شیخ التابعین حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ

 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے لیکن اس محبت کا صرف زبانی اظہار کافی نہیں بلکہ مذہب اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمان اپنے آقا ومولیٰ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت میں اتنے سرشار ہو جائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت تمام محبتوں پر غالب آ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد محبت فرماتا ہے اور انہی لوگوں کو عزیز رکھتا ہے جو اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور ان کا درجہ و مرتبہ تو اس کی بارگا ہ میں بہت بلند ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کرتے ہیں۔ ایسے ہی عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بعدسر ِ فہرست نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ 

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارک:

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت یمن کے ایک گاؤں قرن کے قبیلہ مراد میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم کا نام عامر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے آپ رضی اللہ عنہ کا اسم ِمبارک اویس رکھا اور اسی نام سے آپ رضی اللہ عنہ نے شہرت پائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم عامر کا انتقال آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کافی ضعیف اور نابینا تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام بدار بیان کیا گیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی عمر کا زیادہ تر حصہ اپنی والدہ محترمہ کی خدمت میں ہی گزرا۔

قرن کی وجہ شہرت:

قرن یمن کے نواح میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جب اس کی تعمیر کے سلسلہ میں کھدائی کی گئی تو زمین سے گائے کا ایک سینگ نکلا۔ عربی میں سینگ کو قرن کہتے ہیں اس لیے گا ؤں کا نام قرن مشہور ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش اس گاؤں میں ہوئی اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ قرنی پکارا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک پر کافی زیادہ بال تھے اس لیے ان کوقرنی کہا جاتاہے اور قرن کے معنی بال بھی ہے۔( سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشقِ رسولﷺ)

حلیہ مبارک:

حضرت عبد الوہاب الشعرانی قدس سرہٗ کے مطا بق آپ رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک اس طرح ہے کہ آنکھوں کا رنگ سرخی مائل زرد اور رنگت گہری گندمی تھی۔ چہرے مبارک جھکائے رکھتے اور نظر سجدہ کے مقام کی طرف ہوتی اور اپنے بائیں ہاتھ پراپنا دایاں ہاتھ رکھے ہوتے۔

حضرت امام حسن بصری علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ: میں نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو اون کاکمبل لیے دیکھا ہے جس میں پیوند لگے ہوئے تھے۔(سیرت حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ، محمد حسیب القادری)

’’فصل الخطاب‘‘کتاب کے مصنف حضرت محمد پارسا رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف میں حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت لکھتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو پیوند لگے ہوئے کمبل میں اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو اونٹ کی کھال کے پیوند لگے ہوئے لباس میں دیکھا ہے۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ لباس کے معاملے میں اس قدر کفایت شعار تھے کہ روایات میں آتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بالوں کی ایک چادر اور ایک پاجامہ تھا۔

 ’مستدرک‘میں ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ وہ کھانا جو پیٹ کے اندر موجود ہ ہوتا اور وہ لباس جو پہنے ہوئے ہوتے تھے‘ کے علاوہ کوئی بھی چیز اپنے پاس نہ رکھتے تھے اورفرمایا کرتے تھے :اے اللہ! میں تجھ سے بُھوکے پیٹ اور ننگے بدن کی معذرت چاہتا ہوں، وہ لباس جو میرے بدن پر ہے اور وہ غذا جو میرے پیٹ میں ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ (سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشقِ رسول)

ذریعہ معاش اور بود وباش:

مجالس المومنین میں درج ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ شتربانی کیا کرتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ اس سے ملنے والی مزدوری سے اپنے اور اپنی والدہ ماجدہ کے خورد و نوش کا انتظام کرتے تھے اور قرن میں آپ رضی اللہ عنہ جیسا کوئی مفلس اوربے نوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ جس گلی کوچے سے گزرتے لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے گھن کرتے اور آپ رضی اللہ عنہ پر پتھر پھینکتے اور سر پر خاک اچھالتے تھے۔

