سوال۔ مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب کیا ہے؟؟؟
جواب۔ چونکہ مدارِس اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ ہیں اسلئے ان کی تباہی
پورے مسلمانوں کی تباہی ہے"چو کفر ازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی"
یہ مسئلہ انتہائی توجہ طلب ہے لیکن جانے کس وجہ
سےادھر ہماری توجہ ہی نہیں ہے۔ذیل میں محمد غازی شمیم اشرفی اپنے احساسات پیش
کرتاہے امید ہے کہ حساس علمائے کرام نقد ونظر سے ممنون فرمائیں گے۔
اگر مدرسوں میں منصب اور عہدہ صرف اس کو ملتا جو
شرعًا اس کا حقدار اوراہل ہے تو آ ج مدارس کو موجودہ حالتِ زار سے دوچار نہ ہونا
پڑتا شرعًا معلمی اور استاذی کا
حقدار اوراہل وہ ہے جس کے پاس حقیقۃً علم ہو عمل ہو اور وہ طلبہ کو بھی عمل پر
ابھارے اوروہ علومِ رائجہ سے متعلق اپنی ہر بات طلبہ کے خوب ذہن نشین کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہو جن
کے پاس یہ چاروں چیزیں نہ ہوں وہ معلمی اور مدرسی کے ہرگز حقدار اور اہل نہیں ، ان
سے طلبہ کی صحیح تعلیم وتربیت اور افرادسازی کی امید کھلی بیوقوفی ہے_ یہ نااہل ہی
دراصل دین کو برباد کرنے والے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"إن
هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم"يعني يہ علم ہی دین ہے لہذا تم یہ
دیکھو کہ اپنا دین کس سے لے رہے ہو ۔اپنا معلم کس کو مقرر کررہے ہو۔
نیز ارشاد فرمایا ''لاتبکوا علی الدین إذا ولیہ أھلہ وابکوا علیہ إذا ولیہ غیر أھلہ''
یعنی جب اہل اور حقدار لوگ دین کی سرپرستی کریں
تو دین پر رونے کی ضرورت نہیں ہاں جب دین کا معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں ہو تو پھر
دین پر رونے کی ضرورت ہے۔اس حدیث سے پتاچلا کہ دین کی تباہی وبربادی نااہلوں سے
ہوگی
ایک اور حدیث میں ہے إذاوسد الأمرإلی غیرأھلہ فانتظر الساعۃ
یعنی جب معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں تھمادیا دیا
جائے تو قیامت کا انتظار کرنا''
اس سے پتہ چلا کہ دنیا کی بربادی بھی نااہل لوگوں
کے سبب ہوگی تبھی تو فرمایا کہ جب معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں تھمادیا جائے تو
قیامت کا انتظار کرنا"
نااہلوں کے ہاتھوں دین تباہ ہوتا جارہاہے مدرسوں
میں دینی روح اور دینی ماحول پیداکرنے والے ناپید ہورہے ہیں پھر بھی آج بیشتر
مدارس میں مدرس کی تقرری اس کے علم ،صلاحیت اور استتحقاق پر نہیں ہوتی بلکہ رشتے
داری، دوستی دنیوی منفعت’ رشوت، خوش آوازی اور گھن گرج تقریر وغیرہ کی بنا پر ہوتی
ہے اور اپنے رشتے دار، دوست ،قریبی اور چاپلوس کو مستحق ثابت کرنے کیلئے پوری کوشش
بلکہ منظم سازش کی جاتی ہے اس بلا میں نہ یہ کہ صرف عوام بلکہ اچھے اچھے اہل علم
حتی کہ خانقاہوں کے بوریہ نشین بھی گرفتار ہیں ۔اپنی اولاد، احباب اور نااہل طلبہ
کو جگہ کا حقدار ثابت کرنے کیلئے کیا کیا نہیں کیا جاتا اگر اولاد انگریزی پڑھ رہی
ہو تو بھی انھیں عربی فارسی بورڈ کا امتحان دلاکر عالم وفاضل باور کرایاجاتا ہے اس
کے لئے باقاعدہ نقل کرنے اور کرانے کا جرم عظیم بھی کیا جاتا ہے گھوس کی صورت بھی
اپنائی جاتی ہے اس طرح سے نااہل لوگ
نااہلوں کا استحقاق ثابت کرتے ہیں اور حقدار واہل حضرات کا حق مارتے ہیں
یادرکھو !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے
ہیں: ﻣﻦ ﻭﻟﻲ ﻣﻦ ﺃﻣﺮ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ
ﺷﻴﺌﺎ ، ﻓﻮﻟﻰ ﺭﺟﻼ ﻭﻫﻮ ﻳﺠﺪ ﻣﻦ ﻫﻮ ﺃﺻﻠﺢ ﻟﻠﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻣﻨﻪ ﻓﻘﺪ ﺧﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪﻭﺭﺳﻮﻟﻪ . یعنی جو مسلمانوں کے
کسی معاملے کاذمہ دار ہو اور وہ مسلمانوں کیلئے زیادہ مناسب اور بہتر شخص کو
چھوڑکر کسی دوسرے کو ان کا والی ونگراں بنائے اس نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت
کی۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ : ﻣﻦ ﻗﻠﺪ ﺭﺟﻼ ﻋﻤﻼ ﻋﻠﻰ ﻋﺼﺎﺑﺔ ، ﻭﻫﻮ ﻳﺠﺪ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ ﺍﻟﻌﺼﺎﺑﺔ ﺃﺭﺿﻰ ﻣﻨﻪ ، ﻓﻘﺪﺧﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺧﺎﻥ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻭﺧﺎﻥ
ﺍﻟﻤﺆمنین
یعنی جو کسی گروہ)مثلًا گاؤں ،قبیلے اور قوم(
کیلئے کسی شخص کو کام پر لگائے جبکہ وہ اس گروہ میں شرعًا اس سے زیادہ بہتر کو
موجود پائے تو اس نے اللہ کے ساتھ خیانت کی ،اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی اور
مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی اس سے پتہ چلا کہ کوئی بھی عہدہ مستحق اور اہل حضرات کا ہی حق ہے
۔اگر ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ کسی عہدہ پر کسی کو فائز کرسکتے ہیں تو اس کا اہل
تلاش کر ہی اس کے سپرد کریں اس لئے کہ وہ اسی کا حق ہے جو کہ ہمارے پاس محض امانت
ہے ورنہ ہم اس اہل کے حق میں گرفتار ہونے کے ساتھ اللہ ورسول اور قیامت تک جنھیں
بھی نااہل کی تقرری کے سبب کوئی نقصان پہنچے ان سب کے حق میں گرفتار ہوں گےیہ
تماشا بھی دیکھنے کو ملا کہ اگر کسی نے اپنی طاقت استعمال کرکے کسی اہل کو اس کا
حق دیدیا اور اسے اس کی جگہ پر متمکن کردیا تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں نے اس
کے اوپر بڑا احسان کیا ہے اور وہ بسااوقات نہایت متکبرانہ انداز میں اس کا ذکر بھی
کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس حقدار پراحسان نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس پر
احسان کیا کہ اس نے حقدار کو اس کا حق دیا لیکن آگے اس نے احسان جتا کے اپنا اجر
ضائع کرلیا اس کو اپنی اصلاح کی سخت
ضرورت ہے کیونکہ وہ منافق اَعرابیوں کے طریقے پر گامزن ہے قرآن پاک میں ہے کہ "ﻳﻤﻨﻮﻥ ﻋﻠﻴﻚ ﺃﻥ ﺃﺳﻠﻤﻮﺍ ﻗﻞﻻ ﺗﻤﻨﻮﺍ ﻋﻠﻲ ﺇﺳﻼﻣﻜﻢ
ﺑﻞ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﻤﻦ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻥ ﻫﺪﺍﻛﻢ ﻟﻺﻳﻤﺎﻥ ﺇﻥ ﻛﻨﺘﻢ
ﺻﺎﺩﻗﻴﻦ"
یعنی اے میرے محبوب!منافق اَعرابی تم پر اپنے
ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں۔تم فرمادو کہ تم اپنے ایمان لانے کا احسان مجھ پر
مت رکھو بلکہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تم پر احسان رکھتاہے کہ اس نے تمھیں ایمان کی
ہدایت دی۔کسی حقدار کو اس کا حق دیکر احسان جتاناانتہائی گھٹیا کام ہے اوراسے اس
کا حق نہ دینا اس پر ظلم اللہ ورسول کے ساتھ خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ دغابازی
ہے
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے " ﻳﺎﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﻻ ﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﺮﺳﻮﻝ
ﻭﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺃﻣﺎﻧﺎﺗﻜﻢﻭﺃﻧﺘﻢ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ { .
یعنی اے ایمان والو! تم جان بوجھ کر اللہ ورسول
کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو۔
نیز فرماتاہے :إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات الي أهلها"
يعني بیشک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان
کے اہل کے حوالے کرو
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا ﻣﺎ ﻣﻦ ﺭﺍﻉ ﻳﺴﺘﺮﻋﻴﻪﺍﻟﻠﻪ ﺭﻋﻴﺔ
، ﻳﻤﻮﺕ ﻳﻮﻡ ﻳﻤﻮﺕ ، ﻭﻫﻮ ﻏﺎﺵ ﻟﻬﺎ ، ﺇﻻ ﺣﺮﻡ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺭﺍﺋﺤﺔ ﺍﻟﺠﻨﺔ ـ
یعنی اللہ جسے کسی گروہ کا ذمہ دار بنائےجس دن وہ
مرے گا اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا جبکہ اس نے اس گروہ کےساتھ دغابازی
کی ہو۔
ہم لاکھوں لاکھ کی لاگت سے جلسے جلوس کرتے ہیں اس
سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم مدرس ومعلم کی تقرری سے پہلے پچیس پچاس ہزارخرچ کرکے کچھ
باصلاحیت علما کو بلواکر ان کی اہلیت کی جانچ کرلیں پھر ان کی تقرری کریں نا اہلوں
کی تقرری کے بعد تعلیمی معیار بنانے کیلئے کتنی بھی کتابیں بدلیں کتنے بھی نئے
نصاب مقرر کریں اور کتابوں کی کتنی بھی مقدار یں متعین کریں۔لیکن کامیابی کی امید
نہ رکھیں ۔اگر دل میں خدا کا خوف ہے تو نااہل کی تقرری کرکے اللہ ورسول کیساتھ
خیانت اورقوم وملت کے ساتھ دھوکے بازی کا عذاب مول نہ لیں۔اللہ عمل کی توفیق عطا
فرمائے ۔آمین بحرمۃ النبی الامین صلی للہ علیہ وآلہ وسلم ...