ترتیب و تالیف
لطائف
اشرفی جو سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کے مجموعہ ہے اس کا اکثر
حصہ آپ سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل ہے ۔ حضرت نورالعین نے حضرت محبوب یزدانی کے
آخری ایام کے مکتوبات کو جمع کرکے ایک خاتمہ کے ساتھ تحریر فرمایا یہ تصوف و معرفت
کے مسائل پر مشتمل ہے ۔ آخر میں آ پ نے تاریخ عالم بادشاہوں کے احوال نیز علماء
کرام کے تراجم اور شعراء کے اشعار کے تراجم اختصار کے ساتھ تحریرفرمایا ہے ۔ اس
ترتیب و تالیف میں تاریخ جہاں کشائی " جامع التاریخ " اور تاریخ
گزیدہ" سے بھی انتخاب کیا ہے ۔ طبقات
ملوک کے تذکرہ میں آپ نے " طبقات ناصری" اور "تاریخ
ابراہیمی" سے زیادہ اقتباسات اخذ کئے ہیں اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی کے آبا ء و اجداد میں جو ملوک گذرے ہیں ان کے تذکرۃ میں حضرت علاؤ الدولہ سمنانی
کی تاریخ ابراہیمی سے انتخابات ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ "خاتمہ"
آپ کی نثر نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔
شاعری
آپ ایک باذوق شاعر تھے اور شعر گوئی
میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی ۔آپ کا کوئی دیوان تو نہیں ہے کچھ قطعات اور منقبت
کے اشعار بمشکل تمام دستیاب ہوسکے ہیں جن سے آپ کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے
۔ چند اشعار نمونے کے طور پر تحریر کئے جاتے ہیں ۔ جو حضرت غوث العالم
محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی قد س سرہ النورانی کی منقبت میں لکھے گئے ہیں :
سپہر منقبت خورشید اشرف
کہ می باابد دازو نہ چرخ داوای جہانگیر جہاں پیر ولایت محیط جہاں را تا سروپائ مدار نقطہ دور سکندر کہ آمد از نفس نہ خرخ دروای |
حضرت سیدشاہ ابوالمظفر علی اکبر بلبل قد س سرہ کی شان میں یہ اشعار تحریر فرمائے ہیں :
جہاں دار دارائے خورشید تیغ
ابوالفتح جمشید گیتی کشائے گل بوستانِ سیادت نہال مل دوستانِ نقابت فزائے شہ بوالمظفر جہاں دار دیں کہ گیتی گرفتہ بشمشیر رائے چوں خورشید از تیغ نصرت گہر ز آئینہ ملک گرفتہ بشمشیر رائے زئے آفتاب سپہر ھدی کہ ہرذرہ رانوربخش از ضیائے ز آثار شاہان گیتی فروز ہمہ دارد و کرد دیگیر نہائے کم از ذرہ بود عبدالرؔزاق چو خورشید شد اشرؔف رہنمائے |
No comments:
Post a Comment