حضرت اصمع رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں ـ’’جو کچھ رات کو آپ رضی اللہ عنہ کے ہاں باقی بچتا تو آپ رضی اللہ عنہ سب خیرات کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ’’یاالٰہی ! اگر کوئی بھوکا پیاسا مرگیا تو مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔‘‘( حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ، محمد حسیب القادری)

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عشق ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اس قدر مستورالحال تھے کہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو دیوانہ سمجھتے تھے۔ عشق ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وہ مطہر جذبہ جو اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے قلب ِ اطہر میں موجزن تھا تاریخ ِانسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ رضی اللہ عنہ عشق کے جس عظیم مقام و مرتبہ پر فائز تھے اسے دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی رشک کیا۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باطنی فیض سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا سینہ منور و تاباں تھا۔ یہ پروردگار ِ عالم کا آپ رضی اللہ عنہ پر خصوصی فضل وکرم تھاکہ اس نے اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت وعشق کی دولت سے آپ رضی اللہ عنہ کے قلب کو مالا مال کر دیا تھا۔ اس باطنی فیض کے نور سے آپ رضی اللہ عنہ نے حقیقت ِ محمدیہ کی معرفت حاصل کی۔ و ہ سر ِ الٰہی جسے ہر کوئی نہیں پا سکتااُسے آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ سے دور قرن میں بیٹھ کر پالیا۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آپ رضی اللہ عنہ پر خصوصی نگاہِ کرم تھی۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق کی جو تڑپ ولگن حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے د ل میں موجود تھی حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ عشق ِ مصطفیؐ نے آپ رضی اللہ عنہ کے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مابین ایک مضبوط باطنی و روحانی تعلق قائم کردیا۔ 

 شانِ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ احادیث کے آئینہ میں:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ’’تابعین میں سب سے بہتر ایک شخص ہے جس کا نام اویس رضی اللہ عنہ ہے اس کی ضعیفہ ماں ہے۔ اویس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر برص کا نشان ہے۔ تم جب اُس سے ملوتو اسے کہنا کہ امت کے حق میں دعائے مغفرت کرے۔ (مسلم 6491)

حضرت ابن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم۔ابن سعد)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شخص میری اُمت میں ہو گا جس کو لوگ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس کی مغفرت کی دعا سے قبیلہ ربیع اور قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت بخش دی جائے گی۔‘‘(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشقِ رسولﷺ،محمد الیاس عادل)

فرید الدین عطار علیہ الرحمہ اپنی کتاب ’’تذکرۃ الاولیا‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اکثر اوقات غروبِ آفتاب کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ہمراہ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور یمن کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے ’’مجھے یمن کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی خوشبو آتی ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ محشر کے روز ستر ہزار ملائکہ کے جلو میں اویس قرنی رضی اللہ عنہ جنت میں داخل ہو ں گے اور وہ ستر ہزار ملائکہ آپ رضی اللہ عنہ کے ہم شکل ہوں گے تاکہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی شناخت نہ ہو سکے۔ صرف اُس شخص کو ان کی شناخت ہو گی جس کو اللہ تعالیٰ اُن کے دیدار سے مشرف کرنا چاہے گا۔ یہ اس وجہ سے ہو گا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری زندگی خلوت نشین ہو کراور مخلوق سے پردہ پوشی اختیارکر کے محض اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت و ریاضت میں صَرف کی۔ (ب سیرت حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ، محمد حسیب القادری)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں ایسے برگزیدہ بندوں کو دوست رکھتا ہے جو دُنیا داروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ ان کے چہروں کے رنگ سیاہ، پیٹ ساتھ لگے ہوئے، کمریں پتلی ہوتی ہیں اور وہ ایسے لاپروا ہوتے ہیں اگر بادشاہ بھی ملے اور ان سے ملاقات کی اجازت طلب کرے تو وہ اجازت نہ دیں، اگر مالدار عورتیں نکاح کرنا چاہیں تو نکاح نہ کریں، اگر گُم ہو جائیں تو کوئی اُن کی جستجو نہ کرے، اگر مر جائیں تو ان کے جنازے پر لوگ شریک نہ ہوں، اگر ظاہر ہوں تو ان کو دیکھ کر کوئی خوش نہ ہو اوراگر بیمار ہوں تو کوئی مزاج پُرسی نہ کرے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! فرمائیے وہ کون ہے؟فرمایا: وہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیاکہ یہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کون ہے؟ فرمایا: اس کا حلیہ یہ ہے کہ اس کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی، قد درمیانہ ہو گا اور دونوں کانوں کے مابین خاصا فاصلہ ہوگا۔ دایاں ہا تھ بائیں ہاتھ پر رکھا ہوگا۔ آنکھیں سجدہ گاہ پر لگی ہوئی ہوں گی، ٹھوڑی سینے کی جانب جھکی ہوئی ہوگی۔ جسم پر پرانے کپڑے ہوں گے جو پہنے ہوئے ہو گا ایک پاجامہ اور دوسری چادر،دنیا میں کوئی بھی اسے نہیں جانتا لیکن آسمانوں پر بڑی شہرت ہے اگر وہ کسی بات پر قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو سچ کر دے۔ (سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشق ِ رسولﷺ،محمد الیاس عادل، کتاب: حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ اور ہم،ڈاکٹر سید محمد عامر گیلانی)

