بزرگوں کے اقوال،
ملفوظات، مکتوبات، ارشادات میں اصلاح، فلاح و تعمیرکا عظیم پیغام مستور ہوتا ہے۔
کبھی دو جملے زندگیوں کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ اسلاف کی تعلیمات نے انقلابات برپا
کیے۔ جس سے گلستاں میں بہار آئی۔ ایسی انقلاب بداماں شخصیات میں حضرت شیخ المشائخ
سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ کی ذات نمایاں و ممتاز ہے۔
آپ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے خانوادے کے فردِ فرید
اورسلسلۂ اشرفیہ کی روحانی اقدار کے امین تھے۔ آپ کی ذات عہد ساز و جامع صفات
تھی۔ خانقاہی نظام کے حوالے سے مثال تھے ہی امورِ شرع میں بھی گہری نگاہ رکھتے
تھے۔ آپ کی ذات سے سلسلۂ اشرفیہ کو فروغ ملا ، کچھوچھہ شریف سمیت کئی علاقوں میں
اشاعتِ علم دین کے مراکز قائم ہوئے۔خانقاہی نظام کو تقویت ملی۔
سوانحی خاکہ:
22؍ ربیع الآخر1266ھ
میں پیر کے دن بہ وقت صبح صادق آپ کی ولادت ہوئی۔چار سال چار ماہ چار دن کی عمر
میں مولانا گل محمد خلیل آبادی نے بسم اللہ خوانی کرائی۔مولانا امانت علی
کچھوچھوی نے فارسی کی درسی کتابیں پڑھائیں۔مولانا سلامت علی گورکھ پوری و مولانا
قلندر بخش کچھوچھوی سے بھی درس لیا۔حضرت اشرفی میاں نے 1285ھ میں برادرِ اکبر حضرت
سید شاہ ابو محمد اشرف حسین کچھوچھوی کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور خلافت و اجازت
سے نوازے گئے۔اسی طرح خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی علیہ الرحمہ
(وصال ۱۲۹۶ھ) نے بھی آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا۔1297ھ
میں خانقاہِ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے سجادہ نشیں ہوئے اور 8؍محرم الحرام کو خرقۂ
خاندانی جو ایک روایت کے مطابق حضرت مخدوم سمناں علیہ الرحمہ کا عطیہ تھا زیبِ تن
فرمایا۔ آسمانِ روحانیت کا یہ نیرِ تاباں کچھوچھہ مقدسہ میں۱۱؍رجب المرجب 1355ھ/1936ء
میں غروب ہوگیا۔ مزار اقدس منبعِ برکات ہے۔
تاباں افکار کی
جھلکیاں:
حضرت اشرفی میاں اپنے
عہد کے اکابر میں تھے، متعدد تاریخی نوعیت کے اجلاس و کانفرنسوں میں صدارتی خطبات
پیش کیے۔ جن کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے قلب وذہن میں ملت کے لیے درد و
سوز تھا، مسلم وقار ہر جگہ اور ہر محاذ پر عزیز تھا، فرقہ پرستوں کے مقابل دین کی
تائید و نصرت کی فکر جلوہ بار تھی۔ آپ کے افکار میں تب و تاب ہے، مسلمانوں کے لیے
پیامِ اخوت ہے، جذبۂ فراواں ہے، عزم محکم ہے، جہدِ مسلسل کا درس ہے۔ ایسے ہی ایک
خطبے کے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔ جسے حضرت اشرفی میاں کی طرف سے
خلیفۂ اعلیٰ حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے آل انڈیا سنی کانفرنس
(مرادآباد) کے تاسیسی اجلاس میں پیش کیاجو1925ء میں انعقاد پذیر ہوا۔ اس خطبے میں
