اسلامی ہند کی ترویج علم تاریخ میں حضرت غوث
العالم محبوب یزدانی کے کارنامے امتیازی شان رکھتے ہیں ۔ غوث العالم محبوب یزدانی
مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی سے براہ راست تعلق رکھنے والے میں حضرت
استاذالعصر ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی کا نام نامی درخشاں آفتاب و
ماہتاب کی حیثیت رکھتا ہے ، ملک العلماء کے شاگردوں کا ثانی چشم فلک نے پھر نہ
دیکھا ان میں قطب الاقطاب حضرت علامہ امام دیوان محمد رشید جونپوری بھی تھے جنکی
"مناظرۂ رشید"
عالمی اسلامی میں اپنی تصنیف کے وقت سے چھائی
ہوئی ہے حضرت ملامحمد افضل جونپوری بھی تھے۔ جن کی درسگاہ سے شمس العلماء ملا محمد
جونپوری جیسانابغہ دھر اٹھا جس نے
"شمس بازغۃ"
لکھ کر اپنا علمی طنطنہ بلند فرمایا، ان کے
شاگرد حضرت مخدوم عیسیٰ تاج قدس سرہ بھی تھے۔ جن کے شاگرومریدملا حسن طاہر محدث
جونپوری تھے ، جنکے اخلاف و تلامذہ میں ہندوستان کا مایہ ناز خانوادہء رشد وہدایت
اور علم و فضل جلوہ گاہ عام و خواص پر آیا۔جن میں شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز،
شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر قدس اسرارھم کے علمی ودینی برتری کا غلغلہ عالم
میں ہے انہیں میں حضرت علامہ مخدوم صفی پور رودلوی بھی تھے ان کو نعمان ثانی کہا
جاتا ہے کے اخلاف و تلامیذ میں حضرت شیخ عبدوالقدوس گنگوہی تھےجن کے وابستگان اور
فیض یافتگان میں بواسطہ والد ماجد امام ربانی مجددالف ثانی شیخ سرہندی بھی تھے۔جن
کے واسطے سے حضرت شاہ غلام علی مجد د عصر اور علامہ خالد رومی اور ان کے مرید و
فیض یافتہ علامہ شامی تھے یہ ایک طویل فہرست ہے لیکن اس قدر نام بھی علمی دینی
سطوت و شوکت کے پورے پورے ترجمان ہیں۔
غو ث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان حضرت
سید اشرف جہانگیر سمنانی قادری چشتی نظامی قدس سرہ النورانی کے اخلاف و خلفاء مستر
شدین نے ہر زمانہ اور ہردور میں علوم اسلامی کا چراغ روشن کیا، ان کے علمی
کارناموں کی بھی ایک طویل تاریخ ہے ان صفحات میں ان کے احاطہ کی گنجائش نہیں ، یوں
بھی احاطہ کلیہ کا محال ہے مگر بعض ممتاز تلامیذ و فیض یافتگان کا ذکر کیاجاتا ہے۔
حضرت سلطان بحروبر محی الدین اورنگزیب سلطان
وقت مجددکے اساتذہ ء کرام میں حضرت ملامبارک اشرف اور حضرت ملاباسوکا نام نامی
سنہری حرفوں میں نمایاں ہے درس نظامی جس کی جہانگیری مسلم ہے۔ اس کے بانی استادالہند
حضرت ملانظام الدین سہالوی لکھنوی فرنگی محلی نے اکثر درسیات کا درس خانوادہء
اشرفیہ کے نامور اور یگانہ روزگار امام علوم وفنون حضرت سید علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی کی خدمت میں لیاتھا، کچھوچھہ مقدسہ کے خانوادۂ اشرفیہ کے
عالی قدرفرید عصر حضرت علامہ محدث صاحب قبلہ قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :
"کچھوچھہ مقدسہ کی تعلیم کا حال آپ کیا
جانیں ، یہاں کے برکات و فیوض سے آپ کو کیا خبر؟
ہندوستان میں ابتدائے اسلام سے آج تک جوعلمائے
کرام ہوئے ، ان سے اس آستانہء عالیہ کا حال پوچھو، کہ کتنے کیا کچھ لے کر گئے ۔
شیخ محقق دہلوی علیہ الرحمہ اور حضرت ملابحرالعلوم لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ سے یہاں
کے فیضان کو دریافت کرو۔ فرنگی محلی لکھنؤ ہمیشہ کے لئے بار منت "خاندانی
اشرفی" اپنے سر پر لئے ہوئے ہے۔ملانظام الدین رحمۃ اللہ علیہ سرتاج علمائے
فرنگی محل اس خاندان کے شاگرد رشیدہیں۔
ملا علی قلی اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ ان کے استاد تھے اور
فرنگی محل کی تعلیمی برکتوں سے انکار جہل ہے، ملا جی ( 1؎ ) آپ بھی
وہاں کے بارے احسان سے چور ہوں گے............... آج بھی سیکڑوں علمائے اس بارگاہ
عالم پناہ کی غلامی پر ناز کرتے ہیں سند یافتگان جامعہ اشرفیہ کی دینی خدمت زبان
زد ہے۔
( 1؎ ) مولوی محمد علی کانپوری مونگیری سابق ناظم ندوۃ العلماء
اشرف المدارس کچھوچھو شریف
یہ سب کچھ تھا مگر روایتی مدرسہ کےنام سے اس وجود نہ تھا اس
کا احساس فرماکر مجمع البحرین حاجی
الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم
حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس
سرہ النورانی درگاہ شریف کے حلقہ میں ایک عمارت تیار کراکر باضابطہ درس گاہ قائم
کی اور مدرسین کا تقرر کیا ۔ بڑے حضرت کے روز
نامہ سے کےمدرسہ کے وجود کا ذکر قیام
خانقاہ کے ساتھ 1301 ہجری سے وابسطہ ملتاہے اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ
مدرسہ کا نام کم ازکم 1333ہجری تک اشرف المدارس تھا اسکی ترقی کے لئے فخر