عبادات و مجاہدات کا ذوق و شوق:

سیرت الصحابہ میں رقم کرتے ہیں ’’آپ رضی اللہ عنہ ساری رات قیام میں گزار دیا کرتے تھے۔‘‘ دوسری رات آپ رضی اللہ عنہ رکوع میں گزار دیتے تھے اور اسی طرح تیسری رات سجدہ میں گزار دیتے تھے۔‘‘ جب لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ رضی اللہ عنہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ روزانہ ایک ہی حالت میں دراز رات گزار دیتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا ’’دراز راتیں کہاں ہیں؟

 کاش ازل سے ابد تک ایک ہی رات ہوتی جس سے ایک سجدہ کر کے گریہ بسیار کرنے کا موقع نصیب ہوتا مگر افسوس کہ راتیں اتنی چھوٹی ہیں کہ صرف ایک ہی مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے پاتا ہوں کہ دن طلوع ہوجاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے عبادت کرو ں جیسے فرشتے عبادت کرتے ہیں۔‘‘

آپ رضی اللہ عنہ کو نماز سے بہت زیادہ محبت تھی کیونکہ آپ کے محبوب تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی نماز سے بہت زیادہ محبت تھی۔( سیرت حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ، محمد حسیب القادری)

ترکِ دنیا:

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی توجہ دنیا سے ہٹ کر آخرت کی طرف مائل ہو چکی تھی۔آپ رضی اللہ عنہ دنیا سے صرف اس قدر ہی واسطہ رکھتے تھے جس قدر زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ گوشہ نشینی کو پسند فرماتے تھے اسی لیے آبادی سے دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے اس کی خاطر آبادی سے دور ایک مکان میں مقیم تھے۔ جب اُس مکان تک بھی لوگوں کی رسائی ہو گئی اور آپ رضی اللہ عنہ کی عبادت میں خلل پیدا ہونا شروع ہوا تو آپ نے وہ مکان کو چھوڑ دیا اور جنگل کی جانب نکل گئے اور یکسوئی کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔

آپ رضی اللہ عنہ فجر کی اذان کے وقت گھر سے نکلتے اور نمازِ عشا پر واپس تشریف لاتے تھے۔ اپنے کھانے سے زیادہ جو خوراک آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ہوتی وہ غریبوں میں بانٹ دیتے،آپ رضی اللہ عنہ کو دنیاوی چیزوں سے قطعاً محبت نہ تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک بھی یہی ہے کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے (اس لیے دنیا سے محبت نہ رکھو)یہی وجہ تھی کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی دنیا کی پروا نہ کرتے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رکھا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ دنیا سے محبت رکھنے کا مقصد اپنی آخرت برباد کرنے کے مترادف ہے۔

