظ کیا اور بعد اس کےتحصیل علوم شرعیہ میں مشغول ہوئے اور تمام علوم معقول و منقول ،
ریاضی، نجوم ،ہیئت ، تفسیر ، حدیث
اورفقہ وغیرہا چہار دہ علوم کی تعلیم ابتدا سے انتہا تک حاصل کئے۔
آپ سفر و حضر میں نورالعین کو اپنے ساتھ رکھتے
تھے اور دوران سفربھی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتاتھا ۔ نورالعین کو بھی علم سے گہرا شغف
تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہےکہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ
عنہ کو علم سے کس درجہ شغف تھا اور انہوں نے حضرت سید عبدالرزاق کی تعلیم کے لئے کیا کچھ نہ کیا ہوگااس سے
خود حضرت سید عبدالرزاق نورالعین کے بھی علمی ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے۔
ایک بار
حضرت مخدوم سمنانی رضی
اللہ عنہ مکہ شریف کے سفر کا ارادہ فرمایا اور جہاز پر اکابر مشائخ کے
ہمراہ سوار ہوئے تو مولانا اعظم جمال بدخشانی بھی ہم سفر تھے ان کی عادت تھی کہ تجارت کی غرض سےمختلف
ممالک کا سفرکیاکرتے تھے ۔ آپ جامع العلوم تھے ۔اس سفر ان سے مختلف مسائل پر
گفتگو ہوتی رہی مولانا بدخشانی نے محسو س کیا کہ حضرت عبدالرزاق کو علم سے گہری
دلچسپی ہے اور ساتھ ہی جو ہر قابل بھی رکھتے ہیں ادھر سے علم سیکھنے کا شوق ظاہر
ہوا اور ادھر مولانا بھی سکھانے پر آمادہ
ہوگئے لیکن یہاں شاگرد و استاد کا رشتہ علوم دین نہ تھا کیونکہ علوم دینی کی تکمیل
بہ تمام و کمال خود سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کے ذریعے ہوچکی
تھی یہ علم اقلیدس و محیط وغیرہ سے متعلق
تھا ۔ چنانچہ حضرت نورالعین پاک فرماتے ہیں کہ " بندہ نے ہر چند علوم الٰہی
کی تحصیل و تکمیل حضرت قدوۃ الکبریٰ سے کی تھی لیکن مولانا بعض عجیب علوم ( ریاضی
) سے پوری طرح واقف تھے تو طبیعت کا تقاضہ ہوا کہ ان میں سے بعض علوم سیکھے جائیں
خصوصاً اقلیدس اور محیط سے سیکھا شروع کیا "۔
حضرت
سید عبدالرزاق نورالعین نے مولانا جمال
الدین سے علم سیکھنا شروع کیا اور جو کچھ سیکھتے اس کو لکھتے جاتے ابھی صرف مقدمہ
ہوا تھا کہ بحری سفر ختم ہوگیا اور بندرگاہ آگئی۔ مولانا کو ملک روم کی طرف جانا
تھا اس لئے اب تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا تھا ۔ حضرت نورالعین کی دلچسپی اس
علم سے بڑھ چکی تھی ۔ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے نورالعین کے شوق
کو دیکھ کر پوچھا کہ مولانا کا سامان تجارت
ملک روم میں کتنے داموں بگے گا اور ملک روم سے اشیاء خریدی جائیں گی وہ ملک چین میں کتنے داموں بکیں گی اور اس خرید
وفروخت سے کس قدر نفع ہوگا ۔ چند اصحاب نے حساب لگاکر حضرت محبوب یزدانی کے سامنے پیش کیا ۔ حساب میں ایک لا کھ بیس
ہزار دیکھا یا گیا تھا ۔ آپ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ جو زر نقد ہے وہ مولانا کے
خزانچی کو دے دیا جائے ۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ کل ایک لاکھ بیس ہزار دینار
ہیں ۔ یہ سب مولانا کے خزانچی کو دے دئے گئے اور مولانا سے وعدہ کیا کہ تعلیم ختم
ہونے کے بعد سفرسےواپسی میں انہیں اسی قدر زرنقد اور دیا جائے گا ۔ مولانا کی
رفاقت ایک سال رہی اور اس عرصے میں حضرت نورالعین پاک نے آپ سے پورا استفادہ کیا
اس کے بعد سفر سے واپسی پر مولانا کو ایک لاکھ بیس ہزار دینار حسب وعدہ پھر دیئے
گئے۔ (نورالعین صفحہ 12)
اس
واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی رضی اللہ عنہ نے کس طرح سید عبدالرزاق نورالعین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا اور چند
علوم سیکھانے کے لئے اُس زمانے میں ایک لاکھ بیس ہزار دینار خرچ کئے جو آج کے
کروڑو ں روپے کے برابر ہیں ۔ نیز اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ آپ کے دل میں علم
