جمعۃ المبارک فضائل و مسائل
لفظ ’’جمعہ‘‘ کا مادہ جمع / ج، م، ع، ہے۔ ۔ ۔
جمع الشئی عن تفرقہ وان لم یجعل کالشئی الواحد۔ ’’بکھری ہوئی چیز کو جمع کرنا
اگرچہ ایک چیز نہ بنایا جائے‘‘۔ ۔ ۔ ’’استجمع الیل اجتمع من کل موضع‘‘۔ سیلاب کا
پانی ہر جگہ سے آکر جمع ہوگیا۔ ۔ ۔ تجمع القوم۔ ’’قوم ادھر ادھر سے آکر ایک جگہ
جمع ہوگئی‘‘۔الجمع اسم لجماعۃ الناس۔ ’’لوگوں کی جماعت‘‘قرآن کریم میں ہے۔إِذَا
كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوه"
ُ. جب صحابہ کرام رسول پاک صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ہمراہ کسی جامع معاملہ میں موجود ہوں تو بلا اجازت نہیں جاتے‘‘۔ ۔ ۔
الزجاجہ نے کہا بعض علماء نے کہا یہ جمعہ کے دن ہوتا تھا۔ کہا کہ اللہ پاک نے
مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب وہ اس کے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ
ہوں جہاں ضرورت ہو مثلاً جنگ وغیرہ جہاں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، تو
آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ ۔ ۔ پہلے جمعہ کو ’’عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ ۔ ۔ پہلے جمعہ کو ’’عروبہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
جمعہ یوم میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
امام سہیلی نے الروض الانف میں فرمایا: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ کعب بن لوی رضی اللہ عنہ پہلے بزرگ ہیں
جنہوں نے یوم عروبہ (جمعہ) کو لوگوں کو جمع کیا۔ ۔ ۔ ’’عروبہ‘‘ کو ’’جمعہ‘‘ کا نام
اسلام نے دیا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے یوم عروبہ کا نام یوم جمعہ
رکھا اور سیدنا کعب بن لوی قریش کو خطاب فرماتے اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی آمد (بعثت) کے تذکرے سناتے اور ان کو بتاتے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میری اولاد میں سے ہونگے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور اس محفل میں
اشعار پڑھتے جن میں ایک یہ بھی ہے۔
یالیتنی شاہد فحواء دعوتہ
اذا قریش تبغی الحق خذ لانا
اذا قریش تبغی الحق خذ لانا
’’کاش میں (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کی دعوت کے وقت موجود ہوتا جب قریش حق کو ذلیل کرنے کے درپے ہونگے‘‘۔
(الامام الفقیہ المحدث ابوالقاسم
عبدالرحمن بن عبداللہ السہیلی (508ھ۔ 581ھ) الروض الانف، شرح سیرۃ ابن ہشام ج1 ص 6
طبع لاہور)
٭
ثعلب سے یہ بھی مروی ہے کہ جمعہ کانام جمعہ اس لئے پڑ گیا کہ قریش جناب سیدنا قصی
کے پاس دارالندوہ میں جمع ہوتے تھے۔ ۔ ۔ بعض نے کہا اسلام میں جمعہ کا نام اس لئے
رکھا گیا ہے کہ لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔
٭
الکشی کی حدیث میں ہے کہ انصار نے ’’جمعہ‘‘ کا نام رکھا تھا کیونکہ وہ اس دن جمع
ہوتے تھے۔
٭
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اس دن کا نام اس لئے جمعہ پڑا کہ اللہ تعالیٰ
نے اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔
(امام لغت محب الدین ابوالفیض السید محمد
مرتضیٰ الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی، شرح تاج العروس من جواہر القاموس ج5 ص 306
بیروت)
(علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد،
المعروف بالراغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن ص 97 طبع کراچی)
(حافظ علامہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی،
فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 2 ص 353 طبع بیروت)
(علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن عینی،
عمدۃ القاری ج6 ص 161 طبع کوئٹہ) (العلامہ ابن منظور، لسان العرب ج2 ص 359 طبع
بیروت)
٭
يوم الجمعه سمي به لاجتماع الناس فيه.
’’جمعہ کا دن اس لئے نام رکھا گیا کہ اس
میں لوگ جمع ہوتے ہیں‘‘۔
(امام مجددالدین ابوالسعادات المبارک
محمد الجرزی ابن الاثیر (م 507ھ)، النہایہ فی غریب الحدیث ج1 ص 297 طبع ایران)
٭
سميت جمعة لاجتماع الناس فيها وکان يوم الجمعة فی الجاهلية يسمی العروبه.