 اس ترکِ دنیا پر آپ رضی اللہ عنہ کو بہت مصائب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو تنگ کرتے مگر آپ نے کسی کے لیے بددعا نہ فرمائی۔ جب کبھی آبادی کی طرف آتے تو ناسمجھ لوگ اور بچے آپ رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر ہنستے اور آپ رضی اللہ عنہ کو دیوانہ سمجھتے اور تنگ کرنے کی غرض سے آپ رضی اللہ عنہ پر پتھر پھینکتے تو آپ رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہو کر فرماتے:

’’لوگو! چھوٹی کنکریاں مارا کرو، بڑے بڑے پتھر مارنے سے میرا خون بہہ جاتا ہے اور میرا وضو جاتارہتا ہے ،تمہارے ایسا کرنے سے میری نماز قضا ہو جاتی ہے۔‘‘(بحوالہ کتاب:سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشقِ رسول،محمد الیاس عادل)

درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری:

امام التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا زمانہ پایا اور غائبانہ اسلام قبول کیا لیکن عہد ِ رسالت میں موجود ہونے کے باوجود ظاہری ملاقات سے محروم رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نادیدہ جمالِ نبویؐ کے پروانوں میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان برگزیدہ وارفتگانِ محبت میں ہوتا ہے جن کی تخلیق ہی عشق ومحبت کے خمیر سے ہوئی تھی۔ بندگانِ خدا مقربین ِخدا ہوتے ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آپ رضی اللہ عنہ کا تعارف سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کرادیا تھا۔ محب اور محبوب کے درمیان ظاہری نہیں بلکہ باطنی طور پر ربط وتعلق تھا۔ غلبہ ٔحال اور استغراق کے باعث آپ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شرفِ دیدار سے محروم رہے۔ دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر نہ ہونے کی ایک وجہ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجد ہ بھی تھیں جو ضعیفہ اور نابینا تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ کو خود سے جدا نہ ہونے دیتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ دن رات ان کی خدمت و اطاعت میں رہتے تھے۔ قرآنِ کریم میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کے بعدوالدین کی اطاعت و خدمت کاحکم اکثر ملتا ہے۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ حکم ِ ربانی کے پیش ِنظر والدہ کی خدمت میں رہنا ضروری سمجھتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ استطاعت نہ رکھتے تھے کہ والدہ کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں پیش ہو سکیں اورنہ ہی اُن کو ایک لمحہ کے لیے تنہا چھوڑ سکتے تھے۔اس لیے آپ رضی اللہ عنہ زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محروم رہے۔

دیدارِ جما ل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شوق اور عشق ِ حبیبؐ خدا نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو انتہائی بے قرار کردیا۔آپ رضی اللہ عنہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے تو ایک دن ہمت کرکے والدہ ماجدہ سے رخصت کی اجازت طلب کرہی لی۔والدہ نے اجازت دیتے وقت فرمایا کہ جلد واپس آ جانا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ضرورت کی چند چیزیں لیں اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ننگے پائوں بے تابی سے بھاگے چلے گئے۔ قرن سے مدینہ کا طویل سفر پا پیادہ طے کر کے دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ پر تشریف لے گئے اور دریافت کرنے پر پتہ چلاکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باہر تشریف لے گئے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے میرا سلام عرض کر دیجئے گا۔ والدہ ماجدہ کے حکم کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ انتظار کیے بغیر واپس لوٹ آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر تشریف لائے تو ایک نور کا ہالہ دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ یہاں کون آیا تھا، انہوں نے کہا کہ ایک شتر بان تھا جو سلام کہہ کر چلا گیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاتحقیق یہ نور اویس قرنی کا ہے۔ (سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ،پروفیسر محمد طفیل چوہدری)

سفرمدینہ المنورہ :