المناخیرین حضرت مولانا عبدالحئ فرنگی محلی کی تجویز بھی شامل تھی ۔ (حوالہ: تحائف اشرفیہ)
1340ہجری
میں یہ مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ، اس کے متعلق غوث الوقت سرکارکلاں حضرت مخدوم المشائخ سید شاہ مختار اشرف اشرفی
الجیلانی قدس سرہ النورانی نے حقائق و
معارف سے لبریز بیان سپردقرطاس کیا ہے۔
"قرآن و حدیث کی تعلیم وہ ربانی روشنی ہے
، جس سے ایمان ، سچائی ، اخلاق اور
انسانیت کی شاہراہ ملتی ہے اور جو زندگی کو سنوارتی ہے، ضمیر میں پاکیزگی کی روح
پیداکرتی ہے ، اخلاق اور انسانیت کے وہ
جوہر ابھرتے ہیں کہ انسانی کائنات کا سب سے قیمتی سرمایہ بن جاتا ہے۔ اس
احساس کی شدت نے ہردور میں اس دور کے صالحین کو اس بات پر آمادہ رکھاکہ وہ جگہ جگہ
، دینی ، تعلیمی ، مراکز قائم کرتے رہیں ،نیز قائم شدہ مراکز کے فروغ و ارتقاء کے
لئے مسلسل جد وجہد کر تے رہیں ، بحمدہ تعالیٰ کسی دور کے عمائدین اور اکابرین اور
مخلصین صالحین اپنے اس فریضے سے غافل نہیں رہےبلکہ بعض خانوادے تو ایسے بھی ہیں ،
جن کی دینی ، علمی ، روحانی اور اخلاقی
جذبات کا دائرہ صدیوں کو اپنے آغوش میں لئے ہوئے ہے۔
1340ہجری میں میرے جد کریم اعلیٰ حضرت شیخ
المشائخ محبوب ربانی مولانا الشاہ ابو احمد سید علی حسین اشرفی سجادہ نشین
سرکارکلاں کی سرپرستی اور والد محترم حضرت علامہ ابوالمحمود سید شاہ احمد اشرف
جیلانی ولی عہد سجادہ نشین سرکارکلاں قدس سرہ کے اہتمام و انصرام میں جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کی بنیاد پڑی۔
دارالعلوم
اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور
" جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی
سہولت نہیں تھی اس وقت شیخ المشائخ مولانا
سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین صاحب اشرفی میاں ( میاں بابا) قدس سرہ ا
لنورانی اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھا
مقدسہ سے مبارک پور آئے تھے ، انہوں نے رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ
ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے حضرت میاں بابانے لوگوں پر زور دیا
کہ
" دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ
ضروری ہے"
حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی
مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبدالوہاب شیخ حاجی عبدالرحمٰن و شیخ حافظ
عبدالاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے 1922
عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور
شروع ہوا۔
چونکہ مبارکپور میں باقاعد ہ دینی درسگاہ کے
مؤجد محرک اور بانی حضرت میاں بابا (اعلیٰ
حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) علیہ الرحمہ حضرت محبوب یزدانی غوث صمدانی مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے
۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم رکھا گیا، اور مدرسہ کے دیکھ بھال کے لئے جاں
نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانئ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ کو
مدرسہ کا سرپرست مقرر فرمایا ۔ پھر زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ کچھ دنوں کے بعد
مبارک پور اور مضافات کے سنیوں نے اسے مزید ترقی دینے کے لئے ایک جدید عمارت کی
ضرور ت محسوس کی اور اسی خاندان کے افراد میاں محمد سعید ، محمد رفیق ، محمد امین
سابق صدرمدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم اور محمد عمروغیرہم نے اپنے خاندان کی جس نے
محلہ پرانی بستی کا مکان وقف کیا تھا ، سابقہ روایات کو باقی رکھتے ہوئے ایک ایسی
زمین جدید عمارت کے لئے وقف کی جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے کافی اہم اور قیمتی
تھا اور مبارک پور کے سنی عوام نے جدید تعمیر کےلئے ایثار وقربانی کا اتنا زبردست
مظاہرہ کیا کہ لوگوں کو چندہ دینے سے روکنا پڑا، خواتین نے تقریباً اپنے تمام
زیورات مدرسہ پر نچھاور کردیے اور دیکھتے دیکھتے موجودہ عمارت تعمیر کے مراحل طے
کرنے لگی ، عوام نے صرف مالی امداد نہیں کی فی سبیل اللہ مٹی گارے کا کام بھی کرتے
تھےاور آج بھی مبارک پور ومضافات کے غریب سنی عوام ایثار قربانی کا ایسا مظاہرہ
کرتے ہیں کہ شاید پورے ملک میں اسکی مثال نہ ملے ، مہمان رسول کو یہ مخلص عوام
اپنے گھر کے افراد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کے کھانے پینے کا انتظام اپنا
پیٹ کاٹ کر کرتے ہیں۔
حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنی
سرپرستی کے دوران صدرالشریعہ حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مصنف بہارشریعت کو ادارہ سے منسلک کرنے کے لئے "مربی" کے خطاب سے یا د
فرمایا اور حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تا حیات اس ادارے کے مربی رہے" ۔ ( بحوالہ اشرفیہ کی پکار صفحہ 21 تا 24)
مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کے قیام 1319 ہجری
مطابق 1901 عیسوی کے بعد قصبہ ہی کے ایک
عالم مولانا محمود، مدرس اول مقرر کئے گئے اور قصبہ گھوسی کے عالم مولانا محمد
صدیق صاحب مدرس دوئم ہوئے، حضرت مولانا
محمد محبوب اشرفی مبارک پوری علیہ الرحمۃ نے "
"العذاب الشدید"
میں مدرسہ کی ابتدائی تاریخ کے بیان میں تحریر
فرمایا
"بد قسمتی سے پورہ معروف کے مولوی محمود
دیوبندی تقیہ کرکے مدرسہ اہل سنت مصباح العلوم کے مدرس اول ہوگئے اور مدرس
دوئم اس وقت جناب مولانا محمد صدیق صاحب
مرحوم اور مدرس سوئم مولانا نورمحمد صاحب تھے، شروع میں مولوی محمود نے اپنے عقائد
کا قطعاً اظہار نہ کیا ، میلاد شریف کی مجلسوں میں برابر شریک ہوتے رہے مگر رفتہ
رفتہ بعض طلبہ و اراکین مدرسہ پر اپنا رنگ جمایا مقامی طلبہ میں سے مولوی نعمت
اللہ ، مولوی شکراللہ اراکین مدرسہ میں سے طیب گرہست وغیرہ ان کے شکار ہوگئےاور
مدرسہ میں اختلاف پیدا ہونے لگا چنانچہ مولوی نعمت اللہ و شکراللہ نے
"مسئلہ امکان کذب"
میں طلبہ سے چھیڑ چھاڑ کیااور اپنا عقیدہ ظاہر
کردیا، اسی بنا پر ایک طالب علم ، مسمی محمود شاہ نے مولوی نعمت اللہ و شکراللہ کو
فاسق و فاجر وبددین لکھا، وہ تحریر اراکین مدرسہ کو شکایتاً پہونچائی گئی ۔ انہوں
نے مدرسہ میں آکر اس قضیہ کا تصفیہ مولوی نورمحمد صاحب مدرس سوئم مدرسہ ہذا کے
سپرد کیامولوی نورمحمد صاحب نے محمود شاہ صاحب سے فاسق وبددین لکھنے کا سبب دریافت
کیا ، انہوں نے جواب دیاکہ انہوں نے اپنا عقیدہ "امکان کذب باری تعالیٰ"
ظاہر کیا ہے اسی لئے میں نے ان کو فاسق و بددین لکھا ہے، مولوی نورمحمد صاحب مولوی
نعمت اللہ وشکراللہ سے مخاطب ہوکردریافت کیا کہ یہ تمہارا عقیدہ ہے کیا خدا کا
جھوٹ بولنا ممکن جانتے ہو، انہوں نے سکوت کیا ، طیب گرہست نے جو اس وقت مہتمم تھے
اور دیوبندی رنگ چڑھ چکاتھا، مولوی نورمحمد صاحب کو اس سوال سے روکا اور محمود شاہ
کو مدرسہ سے خارج کردیا اور مولانا صدیق صاحب فکر میں رہے مگر دیگر اراکین مدرسہ
سنی تھے ، دال نہ گلی ، مولوی نعمت اللہ و شکراللہ طیب گرہست نے مولوی محمود صاحب
دیوبندی کو لے کر احیا ء العلوم کے نام سے علیٰحدہ مدرسہ قائم کیا"۔
حضرت
مولانا الحاج المفتی محمد محبوب
اشرفی علیہ الرحمہ کے اس بیان سے مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کے تعلیمی معیارکا پتا
لگانا دشوار امرنہیں ہے کہ تعلیمی معیار اعلیٰ اور معیاری تھا ، اور درجہ علیا کی
کتابوں کا درس ہوتا تھا ، جس کو دیوبندی روش نے نقصان پہونچایا مگر امکان کذب کے
وقتی مسئلہ پر طلبہ بحث کرتے تھے یہ استعداد کچھ عربی تعلیم کے انتظام سے حاصل
نہیں ہوتی مگر مولانا المفتی عبدالمنان علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ
اپنے مقالہ میں تحریر فرماتے ہیں :
"نصاب تعلیم کے بارے میں ایسا اندازہ
ہوتاہے کہ مکتبی تعلیم کے ساتھ کچھ عربی تعلیم کا بھی انتظام تھا کیونکہ اس مدرسہ
میں تعلیم حاصل کرکے مولوی رفیع الدین اور مولوی محمد عمر صاحبان مولوی کہلانے لگے
تھے"۔
1330 ہجری مطابق 1912
عیسوی میں مولانا محمد صدیق صاحب کا وصال ہوگیا،ان کے بعد حضرت محدث سورتی
کے آخری دور کے شاگردرشید حضرت مولانا عبدالسلام اعظمی کو حضور پرنورمخدوم الاولیا
محبوب ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے لاکر مسند صدارت سپر د فرمائی موصوف کو فاضل
بریلوی نے 1336 ہجری میں خلافت عطاء فرمائی تھی، ان کا دور مختصررہا جلد ہی ان کا
وصال ہوگیا ان کی تاریخ رحلت 12 صفر االمظفر 1336 ہجری ہے۔ (بحوالہ
:دبدبہ سکندری رامپور شمارہ نمبر 17 جلد54 دسمبر 1917)
1920 عیسوی تا 1924 عیسوی استاذالعلماء مولانا مفتی
عبدالحفیظ حقانی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر 1931 عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ
کوٹلہ بازار ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا:
"میں بغرض
تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پورآتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچشپی ہے جب بھی
آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے اس کی عمارت تنگ و خام
