Panjum Khalifa e Rashid Hazrat Imam Hasan Mujtaba RadiAllah Anhu The

 

پنجم خلیفہ راشد حضرت سیدنا امام حسن  مجتبیٰ رضی اللہ عنہ  تھے

وعن سفينة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول الخلافة ثلاثون سنة ثم تكون ملكا عضوضاً . ثم يقول سفينة أمسك خلافة أبي بكر سنتين وخلافة عمر عشرة وعثمان اثنتي عشرة وعلي ستة . (رواه أحمد والترمذي وأبو داود )

ترجمہ: حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا ۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی  جو کاٹنے والی بادشاہت ہوگی ۔حضرت سفینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال اس کے بعد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے کچھ مہینے (رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ)۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد/ مشکوۃ شریف جلد چہارم باب: فتنوں کا بیان1326-1328)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق ، حضرت سیدناعثمان غنی ، حضرت مولائے کائنات سیدنا علی ، حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور خلیفہ پنجم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔

خلافت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا بھی ہے۔ اور اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران ، عراق، مصر، فلسطین،  شام ،فارس، تونس اور اس کے علاوہ کئی ممالک بھی اسلام کے زیر نگیں آگئے۔

 حضرت محمد مصطفیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کے ظاہری وصال کے بعد  پانچ خلفاء کو مجموعی طور  خلفائے راشدین کہا جاتا ہے۔

٭  خلیفہ اول امیر المؤمنین  حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بن ابو قحافہ   (632-634 عیسوی )

٭ خلیفہ دوم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا عمر  فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بن خطاب ( 634-644 عیسوی)

٭ خلیفہ سوم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا عثمان  غنی رضی اللہ عنہ  بن عفان( 644-656 عیسوی)

٭ خلیفہ چہارم امیر المؤمنین  حضرت مولائے کائنات  سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم (656-661 عیسوی )

٭ خلیفہ پنجم  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام (661-661 عیسوی )

شاہ عبدالحق حق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے خلافت کو اس لیے ترک کیا تھا کہ آپ بادشاہوں میں داخل نہ ہونا چاہتے تھے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا الخلافۃ بعدی  ثلاثون سنتھ ثم یصیر ملکا عضو ضا  کہ میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اور اس کے بعد کٹھنہ کھنی بادشاہت آجائے گی اور یہ مدت خلافت حضرت ربیع الاول اکتالیس ہجری میں ختم ہوگئی۔جب کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام  حضرت معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔

 حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام بھی  خلفائے راشدین سے ہیں کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا  الخلافۃ یہ ثلاثون سنتھ ثم تکون ملکا کہ خلافت میرے بعد تیس سال ہوگی پھر بادشاہت ہوگی اور یہ خلافت تیس سال اس وقت مکمل ہوتی ہے جبکہ کے امام حسن کی خلافت کو بھی اس میں شامل کیا جائے کیوں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ریبع الاول 11 ہجری میں ہے  اور امام حسن حضرت معاویہ کے حق میں اکتالیس ہجری میں دستبردار ہوئے جب تک امام حسن کی خلافت کو شمار نہ کیا جائے اس وقت تک تیس سال مکمل نہیں ہوتے جس سے ثابت ہوا کہ امام حسن بھی خلیفہ راشد ہیں  اور خلفائے راشدین میں سے ہیں ۔ اور خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کی مدت دو سال تین ماہ تھی اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کی مدت دس سال اور 6 ماہ تھی اور حضرت عثمان غنی کی خلافت کی مدت بارہ سال مگر چند دن کم تھی اور اور حضرت علی شیر خدا کی مدت4 سال اور نو ماہ تھی اور اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی خلافت کی مدت سے چھ ماہ اور کچھ دن تھی۔ ( منح الروض الأزہر شرح الفقہ الأكبر /ملا علی القاری  صفحہ ،68، شرح العقائد النسفیۃ/سعد الدين التفتازانی صفحہ 150، النبراس / علامہ نورالدين علی ، مفتی الدیار المصریہ  صفحہ 308،  المسامرۃ /شیخ قاسم بن قطلوبغا  الحنفی صفحہ 316)

صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب بہار شریعت میں لکھتےہیں کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ہوئے۔ اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔( بہار شریعت/حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ 1/241، قانون شریعت (تخریج شدہ) /قاضی شمس الدین جونپوری علیہ الرحمہ صفحہ 70/مجلس مدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی، فیض القدیر شرح جامع صغیر/ جلال الدین السيوطی الشافعی علیہ الرحمہ/شارح: علامہ عبدالرؤوف مناوی علیہ الرحمہ 4/664)

 امام الموحدین ابوسعیدحضرت سیدنا خواجہ حسن بصری(المتوفی 111ہجری)  قد س سرہ فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم ! آپ کی خلافت میں ایک قطرہ بھی خون کا نہیں بہا۔ (مسند امام احمد بن حبنل 5/44)

