غوث العالم سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر
سمنانی علیہ الرحمہ کی ذات مقدسہ سے بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا ہے جواولیاء کے
تذکروں اور کتب تصوف میں موجود ہے حضرت مخدوم پاک علیہ الرحمہ کی سب سے بڑی کرامت جس کا سلسلہ سات سو سال سے
ہنوز جاری ہے وہ آپ سے منسوب خاندان اشرفیہ کے سادات اشرفیہ ہیں۔سات سو سالوں میں خانوادہ اشرفیہ نے ملت اسلامیہ کو ایک سے ایک روحانی فرزند عطا کیے جن کے علم
و کمال اور فضل و جلال کے آگے صاحبان بصیرت گھٹنے ٹیک دیا
کرتے ہیں ۔ علم ظاہری کے ہمالہ اور علوم باطنی کے
بحر بیکراں جنہوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں انسانیت کی بے لوث خدمت انجام دیں ۔
فضل وعطا کے موتی بکھیر ے ۔ روحانی عظمت کے
پرچم لہرائے، علوم باطنی کے دریا بہائے ،کروڑوں گم گشتگان معرفت کو عرفان و ایقان
کی شاہراہ عطا کی ۔ عرب و عجم میں آج بھی لاکھوں
فرزندان اسلامیہ انہیں سادات کرام کے چشمہ فصل و کرم سے پیاسی انسانیت کو سکون بخش
بخش رہے ہیں۔ نظام قدرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر دور میں ایسی شخصیتیں
پروردگار عالم پیدا فرماتا رہا ہے جو ملت و قوم کی آبرو بن جایا کرتی ہیں ۔آسمان
رشدو ہدایت کے آفتاب کی طرح چمکتی ہیں ۔ سیادت و شرافت ، حق گوئی و بیباکی ، درویشانہ ادا، فقیرانہ شان، حق پرستی ، حق
آگاہی اور حق نوازی جیسی تمام خصوصیات ایک ہی شخصیت میں سمودیتا ہے ۔ حضرت محبوب العلماء حضرت علامہ سید محبوب
اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی کی ذات والا صفات میں ان تمام
خوبیوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آپ کے اندر نسبی شرافت اور خاندانی وجاہت کے علاوہ
علمی جالالت و عظمت کمال ولایت ، کثرت کرامت کی جامعیت کی خاص صفات موجود ہیں جو بہت کم بزرگوں میں پایا جاتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ اپنے عہد کے حکیم الامت اور ولی اللہ گذرے ہیں ۔ واضح رہے کہ حضورسید
نا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں حضور سید عبدالرزاق بن
حضورغوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے جو نسل چلی ان
میں حضرت سید عبدالغفور حسن جیلانی کے فرزند حضرت سید نا عبدالرزاق نورالعین قدس سرہ کو تارک السلطنت غوث العالم حضور سید
مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے اپنی فرزندی میں لیکر علوم و معارف سے سجا
کر بلند مرتبہ پر فائز فرما کر ارشاد فرماتے ہیں کہ شیخ زادے بہت کم جادۂ ہدایت پر رہتے ہیں لیکن میرا فرزند شیخ زادہ نہیں
ہے بلکہ اس کا کام" شیخ زادن"ہوگا اور اس کی نسل سے شیخ پیدا ہوں گے۔"( لطائف اشرفی اول صفحہ :۵۲) اور آپ کی اولادوں کو یہ خوشخبری دیتے ہوئے انسانوں کو متنبہ
فرمایا کہ جوان کا اور ان کی اولادوں کا محب وفر مانبردار ہوگا وہ میرا محب وفرمانبردار ہوگا ، اور جو ان کا مخالف و
بدخواہ ہوگا دو میرا مخالف و بدخواہ ہوگا۔ جیسا کہ مخدوم پاک کا ارشاد پاک ہے
" درمیان ما دادنسبت با است کہ از شرح نیابد" میرے اور اس کے درمیان
جوقرابت ہے اس کی شرح محال ہے (لطائف اشرفی اول صفحہ:۱۳) علاوہ ازیں بہت ہی خصوصیات سے سرفراز وممتازفرمایا۔ انہیں کی اولاد میں