و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابواحمد المدعو علی
حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے ۔
خداوندِ عالم ۔ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ کارکنان مدرسہ
کی سعی بلیغ کے باوجود مگر مدرسہ کا انجم عروج پر نہ پہونچا۔ مدرسہ کی طرف سے
سالانہ جلسہ (31/1352ھ) میں منعقد ہوا تھا جس میں اعلیٰ حضرت قبلہ وکعبہ شاہ سید
محمد صاحب محدث اشرفی جیلانی کچھوچھوی بھی تشریف فرما ہوئے بعد اختتام امتحان جناب
محدث صاحب قبلہ نے سالانہ میٹنگ طلب کی ازسرنو ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جناب محمد
امین صاحب رئیس قصبہ صدر۔ جناب عظیم اللہ صاحب ناظم ۔سیٹھ حاجی احمداللہ صاحب
خازن، جناب فقیراللہ صاحب مہتمم، حکیم محمد عمر صاحب نائب ناظم ، جناب مقیم اللہ
صاحب ، و خیراللہ صاحب دلال عمال، قاری شفیع صاحب
مولوی نورمحمد صاحب سفیر مقرر کئے گئے۔، مدرسہ نے کروٹ لی اور چند ماہ کے
بعد 9/شوال 1352ہجری مطابق 14 جنوری 1932 عیسوی جناب مولانا عبد العزیز صاحب فاضل
مرادآبادی کو بلایا اور بیرونی جات سے طلبہ کی آمد شروع ہوگئی اور دومولوی صاحبان
مقرر کئے گئے"۔ (بحوالہ: الفقیہ امرتسر 14/اکتوبر 1931)
اس سے پتہ چلا کہ 9/شوال 1352 ہجری بمطابق 14 جنوری 1932
عیسوی میں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب
محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ تشریف لائے۔
حضورحافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز صاحب مراد آبادی علیہ
الرحمۃ ہندوستان کے مشہور صوبہ یو۔پی کے ایک مغربی ضلع مراد آباد کے قصبہ بھوجپور
میں ۱۸۹۴ ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا
ملاعبدالرحیم دہلی کے مشہور عالم ومحدث حضرت شاہ عبدالعزیزدہلوی علیہ الرحمہ کے نام نامی پر رکھا حفظ قرآن کے بعد جامعہ
نعیمیہ میں استاذالعلماء حضرت مولانا عبدالعزیز خاں محدث فتحپور کے توجہ دلانے پر
عربی فارسی شروع کی 1344 ہجری میں اجمیرشریف جاکر دارالعلوم معینیہ عثمانیہ میں
داخل ہوگئے ۔ رجب 1350 ہجری میں سند تکمیل سے بھی نوازے گئے اسی سال میں حضوراعلیٰ
حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قدس سرہ سے مرید ہوئے اور خلافت سے بھی نوازے گئے۔
جس وقت آپ علیہ الرحمۃ نے استاد مکرم حضرت صدر
الشریعہ علامہ امجد علی صاحب علیہ الرحمۃ (صاحب بہار شریعت ) کے حکم پر تکمیل
درسیات کے بعد اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ
'جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم '' کے نام سے قائم تھا ۔ حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی
انتھک محنت کے باعث اللہ عزوجل نے اسی چھوٹے سے مدرسے میں برکت عطا فرمائی اور
بالآخر یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم کے نام سے بہت مشہور ومعروف ہوا ۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس
جامعہ کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں مصباحی معروف ہیں ۔
حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ ایک عہد ساز
اور انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمۃ نے زندگی کے قیمتی لمحات
انتہائی خوبی سے دین ومسلک کی خدمت و اہتمام میں گزارے ۔ آپ کے پاکیزہ اور روحانی
کیفیات سے سرشار وجود میں بھی اخلاق کریمانہ اور اوصاف بزرگانہ کا ایک جہاں آباد
تھا ۔ آپ اخلاق ، جہد مسلسل ، استقلال ، ایثار ، ہمت ، کردار ، علم ، عمل ، تقوی ،
تدبر ، اسلامی سیاست ، ادب ، تواضع ، استغناء ، توکل ،قناعت اور سادگی جیسے بے
پناہ اوصاف سے بھی مزین تھے ۔
جامعہ اشرفیہ کی مدد کے لئے جب آپ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں کوئی عقیدت
مندکوئی ہدیہ وغیرہ پیش کرتا تو آپ علیہ الرحمۃ اسے جامعہ اور اس کے اساتذہ کے
مصرف میں لاتے۔ چونکہ مبارکپور ، یوپی کا انتہائی گرم علاقہ ہے پنکھے وغیرہ کی
کوئی خاص سہولیات میسر نہ تھیں چنانچہ اگر کہیں سے آپ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں
پنکھا پیش کیا گیا تو آپ علیہ الرحمۃ نے قبول فرما کر فورا ہی کسی ایسے مدرس کے
ہاں بھجوا دیا جس کے کمرہ میں یہ سہولت میسر نہ تھی اور کبھی بھی یہ پسند نہ
فرمایا کہ خود آرام میں رہیں اور اشرفیہ کے طلبہ ومدرسین محرومی کا شکار ہوں ۔
آپ علیہ الرحمۃ ایک انتہائی مالدار اور
صاحب ثروت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر آپ علیہ الرحمۃ نے اپنی زمینوں کا بیش
بہا حصہ اشرفیہ کے لئے وقف فرمادیا تھا ۔ یہاں تک کہ آپ علیہ الرحمۃ کے بارے میں
