نام ونسب: آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی والدۂ ماجدہ حضرت
سیدنا فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہانے اپنے والد کے نام پر آپ کا نام ’’حیدر
‘‘رکھا،والد نے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کا نام’’علی‘‘ رکھا۔ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’ اسداللہ‘‘
کے لقب سے نوازا ،اس کے علاوہ ’’مر تضٰی(یعنی چنا ہوا)‘‘،’’ کرار(یعنی پلٹ
پلٹ کر حملے کرنے والا)‘‘،’’شیرِ خدا ‘‘اور ’’مولا مشکل کشا‘‘آپ
کرم اللہ وجہہ الکریم کے مشہور القابات ہیں۔ (مراٰ ۃ
المناجیح/خلیفہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی علیہ
الرحمہ8/412)
حضرت علی کی کنیت کئی اور ہیں وہ یہ ہیں ابو تراب
،ابو القسم اور الہاشمی ، القسم کے بارے میں مو رخین میں اختلاف ہے۔ ایک مؤرخ نےلکھا ہے کہ
جب بچپن میں حضور کی حفا ظت کر تے ہو ئے حضرت علی کرم اللہ وجہ نےان بچوں کی ہڈی
پسلیاں توڑدیں ، جو حضور ﷺپر اینٹ اور پتھر بر سا رہے تھےتو یہ انکو عطا ہوا جبکہ ابن
کثیرنے لکھا ہے کہ یہ ایک جنگ میں ایک کافر نے نعرہ لگا یا کہ میں قسم (شیر) ہو ں
تو انہوں جواب میں فرمایا کہ میں ابو القسم ہوں ۔ الہاشمی کے بارے میں وجہ تسمیہ
یہ ہے کہ وہ نجیب الطر فین ہیں ۔ یعنی والداور والدہ دونوں کی طر ف سے نجیب الطر
فین یعنی ہا شمی ہیں ۔ حضر ت علی کی والدہ اوران کے والد کے چچا کی صاحبزادی
تھیں اور وہ پہلے فر زند تھے جن کے ماں اور باپ دونوں ہا شمی تھے۔ ان القابات کے علاوہ ایک
لقب بعد میں دربار ِ رسالت سے اور عطا ہوا تھا۔ جوکہ انکی بے مثال شجاعت کی بنا پر
عطا ہوا و ہ" شیر خدا"ہے۔ (ابن کثیر)
سلسلہ نسب پدری: علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن
عبدِ مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ۔
سلسلہ نسب مادری: : فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد المطلب الیٰ آخرہ۔
تاریخِ ولادت: آپ کرم اللہ وجہہ الکریم 13رجب المرجب،بروز جمعۃ
المبارک، عام الفیل کے 30سال بعد، بمطابق 17مارچ 599ء بمقام بیت اللہ مکۃ
المکرمہ میں پیدا ہوئے۔
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
امام المحدثین ابو حاکم نیشاپوری علیہ الرحمہ حدیث
کی شہرہ آفاق تصنیف مستدرک میں لکھتے ہیں : آخری بات میں معصب نے وہم کیا ہے
حالانکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے علی بن
ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرک حاکم 197/4طبع پاکستان)
امام حاکم علیہ الرحمہ مصعب کے اس قول کا رد کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات میں معصب سے غلطی ہوئی ہے کہ وہ حکیم بن حزام کے علاوہ
کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں مانتے حالانکہ متواتر روایات سے خانہ کعبہ میں
مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت ثابت ہوتی ہے ۔ امام حاکم نے چونکہ مصعب
کے قول کا رد کرنا تھا اس لئے مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت کا یہاں ذکر
کیا اور فضائل والے باب میں ذکر نہیں کیا۔قول مصعب کا رد کرنے کے لئے اصل موقع یہی
تھا کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت کا ذکر کر دیا جائے ۔
امام حافظ ذہبی علیہ الرحمہ نے تلخیص مستدرک میں
امام حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ ولادت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کعبہ میں
ہوئی ہے . چنانچہ امام ذہبی علیہ الرحمہ کے نزدیک بھی ولادت مولا علی کرم اللہ
وجہہ الکریم کعبہ میں ہونا تواتر سے ثابت ہے ۔ (تلخیص
المستدرک/ذہبی4/197،حاشیہ 5 طبع پاکستان)
امام المحدثین ملا علی قاری علیہ الرحمہ اپنی
تصنیف " شرح الشفاء" میں لکھتے ہیں : مستدرک حاکم میں ہے کہ مولا علی
کرم اللہ وجہہ الکریم خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ (شرح شفاء / ملا علی
قاری / 1/327 طبع بیروت)
امام المحدثین ملا علی قاری علیہ الرحمہ جیسے محقق
و محدث نے امام حاکم علیہ الرحمہ کے قول پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو قول متواتر
کو قبول کرتے ہوئے مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت کعبہ میں قبول کیا ہے ۔
محدث ابن اصباغ مالکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب
الفصوص المھمہ میں لکھتے ہیں کہ : مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ماہ رجب 13 تاریخ