’’جمعہ کو جمعہ اس لئے کہا گیا کہ اس میں
لوگ جمع ہوتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں اسے عروبہ کہا جاتا تھا‘‘۔
(نووی شرح مسلم، ج1 ص 279 طبع کراچی)
قرآن و حدیث کی روشنی میں فضائلِ جمعہ
قرآن کریم میں فرمان باری تعالیٰ ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ
لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا
الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَO فَإِذَا
قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO وَإِذَا رَأَوْا
تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ
اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ
الرَّازِقِينَ
(الجمعہ، 62 : 9 تا11)
’’اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو
جمعہ کے دن، تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو! اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے
بہتر ہے اگر تم جانو۔ پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل
(رزق) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، اس امید پر کہ فلاح پاؤ اور جب انہوں نے
کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیئے اور آپ کو خطبہ میں کھڑا چھوڑ گئے۔ آپ
فرمائیں وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر
رزق دینے والا ہے‘‘۔
فضائل جمعہ احادیث مقدسہ کی روشنی میں
٭
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہم
ہی آخر ہیں (دنیا میں آنے میں)۔ ۔ ۔ ہم ہی سب سے آگے (جنت میں جانے میں)، البتہ ان
کو ہم سے پہلے کتاب ملی اور ہم کو ان کے بعد پھر یہ جمعہ کا دن اُن پر فرض ہوا، جس
میں انہوں نے اختلاف کیا، اللہ پاک نے ہم کو اس کی راہ دکھا دی۔ دوسرے لوگ اس
سلسلہ میں ہمارے تابع ہیں۔ یہودی کل (ہفتہ) اور نصاریٰ کل کے بعد (اتوار)‘‘۔ (متفق
علیہ)
٭
مسلم کی روایت میں ہے فرمایا ’’ہم ہی آخر و اول ہیں، قیامت کے دن اور ہم ہی سب سے
پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہیں‘‘۔
حضرت ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گفتگو کے آخر میں فرمایا۔
نحن الاخرون من اهل الدنيا والاولون يوم القيمة
المقضي لهم قبل الخلائق.
’’دنیا والوں میں ہم ہی سب سے آخر ہیں
اور قیامت کے دن ہم ہی سب سے پہلے ہیں۔ جن کا فیصلہ باقی مخلوق سے پہلے ہوگا‘‘۔
٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:
خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة فيه خلق ادم
وفيه ادخل الجنة وفيه اخرج منها ولا تقوم الساعة الافي يوم الجمعة.
’’سب سے بہتر دن جس پر سورج چمکا جمعہ کا
دن ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی (ان کا یوم میلاد ہے) اسی میں وہ
جنت میں داخل ہوئے اور اس میں وہاں سے نکالے گئے اور قیامت جمعہ کے دن ہی قائم
ہوگی‘‘۔ (صحیح مسلم)
٭
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا۔ ’’جمعہ کے دن ایک لمحہ ایسا ہے کہ جو مسلمان اس لمحہ اللہ پاک سے جو اچھی
چیز مانگے اللہ پاک اسے وہی دیدتا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
مسلم کی روایت میں الفاظ میں اتنا اضافہ ہے کہ
’’وہ لمحہ بہت مختصر ہوتا ہے‘‘ اور متفق علیہ روایت میں الفاظ کا اضافہ بھی دوسری
روایت میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک لمحہ ایسا ہے کہ اس لمحہ کوئی مسلمان کھڑا نماز
ادا کرے اور اللہ پاک سے کوئی بھلائی مانگے، اللہ پاک اسے عطا فرماتا ہے‘‘۔
٭
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ قبولیت کی وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے اور
نماز ختم ہونے کے درمیان والا وقت ہے‘‘۔ (مسلم)
٭
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقبولیتِ دعا کی وہ گھڑی جمعہ کے دن
کی آخری ساعت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جمعہ کے دن آخری گھڑی کیسے
ہوسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان اس
وقت نماز پڑھے، حالانکہ غروب آفتاب کے وقت نماز درست نہیں۔ حضرت عبداللہ بن سلام
رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا
کہ جو کوئی نماز کے انتظار میں بیٹھے جب تک نماز ادا نہ کرے وہ نماز میں ہے۔ اس پر
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا درست ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے
فرمایا، یہی مراد ہے‘‘۔
(امام مالک، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، احمد)
٭
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ
گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید ہے جمعہ کے دن نماز عصر سے، سورج غائب ہونے تک
ہے‘‘۔ (ترمذی)
٭
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام کی پیدائش
اور اسی میں آپ کی وفات ہوئی۔ اسی میں صور پھونکا جائے گا۔ اسی میں دل دہلادینے
والی آواز بلند ہوگی جس سے ہر ذی روح مرجائے گا۔ فاکثروا علی من الصلوٰۃ فیہ فان
صلوٰتکم معروضۃ علی۔
’’جمعہ کے دن مجھ پر بہت زیادہ درود (وسلام)
پڑھا کرو۔ بے شک تمہارا درود (وسلام) مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض
کی آپ کی وفات کے بعد آپ پر ہمارا درود (وسلام) کیسے پیش ہوگا۔ فرمایا:
ان الله حرم علی الارض اجساد الانبياء.