مشہور ہے کہ آپ نے اپنے قیمتی ملبوسات فروخت کر کے بھی بسا اوقات اشرفیہ کے طلبہ
کے لئے خوردونوش کا اہتمام فرمایا ۔
یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالی نے یونیورسٹی جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں وہ برکت رکھی کہ پاک وہند کے
بڑے بڑے معروف اصحاب علم وفضل جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں بسر کئے ہوئے اپنے دور
طالبعلمی پر ناز کرتے ہیں۔
صاحب "مخدوم الاولیا محبوب ربانی" فرماتے ہیں :
مناظرہ سنی وہابی گھوسی ضلع اعظم گڑھ کی روئیداد ملاحظہ
کیجئےتو معلوم ہوگا کہ 1351 میں دارالعلوم اشرفیہ کی شاخیں قائم ہوگئی تھیں اور اعظم گڑھ ضلع جس کو
مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنے مریدوں اور خلیفوں کے ذریعہ اپنے دوروں کا خاص مرکز
بنایا تھا ، مناظرہ گھوسی اور مناظرہ مبارکپور اور مناظرہ ادری نے دیوبندیت کی
تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ، حضرت مولانا المفتی الحاج محمد محبوب اشرفی
مبارکپوری علیہ الرحمہ "العذاب الشدید "میں رقم طراز ہیں کہ
" مسلمانان اہلسنت کی دینی درسگاہ مدرسہ اشرفیہ مصباح
العلوم پر ان فضلائے دیوبند(نعمت اللہ ،شکراللہ) نے بڑے بڑے دانت تیز کئے مگر مذہب
اہلسنت کی حقانیت اور اشرفی نسبت و اراکین مدرسہ کا اخلاص تھا کہ مدرسہ معمولی
حالت میں رہتے ہوئے دینی خدمات انجام دیتا رہا"۔
شوال المکرم 1353 ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ
امین صاحب صدرمدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایااور
سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم محبوب
ربانی قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے
مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھااور دعاء فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:
"مدرسہ بہت ترقی کرے گا فتنہ بھی اٹھے گا مگراللہ
تعالیٰ اس کا محافظ ہے"۔
حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم
کی جانبدارسرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلہ اشرفیہ کی غیر معمولی
جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع
کردیے اور اساتذہ وقت ، غیر معمولی سوچ رکھنے والے مستعد علماء حضرت مولانا سلیمان
صاحب اشرفی بھاگلپوری ، حضرت مولانا غلام
جیلانی اعظمی ، حضرت مولانا عبدالمصطفی ازہری، حضرت مولانا عبدالمصطفی اعظمی نے
دارالعلوم کے تعلیمی معیار کی دھاک جمادی اور اشرف فیضان اور اشرفی نسبت نے اپنا اثر دکھایا۔ اکابر کچھوچھہ مقدسہ کے دل
میں اہل مبارک پور کی عقیدت مندی ، ایثار پسندی نے کچھ اس طرح مستحکم جگہ بنائی کہ
اکابر کچھوچھامقدسہ نے جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کا بدل دارالعلوم اشرفیہ کو
قرار دیا اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا محبوب ربانی قدس سرہ النورانی کے محالات
وجودعالی مرتبت مرجع خاص عام مرشد انام ذات گرامی نےدارالعلوم اشرفیہ مبارکپور کے
لئے جھولی پھیلائی اور چندہ کی اپیل فرمائی۔
1960 عیسوی تک حضور
محدث صاحب کی مظبوط و مستحکم سرپرستی میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز
کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوث وقت مخدوم المشائخ تاجداراہلسنت
حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔
(بحوالہ: مخدوم الاولیاء محبوب ربانی صفحہ 347)
دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ............
"جامعہ اشرفیہ کے قیام وبنا کا ذکر خیر
اعلیٰ حضرت وعظیم البرکت مخدوم الاولیاء نے اس یاد "فرمان " میں بھی
فرمایا ہے۔
حضرت مخدوم المشائخ قدس سرہ کی ولی عہدی اور
سجادہ نشین کے متعلق اپنی حیات بافیض کے آخری ایک ماہ قبل جمادی الاول 1355 ہجری میں تحریر فرمایا تھا۔
"اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان
کی اب دستاربندی ہوچلی ہے اور تمام علوم ومعقول تفسیر و حدیث وفقہ ومعانی وتصوف کو
بکمال جانفشانی
جامعہ اشرفیہ
جو اس فقیر کا بنایا ہوا دارالعلوم ہے سے حاصل
کیا"
جامعہ اشرفیہ (مبارکپور) کا انتظام انصرام
حضرت عالم ربانی محبوب حقانی صاحب قبلہ قدس سرہ جیسے روشن دل و دماغ بزرگ فرماتے
تھے، حضرت فرماتے تھے :
"اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ
اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا "۔
(بحوالہ: مخدوم الاولیا محبوب ربانی صفحہ 334)
صاحب"سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ،
دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ "
کے موضوع "جامعہ اشرفیہ کا قیام" میں فرماتے ہیں :
اشرفی میاں (کچھوچھوی) نے مبارکپور میں ایک عظیم الشان دارالعلوم
قائم کیا اور اس کا نام " جامعہ اشرفیہ " رکھا اس میں درس نظامیہ کا
مکمل اہتمام کیا آپ نے ہندوستان کے جید علماء کو اس دارالعلوم میں تدریس کے لئے
راغب کیا آپ کے حکم پر علماء نے رضامندی ظاہر کی اورپڑھائی کا آغاز ہوگیا اور بہت
تھورے عرصہ میں یہ دارالعلوم ہندوستان کے بڑے مدارس میں شامل ہوگیا یہاں سے ہرسال
کافی تعداد میں علماء فارغ التحصیل ہوتے تھے۔اشرفی میاں خود اس کی کفالت فرماتے
تھے ، جب سالانہ جلسہ ہوتا تو آپ بنفس نفیس مبارکپور تشریف لے جاتے جلسے کی صدارت
فرماتے اور آخر میں اپنے دست مبارک سے فارغ التحصیل طلباء کی دستاربندی فرماتے۔ یہ
دارالعلوم آج بھی مبارکپور میں موجود ہے اور اب تک بے شمار تشنگان علم یہاں آکر
پیاس بجھا چکے ہیں یہ اشرفی میاں کا ایساکارنامہ ہے جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک
قائم رہے گا۔ (بحوالہ:
سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ
صفحہ224)
حضرت علامہ یسین اختر مصباحی صاحب قبلہ "ماہنامہ ماہ نور میں لکھتے ہیں :
اس اشرفیہ مبارکپور کو سلطان التارکین حضرت
سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی سے خصوصی نسبت اور آپ کی روحانی توجہ بھی
حاصل ہے اور یہ بجا طور پر فیضان اشرف کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔ اسی طرح یہ
اشرفیہ شیراز ہند جون پور کے مدرسہ حنفیہ کا دور حاضر میں ایک بدل بھی ہے کہ اس
آبشار علم و ادب سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایک جہاں سیراب ہورہاہے۔
مبارک پور کی یہ قابل صد افتخار درسگاہ اپنے
مختلف ادوار میں اس قصبہ کے اندر مختلف
جگہوں پر قائم ہوتی اور منتقل ہوتی رہی ہے
اور اور اجمالی طور پر اس کی تاریخ اس طرح ہے۔
1.مدرسہ مصباح العلوم 1317ہجری 1898 عیسوی
2. مدرسہ لطیفیہ مصباح العلوم 1329 ہجری 1911
عیسوی
3. مدرسہ اشرفیہ مصاح العلوم 1341 ہجری 1922 عیسوی
4. دارالعلوم اہلسنت مدرسہ اشرفیہ مصباح
العلوم ( گولہ بازار) 1353 ہجری 1935 عیسوی "باغ فردوس"
5. الجامعۃ الاشرفیہ 1392 ہجری 1972 عیسوی
دارالعلوم اہلسنت مدرسہ اشرفیہ مصباح
العلوم (گولہ بازارمبارکپور) کا سنگ بنیاد
شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی (وفات 1335 ہجری
1961عیسوی) نے محدث اعظم ہند مولانا سید محمد اشرفی کچھوچھوی (وفات 1381 ہجری1961 عیسوی)
وصدرالشریعہ حضرت مولانا محمد امجد علی اعظمی رضوی (وفات 1367ہجری 1947 عیسوی کے ساتھ اپنے دست مبارک سے 1353 ہجری 1935 میں
رکھا اور اس کی سر پرستی فرمائی اور پھر "دارالعلوم اہلسنت مدرسہ اشرفیہ
مصباح العلوم" مبارکپور ضلع اعظم گڑھ بتیس سال تک ایک باضابطہ کمیٹی کے ماتحت
قائم کردہ تعلیمی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہا ہے جس کے سر پر ستی شمع شبستان
غوثیت حضرت مولانا العلام الشاہ ابوالمحامد سید محمد صاحب قبلہ محدث کچھوچھوی دامت
برکاتہم العالیہ و علامہ زمن خاتم الفقہاء حضرت صدرالشریعہ مولانا الشاہ ابوالعلاء
محمد امجد علی صاحب قبلہ اعظمی دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔ (بحوالہ: مطبوعہ ص 2 روداد
1361،62)
حضرت مولانا محمد مبارک حسین مصباحی صاحب قبلہ"اشرفیہ
کا ماضی اور حال"کےحوالے سے فرماتے
ہیں کہ "محدث اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد صاحب علیہ الرحمہ اشرفی میاں کے
بعد اشرفیہ مبارکپور کے سرپرست رہے۔" (بحوالہ: اشرفیہ کا ماضی اور حال صفحہ 109)
حضرت محدث اعظم ہند (رحمۃ اللہ علیہ ) صرف نام کے سرپرست نہیں تھے بلکہ دارالعلوم اشرفیہ کے ہرمشکل وقت
میں مشکل کشائی فرماتے تھے درمیان سال میں بھی کوئی ضرورت پیش ہوتی تو آپ نے اسفار
ترک فرماکر مبارک پور تشریف لاتے اورکمیٹی طلب فرماتے اور تدبیر و حکمت سے الجھی
گتھیاں سلجھاتے۔ حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ دارالعلوم کے تعلیمی اور تربیتی
نظام سے انتہائی مطمئن اور متاثر تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دوصاحب زادگان شیخ
الاسلام حضرت محمد سید مدنی مؔیاں مدظلہ
العالی اور غازی ملت حضرت سید محمد ہاشمی ؔمیاں
مدظلہ العالی کو حضرت حافظ ملت کی تربیت میں بھیجا۔ حضرت شیخ الاسلام نے اعدادیہ
سے دورۂ حدیث تک کی مکمل تعلیم دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں مکمل فرمائی۔ چنانچہ
محمد مسعوداحمد سہروردی اشرفی رقمطراز ہیں :