کو مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا
نہیں ہوا یہ آپ کی فضیلت ہے ۔ (الفصول المہمہ/ ابن صباغ مالکی / صفحہ 29 طبع
بیروت)
علامہ حسن بن مومن شبلنجی علیہ الرحمہ اپنی مشہور
تصنیف نورالابصار میں لکھتے ہیں : حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا زاد بھائی اور تلوار بے نیام ہیں ، آپ کرم اللہ
وجہہ الکریم عام الفیل کے تیسویں سال جمتہ المبارک کے دن 13 رجب کو خانہ کعبہ کے
اندر پیدا ہوئے اور اس سے پہلے آپ کے علاوہ کعبہ میں کسی ولادت نہیں ہوئی ۔ (نورالابصار/شبلنجی/صفحہ
183طبع بیروت)
برصغیر پاک وہند کے عظیم محدث و فقیہ حضرت شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ازالتہ الخفاء میں لکھتے ہیں : حضرت مولا
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت کے وقت آپ (کرم اللہ وجہہ الکریم) کے جو مناقب
ظاہر ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ (کرم اللہ وجہہ الکریم)
کی ولادت ہوئی۔ امام حاکم نے فرمایا متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ بے شک
امیرالمومنین حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے
خانہ کعبہ کے اند جنم دیا ۔ (ازالتہ الخفاء299/4طبع بیروت)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی
ایک اور کتاب قرۃ العینین میں بھی ولادت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر اس
طرح کرتے ہیں : حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں
آپ پہلے ہاشمی ہیں جن کی والدہ ماجدہ بھی ہاشمیہ ہیں ۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ میں
ہوئی اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو آپ (کرم اللہ وجہہ الکریم) سے پہلے کسی حصے میں
نہیں آئی ۔ (قرۃ العنین بتفضیل الشخین صفحہ 138طبع دہلی)
اہل حدیث عالم جناب نواب صدیق حس خان بھوپالی نے
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مناقب میں ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے اس میں لکھتے
ہیں : ذکر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابن عم رسول و سیف اللہ المسلول ،
مظہر العجائب و الغرائب اسد اللہ الغالب ، ولادت ان کی مکہ مکرمہ میں اندر بیت اللہ
کے ہوئی ، ان سے پہلے کوئی بیت اللہ کے اندر مولود نہیں ہوا ۔ (تکریم المومنین بتویم
مناقب الخلفاء الراشدین / نواب صدیق حسن بھوپالی/ صفحہ 99 لاہور)
علامہ بھوپالی نے اپنی دوسری تصنیف " تقصار جنود الاحرار ،
صفحہ 9 ، طبع بھوپال میں مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کی ولادت کعبہ میں کا ذکر
کیا ہے ۔
اہلسنت کے عظیم صوفی عالم علامہ عبد الرحمٰن جامی
اپنی کتاب شواہد النبوت میں لکھتے ہیں : مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم)کی ولادت
مکہ معظمہ میں ہوئی اور بقول بعض مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم)کی ولادت خانہ
کعبہ میں ہوئی ۔ (شواہد النبوۃ / علامہ عبدالرحمن جامی/ صفحہ
280طبع پاکستان)
مورخ جلیل علامہ مسعودی اپنی تصنیف مروج الذہب میں
لکھتے ہیں کہ مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کعبے کے اندر پیدا ہوئے ۔ (مروج
الذہب/مسعودی 311/2طبع بیروت)
علامہ عبدالرحمٰن صفوری الشافعی علیہ الرحمہ لکھتے
ہیں کہ : مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) شکم مادر سے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور
یہ فضیلت خاص طور پر مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کے لئے اللہ تعالیٰٰ نے
مخصوص فر ما رکھی تھی ۔ (نزہتہ المجالس/ امام عبدالرحمٰن بن
عبدالسلام الصفوری الشافعی / 2/404طبع پاکستان)
اہلسنت کے عظیم محدث حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی
علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : محدثین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ مولا علی
(کرم اللہ وجہہ الکریم) کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہے ۔ (مدارج النبوت/ عبدالحق
محدث دہلوی2/531طبع پاکستان)
علامہ گنجی شافعی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب کفایتہ
الطالب میں بھی مولا علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) کی پیدائش کو خانہ کعبہ میں تسلیم
کیا ہے ۔ (کفایتہ الطالب / گنجی / صفحہ 407صفحہ/ طبع ایران)
علامہ سبط ابن الجوزی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ علی رضی اللہ
عنہ ان کے شکم میں تھے انھیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے دیوار کعبہ شق
ہوئی پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں علی (کرم اللہ وجہہ الکریم) پیدا ہوئے ۔ (تذکرۃ الخواص/
سبط ابن جوزی/ صفحہ 30 طبع نجف عراق بشکریہ : مفتی فیص احمد چشتی حفظہ اللہ)
ان محققین کے علاوہ حضرت نظام الدین اولیا محبوب
الہی دہلوی قد س سرہ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قد س سرہ ، مولانا جلال
الدین رومی قد س سرہ اور شیخ سعدی شیرازی قد س سرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم
کو بااتفاق مولود کعبہ تسلیم کرتے ہیں۔
شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی سب سے
پہلی غذا: آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدرضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں:جب میرے لختِ جگر علی المرتضی ٰرضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسولِ
اکر مﷺنے آپ کے منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور اور اپنی "ما ینطق عن
الہویٰ" والی زبان چوسنے کے لئے دی ،آپ حضورﷺ کی زبان چوستے ہوئے نیند کی
آغوش میں چلے گئے۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ رسولِ اکرم ﷺکی زبانِ اقدس
کو چوستے رہے اور غذا حاصل کرتے رہے۔(السیرۃ الحلبیہ،ج1،ص۔282)
فضائل ومناقب: آپ کےفضائل مشہور اور اس قد ر کثیر
تعداد میں ہیں کہ حضرت سیدنا امام احمدبن حنبل رضی
اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت علی کے برابر کسی آدمی کے فضائل نہیں(تاریخ
الخلفاء،ص:364) اور اسماعیل قاضی نسائی اور ابو علی نیشاپوری نے کہا ہے کہ
کسی صحابی کے لئے اس قدر حسن اسانید وارد نہیں ہوئیں جتنی حضرت علی کےلئے آئی ہیں
۔ کتاب تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ میں ہے کہ علامہ خلیلی نے الارشاد میں کہا ہے کہ
حفاظ میں ایک نے کہا ہے کہ اہل کوفہ نے حضرت علی اور ان کے اہلبیت کے جو فضائل وضع
کئے ہیں میں نے غور کیا ہے وہ تین ہزار سے زیادہ ہےہیں۔ (الصواعق المحرقہ
413)
دور بنی امیہ میں آپ علیہ السلام کے فضائل کو
چھپایا جانے لگا تو حضرت امام نسائی علیہ الرحمہ نے آپ کے مناقب پر بہتریں کتاط
"الخصائص النسائی " تالیف فرمائی جس کی پاداش میں آپ علیہ الرحمہ کو
شہید کردیا گیا۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تذکرہ الحفاظ /امام ذہبی اور تذکرۃ
المحدثین /علامہ غلام رسول سعیدی)۔
میر سیدمحمد کرمانی علیہ الرحمہ نے سیر الاولیا ء
میں حضرت سلطان المشائخ نظام الدین محبوب الہی علیہ الرحمہ کے ملفوظات نقل کیے ہیں
جن میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تمام صحابہ کرام میں جودو کرم
اور بخشش و عطا فقر و دعا میں ممتاز تھے اور قوت اور شوکت کی وجہ سے حق تعالیٰ سے
آپ کو اسد اللہ الغالب کا خطاب ملاتھا۔ (مراۃ الاسرار176)
آپ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرمﷺ کے چچازاد بھائی
ہیں۔ بچپن سے ہی رحمتِ عالم ﷺ کے زیرِ تربیت رہے۔اس بات پر اجماع ہے کہ بچوں میں
سب سے پہلے اسلام قبول کرنیوالے آپ ہی ہیں۔ ابن اثیربن محمدالجرزی علیہ
الرحمہ اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم اسلام لائےتھے اور لوگوں پر یہ امر اس لئے مشتبہ ہوگیا
کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ابوطالب سے اپنا اسلام مخفی رکھا تھا اور حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے اور انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کردیا۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ
الصحابہ4 /18)
آپ علیہ السلام کے علم وحکمت: حضرت سیدنا مولی
علیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم علم ظاہری وعلم باطنی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے جانشین ہیں اور آپ کے علمی مقام و مرتبہ کا احاطہ کرنا ممکنات میں سے ہے، آپ کی
علمی قابلیت اور علمی مرتبہ کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں حکمت کا گھرہوں
اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (جامع الترمذی 2/214)
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمہ نے حضرت علی کرم
اللہ وجہہ الکریم سے بالفاظ دیگر اس حدیث پاک کو نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جس کو علم حاصل کرنا ہو وہ
دروازے پر آئے۔ (تفسیرمظہری/ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نقشبندی حنفی قدس اللہ
سرہ، 5/76)
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میرے علم کا
دروازہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم ہیں۔ ( الصواعق الحرقہ
صفحہ 122)
عربی گرامر کے موجد : حضرت مولیٰ علی کر
م اللہ وجہہ کا علمی مقام بہت بلند تھا اور کیوں نہ ہو کہ ان کی شان میں نبی کریم
ﷺ کا فر مان عالیشان ہے کہ”میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔” حضرت علی
کرم اللہ وجہہ الکریم عربی گرامر کے موجد ہیں (ایجاد کرنے والے ہیں) آپ ایسے علم
کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی شخص عالم نہیں بن سکتا ۔آج اگر کوئی انسان عالم ہے
اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کے بدولت
ہے جس کے موجد باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور وہ علم عربی گرامر(Grammar)یعنی علم نحو ہے ۔ہر اہل
علم اس بات کو جانتا ہے کہ کسی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کی لغت کی معرفت کتنا
ضروری ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو اور بڑھ جاتی ہے قرآن وحدیث کو پڑھنا
،سمجھنا،علم نحو اور صرف یعنی عربی گرامر کے بغیر ممکن نہیں ،اسی لیے عربی گرامر
کے متعلق کہا گیاہے"اَلصَّرْفُ اُمُّ الْعُلُوْمِ وَالنَّحَوْ اَبُوْھَا۔ "
علم صرف تمام علوم کی ماں ہے اور علم نحو ان سب کا
باپ ہے” اور ان دونوں علوم کے موجد و مؤسس (بانی(حضرت علی کرم اللہ وجہہ
الکریم ہیں سب سے پہلے آپ ہی نے ان دونوں علوم کے بنیادی قوانین املا کرائے اور
اسم ،فعل اور حرف کی پہچان بتائی ۔پھر ان کے بتائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دوحصوں
میں تقسیم کرکے ایک کو ”صرف” کا نام دیا گیا اور دوسرے کو”نحو” کا ۔ حقیقت میں
”صرف” نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور اس کے موجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں
۔حضرت امیر المومنین نے بہت سے ایسے کاموں کی ابتدا فرمائی جس کے آثار نہ صرف یہ
کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعد نحو و صرف باقی ہیں
حضرت علی کا کارنامہ زندہ و جاوید رہے گا ۔
ابولقاسم
الزجاجی کی کتاب ”مالی” میں لکھا ہے کہ حضرت ابوالاسود وئلی رضی اللہ عنہ (المتوفی ۶۹ ہجری) بیان کرتے ہیں کہ
ایک دن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ متفکر
نظر آ رہے ہیں ، میں نے اس فکر اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو فرمایا "میں نے
تمہارے شہر والوں کو دیکھا کہ بولنے میں غلطی کرتے ہیں لہذا میرا خیال ہے کہ عربی
زبان کے اصول و قواعد کے بارے میں کچھ تحریر کر دوں ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اگر
ایسا کردے تو ہمیں زندگی عطا فرما دیں گے اور یہ زبان ہم میں باقی رہ جائے
گی۔" تین دن کے بعد دوبارہ حاضر خدمت ہوا تو حضرت علی
کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک کاغذ میرے سامنے رکھا جس پر تحریر تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم الکلام کلہ اسم و فعل حرف فالاسم ما انباء عن
المسمی والفعل ما انباء عن حرکۃ المسمی والحرف ما انباء عن معنیٰ لیس باسم ولا فعل ترجمہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم "کلام تین قسم کا ہوتا ہے اسم، فعل،
حرف، اسم وہ ہے جو مسلمی کی خبر دے اور فعل وہ ہے جو مسلمی کی حرکت بتائے اور حرف
وہ ہے جو معنی کی خبر دے لیکن اسم و فعل نہ ہو۔"
فرمایا کہ اگر تجھے کوئی نئی بات معلوم ہو تو اس
میں اضافہ کر دینا اور یہ کہ چیزیں تین قسم کی ہوتی ہیں: ظاہر، پوشیدہ، نہ ظاہرنہ پوشیدہ،
پھرمیں واپس چلا گیا اور میں نے بھی کچھ اضافہ کیا، ازاں جملہ ان لیت لعل حروف
ناصبہ تھے ۔ میں نے ان کی اقسام تیار کیں اوراسے آپ کی خدمت میں پیش کیا، فرمایا
کان کیوں شامل نہیں کیا؟
میں نے عرض کیا "میرے نزدیک یہ حرف
ناصبہ نہیں ہے، فرمایا یہ بھی ناصبہ ہے چنانچہ میں نے اس کا اضافہ کر دیا۔ (الکنز 5/46،تاریخ
الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام/امام ذہبی 2/479) اس علم کی ایجاد کا تمغہ
حضرت مولی علی مشکل کشاء کرم اللہ وجہہ الکریم کو حاصل ہے۔جیسا کہ واقعہ مذکور سے
معلوم ہوا۔
اسلامی تاریخ کا آغاز: ایک آدمی
میں یمن سے بارگاہ فاروقی میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ "اے امیر
