ملک کی آزادی سے قبل برٹش حکومت نے ملک
میں آئینی اصلاح کے نام پر 1927 میں سائمن کمیشن بھارت بھیجا۔لیکن سائمن کمیشن کوسیاہ جھنڈے اور
سائمن واپس جاؤ کے نعروں کے ساتھ زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن بعد میں 1930 اور 1932 کی
گول میز کانفرنسوں میں انڈین نٰیشنل کانگریس کی زبردست مخالفت ور احتجاج کے باوجود
کمیشن کی سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔اور ملک کی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق
سے نواز اگیا اور جو 1943
میں نافذالعمل ہوا۔ اس میں ہندو درج فہرست
ذاتوں کے مساوی پیشہ اختیار کرنے والی مسلما نوں کی تقریبا75
فیصد آبادی تھی۔ آئین ہند کے نفاذ تک ملک کے پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کی سہولت
ملتی رہی۔ 15
اگست 1947 کو ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد برٹش حکومت کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے وطن عزیز کے آئین سازوں نے بھی ملک کے پسماندہ طبقات ، دلتوں اور
اچھوتوں کو درج فہرست ذاتوں میں شامل کرکے انکی آبادی کے تناسب میں سرکاری اداروں
، قانون ساز اداروں ، اور تعلیم گاہوں وغیرہ میں انکی نمائندگی یقینی بنانے کی غرض
سے ریزرویشن کو حسب سابق قانون کا درجہ دیا ۔ درج فہرست ذاتوں میں نٹ ، جولاہا ،
مداری ، دھوبی ،کھٹِک ،جھوجھا ، بھانٹ ، جوگی منگتا (فقیر)ڈفالی ،گورکن، کُجڑا ،
حلال خور ، مہتر ،بھنگی،بیہنا ، گوریا منہار ، وغیرہ شامل تھیں ۔ واضح ہو کہ درج
فہرست ذاتوں میں مسلما نوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی ، ان تما م ذات کے لوگ
خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کو شیڈول کاسٹس کے زمرے
میں رکھا گیا تھا۔اور سبھی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کے حق سے نوازہ گیا تھا۔لیکن
افسوس آئین ہند کے نفاذ کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 10 اگست 1950 کو آرٹیکل 341 کی
"دفعہ"کا سہارا لیکر ملک کے
پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد کے زریعے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروا یا کہ شیڈول
کاسٹس سے متعلق لوگوں میں سے محض انہیں کو ریزرویشن اور دوسری مراعات حاصل ہونگی
جو ہندو مذہب (سناتن دھرم) کو ماننے والا ہوگا اس کے علاوہ غیر ہندو دلتوں کو
ریزرویشن سے محروم کر دیا گیا۔ حکومتِ ہند کے اس غیر آئینی قدم کے خلاف سکھ سماج
کے لوگوں میں بیداری نظر آئی اور سکھ سماج کے دلتوں نے زبردست تحریک اور احتجاج کے
ذریعے حکومت ہند کو دو بارہ ریزرویشن دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور مسٹر نہرو کی
قیادت والی سرکار نے 1956 میں آئین (شیڈول کاسٹس)آرڈر1950کے پیرا 03 میں ترمیم کرکے ریزرویشن کی سہولت پانے کے لیے ہندو اور سکھ ہونا لازمی کر
دیا۔لیکن افسوس خود کو سیکولرزم کی پجاری کہنے والی ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی
نے آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کو ریزرویشن سے
محروم کر دیا ۔نہ صرف ملک کے اقلیتوں کو ریزر ویشن سے محروم کیا گیا بلکہ آئین کے
آرٹیکل 14کی بھی خلاف ورزی کی گئی ۔کیونکہ آارٹیکل 14 کی
رو سے مذہب و ملت ،ذات پات ،علاقہ ،رنگ و نسل سے قطع نظر ملک کے تمام شہریوں کو
برابری کے حقوق دیے گئے ہیں ۔اور ظلم و زیادتی کی علامت سمجھی جانے والی برٹش
حکومت کے زریعے ملک کے اقلیتوں کو ریزرویشن کے نام پر جو مراعات حاصل تھیں اسے