’’بے شک اللہ پاک نے زمین پر انبیاء کے
جسم حرام کردیئے ہیں‘‘۔
(ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی،
بحوالہ مشکوٰۃ ص 120 طبع کراچی)
٭
ابولبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا۔ بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار (سیدالایام) اور اللہ تعالیٰ کے
نزدیک سب سے بڑھ کر عظمت والا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے حضور عید قربان اور
عیدالفطر سے بھی بڑا ہے۔ اس میں پانچ فضیلتیں ہیں۔ 1۔ اسی میں اللہ پاک نے آدم
علیہ السلام کو پیدا کیا۔ ۔ ۔ اور اسی میں اللہ پاک نے انہیں جنت سے زمین پر
اتارا۔ ۔ ۔ اور اسی میں اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو وفات دی۔ ۔ ۔ اور اسی میں
ایک ساعت ایسی بابرکت و سعادت ہے جس میں بندہ جو بھی مانگے اسے ملتا ہے بشرطیکہ
حرام کا سوال نہ ہو۔ ۔ ۔ اور اسی میں قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرر فرشتے، آسمان،
زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں۔ ‘‘ (ابن ماجہ، احمد)
٭
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:
اَکْثِرُوَا الصَّلٰوةَ عَلَیَّ يَوْمَ
الْجُمُعَةِ فَاِنَّه، مَشْهُوْدٌ يَشْهَدُهُ الْمَلٰئِکَةُ وَاِنَّ اَحَدًا لَمْ
يُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّاعُرِضَتْ عَلَیَّ صَلٰوته، حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ
قُلْتُ وَبَعْدِ الْمَوْتِ؟ قَالَ اَللّٰهُ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ
اجْسَادَ الْاَنْبِيَاء وَنَبِیُّ اللّٰهِ حَیٌّ يُرْزَقُ.
’’مجھ پر جمعہ کے دن بہت زیادہ درود
(وسلام) پڑھا کرو! بے شک اس میں شمولیت کے لئے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور کوئی بھی
آدمی جب مجھ پر درود (وسلام) پڑھتا رہتا ہے اس کا درود (وسلام) مجھ پر پیش کیا
جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی وفات کے بعد بھی؟
فرمایا بے شک اللہ پاک نے زمین پر نبیوں کے جسم حرام کردیئے۔ سو اللہ کے نبی زندہ
ہیں انہیں رزق ملتا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
٭
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا جو بھی مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو، اللہ پاک اسے قبر کے فتنہ
(وعذاب) سے محفوظ رکھتا ہے۔ (احمد، ترمذی)
جمعہ روز عید ہے
٭
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ مائدہ کی آیت کریمہ اَلْیَوْمَ
اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ الخ پڑھی۔ ان کے پاس ایک یہود تھا بولا:
لو نزلت هذه الآية علينا لاتخذونها عيدا. فقال
ابن عباس فانها نزلت في يوم عيدين في يوم جمعة ويوم عرفة.
’’اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن
کو عید بنالیتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ آیت جس دن نازل ہوئی،
ہمارے اسلام میں اس دن دو عیدیں تھیں۔
۔
جمعہ کا دن اور
۔
نوذی الحجہ، حج کا دن‘‘۔ترمذی
٭
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
اَللّٰهمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبَ
وَشَعْبَانَ وَبَلّغْنَا رَمَضَانَ.
’’الہٰی رجب اور شعبان میں ہمارے لئے
برکت کردے اور ہمیں رمضان تک پہنچادے‘‘۔ اور فرماتے۔ لیلۃ الجمعۃَ یَوْم اَزْھَرُ۔
’’جمعرات کا دن بارونق، نورانی دن ہے‘‘۔ بیہقی فی الدعوات الکبیر
تحریر : مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی