تین
طلاق اور یکساں سول کوڈ کا معاملہ غیر ضروری، حکومت پہلے دفعہ 341سے مذہبی قید
ہٹائے
علما
ومشائخ بورڈ کے صدر مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی کا مطالبہ
آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ نے لا کیشن کے سوالنامہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ
کیا تین طلاق کی منسوخی اور یکساں سول کوڈ سے ملک کی ترقی کی رفتار بڑھ جائے گی
اور اگر مسلمانوں کو یکساں حقوق دینے کی نیت ہے تو آئین کی دفعہ 341 سے مذہبی قید
ہٹانے سے گریز کیوں؟
سنی صوفی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا
علما ومشائخ بورڈ کے صدر اور بانی حضرت مولانا سیدمحمداشرف کچھوچھوی نے آج یہاں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا
کہ آئین کی دفعہ 341 میں مذہبی قید لگا کر حکومت نے مسلم فرقہ کے پچھڑے طبقات کو
ان سہولتوں سے محروم کر دیا جو دیگر برادران وطن کے ان ہی طبقات کو حاصل ہیں اور
اب ایک غیر ضروری معاملہ اٹھا کر خواہ مخواہ ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے۔ جسٹس راجیندر سچر کی قیادت میں بنائی گئی ایک کمیٹی نے اپنی سفارش میں یہ
بات کھل کر کہی ہے کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہو گئی ہے اور اس سفارش
کے پیش نظر حکومت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی سماجی،تعلیمی،مالی
اور سیاسی حالت بہتر بنانے کے اقدام کرے گی لیکن اس کی بجائے تین طلاق اور یکساں
سول کوڈ کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ بحث میں لا کھڑا کیا گیا اور اس بحث میں عوامی
ذرائع ابلاغ پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے جن مسلم عورتوں کو لا یا جارہا
ہے ان میں اکثریت سلفی اورغیر مقلدین کی ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں
بورڈ کے دو اہم عہدیداروں سید تنویرہاشمی اور سید سلمان چشتی کے ساتھ ماسکو روانگی
سے قبل کل رات بورڈ کے صدر دفتر میں نامہ نگاروں سے حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی
نے کہا کہ ملک میں پہلے سے ہی ایک قانون چل رہا ہے۔ فوجداری اور دیوانی دونوں
یکساں قوانین سارے شہریوں پر باضابطہ نافذ ہیں۔صرف نکاح طلاق اور وراثت کے قوانین
میں ہی تمام مذاہب کے پرسنل لاز پر عمل ہو رہا ہے۔
شادی میں بھی اسپشل میریج
ایکٹ نافذ اور زیر عمل ہے۔شادی طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین میں مداخلت سے ملک
کی ترقی یا اس کی خوش حالی میں کیا فرق پڑے گا نہیں معلوم۔
اس لئے بورڈ یہ سمجھتا ہے کہ
اس کی ضرورت نہیں اس لئے بورڈ بہت جلد ہندوستان بھر کے مفتیان کرام کی ایک بڑی
کانفرنس منعقد کر کے اس سوال پر ان کی تحریری رائے طلب کرکے اور تمام پہلوؤں
پر غور کر کے ایک نتیجہ پر پہنچے گا اوروہی نتیجہ بورڈ کا حتمی موقف ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا
کہ جومسلم خواتین تین طلاق کے خاتمے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذکا مطالبہ کر رہی
ہیں ان کا تعلق اہل حدیث سے ہے۔وہ چاروں ائمہ میں سے کسی کے مسلک کی تقلید نہیں
کرتیں۔
چاروں ائمہ نے تین طلاق کے
معاملہ کی اجازت دی ہے۔غیر مقلد اس سے متفق نہیں۔سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کو یہ حق
کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اس سے تعلق رکھنے والی عورتیں تمام ہندوستانی مسلم خواتین
کی نمائندہ بن کر کھڑی ہوں۔آئین نے ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے
مذہب پر چلنے کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔
حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے ایک اور سوال کے جواب میں
کہا کہ طلاق کسی ناگوار رشتے سے عافیت کے ساتھ نکل آنے کی صورت ہے۔اس کا غلط استعمال
روکنے کے لئے بیداری لانا ضروری ہے۔ قانون اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ لوگ قانون کے
مطابق اپنے آپ کو ڈھا لیں نہ کہ لوگوں کی طبیعت کے مطابق قانون بدلا جائے۔ تین
طلاق کو ختم کرنے کی نیت ٹھیک نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص غصے میں کسی کو قتل کردے
تو کیا حکومت آئین کی دفعہ 302کو بدلنے کی کوشش کرے گی۔اس کا سیدھا جواب نہیں ہے
کیونکہ قانون تو ہر حال میں رہے گا۔#قانون کی خلاف ورزی یا اس کا غلط استعمال
روکنے کے لئے بیداری لانے کی ضرورت ہے اور اس پر کام ہونا چاہئے۔
شائع کردہ: آل رسول احمد
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ
لکھنؤ
موبائل : 7317830929
نوٹ: دہشت گردی کے خلاف
صوفیائے کرام کی محبت، بھائی چارہ اور امن وشانتی کے پیغام کو عام کرنے کے لئے شہر لکھنؤ
میں آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی جانب سے 04 دسمبر 2016 بروز اتوار کو سنی صوفی
کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔
آپ تمامی حضرات سے گزارش ہے
کہ آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں
پرامن طریقے سے پہونچ کر اپنی دینی و ملی بیداری کا ثبوت دیں۔