حضرت سلطان
صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ
الرحمہ
اور
جشن
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
فاطمی خلافت
میں رائج بری رسومات کو اور شخصی میلاد
کو ختم کرکے مجاہد اسلام ملک الناصر حضرت
الحافظ القاری مولانا سلطان صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف
اورصرف میلاد مصطفیٰ علیہ التحیہ والثنا
کا انعقاد رائج ٹھہرایا اور صوفیا ء کے لئے خانقاہوں کی تعمیر کی ۔ (المدائح
النبویہ صفحہ 100 الدکتور محمود علی مکی)
حضرت سلطان
صلاح الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ
الرحمہ کے بہنوئی
شاہ
ابوسعید المظفر کوکبری المعروف شاہ اربل
علیہ الرحمہ
کا
جشنِ عید
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم
..................................
شاہ
ابوسعید المظفر (متوفی 630ہجری) عظیم فاتح
سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ہجری / 1138۔ 1193عیسوی) کے بہنوئی تھے۔ سلطان کی
حقیقی ہمشیرہ ربیعہ خاتون ملک ابو سعید المظفر کے عقد میں تھیں اور سلطان بادشاہ سے
بغایت درجہ محبت رکھتے تھے۔ وہ دونوں خدمتِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ دل و جان
سے شریک تھے۔ بادشاہ خادمِ اسلام ہونے کے باوصف بہت متقی، پرہیزگار اور فیاض واقع
ہوئے تھے۔ بادشاہ کا عظیم دینی و روحانی مقام اور خدمتِ اسلام کی تڑپ دیکھ کر ہی
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی ہمشیرہ ’ حضرت ربیعہ خاتون‘ کی شادی ان سے کی تھی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے حوالے سے ملک ابو سعید المظفرکا یہ تعارف کرانے کے بعد
امام ابن کثیر نے تین چار سطور میں موصوف کے سیرت وکردار، تقویٰ و پرہیزگاری اور
دریا دلی پر روشنی ڈالی ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے
تفصیلات شرح و بسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر بالتفصیل لکھا ہے کہ
بادشاہ کس جوش و جذبہ اور مسرت و سرور سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
تقریب کا اہتمام کیا کرتا تھا۔
امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شاہ مظفر ابو سعید کو کبری بن زین الدین علی بن
تبکتکین ایک سخی، عظیم سردار اور بزرگ بادشاہ تھا، جس نے اپنے بعد اچھی یادگاریں
چھوڑیں۔ اس نے قاسیون کے دامن میں جامع مظفری تعمیر کروائی۔ وہ برزہ کے پانی کو اس
کی طرف لانا چاہتا تھا تو معظم نے اسے اس کام سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ سفوح کے
مقام پر مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے گا۔ وہ ماہ ربیع الاول میں میلاد مناتا تھا
اور عظیم الشان محفلِ میلاد منعقد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہادر، دلیر، حملہ
آور، جری، دانا، عالم اور عادل بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے اور اسے بلند
رتبہ عطا فرمائے۔
شیخ ابو
الخطاب ابن دحیہ نے اس کے لیے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک
کتاب لکھی اور اس کا نام ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ رکھا۔ شاہ نے اس
تصنیف پر اُسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ اس کی حکومت حکومتِ صلاحیہ کے زمانے تک
رہی، اس نے عکا کا محاصرہ کیا اور اس سال تک وہ قابلِ تعریف سیرت و کردار اور
قابلِ تعریف دل کا آدمی تھا۔
سبط نے
بیان کیا ہے کہ مظفر کے دستر خوانِ میلاد پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ
اس میں پانچ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ مٹی کے دودھ سے بھرے
پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال ہوتے تھے۔‘‘
1.
ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 18
2.
محبی ، خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر جلد 3 صفحہ 233
3.
سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 42-44
4.
سیوطی ، الحاوی للفتاویٰ صفحہ 200
5.
احمد بن زینی دحلان ، السیرۃ النبویہ جلد 1 صفحہ 53-54
اِس کے بعد امام ابن کثیر کی عبارت ملاحظہ
فرمائیں :
میلاد کے موقع پر اُس کے پاس بڑے بڑے علماء اور
صوفیاء حاضر ہوتے تھے، وہ انہیں خلعتیں پہناتا اور عطیات پیش کرتا تھا اور صوفیاء
کے لیے ظہر سے عصر تک سماع کراتا تھا اور خود بھی ان کے ساتھ رقص کرتا تھا۔ ہر خاص
و عام کے لیے ایک دارِ ضیافت تھا اور وہ حرمین شریفین و دیگر علاقوں کے لیے صدقات
دیتا تھا اور ہر سال بہت سے قیدیوں کو فرنگیوں سے چھڑاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے
ان کے ہاتھ سے ساٹھ ہزار قیدیوں کو رہا کرایا۔
اس کی بیوی ربیعہ خاتون بنت ایوب کہتی ہے کہ اس
کے ساتھ میرا نکاح میرے حضرت بھائی صلاح
الدین ایوبی اشعری الشافعی علیہ الرحمہ نے
کرایا تھا۔ اس خاتون کا بیان ہے کہ شاہ کی قمیص پانچ دراہم کے برابر بھی نہ ہوتی
تھی۔ پس میں نے اسے اس بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے : میرا پانچ درہم کے کپڑے
کو پہننا اور باقی کو صدقہ کر دینا اس بات سے بہتر ہے کہ میں قیمتی کپڑا پہنوں اور
فقراء اور مساکین کو چھوڑ دوں اور وہ ہر سال محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر تین لاکھ دینار اور مہمان نوازی پر ایک لاکھ دینار اور حرمین شریفین اور
حجاز کے راستے میں پانی پر خفیہ صدقات کے علاوہ تیس ہزار دینار خرچ کرتا تھا، رحمہ
اﷲ تعالی۔ اس کی وفات قلعہ اِربل میں ہوئی اور اس نے وصیت کی کہ اسے مکہ لے جایا
جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اِجتماع گاہ میں دفن
کیا گیا۔‘‘
حوالاجات
1.
ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 18
2.
سیوطی ، حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 44
3.
سیوطی ، الحاوی للفتاوی 200
4.
صالحی ، سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد صلی اللہ
علیہ وسلم جلد 1 صفحہ 362-363
5.
نبہانی ، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ 236
6.
دفیات الاعیان صفحہ
536-540
7.
البدایہ والنہایہ
جلد 13 صفحہ 147
8.
العبر فی خبر من غبر
جلد 2 صفحہ 224
9.
تاریخ الاسلام صفحہ 402-405
10.
سیر اعلاء والنبلاء جلد 16 صفحہ 257
11.
آثار البلاد واخبار العباد صفحہ 290
12.
شذرت الذہب جلد 5
صفحہ 140
13.
البراہین الجلیہ
صفحہ 92
14.
الفتح القسی فی الفتح القدسی صفحہ 51
15.
مراۃ الزمان صفحہ 392-393
16.
کتاب الروضتین صفحہ جلد 3-9191
17.
العسجد السبوک والجواہر المحکوک جلد1 صفحہ 492
18.
التکملۃ لوفیات
النقلہ جلد 3 صفحہ 354
19.
دول الاسلام صفحہ 341
20.
الباعث صفحہ 36