دستورالعمل ہے؛ مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بقا اور سازشوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس
لائحۂ عمل پنہاں ہے۔
اسلامی شوکت کا نظارہ:
حضرت اشرفی میاں فرماتے
ہیں: ’’دیکھنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عرب کے افق اور فاران کے مطلع سے
ایک بے نظیر آفتابِ قرب و خورشیدِ محبوبیت چمکا جس کی نورانی شعاعوں نے تمام
عالَم کو روزِ روشن کر دیا۔ اور جس کی گرمی کا نظارہ آج بھی کر لو کہ کرۂ زمیں
کے چپے چپے پر لاالہ الاللّٰہ محمدرسول اللّٰہ کی دھوم ہے،ان توحید کے متوالوں اور
شمعِ رسالت کے پروانوں کی حیات کا مطمحِ نظر اور زندگی کا مقصد غیرِ حق سے ہٹ کر
صرف اعلانِ حق ہو گیا۔ چناں چہ یہی جذبہ تھا جو توحید کا نعرہ مکہ معظمہ کی گلیوں
اور مدینہ طیبہ کے کوچوں ہی میں چکر کھا کر نہیں رہ گیا، بلکہ جزیرۃالعرب سے
نکلا،ایشیا و افریقہ و یورپ غرض ربع عرض مسکونہ میں پھیل گیا، اور اسلامی تکبیر کی
آوازِ بازِگشت یورپ کے ایوانوں،افریقہ کے صحراؤں اور ایشیا کے پہاڑوں سے آنے
لگی…یہی اعلانِ حق کا جذبہ تھا جس کے نشہ نے توحید و رسالت کے متوالوں سے گھر بار
و عزیز و یار سب کچھ چھڑایا۔ اور دُنیا نے دیکھا کہ حق پرستوں کا گروہ عرب سے نکل
کر دُنیا میں پھیل گیا۔ کیا تم اس کو نہیں پہچانتے جو عرب سے ’چشت‘آیا اور بڑھتے
بڑھتے جس نے سرزمینِ ہند[اجمیر] میں آکر اعلانِ حق کا فریضہ ادا کیا۔‘‘ (ماہ نامہ
المیزان،کچھوچھہ، اپریل مئی 1972ء، ص7، بہ حوالہ ماہ نامہ اشرفی مئی1925ء)
استقلال حق:
’’ یہاں اتنا اور بتا
دوں کہ اعلانِ حق کی استعداد اس قلب میں پیدا ہوتی ہے جس میں جرأت و ہمت، عقل و
فراست، دین و دیانت، استقلال و شجاعت، صبر و قناعت، تحمل و مُسرّدت موجود ہو، اور
اگر ان میں کسی ایک کی کمی ہو تو اعلانِ حق صحیح معنوں میں ایک امرِ محال
ہے۔(لیکن) اگر آپ کا دل مادّی قوتوں سے مرعوب ہو چکا ہے یا دین کا پاس اور دیانت
کا لحاظ معاذاللہ باقی نہیں رہا یا ناکامیوں کو یاد کر کے سکتہ طاری ہو جاتا ہے یا
شکم پروری ودُنیا طلبی مدِ نظر ہے یا شہرت پسندی یا اظہارِ جاہ وجلالت مطلوب ہے تو
آسمان کے تارے اور زمین کے ذرہ گواہ ہیں کہ اس کا نتیجہ دارین کی روسیاہی کے سوا
اور کچھ نہیں ہے۔‘‘(نفسِ مصدر،ص7-8)
احیاے دین:
’’جب تک قومِ مسلم میں
صفاتِ خمسہ مذکورہ کا وجود تھا اس وقت تک اعلانِ حق کا عروج کسی پر پوشیدہ نہ تھا۔
لیکن جب سے بساطِ عالم کا رُخ بادِ مخالف سے پلٹ گیا (تو) اسلامی تنظیم و اجتماع
کے خلاف خروج و بغاوت کا مادہ پیدا ہوا۔ اور شور و غُل اس قدر بڑھ گیا کہ اعلانِ
حق کا امتیاز دشوار ہو گیا۔ اس نازک وقت میں علماے کرام و علم بردارانِ شریعت کے
لیے جائز نہ تھا کہ وہ اس کے دفاع سے غفلت برتیں۔ اور تہلکہ کو نذرِ تغافل کر دیں،
چناں چہ ہندوستانیوں نے دیکھا کہ بدایوں میں حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رحمۃاللہ
