نورالعین کا لقب:
سید
عبدالرزاق نورالعین کے کئی القابات ہیں ۔نورالعین ، قرۃ العین، شیخ الاسلام، قدوۃ
الآفاق ، مخدوم الآفاق ،زبدۃ الآفاق وغیرہ لیکن ان میں "نورالعین " ہی مشہور
ہے۔ سید سلطان اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی رضی اللہ عنہ آپ سے
بے حد محبت فرماتے تھے اور آپ کو محبت سے نورالعین کہا کرتے تھے مکتوبات اشرفی میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت نے
فرمایا کہ" لوگ صلب (نطفہ) سے اولاد پیدا کرتے ہیں میں نے عبدالرزاق
کو آنکھوں سے پیدا کیا پھر یہ شعر پڑھا:
چہ
نورِدیدہ ام ازنورِدیدہ
کہ
نورِدیدہ باشد نورِدیدہ
میں نے
اپنی آنکھوں کےنور سے نوردیکھا جو میری آنکھوں کا نور بن گیا
حضرت نے
اظہار مسرت اور برگزیدہ ہونے کے سبب سید عبدالرزاق
کو "نورالعین " کے خطاب سے مخاطب فرمایا ۔
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی
رضی اللہ عنہ بزگوں کی اولاد کا ذکر آیا تو فرمایا کہ روحانیت ان بزرگوں کی اپنے
اولادوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ بہترین سعادت اس گروہ کی تعظیم ہے کیونکہ اولاد کی
تعظیم سے انکی اجداد کی تعظیم ہوتی ہے جیساکہ حضرت نے فرمایا کہ جب فقیر جونپور
میں گیا شیخ عبداللہ زاہد ی میرےملنے کو آئے ان کی عجیب حالت تھی کوئی نشے کی چیز کھائے ہوئے تھے اور نشے کے عالم میں تھے ۔
ایسی بے ادبانہ باتیں کرنے لگے۔
یہاں پر جامع لطائف اشرفی نے حضرت کے بجائے خود
واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کی خاطر نازک
ناخوش ہوئی اور یہاں تک نوبت پہونچی کہ حضرت مخدوم سمناں کے چہرۂ مبارک پہ آثار جلال
کے پیدا ہوئے ، چاہتے تھے کہ ان پر گرم نگاہ ڈالیں اور اپناتصرف دکھلائیں ۔ کیا
دیکھتے ہیں کہ روحانیہ پاک حضرت شیخ فرید الدین زاہدی ظاہر ہوئے اپنی ڈاڑھی کو پکڑ
کر فرمانے لگے کہ یہ میر ا فرزند ہے میری روح اس کے ساتھ ہے اور اس کا قصور معاف
کیجیئے۔ (لطائف اشرفی 56/662)
اسی طرح
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ
جب روم میں مقیم تھے ۔ شیخ الاسلام روم کے دل میں خدام والاکی طرف سے
مخالفانہ خیال پید ا ہوا اور پس پشت حضور پر نکتہ چینی کی ۔ رکاب حضرت اقدس کے
ہمراہیاں سے کوئی بات خلاف شریعت نہیں
صادر ہوتی تھی مگر وہ لوگوں سے یہی بیان کرتے تھے کہ فلاں شخص سے ایسی اورایسی
باتیں صادر ہوئیں۔ اکثر اس قسم کی غیبت کی مجلسیں قائم کیں ۔ حضرت کے بعض معتقد لو
گ اس خبر کو گوش مبارک تک پہونچاتے تھے مگر حضور یہی فرماتے تھے کہ خیر کہنے دو
جلد تنبیہہ ہوجائے گی۔
ایک دن
حضرت نماز فجر پڑھ کر وظیفہ میں مشغول تھے کہ اچانک شیخ الاسلام ننگے سر آئے اور معافی
مانگتے ہوئے قدم مبارک پر سر رکھ دیا ۔
حضور نے
فرمایا کہ یہ تو بتاؤ کہ یہ تمہاری معذرت کس سبب سے ہے۔
عرض کیا
حضور پہلے معاف فر مادیں اس کے بعد مجھ پر جو گذرا ہے عرض کروں ۔ مجھ پر جو گزرا
ہے کہ خدانہ کرے کسی مخلوق پر گزرے ۔ میں اپنے کوٹھے پر تھا اور جاگ رہا تھا ۔ کوٹھا ایسا تھا کہ جس میں
چیونٹی کا بھی گزر نہ تھا ۔ یکایک دس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے پہونچےاور میری
نسبت کہا کہ یہی وہ شخص ہے جو میرے سید اشرف جہانگیر سمنانی کی غیبت کرتا ہے ۔ابھی ا س کا سر تن سے جدا کروں
گا۔ مجھ کو زمین پر دے مارا اور چھاتی پر چڑھ گئے۔ مجھ کو ذبح کرنا چاہتے تھے کہ
اسی وقت ایک سفید داڑھی والے بزرگ ایک طرف سے آئے اور مجھ کو ان لوگوں کے ہاتھ سے ہزاروں خوشامدیں کرکے
چھڑایا اور فرمایا کہ آپ لوگ چلے جائیں کیونکہ اس کے گناہ کی معافی میں نے حضرت سے
مانگ لی ہے۔
وہ لوگ
چلے گئے تب وہ بررگ مجھ پر بہت بگڑے کہ مردان خدا کے متعلق ہرگز ہر گز نکتہ
چینی نہیں کرنا چاہیے۔ فوراً جاؤ اور حضرت
کے قدم پاک کو اپنا سرتاج بناؤ۔ میں نے تمہاری خطاکی معافی حضور سے مانگ لی
ہے۔
حضرت مسکرا
پڑے اور فرمایا کہ تیرا دادا مرد باخدا تھا ۔ یہ اسی کی روحانیہ دیکھی گئی ہے جس
نے تیری شفارش کی ۔ اب کسی درویش کے خلاف خیال بھی نہ کرنا ۔ (لطائف
اشرفی )
حضرت
مولانا الحاج سید شاہ ابوالفتح مجتبی اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہفرماتے ہیں مجمع
البحرین حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ
حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء
مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد
علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی بمبئی میں اپنے ایک
مرید کے مکان پر تشریف فرما تھے اس کی دوکان نچلے منزل میں تھی ۔ دوران قیام اس
مرید کی دوکان پر ایک درویش آیا اور
دوکاندار سے باالجبر کوئی چیز مانگنے لگا۔ دوکاندار نے کہا کہ نہیں دونگا۔ فقیر نے
کہا اگر نہیں دوگے تو تمہارے مکان میں آگ لگ جائے گی ۔ وہ گھبرایا ہوا حضور کی خدمت میں آیا اور ماجرا بیان کیا۔
حضور نے فرمایا مت دو۔ دوکاندار کی ہمت ہوئی وہ فقیر دکان پرموجود تھا ، پھر بولا
جلد دو ورنہ آگ لگادوں گا۔ پھر حضورکی
خدمت میں حاضر ہوا اور فقیر کی ضد بیان کی ۔ فرمایا مت دو، پھر جب دوکان پر آیا ،
فقیر بولا، اگر نہیں دیتے ہو تو بس آگ لگنے ہی والی ہے۔ دوکاندار دوڑا ہوا حاضر
ہوا اور فقیر کی فقیرانہ شان کی بات عرض کی ۔ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں
کچھوچھوی قد س سرہ نے آنکھیں بند فرمائیں
پھر فرمایا ، دیدو ، دیدو اور دیکھا کہ کونے میں آگ لگ رہی ہے دکاندار مرید نے عرض
کیا حضور یہ کیا بات تھی کہ دوبار آپ نے فرمایا
مت دو۔ اور تیسری بار فرمایا دیدو۔ اس میں کیا راز ہے ؟؟؟
جواب
میں فرمایا کہ پہلی مرتبہ میں نے دیکھا تو فقیر باالکل پھوٹا دھول تھا ، دوسری
مرتبہ اس کے پیر کو دیکھا تو وہ بھی ویسا
ہی تھا لیکن تیسری مرتبہ اس کے پیر کے پیر کو دیکھا تو وہ کچھ تھا ۔ اس نے دعا کی
کہ میرے مولیٰ مرید کے مرید کی عزت و لاج کی بات ہے ، گوکہ مریداس لائق نہیں ۔
لیکن میری دعاء قبول فرما، اور مرید کی لاج رکھ
غرض کہ فقیر کے پیر کے پیر کے سبب
میں نے تمہیں تیسری مرتبہ کہہ دیا کہ اسے دے دو ،دے دو۔ ( حیات مخدوم الاولیا ء محبوب ربانی صفحہ 254)
غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ میری حیات اور موت یکساں ہے ۔ میں اپنی حیات وممات میں اپنی
اولادوں کے ساتھ ہوں ۔ وہ ہرگز ہرگز مجھ سے جدا نہیں ہے۔اس کے ساتھ آپ نے یہ نظم
پڑھی :
کسے کو اولیاء را مردہ
داند
پس آں
کس مردہ است آں زندہ باشد
جو شخص
اولیا ء کو مردہ خیال کرتاہے پس وہی شخص مردہ ہے اور اولیاء زندہ رہیں گے۔
برآراز دل چنیں تصویر باطل
کہ الحق اولیا پایندہ
باشد
اے شخص
! ایسے باطل تصور کو دل سے نکال دے کہ الحق اولیاء پایندہ رہیں گے
خدایم داد عیش جا ودانی
کہ ہم در مردگی با زندہ باشد
مجھے
اللہ تعالیٰ نے عیش جاودانی عطاکیاہے ، موت میں بھی زندہ لوگوں کے ساتھ رہوں گا۔
منم در مردگی ہمراہ
زندہ
بہر جا روح من زایندہ باشد
میں
موت میں زندہ کے ساتھ رہوں اور میری روح ہرجگہ ظاہر ہوگی۔
بہر جا خواہیم ہستیم حاضر
کہ حاضر
غائبم دانندہ باشد
ہم
جہاں چاہیں گے موجود ہوں ہمارے غائب سے حاضر کی حقیقت سمجھ میں آئے گی۔
اشرف از زندگی مردانہ مردہ
بہر جا
خواہدش آئندہ باشد
اشرف
زندگی سے مردانہ وار گیا ہے اسے جس جگہ سے بلاؤ گے آ جائے گا۔
(مراۃ
الاسرار صفحہ 1177 ، لطائف اشرفی 56/232)
No comments:
Post a Comment