آزاد ہندوستان کی حکومت نے چھین لیا ۔اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی ملک کی آزادی
میں نما یاں رول ادا کرنے والی سیاسی پارٹی کے سربراہ ا ور ملک کے پہلے وزیر اعظم
کو تسلی نہیں ہو ئی اور نا انصافی کی راہ پر ایک اور قدم بڈھتے ہوئے
1985میں آئین میں ترمیم کراتے ہوئے یہ
اضافہ کیا کہ جن ہندو دلتوں کے آباء و اجداد کبھی اسلام میں داخل ہو گئے تھے اگر
وہ دوبارہ ہندو مذہب(سناتن دھرم) میں واپس آ جاتے ہیں تو انہیں ریزرویشن اور دیگر
مراعات حاصل ہوں گی۔ واضح ہو کہ آئین ہند کی دفعہ340،341،342 میں کہیں بھی مذہب
لفظ کا ذکر نہیں ہے۔۱س آرٹیکل314 پر مذہبی پابندی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے 21جنوری
2011 کو مرکزی حکومت سے پوچھاتھا کہ ایک سیکولر ملک میں اس قسم کی
پابندی کا کیا جواز بنتا ہے؟
لیکن ابھی تک سپریم کورٹ کو مرکزی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیاہے۔
حلانکہ سچرکمیٹی اور رنگناتھ مشراکمیشن کی کانسٹی ٹیوشن(شیڈول کاسٹس)آرڈر1950۱۹۵۰کے پیرا ۔03میں ضروری ترمیم کر کے مسلم
اورعیسائی دلتوں کو بھی شیڈول کاسٹس ریزرویشن کے حق دینے کی اہم سفارش ہے لیکن
مرکزی حکومت ان سفارشات کو نافذ کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ 1990میں بدھ سماج کے دلتوں کو بھی حکومت ہند کی جانب سے ریزرویشن کی سہولت دی
گئی ۔ لیکن اب بھی دلت مسلمان اور عیسائی اپنے آئینی حقوق سے محروم رہے ۔آیئے اب
آئین ہند کی ان دفعات پر نظر ثانی کرتے ہیں جو چیخ چیخ کر آرٹیکل 341 پر لگی مذہبی پابندی کو غلط ٹھہراتی ہیں ۔
آرٹیکل 15ملک
کے تمام شہریوں کو خواہ وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہوتعلیمی اداروں
میں برابری کے حقوق دیتا ہے ۔
آرٹیکل 16 ملک کے سبھی شہریوں کو سرکاری ملا زمتوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا
ہے ۔
لیکن افسوس شاید اس غیر آئینی قدم اٹھانے والے نے خود کو دستور ہند
سے بالاتر سمجھا۔ اور ملک کی سب سے بڑی اقلیتی فرقے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم
کر کے پسماند گی کے گہرے دلدل میں دھکیل دیا ۔ آزادی کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے
بعد بھی ملک کے دلت مسلمان اورعیسائی یزرویشن کے منتظر ہیں۔حکومتیں بدلیں حکمراں
بدلے لیکن کسی نے بھی اس غیر آئینی آرٹیکل 341پر لگی
مذہبی پابندی کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔ایک طرف تو حکومتیں ملک کے جمہوری نظام اور
آئین ہند میں گہرا ایمان اور عقیدت رکھنے کی بات کرتی ہیں ۔ لیکن وقت آنے پر
حکومتیں آئین ہند کی خلاف ورزی کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ
ابھی بھی قوم کے بیشتر افرادکو ملک کے پہلے وزیر اعظم کے اس غیر آئینی حکم نامے کا
علم ہی نہیں ہے۔جن کو اس نا انصافی کا علم ہے وہ اس بارے میں کسی کو بتانا ضروری
نہیں سمجھتے اورکچھ نے اپنے مفاد کی خاطر اس معاملے سے چشم پوشی کی۔ہم امید کرتے
ہیں مسلم اور سیکولر سیاسی جماعتیں اور مسلم تنظیمیں اس معاملے کو لیکر آواز بلند
کریں گے اور آرٹیکل 341لگی مذہبی پابندی ہٹوا کر مسلمانوں کو ریزرویشن کی سہولت
مہیاکروائیں گے ۔
نوٹ : آرٹیکل 341پر لگی مذہبی پابندی ہٹنا
بہت ضروری ہے ۔ اس کیلئے ہم سب کو تمام سیاسی جماعتوں اورسیاسی لیڈران پر دباء
بنانے کی ضرورت ہے ۔آئیے ہم سب مل کر تمام سیاسی لیڈران اورجماعتوں سے اس معاملے
کو لیکرآواز اٹھانے کا مطالبہ کریں