ایک آفتاب ولایت گلشن ولایت کے مقدس چمن میں ۱۳۳۸ ہجری مطابق ۱۹۲۷ عیسوی کو آنکھیں
کھولی تو والد
ین کریمین نے آپ
کا نام سیدمحبوب اشرف تجویز فرمایاجنہیں آج دنیا محبوب الاولیاء محبوب العلماء والمشائخ اور حکیم الامت کے
نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔ آپ بچپن ہی
سے صوم وصلوۃ اور زہد وتقوی کے پابند تھے لوگوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ آپ کی
زندگی کی ہرادا سنت
رسول ﷺعشق رسولﷺ کے
سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ، مزاج شریف کا تو یہ عالم تھا کہ انتہائی خلیق تھے کسی کو بھی ناراض دیکھنا پسند نہیں فرماتے بلکہ پریشان دلوں کو سکون بخشتے
تھے کبھی کسی کے اندر عیب وکمز وری نہیں دھونڈتے تھے۔ خاندانی شرافت اورہاشمی مزاج کے بے مثال نمونہ
تھے ،آپ کی بارگاہ عالیہ میں ہر خلق خدا کو دکھ درد کی دواملتی تھی اور آپ کی
بارگاہ سے عوام الناس ہمیشہ مستفیض ہوتے
تھے۔ کیسی پیاری ذات تھی کتنا پیارا نام تھا جس کے تصور سے دل کی سوئی ہوئی
دھڑکنیں بیدار ہوجاتی تھیں ایسا لگتا تھا کہ روحانی شفاخانے کا معالج ومسیحا اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمارے رو بروتشریف
فرما ہیں جو نیاز مندوں کی جم غفیر میں نسخہ شفا بھی ترتیب دے رہا ہے اور دعائیں
بھی ، جسےچھود یا شفا یاب ہو گیا جسے دعامل گئی اس کا مقدر چمک گیا، جہاں قدم پاک
رکھ دیا تو بہار آ گئی جہاں بیٹھ گیا تو خلق خدا کا میلہ لگ گیا۔ شجرۂ نسب : آپ کا سلسلہ نسب حضورعلیہ الصلوۃ والسلام تک اس طرح ہے ۔ سید
محبوب اشرف (۲) سید مقبول اشرف (۳) سید ابوالحسن (۴) سید غلام حسین ( ۵ ) سید منصف
علی (٦) سید قلندر بخش (۷) سیدتراب علی (۸) سیدمحمد نواز (۹) سیدمحمد غوث (۱۰) سید
جمال الدین (۱۱) سید عزیز الرحمن (۱۳) سیدمحمد عثمان ( ۱۳ ) سیدابوالفتح (۱۴) سیدمحمد
(۱۵) سید محمداشرف شہید (۱۲) سید حسن شریف خلف اکبر (۱۷) سید عبدالرزاق نورالعین ( ۱۸) سید عبدالغفور حسن جیلانی (۱۹) سید
ابوالعباس احمد جیلانی (۲۰) سید بدرالدین حسن (۲۱) سید علاؤ الدین علی (۲۲) سید
شمس الدین جیلانی ( ۲۳ ) سید سیف الدین جیلانی ( ۲۴ ) سیدابونصرمحمد (۲۵) سید عماد
الدین ابوصالح نصر (۲۲) سید تاج الدین ابوبکر عبدالرزاق (۲۷) شیخ محی الدین محبوب سبحانی قطب ربانی ابومحمد سید
عبدالقادر جیلانی (۲۸)
سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست (۲۹) سید عبداللہ جیلی (۳۰) سید یحیٰ زاہد (۳۱) سید
محمد (۳۲) سید داؤد (۳۳) سید موسیٰ(۳۴) سید عبدالله (۳۵) سید موسیٰ الجون (۳۶) سید
عبداللہ المحض (۳۷) سید حسن المثنیٰ (۳۸)
سید امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ (۳۹) مولائے کائنات سید نا علی مرتضی رضی اللہ
عنہ ز وج حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بنت سید عالم مصطفی ﷺ ( شجرۂ عالیہ قادریہ، چشتیہ اشرفیہ،ص:۲۴) تعلیم و تربیت : آپ نے ظاہری علوم کا اکتساب حضور بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالرشید خان صاحب قبلہ (خلیفہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں
کچھوچھوی علیہ الرحمہ ) حضور آسی پیاو حضورشمس العلما علامہ شمس الدین جعفری صاحب
قبلہ علیہم الرحمہ سے حاصل کی ۔ خدمات: یوں تو حضور محبوب الاولیا ء علیہ الرحمہ کی