"چودہ سال کی عمر میں والد بزرگوار نے
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخل کرادیا۔ یہاں آپ نے درس نظامی کے علاوہ عربی
، فارسی اور اردہ کی بے شمارکتابیں پڑھیں اور استاذ حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز
سے پوراپورا اکتساب فیض کیا"۔ (بحوالہ: مقدمہ تفسیر
اشرفی صفحہ 56)
خاندان اشرفیہ بسکھاری کچھوچھہ شریف کے اکثر
مشاہیرعلماء اور مشائخ نے بھی دارالعلوم اشرفیہ میں تعلیم حاصل کی اور فراغت کے
بعد دین وملت کی عظیم خدمات انجام دیں اور آج بھی نمایاں کارنامے دے رہے ہیں چند
نام اس طرح ہیں : اشرف المشائخ حضرت سید مجتبیٰ اشرف ، اشرف العلماء حضرت سید حامد
اشرف، شیخ اعظم حضرت سید اظہار اشرف، خطیب الہند حضرت سید کمیل اشرف، حضرت سید
مولانا موصوف اشرف، حضرت مولانا حکیم سید احمد حسین کوثر، حضرت مولانا سید احمد اشرفی
، مولانا ملیح اشرف ، پیرطریقت حضرت مولانا سید تنویر اشرف، سید فہیم اشرف، مولانا
سید جلال الدین اشرف، مولانا سید احمد اشرف وغیرہ۔
حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ دارالعلوم
اشرفیہ مبارک پور میں باضابطہ ممتحن کی حیثیت سے بھی تشریف لاتے تھے ۔ تلمیذ حافظ
ملت حضرت مولانا محبوب عالم اشرفی مرحوم
کا بیان ہے کہ "سرکار محدث اعظم ہند قدس سرہ کو درس و تدریس کا کام چھوڑے
ہوئے چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے مگر جب دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور اعظم
گڑھ یا دوسرے مدارس کے طلبہ کا امتحان لیتے تو معلوم ہوتا کہ مسند تدریس کے بادشاہ
ہیں۔ معقولات کی وہ کتابیں جو اس وقت دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ کے
علاوہ چند ہی دوسرے مدارس میں داخل نصاب تھیں ، امتحان لینے کے لئے جب حضرت اقدس
محدث اعظم ہند کےسامنے وہ کتابیں آتیں تو معلوم ہوتا کہ سارے علوم و فنون حضرت
علیہ الرحمہ کے لئے مسخر ہیں ۔
دورے کا امتحان لیتے تو معلوم ہوتا کہ صحاح
ستہ کے حافظ ہیں،حالانکہ تقریباً چالیس سال سے امتحان لینے کے علاوہ کبھی کتابوں
کو ہاتھ لگانے کی نوبت نہیں آئی تھی اور نہ اس کے لئے موقع ملتا تھا۔
(بحوالہ : حیات محدث اعظم ہند صفحہ 41)
حضرت محدث اعظم ہند اپنے علمی وقار اور شخصی جاہ و
جلال کے باوجود انتہائی باغ و بہار کے مالک تھے ادبی وطنز و مزاح ان کی فطرت کا
حصہ تھا ان کی محفل فنی دقیقہ سنجیوں کے باوجود علمی لطائف لالہ زار رہتی ۔ یہی
منظر ا ن کی امتحان گاہ میں بھی چھایا رہتا ۔ یہ روایت میں اس عہد کے متعدد طلبہ
جو اب اکابر علماء میں شامل ہیں سے سُنی ہے کہ دارالعلوم اشرفیہ میں اس دور میں
کمیٹی کے ذمہ دار حضرات بھی امتحان گاہ میں پہونچتے تھے ۔ کمیٹی کے افراداگرچہ
غیرعالم ہوتے، لیکن سوال و جواب سن کر کسی قدر طلبہ کی صلاحیتو ں کا اندازہ
ضرورلگالیتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت محدث اعظم ہند نحو کی مشہور
کتاب"شرح جامی " کا امتحان لے رہے تھے ۔ طالب علم نے کسی سوال کے جواب
میں تقریر مکمل الٹی کردی۔ اب اگر محدث اعظم اس جواب کو غلط بتاتے تو منتظمہ کے
دلوں میں غلط تاثر پیدا ہوتا، اس لئے آپ
نے جواب سن کر بھرپور فرحت وانبساط کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں میں
فرمایا:
ماشاء
اللہ ، سبحان اللہ ۔
آپ نے تو تمام نحویوں کی تقریروں کو الٹ کر
رکھ دیا، حضرت محدث اعظم ہند کے اظہار تاثر نے ایک جانب طالب علم پر یہ واضح کردیا کہ تمہاری تقریر غلط
ہے اور دوسری جانب کے افراد بھی خوش ہوگئے کہ واقعی ہمارے طالب علم بڑی محنت سے پڑھتے ہیں ۔ بڑے بڑے
نحویوں کی تقریریں الٹ دیتے ہیں۔
حضرت محدث اعظم ہند بلند پایہ خطیب ، بے مثال مناظر،
صاحب قلم ،صاحب لسان و نعت گو شاعر بھی
تھے۔ قلم برداشتہ نہایت شستہ موقر و جامع تحریر فرماتے تھے ۔ ہر موضوع پر
برجستہ بے مثال تقریر فرماتے۔ بڑے بڑے شان دار خطبے دیتے تھے ۔ دہلی اور لکھنؤ
جیسے شہروں نے آپ کو شہنشاہ خطابت تسلیم کیا تھا۔ بڑے بڑے ماہر لسان آپ کی تقریر
سے استفادہ کرتے تھے۔
اس آفتاب حق و صداقت سے بددین و بدمذہب لرزتے
کانپتے تھے اور آپ کے نام سے تھراتے تھے ۔ دیوبندیوں، نجدیوں کے بڑے بڑے علماء کو
آپ کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ جو بد مذہب بے دین آپ کے سامنے آیا ، ذلیل ہوا۔یہ حق
صداقت کا آفتاب ہمیشہ غالب رہا۔
حمایت حق و حفاظت مذہب ہی آپ کا کام تھا ۔
اوائل عمرہی سے اشاعت مذہب و تبلیغ دین میں مصروف ہوئے اور ساری عمر خدمت دین میں
صرف کردی۔ دین متین کی نہایت ممتاز و شان دار خدمت انجام دی۔ اڑتالیس اڑتالیس