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے والدہ ماجدہ کی وفات کے بعدکئی بار مدینہ طیبہ کا سفر کیا۔ مدینہ طیبہ میں درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حاضری کے بارے میں حضرت سلطان ولد نے اپنی کتاب ـ’’ مثنوی‘‘ میں لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کو روضہ مقدسہ کی زیارت کا شوق غالب آیا۔آپ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں زیارت کا شرف کیوں نہ حاصل کیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری والدہ بیمار رہتی تھی اورمجھے اپنے پاس سے کہیں جانے نہیں دیتی تھیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نے تواپنے مال و متاع اور ماں باپ کو بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور شوق میں قربان کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہ فقط اپنی ماں کو چھوڑ کر نہ آسکے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ آپ حضرات کو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت اور خدمت میں رہنے کا شرف حاصل رہا ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلیہ مبارک تو بیان فرمائیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری صورت اور دیگر اعضا مبارک کی بعض نشانیاں اور کچھ معجزات بیان فرمانے لگے۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری شکل و صورت سے نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی شکل و صورت اور معنوی جمال دریافت کرنا چاہتا ہوںوہ بیان فرمائیے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں جس قدر معلوم تھا بیان کر دیا اگر اس سے زیادہ آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو تو بیان فرمائیں۔ اس پر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے عشق ِ مصطفی میں سرشار ہو کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال و کمال، عادات وخصائل اور حلیہ مبارک کا اس طرح سے بیان فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بے خودی اور جذب کی کیفیت طاری رہی پھرجب حالت سنبھلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ پر بہت رشک آیا اور محبت کے جذبات سے مغلوب ہو کر آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کے بوسے لیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ عنہ کوسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کس قدر عشق تھا اور کتنا قربِ باطنی حاصل تھا۔ (ب سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ،پروفیسر محمد طفیل چوہدری ،ب سیرت حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ، محمد حسیب القادری)

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی تلاش:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وصا ل سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرا جبہ مبارک میرے اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے پاس لے جانا اور میرا سلام پہنچانا اور میری اُمت کے لیے دعا طلب کرناکیونکہ اویس رضی اللہ عنہ کی دعا میری اُمت کے لیے مقبول ہو گی جب آپ لوگ یمن جاؤ گے تو اویس رضی اللہ عنہ کو شتربانوں کے درمیان بیٹھا پاؤ گے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ دونوں قرن تشریف لے گئے اور لوگوں سے اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، لوگوں نے بتا یا کہ ہاں ایک دیوانہ شخص لوگوں سے الگ بیٹھا رہتا ہے۔ وادی عرفہ میں شتربانی کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وادی عرفہ تشریف لے گئے اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو نماز میں مصروف دیکھا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ دونوں آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سلام پہنچایا اور جبہ مبارک پیش کیا اور اُمت ِ محمدیہ کے لیے دعائے مغفرت طلب کی۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے جبہ مبارک چوما اور سر بسجود ہو گئے اور روتے ہوئے مناجات کی ’’یا اللہ!تیرے محبوب کا جبہ مبارک اس وقت تک نہ پہنوں گا جب تک اُمت ِمحمدیہ بخشی نہ جائے۔ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کام میرے ذمہ لگایا ہے ۔ غیب سے آواز آئی کہ اتنے ہزار لوگوں کو بخش دیا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تو سب کی مغفرت طلب کی ہے۔آواز آئی اتنے ہزار مزید بخش دئیے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ آواز آئی کہ اتنی اُمت محمدیہ بخش دی گئی جتنی تعداد میں قبیلہ ربیع اور قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے جسموں پر بال ہیں۔ یہ بشارت پا کر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور جبہ مبارک پہنا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آگاہ کیا۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ایک عاشق رسولﷺ:

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار سے مشرف نہ ہو سکے مگر اتباعِ رسالت کا مکمل حق ادا کر کے دنیا کو درسِ ادب دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ عشق کے اظہار کا یہ ایک ایسا منفرد انداز تھا جو صرف آپ رضی اللہ عنہ ہی کا خاصہ تھااور آپ رضی اللہ عنہ کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عشق درجہ کمال تک پہنچا ہواتھا۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں بہت بلند تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ سچے عاشق رسول تھے یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں میں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ذاتِ واحد کا راز پا چکے تھے اور ہر وقت اللہ پا ک کے اسرار اور مشاہدہ میں مستغرق رہا کرتے تھے۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ولی ٔخاص اور خیر التابعین حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت عشق ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی سیرتِ طیبہ عاشقانِ رسولؐ کے لیے ایک عظیم درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ متلاشیانِ حق کے لیے منبع ِہدایت ہیں۔

