عارفؔ بالله حضرت شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری پوری ثم غازی پوری علیہ الرحمہ



سرکار  آسی غازی پوری علیہ الرحمہ کی  ذات محتاج تعارف نہیں۔آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھےآپ  کی پیدائش 21 دسمبر 1834ءکو سکندر پور ضلع بلیا (یوپی) میں ہوئی۔ نام محمد عبدالعلیم تھا۔ پہلے عاصی تخلص اختیار کیا پھر آسی۔آپ علیہ الرحمہ  کی ابتدائی تعلیم وتربیت قطب الہندحضرت مولاناشاہ غلام معین الدین رشیدی سجادہ نشین خانقاہِ رشیدیہ جون پور کی آغوشِ شفقت میں ہوئی اوربیعت وارادت کاشرف بھی انہیں سےحاصل ہے۔ یہ حضرت مولانا غلام معین الدین حضرت آسؔی کےوالد ماجد حضرت شیخ قنبر حسین کےپیربھائی تھے۔ابوالحسنات مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنؤی کےوالدِماجد حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سےحضرت آسؔی نےمدرسہ حنیفہ جون پور میں کتبِ منقول ومعقول کی تکمیل فرمائی۔ اورفنِ شاعری میں حضرت شاہ غلام اعظم افؔضل الہ آبادی سجادہ نشین دائرہء شاہ اجمل الہ آباد کی شاگردی اختیارکی۔ آپ نے علم و فن دین و مذہب اخلاق وروحانیت سلوک و تصوف ،قوم وملت سماج معاشرہ شعر و ادب زبان و بیان فکر و تحقیق و تصنیف وتالیف غرض کہ ہر شعبے میں نمایاں اور قابل فخر خدمات پیش فرمائی ہیں۔کیونکہ آپ عالم، فقیہ ، عارف،مصلح،صوفی، واعظ، مصنف، طبیب ، حکیم، شاعر، اور خانقاہ رشیدیہ جونپور کے آٹھویں سجادہ نشین تھے۔آپ کے مشاہیرمعاصرین : شیخ المشائخ  مخدوم الاولیاءمولاناسید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر عثمانی بدایونی، مولانا شاہ انواراللہ فاروقی حیدرآبادی شاہ حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری کٹیہاری بہار،سید شاہ شہودالحق اصدقی بہاری،حضرت خواجہ الطاف حسین حالی، نواب مرزا خان داغ دہلوی، ڈاکٹر اقبال، شاہ سراج الدین وارثی  تھے۔ سوانح اشرفی میاں کچھوچھوی بنام”حیات مخدوم الاولیاء ” میں مرقوم ہے۔ کہ شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی،خانقاہ رشیدیہ جونپور شریف بحرالاسرار قطب العرفاء والعشاق حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری ثم غازی پوری کی دیدو ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ حضرت آسی علیہ الرحمہ نےاستقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایا کہ: آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور مخدومِ کچھوچھہ کی اولاد ہیں سید ہیں، حضور اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ نے بھی فرمایا کہ : آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ "حق تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آپ اللہ والے ہیں ۔” (حیات مخدوم الاولیاء ص140)

آپ علیہ الرحمہ 2جمادی الاولیٰ1335ہجری کو پچاسی برس کی عمر میں وابستگان سلسلہ رشیدیہ سے ہمیشہ کے لئے پردہ فرما کر واصل بحق ہوگئے اور آپ کا مزار پاک محلہ نور الدین پورہ، غازی پور ضلع بلیا یوپی میں مرجع انام ہے جس سے فیوض وبرکات ہمہ دم جاری و ساری ہیں۔

سُلطان التارکین حضرت قاضی صوفی حمید الدین چشتی ناگوری علیہ الرحمہ

 

آپ کے اسم گرامی محمد عطا لقب قاضی حمید الدین ،سُلطان التارکین صوفی سعید ناگوری کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت عطااللہ محمود بخاری سلطان شہاب الدین غوری کے عہدِ حکومت میں کرمان سے ہندوستان تشریف لائے تھے ۔ آپ کی ولادت ۵۹۰ ہجری میں ہوئی ۔ سلطان غوری نے ۱۱۲۹ء میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دیکر جب دہلی پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا اس کے بعد مسلم گھرانوں میں جو بچہ سب سے پہلے پیدا ہوا وہ صوفی حمیدالدین ناگوری تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت سعید بن زیدسے ملتا ہے، جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ آپ کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ حسینی سیدہ تھیں۔آپ کی والدہ محترمہ بھی اپنے زمانے کی نہایت بزرگوار ، صالح، نیک اور پاکباز خاتون تھیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے والد محترم کی سرپرستی میں ہوئی۔بعدہٗ آپ کے استاذ مولانا شمس الدین حلوائی تھے جن سے آپ نے علوم شریعت وطریقت کا وافر حصہ اور درجۂ کمال حاصل کیا۔ انہوں نے مولانا حلوائی کے علاوہ شیخ حمیدالدین خوئی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے بھی استفادہ کیا۔ یوں تو انہوں نے کئی خدارسیدہ بزرگان دین کی صحبت اٹھائی اور علوم ظاہری وباطنی حاصل کئے۔آپ نے ایک لمبی مدت تک ریاضت ومجاہدے کئے۔حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ  کی صحبت میں رہ کر تصوف و معرفت کے راز ہائے سربستہ کا مشاہدہ کیا اور عشق الٰہی سے اپنے سینے کو منور کیا یہاں تک کہ آپ سلطان الہند کے منظور نظر ہوگئے۔اور اس کے بعد خواجہ ؒنے خرقہ خلافت عطا کیا۔ اپنے مرشد کے حکم سے ناگور گئے جہاں بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے۔ آپ اپنے وقت کے ایک عالی مرتبت اور بلند نظر کثیراللسان عالم تھے انہیں عربی ،فارسی اور ہندی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو مطالعہ کا بے حد ذوق وشوق تھا۔ قرآن پاک کی مختلف تفسیر یں اور مستند مشائخ کی تحریر کردہ حدیث کی بلند پایہ کتابیں آپ کے زیر مطالعہ رہتی تھی۔آپ خود بھی کئی معتبر اور مستند کتابوں کے مصنف ہیں۔ تصوف وسلوک ،شریعت وطریقت تفسیر وحدیث فقہ اور علم الفرائض (میراث کے اسلامی قوانین) آپ کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے۔ آپ کے حق آگاہ قلم کی چند نگارشات جنہیں آج بھی علماء وصوفیاء کے درمیان نہایت قدر کی نگاہوںسے دیکھا جاتا ہے ۔ سُلطان التارکین کی زندگی یکجہتی،باہمی اتحاد ،میل ملپ ایک دوسروں کا پاس و خیال کا وہ نمونہ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی تربیت کی دین ہے ۔آپ علیہ الرحمہ  ۲۹ ربیع الثانی ۶۷۳ھ کو اس جہانِ فانی کو الوداع کیا۔ ناگور شریف راجستھان میں آپ کا آستانہ مبارک زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