پوری زندگی عبادت در یافت سے پرتھی لیکن اس کے باوجود آپ نے
رشد و ہدایت اور دعوت
وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ۴۵٫۴۰
سالوں تک درس
وتدریس اور جامعات کی
سرپرستی و نظامت و صدارت فرماتے رہے ۔ جن اداروں کو آپ نے زینت بخشی اس کی تفصیل
یوں ہے: (۱) جامعہ اشرفیہ مسعود یہ بہرائچ شریف یو پی الہند ( ۷ ا/رسال سر پرستی فرمائے) (۲) دار العلوم اہلسنت اشرف نگر مدار ٹیکری
جبل پور( ۱۴ /سال ناظم اعلی رہے ) (۳) دارالعلوم اہلسنت کھتیا سرائے جو نپور
یوپی الہند ( تادم آخر ناظم اعلی وصدرالمدرسین رہے ) علاو ہ ازیں کئی بڑے ادروں کے ناظم اعلی دسر پرست اعلی کی حیثیت رہے۔ دیوبندبیت کی موت : بیان کیا جا تا ہے کہ گونڈہ و جو نپور کا
علاقہ اپنی تاریخ کے نازک موڑ سے گز رہاتھا ہر چہار جانب اندھیر ہی اندھیرا تھاخلق خدا اخلاق و کردار
کے جو ہر سے محروم تھے قدم قدم پر گمراہیت کے اندیشے جنم لے رہے تھے جگہ جگہ
بدعقیدگی کا شدید خطرہ منڈ لارہا تھا تو ایسے عالم میں حضورمحبوب لا ولیاء علیہ الرحمہ
نے اپنے علم وعمل کے ذریعے وہابیت و دیو بند میت کو کچل کر رکھ دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے
وہابیت و دیو بند بیت کونست و نابودکرکے اسلام وسنیت کا علم اونچا کیا جس کی وجہ
سے آج بھی علاقے کے عوام و خاص آپ سے بے حد عقیدت ومحبت رکھتے ہیں ۔ اور آپ ان کی
نظروں میں بہت محبوب ومقبول ہیں ۔ بیت دارادت: آپ جب امام اہلسنت مخدوم المشائخ حضور سید
مختار اشرف اشرفی الجیلانی رضی اللہ عنہ ( سرکارکلاں ) کی خدمت بابرکت میں بیعت
ہونے کے واسطے تشریف لے گئے تو آپ کے عالی ظرافت وصلاحیت کو
دیکھتے ہوئے سلسلہ اشرفیہ میں داخل فرمایا اور تمام سلاسل سلسلہ عالیہ قادریہ، چشتیہ،اشرفیہ وغیرہ کی اجازت و خلاف سے نواز دیا۔ نکاح و اولاد : آپ کی شادی ایک عارفہ کاملہ خاتون" سید
نغمہ خاتون" بنت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے ہوئی ،جن سے
تین فرزند ہوئے ۔ سید محمد عارف اشرف علیہ الرحمہ (۲) سیدمحمد آصف اشرف حفظہ اللہ ( ۳) سید محمد عالمگیر اشرف حفظہ اللہ ۔الحمد للہ! آپ کے
تینوں فرزند نیک وصالح ہونے کے ساتھ ساتھ بیشمار خوبیوں کے جامع ہیں ۔جا نشینی: آپ نے اپنی وفات سے قبل ہی اپنے
فرزندارجمندحضورمجاہد اسلام شیرسنیت حضرت علامہ مولانا الشاہ سید عالمگیر اشرف
اشرفی الجیلانی مدظلہ العالى والنورانی کو جانشیں وسجاد نشیں مقرر فرمادیا۔
خلفائےکرام
: آپ کے خلفاء جن میں
اکثر ناخن روزگار علم وفضل کے تاجدار ، دین وسنیت کے روشن مینار ہیں ۔ جن سے علم وفضل کی تابانی سے عالم اسلام روشن و تابناک ہے ۔ مریدین: آپ کے مریدین و معتقدین کی فہرست کافی طویل
ہے ۔ ہند و بیرون ہند کئی ملکوں میں آپ کے ہزاروں مریدین ومعتقدین
موجود ہیں جن میں علمائے ذی وقار کے ساتھ ساتھ مشائخ کرام بھی شامل ہیں ۔ کرامات: جب حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کی سیرت ذی عظمت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا
ہے کہ محبوب العلماء علیہ
الرحمہ کی قوت کشف نقطہ عروج کو پہونچی تھی اور آپ کا
وجود مسعود کرامتوں کے سانچے میں ڈھلا تھا۔ اللہ رب العزت نے اس مردحق باطن شناس
کو تصرف وکرامات کی نعمتوں میں سے وافر مقدار میں حصہ عنایت