شہادت:

مسلم شریف کی شرح اور تذکرۃ الاولیا میں درج ہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حمایت میں جنگ صفین میں شریک ہوئے اور لڑتے لڑتے 3 رجب المرجب کو  شہادت کا مرتبہ پایا۔ حضرت سیدنا امام موسیٰ راعی بموجب وصیت آپ رضی اللہ عنہ کے جسد مبارک کوقرن میں لائے اس لیے مزار شریف قرن میں ہے۔ (سیرت حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ عاشقِ رسولﷺ)

حضرت شاہ قطب علی چشتی صابری بنارسی علیہ الرحمہ

 


ہند و پاک میں سلسلۂ چشتیہ کی ابتدا سلطان الہند، عطائے روسول، خواجہ سید معین الدین حسن چشتی علیہ الرحمہ سے ہوتی ہے، آپ کے جانشیں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی علیہ الرحمہ نے دہلی سے سلسلۂ چشتیہ کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں، آپ کے جانشیں خواجہ فرید الدین مسعود شکر گنج اجودھنی علیہ الرحمہ تھے، ان سے سلسلۂ چشتیہ کی تبلیغ کو بے پناہ وسعت و مقبولیت حاصل ہوئی، پاکپٹن سلسلۂ چشتیہ کے روحانی نظام کا ایک زبردست مرکز ہوگیا۔ خواجہ فرید کے خلفا میں خواجہ نظام الدین اولیا (م ۷۲۵ھ) اور حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری علیہ الرحمہ دونوں نے اپنی انفرادی شناخت قائم کی، آپ حضرات کی ذاتِ والا صفات سے روحانیت کے ایسے چشمے ابلے جن سے تشنگانِ علم و معرفت قیامت تک سیراب ہوتے رہیں گے۔

حضرت مخدوم سید علاؤالدین علی احمد صابر کلیری علیہ الرحمہ سے سلسلۂ صابریہ کی ابتدا ہوتی ہے، کلیر شریف سلسلۂ صابریہ کے ایک اہم مرکز کی حیثیت سے مشہور ہوا، آپ کے جانشیں و اجلّ خلیفہ حضرت شمس الدین ترک پانی پتی علیہ الرحمہ تھے۔ جن کی بدولت سلسلۂ صابریہ چہار دانگ عالم میں متعارف ہوا، یہ سلسلہ آپ کے خلیفہ حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی علیہ الرحمہ سے مزید وسیع ہوا، ان دونوں بزرگوں کی بدولت سلسلۂ صابریہ کا مرکز دوپشت تک پانی پت رہا، حضرت شیخ جلال الدین کے جانشیں مجدد سلسلہ شیخ العالم حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق ردولوی صاحبِ توشہ (م۸۳۷ھ) تھے۔ انھوں نے ردولی شریف کو رشد و ہدایت کا عظیم مر کز بنایا، آپ کی جلیل القدر شخصیت کا یہ روحانی فیض تھا جس کی وجہ سے ردولی شریف سلسلۂ صابریہ کی سب سے توانا اور ثمر آور شاخ ثابت ہوئی۔

ردولی شریف نے سلسلۂ صابریہ کی تبلیغ و اشاعت میں جو خدمات انجام دیں وہ اظہر من الشمس ہے، آج بھی اس سر چشمۂ فیض سے خلقِ خدا اپنی روحانی پیاس بجھا رہی ہے، آپ کے جانشیں حضرت شیخ عارف احمد ردولوی (م۸۵۵ھ) اور حضرت شیخ محمد ردولوی علیہ الرحمہ نے نے اپنے اپنے طور پر سلسلے کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا، حضرت شیخ محمد ردولوی کے اجلّ خلیفہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی نے سلسلے کی ترویج واشاعت کو غیر معمولی کا میابیوں سے ہم کنار کیا، آپ نے’’انوار العیون‘‘جیسی کتاب تصنیف فرمائی، آپ ہندی میں الکھ داس کے تخلص سے مشہور ہوئے۔