المومنین! آپ تاریخ کیوں نہیں کہ یہ واقعہ فلاں دن، فلاں مہینہ اور فلاں سال کا
ہے؟
اس وقت تو حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی
اللہ تعالی عنہ نے اس شخص کو ٹال دیا لیکن اس کے جانے کے بعد جب حضرت عمرفارووق
رضی اللہ عنہ خلوت گزیں ہوئے تو دل و دماغ میں یہی خیالات بار بار آنے لگے اور
گہری سوچ میں مستغرق ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ کا دل و دماغ اس سلسلہ کے شروع کرنے میں
مطمئن ہو گیا تو آپ نے مہاجرین اور انصار کو ایک جگہ پر جمع کیا اور اس یمنی آدمی
کی بات ان کے سامنے پیش کی اور اس نظریہ کی خوب توضیح فرمائی۔ ان سے ایک سوال کیا
کہ تاریخ کا آغاز کہاں سے ہونا چاہیےایک طویل خاموشی چھا گئی کہیں سے ایک ہلکی سی
آواز آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے آغاز ہونا چاہیئے کسی نے کہا
نہیں بلکہ بعثت نبوی سے تاریخ لکھنے کا آغاز کیا جائے۔ اتنے میں حضرت مولیٰ علی
کرم اللہ وجہہ الکریم کی آواز بلند ہوئی "اے امیر المؤمنین! ہمیں تاریخ لکھنے
کا آغاز اس وقت سے کرنا چاہئے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفر وشرک کی
سرزمین سے مدینہ منورہ پہنچے تھے"۔ (یعنی جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ فرمانا تھا کہ ہر طرف
سے آوازیں آنے لگیں کہ" ہمیں یہ بات قبول ہے اور ہم اس پر راضی ہیں"۔ (البدایہ والنہایہ
7/331) چنانچہ حضرت مولی علی مشکل کشاء کرم اللہ وجہ الکریم کے مشورہ
سے اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا گیا۔
آپ کرم اللہ وجہہ الکریم سے مقدس نفوس
قدسیہ نے روایات لیں۔
٭امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم
٭خلیفہ راشد پنجم حضرت سیدنا امام حسن
٭حضرت سیدنا امام حسین
٭حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود
٭حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر
٭حضرت سیدنا ابن عباس
٭حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر
٭حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر
٭حضرت سیدناابو موسی اشعری
٭حضرت سیدناابوسعید خدری
٭حضرت سیدناابورافع
٭حضرت سیدنا صہیب رومی
٭حضرت سیدنا زید بن ارقم
٭حضرت سیدناجابر بن عبداللہ
٭حضرت سیدنا ابوامامہ باہلی
٭حضرت سیدناابوسریحہ
٭حضرت سیدنا ابوہریرہ
٭ حضرت سیدناسفینہ
٭حضرت سیدناابو جحیفہ
٭ حضرت سیدناجابر بن سمرہ
٭حضرت سیدنا عمر و بن حریث
٭حضرت سیدناابولیلیٰ
٭حضرت سیدنا براء بن عازب
٭حضرت سیدناعمارہ بن رویہ
٭حضرت سیدنابشر بن سہیم
٭حضرت سیدنا ابو الطفیل عامر بن
واثلہ
٭حضرت سیدنا عبداللہ بن ثعلبہ
٭حضرت سیدناجریر بن عبداللہ
٭حضرت سیدنا عبدالرحمن بن اشیم (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔
آپ کرم
اللہ وجہہ الکریم سے ان صحابہ کرام کے علاوہ وہ دیگر صحابہ کرام تابعین نے بھی
روایت لی ہیں ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خدا
کی قسم علم کے باقی ماندہ دسویں حصہ میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم لوگوں
کے ساتھ شریک ہیں (یعنی علم کے دس حصوں میں سے نو حصے حضرت مولیٰ علی کرم اللہ
وجہہ الکریم دیا گیا ہے) ۔(الریاض النضر ہ فی مناقب العشرہ 2/192 /شرف
سادات اردو ترجمہ اشرف الموید لآل محمد صفحہ 158)
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے روایت
فرمائی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا" کوئی شخص
پل صراط سے نہیں کر سکے گا سوائے اس کے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اس کے
لیے گزرنے کالکھا ہو۔ (صواعق المحرقہ صفحہ 429)
خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
نے فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی سب سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والے
قاضی ہیں۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 257)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مشکل قضیہ آتا اور اور
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم موجود نہ ہوتے تو حضرت عمرفاروق اعظم اللہ سبحانہ و
تعالیٰ سے پناہ مانگا کرتے (تعوذ پڑھا کرتے) کہ قضیہ کہیں غلط نہ ہو جائے۔ مزید آپ
فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سوائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے
اور کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو ۔ (تاریخ الخلفاء 258)