گھنٹہ مسلسل بیدار رہتے ، پوری پوری رات تبلیغ دین و اشاعت مذہب میں مصروف رہتے ،
اکثر عشاء کے وضوسے فجر کی نماز ادا فرماتے ۔ حضرت موصوف کی دینی خدمات کی تفصیل
احاطہ تحریر سے باہر ہے ۔ آپ نے ایک ایک نشست میں پوری پوری رات گزاری ہے۔
ضلع اعظم گڑھ
قصبہ گھوسی میں مولوی عبدالرحیم لکھنوی دیوبندی سے مناظرہ تھا ، بعد نماز عشاء مناظرہ شروع ہوا ، حضرت
محدث صاحب قبلہ صبح تک ایک ہی نشست سے بیٹھے رہے پہلو نہیں بدلہ ، عشا کے وضو سے
نماز فجر ادا فرمائی اور مولوی عبدالرحیم کے بدحواسی کا یہ عالم تھا کہ گھڑوں پانی
پی گیا اور دسوں مرتبہ پیشاب پھرا اور سر پکڑ کر کہتا تھا میرا دماغ خراب ہوگیا،
نہایت ذلت کے ساتھ اس کو شکست فاش ہوئی ، گھوسی کا مجمع شاہد ہے۔
حضرت محدث اعظم ہند کے عہد سرپرستی میں
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور نے بڑی اہم دینی اورعلمی خدمات دیں ۔ تاریخ اشرفیہ میں
آپ کی اعلیٰ سرپرستی اور اشرفیہ نوازی لفظوں میں اعتراف کیا گیاہے"
"اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے بعد آپ کو سب
سے زیادہ عزیزی اور مقبولیت نصیب ہوئی ۔ آپ نے کرسی سرپرستی قبول کے بعد آخری دم
تک اشرفیہ کو عروج وارتقاء کی منزلیں طے کرنے کا موقع دیا۔"
(بحوالہ: اشرفیہ کا ماضی اور حال)
یوں تو ہندوستان کے طول و عرض میں سیکڑوں مدارس آپ کی رہنمائی و سرپرستی میں دینی خدمت انجام
دے رہے ہیں مگر خصوصیت سے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پو ر پر آپ کی خاص
یادگار ہے ۔ آپ کی سرپرستی میں یہ دارالعلوم پروان چڑھا، منزل ارتقاء پر پہونچا ۔
امتیازی مقام حاصل کیا ۔ حضرت مرحوم کا دارالعلوم اشرفیہ سے بہت گہرا تعلق تھا ،
خاص محبت تھی ۔ نہایت ہی دلچشپی کے ساتھ اس کے تمام شعبوں پر نظر رکھتے خاص توجہ
فرماتے اس کی ہر بگڑی بناتے تھے ، ہر الجھی بات سلجھاتے تھے آپ کا سایہ کرم
دارالعلوم اشرفیہ سے اٹھنا دارالعلوم یتیم ہونے کے مترادف ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ جام نور ماہ اپریل 2011 بعنوان"محدث اعظم ہند اور
الجامعۃ الاشرفیہ" صفحہ99 تا 106)
حامی سنت ، ماحی بدعت، گلزار غوثیت، نورنظر
خانوادۂ اشرفیت، شنہشاہ خطابت سرمایہ اہل سنت، آفتاب علم و فضل حضرت علامہ سید شاہ
محمد صاحب قبلہ محدث اعظم ہند علیہ الرحمۃ الرحمن نے16 رجب المرجب 1381 ہجری بمطابق 25
دسمبر 1961 عیسوی یوم دوشنبہ بوقت
ظہر بارہ بجکر 30 منٹ پر اس دنیا سے فانی سے بقا کی طرف رحلت فرمائی۔
حضرت محدث اعظم ہند سید محمد اشرف اشرفی
الجیلانی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد
دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور کی سرپرستی غوث الوقت سرکارکلاں حضرت مولانا الشاہ سید محمد
مختار اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ
(وفات1461ہجری1996 عیسوی) نےفرمائی۔
ماہنامہ نور صفحہ
نمبر 26 پر لکھا ہوا ہے :
حضرت صدرالشریعہ اور حضرت محدث اعظم ہند کے مشترکہ انتخاب و
حکم پر ذو القعدہ 1352 ہجری 1934 عیسوی میں اُس وقت حافظ عبدالعزیز مرادآبادی
اورآج کے حافظ ملت خدمت دین کے لئے مبارک پور آئےاور اشرفیہ مصباح العلوم کی شبانہ
روز اس طرح مخلصانہ خدمت کی وہ ایک سال کی
محنت شاقہ کے نتیجہ میں بکرمہ تعالیٰ و بطفیل حبیبہ الاعلیٰ اہل سنت کا ایک سدا
بہار باغ فردوس (1353ہجری) بن گیا جس کا پودا گولہ بازار قصبہ مبارکپور میں شیخ
المشائخ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی نے اپنے بابرکت ہاتھوں سے لگایا اور اپنی
بزرگانہ دعا ء وسرپرستی سے نوازا۔ یہی باغ فردوس "دارالعلوم اہل سنت مدرسہ
اشرفیہ مصباح العلوم " کے نام سے مشہور انام اور مرجع علماء طلبہ بن کر اہل
سنت کے لئے سرمایہ ارفتخار ہےبنا۔
(بحوالہ : ماہنامہ ماہ نور صفحہ 26 فروری/مارچ
2008)
یہ
جامعہ برسہابرس سے کتاب و سنت کی ترویج
واشاعت کرتا رہا اسی جامعہ کے شیخ الحدیث محدث اعظم ہند کچھوچھوی ، حضرت مولانا عمادالدین سنبھلی، مفسر شہیرحکیم الامت
مولانا مفتی احمد یار خاں اشرفی صاحب ، علامہ مفتی عبدالرشید خاں اشرفی
ناگپوری صاحب ،غوث الوقت سرکارکلاں علامہ سید محمد مختار اشرف کچھوچھوی، جلالۃ
العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی، محی
الملۃ والدین علامہ سید محی الدین اشرف اشرفی ( اور ان کے خلف ارشد حضرت مولانا
سید شاہ معین الدین اشرف) رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نیز دیگر اکابر علماء
مختلف عہدوں میں ہوتے رہے اور یہاں کے فارغین طلبہ آج اکابر ملت اسلامیہ میں شمار
کئے جاتے ہیں ۔