خلافت راشدہ کا مفہوم ومطلب : خلافت راشدہ سے مراد یہ ہے کہ خدا اور رسول نے جو حکمرانی کے اصول بیان فرمائے ہیں اور رسول اللہ کی تربیت و تعلیم اور عملی رہنما سے جو معاشرہ وجود میں آیا ہے طریق  پر خلافت وحکومت کرنا خلافت راشدہ ہے۔ گویا کہ منہاج نبوت کے مطابق جو خلافت ہے وہ خلافت راشدہ ہے اور یہ خلافت صرف تیس سال تک ہے اور یہ مدتِ خلافت اس وقت پوری ہوگئی جبکہ امام حسن علیہ السلام نے خلافت کو ترک کیا۔ تیس سال بعد ملوکیت اور بادشاہت شروع ہوگئی۔ اس بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بادشاہ  ہیں خلیفہ نہیں ہیں چنانچہ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ  جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت ہو جانے کے بعد ان سے ملے تو اسلام علیک ایھا الملک کہ کر کا خطاب کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر آپ مجھے  امیر المومنین کہتے تو کیا حرج تھا؟

انہوں نے جواب دیا خدا کی قسم! جس طرح آپ کو حکومت ملی ہے اس طریقہ پر  اگرمجھے مل رہی ہوتی ہو  تو میں اس کا لینا ہرگز پسند نہ کرتا۔ حضرت حضرت معاویہ  خود بھی اس کو حقیقت سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے خود کہا تھا انا اول  الملوک ملک میں مسلمانوں کا پہلا بادشاہ ہوں۔  (خلافت و ملوکیت صفحہ 148، بارہ امام /علامہ غلام رسول جماعتی نقشبندی علیہ الرحمہ صفحہ 293)

ابن تیمیہ(المتوفیٰ728ہجری)  لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بادشاہ تھے۔ (منہاج السنہ 3/ 185)

قاضی ابوبکر بن العزنی  (المتوفی534 ہجری)  لکھتے ہیں کہ بادشاہی کی ابتداء حضرت معاویہ سے ہوئی ہے۔(العواصم من القواصم صفحہ 207)

 حافظ ابن کثیر(المتوفی 774ہجری)  لکھتے ہیں کہ  السنۃ ان یقال لہ ملک ولا یقال لہ خلیفۃ لحدیث سفینۃ الخلافۃ بعدی ثلاثون ثم تکون ملکا عضوضاً سنت یہ ہی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کہا جائے خلیفہ نہ کہا جائے بوجہ حدیث سفینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  خلافت میرے بعد 30سال ہوگی پھر کاٹنے والی بادشاہت ہوگی۔ نیز حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ  و اول مرک الاسلام معاویہ بن ابی سفیان (تفسیر ابن کثیر 2/14) کہ اسلام میں پہلا بادشاہ امیر معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں انقضت الخلافۃ بشھادۃ علی کرم اللہ وجہہ وخلع الحسن ومعاویہ کا ن علی سیرۃ الملوک لا علی سیرۃ الخلفاء  حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  کی شہادت اور امام حسن کی دستبرداری سے خلافت ختم ہوگئی اورمعاویہ بادشاہوں کی سیرت پر تھا خلفاء راشدین کی سیرت پر نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 4/212)

 علامہ تفتازانی  (المتوفیٰ ہجری 792) لکھتے ہیں کہ فمعاویۃ ومن بعدھم لو یکونوا خلفاء ملوکا والامراء پس معاویہ اور ان کے بعد حکمران خلفاء نہیں تھے۔ بلکہ بادشاہ و امراء تھے۔  ( شرح عقائد 109)  

سید شریف جرجانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی اور جو ان تیس سال کے درمیاں ہوئے ہیں وہ خلفاء ہیں تیس  سال کے بعد ہوئے بادشاہ ہیں۔ (شرح مواقب صفحہ 740)

دیوبندی عالم  علامہ خلیل احمد انبیٹھوی (المتوفیٰ 1346ہجری)  لکھتے ہیں بل علی وحسن خلفاء و بعد ھا ملک وامارۃ بذل الجھود ۔(شرح ابو داؤد جلد5)

شیخ امام علی بن سلطان محمد ہروی معروف بہ ملا علی قاری حنفی(المتوفیٰ 1016ہجری)  لکھتے ہیں کہ واول ملوک المسلمین معاویۃ مسلمانوں کا پہلا بادشاہے۔ (شرح فقہ اکبرصفحہ 183)

ابو الحسنات عبد الحی  الحنفی لکھنوی فرنگی محلی (متوفی 1304 ہجری)  لکھتے ہیں فکان الحسن آخرخلفاء الراشدین نبص جدہ صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن آخری خلیفہ راشد تھے آپ کے خلاف پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی ہے۔(فتاویٰ عبدالحئی2/65) 

 حافظ ابن عبدالبر (المتوفیٰ 463 ہجری)  یقول معاویۃ انا اول الملوک کہ حضرت معاویہ خود کہتے تھے کہ میں پہلا بادشاہ ہوں ۔(الاستیعاب 3/380)

قاضی شمس الدین جونپوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اول ملوک اسلام ہیں۔(قانون شریعت (تخریج شدہ) صفحہ 70/مجلس مدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی)

اس سے ثابت ہوا کہ خلافت راشدہ تیس سال تھی وہ موت اس وقت پوری ہوگئی جب امام حسن علیہ السلام حضرت معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے اس کے بعد بادشاہت شروع ہوگئی اس بنا پر حضرت معاویہ بادشاہ تھے خلیفہ نہیں تھے۔

) اقبتاس: بارہ امام /ملفوظات غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ النورانی)


خلافت راشدہ۱۱  ہجری سے ۴۱ ہجری تک (632-662)

خلافت بنو امیہ۴۱ ہجری سے ۱۳۲ ہجری تک(662-750)

خلافت بنو عباسیہ: 132 ہجری سے 656ہجری تک(750-1258)

 خلافت عثمانیہ : ۶۹۸ ہجری سے ۱۳۴۲ہجری تک (1299-1924) غرضیکہ ۱۹۲۴ میں تقریباً ۱۳۵۰ سال بعد مسلمانوں کی ایک مرکزی خلافت /حکومت ختم ہوگئی۔

تخریج و تحشیہ

ابومحامد آل رسول احمد الاشرفی القادری

 

 

Huzoor Sallallahu Alaihi Wa Sallam Ne MutaAddad Nikah Kyu Ki ?

 


حضور صلی اللہ علیہ و سلم  نے متعدد نکاح کیوں کیے؟ 

 ایک پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کا لج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت النبی ﷺ کانفرس منعقد کرائی اورتمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔

چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے) کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔

 یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔ کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدر آباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی۔

  اس نے کہا کہ  آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں۔

میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گئے تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا  ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔

ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ 

میں نے بتایا : اسلام ۔

ہمارے نبی ﷺ کا نام پوچھا :میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  بتایا

پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟

میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور ﷺ کے بارے میں (معاذاللہ ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ  دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضور  ﷺکے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے  پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔

 آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے۔

 جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔

غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر آج ڈاکٹر عنایت اللہ کا یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا؟

اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضور  ﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

کئی میٹنگز میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔

اس لئے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں ۔

میں ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور ﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔

لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہما رے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔

 اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

 انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کررہا ہوں۔  اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے ”گرجا گھر“ چلے جاتے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم  ﷺکا تعارف کراتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) میرے پیارے نبی ﷺ نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت سیدتنا خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کیا ۔

  (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ ﷺنے نکا ح کئے ۔

 پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال پوچھا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں۔

 آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا؟

 سب خاموش رہے ۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ ﷺنے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔

پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔

 اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم  ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔

  (2) حضرت سیدتنا سودہ رضی اللّٰہ عنہا

  (3) حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا اور

  (4) حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللّٰہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے ۔

  (5) عربوں میں کثرت ازواج کا رواج تھا۔ دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپ ﷺ کے پیش نظر تھا۔ 

  ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔

 ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور ﷺکے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی حضرت سیدتنا ام حبیبہ رضی اللّٰہ عنہا سے حضور  ﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔

 حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور ﷺ  نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.

  (6) حضرت سیدتنا جویریہ رضی اللّٰہ عنہا کا والد قبیلہ مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور ﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہوکر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔

(7) خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت سیدتنا صفیہ رضی اللّٰہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم ﷺ سے کرا دیا ۔

(8) اسی طر ح حضرت سیدتنا میمونہ رضی اللّٰہ عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور ﷺکے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مشاہدہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔

  (9) حضرت سیدتنا ماریہ رضی اللّٰہ عنہا سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس نے بطور ہدیہ کے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا تھا۔

(10) حضرت سیدتنا زینب بنت جحش رضی اللّٰہ عنہا سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور ﷺ کے متبنی (منہ بولے بیٹے) کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے انہیں طلاق دے دی تو حضور ﷺنے نکاح کر لیا اور ثابت کردیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.

  (11) اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت پاک ہے۔

آپ  ﷺکی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لئیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔

ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لئیے آپ ﷺ نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللّٰہ عنہا جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔

 حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 48 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔

 صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا ۔

 اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔

ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لئیے تھیں اور سار ی دنیا کے لیے  تھیں اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا  ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔

 اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کرلیں اور کوئی بدبخت حضور  ﷺ کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