اور علماء کی قدر کتنی تھی کہ آ پ نے ایک سال تک مولانا جمال الدین بدخشانی
کو سفر میں ساتھ رکھا صرف اس لئے کہ وہ نورالعین کو علم سیکھائیں اور اس کے معاوضے
میں زر کثیر انہیں عطافرمایا۔
حضرت
سید عبدالرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی
اللہ عنہ نے اس قدر کرم فرمایا اور ایسی توجہ کی کہ اگر رونگٹے رونگٹے میرے بدن کی
قوت میں گویائی پائیں شرح اس کی بیان میں
نہ لا سکیں۔ ( مکتوبات اشرفی صحائف اشرفی 2/63)
آپ کی
زندگی بھی حضرت سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی کی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے کہ حضرت
نے اپنے والدین کنبہ اور خاندان سلطنت ودولت کو چھوڑ کر اپنی پوری زندگی اللہ کےلئے
وقف کردی ۔اسی طرح حضرت اولاد غوث
الاعظم سید عبدالزراق نورالعین الحسنی الحسینی نے بھی والدین عزیز ، رشتہ دار
اور گھر بار سب کچھ چھوڑ کر حصول معرفت
خداوندی کے لئے حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کا دامن تھام لیا اور پوری زندگی ان کی خدمت میں
رہ کر منزل سلوک طے کیا ۔ آپ کے اند ر حرص و طمع کے بجائے توکل و استغناء بدرجۂ
اتم تھا ایک مرتبہ حضرت شیخ سیف الدین مسند
عالی سیف خاں (جو کہ اودھ کے ایک رئیس اور
بہت بڑے منصب دار تھے ) نے ایک لاکھ اشرفی
کی جاگیر کا دستاویز لکھ کر حضرت مخدوم سمنانی کو بطور نذر پیش کیا تو آپ
نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہاں سید عبدالرزاق کے پاس لے جاؤ اگر وہ
چاہیں تولے لیں ۔ جب حضرت عبدالرزاق نورالعین کو معلوم ہوا تو فرمایا جس چیز کو
حضرت نے قبول نہ کیا میں کیسے قبول کرسکتاہوں ۔
زہے
بلند جہانے کہ چشم ہمت او
بسوئے
جلوۂ کونین التفات نکرد
آفریں
ہے اس بلند جہان شخص پر جس کی چشم ہمت نے دونوں جہان کے جلوؤں کو
دیکھنے پر توجہ نہ دی ۔
کسے کہ تابع متبوع خود
شد نکرد
نظر
بگوشۂ چشمان شش جہات نکرد
یہ ہمت
کہ وہ چشم سے شش جہات پر نظر نہ ڈالے اسی تابع سے ممکن ہے جواپنے متبوع
کے قدم بہ قدم چلتا ہو۔
مثل
مشہور ہے کہ " التابع کالمتبوع" تابع متبوع کی مثل ہوتا ہے۔
جب سید عبدالرزاق نورالعین کی اس بے نیازانہ
رویے کی خبر حضرت کوملی تو نہایت خوش ہوئے
اور انہیں اپنے حضور طلب کرنے کے شرف سے مشرف فرمایا اور لطف وعنایات کا اظہار
فرمایا ۔ آخر میں فرمایا کہ عبدالرزاق اور ان کی اولاد کو ہم نے خزانۂ الٰہی سے وابستہ کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے درخواست
کی ہے کہ اگر عبدالرزاق نورالعین کی اولاد اور اخلاف قناعت اختیار کریں گے توکسی
کے محتاج نہ ہوں گے۔ ان کی ادنیٰ توجہ ہمت مردان کا کام کرے گی ۔ (مکتوبات اشرفی مترجم مولانا ممتاز اشرفی صفحہ 19)
ہمتاں مردانِ
عالی اے پسر
ہر کجا
خواہند آنجا حاضر است
اے
بیٹے عالی مردوں کی ہمت (ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہے ) جہاں چاہیں حاضر ہے۔
ہمت شاں
با توجہ ہمرہ است
ہمت
ازناید توجہ قاصر است
ان کی
ہمت توجہ کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اگر ہمت حاضر نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ
توجہ میں کوئی کمی ہے۔ نورالعین کی اولا د ( ہمیشہ ) عزیز و محترم
رہے گی اگرمخلوق کے دروازے پر جائے گی تو خوار ہوگی۔
شیر نر بوسد بہ ہمت مرد قانع راقدم
مادہ سگ
خاید بدنداں پائے مرد بردرے
ہمت کی
وجہ سے شیر نر قناعت کرنے والے شخص کا قدم چومتاہے جو شخص کسی کے دروازے پر
جاتا ہے توکتیا دانتوں سے اس کے پیر زخمی کردیتی ہے۔
مرامل
راپائے بشکن و زاجل میندش ہیچ
مطمعے را پر مکن تاہر کجا خواہی برے
آرزو
کا پاؤں توڑ دے اور موت کا اندیشہ
نہ کر ، لالچ کی جگہ کو پر نہ کرپھر جہاں
سے چاہے پھل ملے گا۔
No comments:
Post a Comment