تعالیٰ علیہ اور رام پور میں حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب اور لکھنؤ میں حضرت
مولانا عبدالرزاق صاحب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ وغیرہ اور سرزمینِ بریلی پر
ایک حق گو حق پرست اور حق شناس ہستی تھی جس نے بلا خوف لومۃِ لائم اعلانِ حق کے
لیے میدانِ جہاد میں قدم رکھ دیا، اور قوم کے تفرقوں سے بے پروا ہو کر اپنی اس
شانِ امامت و تجدید کو عرب و عجم پر روشن کر دیا جس کی عظمت کے سامنے اعداے دین کے
کلیجے تھرّاتے رہے، میرا اشارہ امامِ اہلِ سُنّت مجدد مأۃِ حاضرہ(امام احمد رضا)
رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی طرف ہے جن کے فراق نے میرے بازو کو کم زور کر دیا اور
مسلمانوں کو جن کی وفات نے بے کس و ناتواں کر دیا۔ اس امامِ وقت کی وفات ہند میں
کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ اس عظیم انقلاب کا پہلا واقعہ تھا جس کی گردش میں
آج ہم آپ پریشان ہیں۔‘‘(نفسِ مصدر،ص8)
اساتینِ اسلام کا مدعا:
’’(ملتِ اسلامیہ کے
اضطراب کا) جواب صرف اتنا ہے کہ مسلمانوں نے پنا فرض فراموش کر دیا انھیں یاد نہیں
رہا کہ ہم ہندوستان کیوں آئے تھے۔ ہم نے زمین داری، تجارت، ملازمت وغیرہ ہی کو
مقصودِ اصلی قرار دے دیا۔ اور اس کا خیال نہ رہا کہ اس قسم کی حرص دنیا میں ہرگز
یہ قوت نہ تھی کہ ہم کو ہمارے بابرکت گھر سے علاحدہ کر دیتی۔ اگر راحتِ دنیا کوئی
قابلِ قدر چیز ہوتی تو گروہِ انبیا سلاطینِ وقت ہوتا اور کربلا کی انجمن جلتے تپتے
ریگستان پر قائم نہ ہوتی اور ہم تو اپنی کہتے ہیں کہ بغداد کا راج اور سمنان و تخت
و تاج چھوڑ کر آج ہندوستان کی مشکلات کو اختیار نہ کیا جا تا؛ مگرہمارے بزرگوں نے
اپنے نظامِ حیات سے اس حقیقت کو آفتاب سے زیادہ روشن کر دیا کہ مسلمانوں کے سفر و
قیام کا صرف ایک مدعا ہے اور وہ اعلانِ حق ہے، مگر ہماری خاموشی اور غفلتوں کی
انتہا ہے کہ صفاتِ محمودہ آہستہ آہستہ ہم سے رُخصت ہوتے جاتے ہیں۔ ‘‘(نفسِ
مصدر،ص8-9)
پیغام:
’’ اس مصیبت کا خاتمہ اسی پر موقوف ہے کہ منتشر قوتیں یک جا کر دی جائیں اور
خانقاہ و مدرسہ سے لے کر غریب مسلمانوں کے جھوپڑے تک کو ایک سلسلے میں منسلک کر
دیا جائے، اور اپنی تمام ملکی قومی اور مذہبی امور کی باگ اس طرح حضرات علماے کرام
کے مقدس ہاتھوں میں دے دی جائے جس سے سرتابی کی مجال کسی میں باقی نہ رہے۔‘‘(نفسِ
مصدر)
حضور
اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے ان ارشادات میں زندگی کی بقا، مسلم وقار، فکری بلندی، دینی
شعور، اسلامی حمیت کا پیغام ہے۔ اللہ کریم ہمیں قومی وقار کے ساتھ اسلاف کی
تعلیمات کو طاقِ حیات میں آویزاں کرنے کا جذبۂ جنوں خیز عطا فرمائے۔آمین۔
11 اپریل 2017
gmrazvi92@gmail.com
ترسیلِ فکرِ نافع:
محمدشہبازاختررضوی
نوری مشن مالیگاؤں