ابن عساکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سےراوی
ہیں کہ انہوں نے فرمایا جو کچھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں نازل ہوا
وہ کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوا آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں۔(تاریخ دمشق /حافظ ابن
عساکر ابوالقاسم علی بن الحسین 42/363، تاریخ الخلفاء /السیوطی الشافعی صفحہ 132،
کنزالمطالب فی مناقب علی ابی طالب /ڈاکٹر محمد طاہر القادری صفحہ 158)
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا
فرماتی ہیں کہ جب سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں ہوتے تھے تو
سوائے حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے گفتگو کرسکے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے اور حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا
ہے کہ یہ حدیث صحیح اسناد ہے ۔ (غایۃ الاجابۃ صفحہ 132، الطبرانی فی المعجم
الاسط4/318 )
حضرت طبرانی نے اوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم میں ایسی
اٹھارہ صفات ہیں جو کسی اور صحابی میں نہیں۔ (تاریخ الخلفاء 258)
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
نے فرمایا کہ بے شک وہ (حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم) لوگوں میں علم سنت (علم
الحدیث) کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ (الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ 2/159)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل
مدینہ میں سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے اور سب سے بڑے قاضی حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم ہیں۔ (الصواعق المحرقہ/ شیخ الاسلام علامہ حجر مکی
الشافعی صفحہ 127)
عبداللہ بن عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے
کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم میں علم کی قوت ، ارادے کی پختگی ومضبوطی اور
اسقلال موجود تھا ۔ خاندان بھر میں آپ کی شجاعت و بہادری مشہور تھی ۔ آپ پہلے
اسلام لائے اور آپ رسول اعظم علیہ السلام کے داماد تھے ۔ احکام سنت وفقیہ میں ماہر
تھے۔ جنگی شجاعت اور مال دولت کی بخشش میں سب سے زیادہ ممتاز تھے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ
285)
قرآن کریم کے بعد سب سے معتبر کتاب صحیح بخاری
شریف اور صحیح مسلم میں درج ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی کو مجھ سے
وہی نسبت ہے جو موسیٰ کو ہارون سے تھی ۔ ( بحوالہ صحیح بخاری، جلد 3صفحہ 1142،صحیح
مسلم جلد 31،صفحہ 5931)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ مومن کے نامہ اعمال کا عنوان حب علی ابن ابی طالب ہے۔ (تاریخ بغداد 4/410،
صواعق محرمہ 120، ابن عساکر صفحہ 117،السبعین فی مناقب علی /سید علی ہمدانی علیہ
الرحمہ صفحہ 59)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ
کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہر پہلو سے علم پھوٹتا تھا اور ہر جانب سے حکمت بولتی تھی
۔ (حیاۃ الصحابہ/ دیوبندی عالم محمد یوسف کاندھلوی 1/55)
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ ہر روز فرشتوں
کے سامنے علی ابن ابی طالب پر فخر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ فرماتا ہے کہ مبارک ہو
مبارک ہو تمیں اے علی ابن ابی طالب ۔ (السبعین فی مناقب علی
/سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ صفحہ 59)
طبرانی اور ابن حاتم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا "جس جگہ قرآن میں "یا ایھا الذین
امنوا " ہے وہاں سمجھنا چاہیے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ان (اہل
ایمان ) کے امیر و شریف ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں چند مقامات پر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر عتاب فرمایا ہے مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ
الکریم کا ذکر ہر جگہ خیر کے ساتھ (کیا ) ہے ۔ (تاریخ الخلفاء 258)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں
ہے کہ حضور ﷺ نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی کرم اللہ وجہہ
الکریم ! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے ۔تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب
اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور
اس کے لئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے
روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔" (الحاکم فی
المستدرک 3/138، رقم 4640،الدیلمی فی الفردوس بماثور الخطاب 5/325، رقم 8325،
الطبرانی فی المعجم الکبیر 6/239، رقم 6097)
حضرت سیدنا اسحاق بن کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ علی(کرم اللہ وجہہ الکریم کو بُرا بھلا
نہ کہو ، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہیں ۔ (حلیۃ الاولیا ء/امام
ابو نعیم اصفہانی شافعی علیہ الرحمہ صفحہ 149)
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جس نے علی(کرم اللہ وجہہ الکریم) کو
ستایا اس نے مجھے ستایا ۔ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ
7/502، مسند احمد 3/484، معجم ابن قانع 2/201)
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے
حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی طرف نظر التفات کی
اور ارشاد فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں
اس سے لڑوں گا جو تم سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا ۔" (یعنی جو تمہارا
دشمن وہ میرا دشمن اور جوتمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔(احمد بن حنبل فی
المسند 2/442،الحاکم فی المستدرک 3/161، رقم 4713،تاریخ بغداد 7/137)
ایک اور حدیث پاک میں سید عالم ﷺ کا یہ فرمان
موجود ہے کہ "حق حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ ہے اور علی حق کے
ساتھ ہیں ۔ (صحیح الترمذی 31/166)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس وقت حاکم برحق و
سلطان عادل نہ تھے جب تک کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم خلیفہ رہے اور آپ کی
شہادت تک بے شک حق حضرت مولائے کائنات کر م اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ تھا حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں مخطی تھے ۔ اسی عقیدہ کو اہل سنت درست
جانتے اور مانتے ہیں جیسا کہ خلیفہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی
علیہ الرحمہ نے مرآۃ شرح مشکوۃ میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ بیک و قت
دو خلیفہ نہیں ہوسکتے اگر ہوں تو پہلا خلیفہ ہوگا دوسرا باغی چنانچہ خلافت حیدری
میں امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور حضرت امیر معاویہ
باغی جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں خلافت سے دستبرداری فرمالی تب
وہ سلطان برحق(بادشاہ) ہوئے۔ (مرآت شرح مشکوۃ 5/365)
حضرت مولائے کائنات شیرخدا کرم اللہ وجہہ الکریم
نے قرآن پاک پر عمل پیرا ہوتےہوئے حضرت امیر معاویہ سے اس وقت تک جنگیں لڑیں جب تک
وہ باغی تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا
فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى
فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ (سورہ الحجرات آیت 9) اور اگر مسلمانوں کے دو
گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر(بغاوت) زیادتی کرے تو
اس زیادتی (کرنے) والے (باغی) سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ
آئے۔ (سورہ الحجرات آیت 9)
آپ کی فضلیت کا اندازہ یوں بھی لگا جا سکتا ہے کہ
حضرت محمد مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شہزادی اور لاڈلی بیٹی ، خاتون جنت
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کیا اور بوقت نکاح حضرت سیدہ فاطمہ
سے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس
کے رسول کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ بھی اسے محبوب رکھتے
ہیں۔ (احمد فی المسند5/26، الطبرانی فی المعجم الکبیر 20/229، الہندی فی
الکنزالعمال32924)
حضرت نظام الدین محبوب الہی علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں کہ صحابہ میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد آپ ہی(سب سے
بڑے) فقیہہ تھے۔ (فوائد الفوادیعنی ملفوظات حضرت نظام الدین محبوب الہی علیہ
الرحمہ3/120)
آپ بڑے نڈر اور بہادر صحابی رسول تھے تیراندازی میں خاص مہارت تھی اسلام
لانے کے بعد بیشتر غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا، بعض روایتوں میں ہے کہ 14
غزوات میں انہوں نے شرکت کی، ان میں سے سات میں آنحضرتﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل
ہوا اور سات وہ تھے جو آنحضرتﷺ نے مختلف اطراف میں بھیجے( الاستیعاب:2/584) اور مستدرک کی روایت کے
مطابق ان غزوات کی تعداد سولہ تک پہنچ جاتی ہے۔ (مستدرک:3/562)
وصال مبارک: شب جمعہ17یا19رمضان
المبارک 40 ہجری کو امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم صبح کے وقت بیدار
ہوئے، مؤذن نے آکر آواز دی اور کہا:اَلصَّلٰوۃ اَلصَّلٰوۃ!چنانچِہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نماز پڑھنے کے
لئے گھر سے چلے، راستے میں لوگوں کو نماز کے لئے صدائیں دیتے اور جگاتے ہوئے مسجد
کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک ابْن مُلْجَم خارجی نے آپ کرم
اللہ وجہہ الکریم پر تلوار کا ایک ایسا ظالمانہ وار کیاکہ جس کی شدت سے آپ کرم
اللہ وجہہ الکریم کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری۔ اتنے
میں چاروں طرف سے لوگ دوڑ کر آئے اور اُس خارجی کو پکڑ لیا۔ اِس الم ناک واقعہ کے
2دن بعد بروز اتوار21 رمضان، 40ھ، بمطابق 27 جنوری ،661 ءکی رات جامِ شہادت نوش
فرماگئے۔(تاریخ الخلفاء،ص:132)
حضرت سیدناامام حسن،سیدنا امام حسین اورسیدنا
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنھم نے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کو غسل دیا، حضرت سیدنا
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اوردارالاِْمارت کوفہ میں رات
کے وقت دفن کیا۔ لوگوں نے اِبْنِ مُلْجَم کے جسْم کے ٹکڑے کرکے ایک ٹوکرے میں رکھ
کر آگ لگا دی اور وہ جل کر خاکِستر ہو گیا۔ (تاریخ الخلفاء ص374)
امام شہاب الدین زہری علیہ الرحمہ حضرت سعید بن
مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں کہ انہوں نے کہا کہ جس دن حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم کو قتل کیا گیا ، اس کی صبح کو زمین سے جس کنکری کو اٹھایا جاتا ، اس
کے نیچے تازہ خون پایا جاتا تھا ۔ )خصائص الکبریٰ 2/235، حاکم ، بہیقی، ابونعیم)
عصمہ عبادانی کہتے ہیں کہ میں کسی جنگل میں گھوم
رہا تھا کہ میں نے ایک گرجا گھر دیکھا ، وہاں میں ایک راہِب کی خانقاہ تھی اس کے
اندر موجود راہب سے میں نے کہا کہ تم نے اس (ویران)مقام پرجو سب سے عجیب وغریب چیز
دیکھی ہو وہ مجھے بتاؤ! توا س نے بتایا: میں نے ایک روز یہاں شتر مرغ جیسا ایک
دیو ہیکل سفید پرندہ دیکھا، اس نے اس پتھر پر بیٹھ کرقے کی، اُس میں سے ایک انسانی
سر نکل پڑا، وہ برابر قے کر تا رہا اور انسانی اعضا ء نکلتے رہے اور بجلی کی سی
سُرعَت(پُھرتی) کے ساتھ ایک دوسرے سے جُڑتے رہے یہاں تک کہ وہ مکمل آدمی بن گیا!
اس آدمی نے جوں ہی اُٹھنے کی کوشش کی اُس دیو ہیکل پرندے نے اُس کے ٹھونگ ماری
اور اُس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پھر نگل گیا۔ کئی روز تک میں یہ خوفناک منظر دیکھتا
رہا، میرا یقین اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قدرت پر بڑھ گیا کہ واقِعی اللہ تعالی مار
کر جلانے پر قادِرہے۔ ایک دن میں اُس دیو ہیکل پر ندے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے
دریافت کیا کہ اے پرندے! میں تجھے اُس ذات کی قسم دے کر کہتا ہوں جس نے تجھ کو
پیدا کیا! اب کی بار جب وہ انسان مکمل ہو جائے تو اُس کو باقی رہنے دینا تاکہ میں اُس
سے اُس کا عمل معلوم کر سکوں ! تو اُس پرندے نے فَصیح عربی میں کہا: ’’میرے رب کے
لئے ہی بادشاہت اوربقا ہے ہر چیز فانی ہے اور وہی باقی ہے میں اس کا ایک فرشتہ ہوں
اور اِس شخص پر مسلط کیا گیا ہوں تا کہ اِس کے گناہ کی سزا دیتا رہوں۔‘‘ جب قے میں
وہ انسان نکلا تو میں نے اُس سے پوچھا: اے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے انسان! تو
کون ہے اور تیرا قصہ کیاہے ؟ اس نے جواب دیا: ’’میں ( حضرت) علی(کرم اللہ وجہہ
الکریم)کا قاتل عبدالرحمن ابن ملجم ہوں، جب میں مر چکا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے
سامنے میری روح حاضر ہوئی، اُس نے میرا نامۂ اعمال مجھ کو دیا جس میں میری پیدائش
سے لے کر حضرت علی(کرم اللہ وجہہ الکریم) کو شہید کرنے تک کی ہر نیکی اور بدی لکھی
ہوئی تھی ۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اِس فرشتے کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک مجھے
عذاب دے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپ ہو گیا اور دیو ہیکل پرندے نے اس پرٹھونگیں ماریں اور
اس کو نگل گیا اور چلا گیا۔ (شرح الصدور ص۱۷۵)