فرمایا تھا جو کہ خود ایک مستقل کتاب کا
متقاضی ہے قارئین کے معلومات میں اضافہ کے لیے حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کے کشف و کرامات اور تصرفات کے متعلق چند کرامتیں
نذر قارئین ہیں ۔
آپ کی
عمر تر اسی ۸۳ سال ہی کیوں؟ حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کے خادم خاص حضرت سراج احمد اشرفی صاحب کی زبانی
سنے کو ملا آپ بیان کرتے ہیں کہ حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ اکثر ارشادفرمایا کرتے تھے کہ میرے پیرومرشد حضور سرکارکلاں قد س سرہ کی
عمر شریف چوراسی سال تھی اس لیے اب میں نہیں چاہتا ہوں کہ اپنے پیر سے آگے بڑھوں‘
وغیرہ لہذا آپ کی زبان مبارکہ سے نکلی ہوئی بات سچ ثابت ہوئی آپ نے چوراسی سال
ہونے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔
سگر یٹ نہیں جلا : حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ بیت الخلا جانے سے قبل ایک سگر
یٹ پیتے تھے ایک روز ایسا ہوا کہ ایک ہی سگر یٹ تھا اتفاق سے اس وقت ما چس بھی
نہیں تھی مستری نامی ایک باور چی تندور میں روٹی پکا رہا تھا تو آپ علیہ الرحمہ نے اس سے فرمایا یہ سگریٹ جلا کر لاؤ وہ تندور
سے انگار نکال کر جلا رہا تھا کہ اچانک سگر یٹ تندور میں گر گیا اورباورچی کو بہت افسوس ہوا کہ ایک ہی توتھا وہ بھی تندور میں گر گیا آپ علیہ الرحمہ مسکراتے ہوئےفرماتے ہیں : نکالو! نکالو! جلا نہیں ہوگا۔ باورچی نے جب اس تندور میں جھانک
کر دیکھا تو حقیقت میں سگریٹ صحیح و سلامت تھا ، پھر باورچی نے چمٹے سے اس کو نکالا
اور جا کر حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کو دے دیا ۔ باور چی یہ سب دیکھ کر حیران تھا جب
کھانا بنانے سے فارغ ہوا تورات میں آپ کے حجرہ
میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضور مجھے مریدکر لیجئے حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : میں ابھی بیعت نہیں کرتا جب کروں
گا تو کرلوں گا بعدہ باور چی نے اس راز کو کھول دیا یہاں تک کہ تمام مدرسین و طلباء کو اس کی خبر ہوگئی پھر آہستہ آہستہ قصبہ کے لوگوں میں بھی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل
گئی۔ لیکن قصبہ میں محمد
یعقوب خان نامی ایک
شخص کو اس کا یقین نہیں ہورہاتھاحسن اتفاق ایک رات بعد طعام موسم سردی میں چند لوگ حضورمحبوب العلماء علیہ الرحمہ کے اردگرد بیٹھے تھے اسی درمیان خان صاحب بھی
آئے اور تندور کے پاس بیٹھ گئے اور سگریٹ کا ایک ڈبہ منگوائے پھر اس نے ڈبہ سے ایک
سگر یٹ نکال کر اور حضور محبوب العلماء علیہ الرحمہ کے دست اقدس سے چھوا کر آگ میں چھوڑ دیا، وہاں پر موجود سارے لوگوں نے اپنی اپنی
آنکھوں سے دیکھا کہ سگریٹ پہلے جیسا تھا ویسے ہی تندور میں موجود ہے۔
وصال: آپ کا وصال پر ملال یکم ذی القعده ۱۴۳۱ ہجری مطابق ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۰ عیسوی میں ہوا۔ مزار پاک: آپ کا مزار مقدس ریاست اتر پردیش کے ضلع امبیڈکرنگر کےقصبہ" کچھوچھہ مقدسہ" میں مربع خلائق ہے۔ آپ کا عرس پاک ۲۴ /محرم الحرام کو بڑی شان وشوکت سے منایا جا تا ہے جس میں ملک وبیرون ملک کے بیشمار زائر ین حاضر ی دے کر اپنی اپنی مراد یں پاتے ہیں اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں۔