یہ سلسلہ حضرت مولانا جلال الدین تھانیسری علیہ الرحمہ ، حضرت مولانا نظام الدین بلخی علیہ الرحمہ ، حضرت شیخ ابوسعید حنفی گنگوہی علیہ الرحمہ ، حضرت شیخ صادق محمد فتح اللہ حنفی گنگوہی علیہ الرحمہ ، حضرت شیخ بندگی داؤد ذوالنّورو علیہ الرحمہ ی، حضرت شیخ ابو المعالی محمد اشرف حسنی مکی علیہ الرحمہ ، حضرت سید میاں بھیک ابو یوسف ترمذی، حضرت شاہ عنایت بہلول پوری، حضرت مولانا عبدالکریم عرف آخون فقیر رامپوری، حضرت شاہ علی محمد پیر لقب میاں صاحب، حضرت علی محمد مرید لقب علی مست، حضرت مولانا قاری نورالحق رامپوری اور حضرت قطب الوقت سید شاہ صابر علی بنارسی قدّس سرّہم سے ہوتا ہوا حضرت قطب عالم حضرت حاجی شاہ محمد قطب الدین نندانوی ثم بنارسی تک پہنچتاہے۔

قطب عالم حاجی الحرمین حضرت خواجہ شاہ محمد قطب الدین المعروف بہ قطب علی نندانوی ثمّ بنارسی علیہ الرحمہ کی جائے پیدائش مو ضع ننداواں ضلع اعظم گڑھ یوپی ہے، آپ کا نسبی سلسلہ حضرت شیخ مخدوم بیابانی تک پہنچتا ہے، آپ کے والد کا نام شیخ روشن پیر بخش تھا، ایام طفلی سے ہی آپ کی طبیعت بالکل مختلف تھی، آپ بچپن سے ہی مراقبے و چلّے میں مشغول رہنے لگے تھے، اس وقت کے بزرگوں نے آپ کی حالت دیکھ کر پیشن گوئی کی تھی کہ یہ لڑکا اپنے وقت کا قطب ہوگا، آپ کو ارادت و خلافت مخدومِ بنارس حضرت مولانا سید شاہ صابر علی بنارسی سے حاصل تھی، قطب عالم کے پیر و مرشد شریعت، طریقت اور معرفت میں یکتائے زمانہ اور حسن میں یو سفِ ثانی تھے، حضرت سید صابر علی بنارسی نے خرقہ و خلافت حضرت مو لانا حافظ و قاری شاہ نورالحق رامپوری سے پائی تھی، حضرت سید صابر علی کی عبادت کا یہ عالم تھا کہ 24؍ برس تک خواب استراحت نہ فرمایا تھا، اگر غنودگی کا غلبہ ہوتا تو آپ دیوار سے تکیہ لگالیا کرتے، حالاں کہ چار پائی بچھی رہتی تھی، اسمِ ذات بہ کثرت پڑھا کرتے تھے، اورادو وظائف اور یادِ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں تھا، مجاہدے کا یہ حال تھا کہ گیارہ چلّہ بے آب و دانہ کیا تھا، ۲۴؍ خلوت گیارہ گیارہ دن کے کئے، راتوں میں کثرت سے نفل نماز ادا کرتے، ایک مدت تک صائم الدھر و قایم الیل رہے، وقتِ افطار سات لقمہ یا تین خرما تناول فرماتے، ہمیشہ باوضو رہا کرتے تھے، جب وضو ساکت ہوتا فورا اسی وقت وضو کر لیتے۔ آپ کی محبت اور آپ کا اخلاق ظاہر و باطن یکساں تھا۔ آپ کا وصال ۴ ؍صفرالمظفر ۱۲۷۷؁ھ میں محلہ دوسی پورہ بنارس میں ہوا۔ آپ کی تدفین وہیں ہوئی، آپ کا آستانہ منبعِ فیض اور مرجعِ خلائق ہے۔

حضرت قطب عالم نے تین بار پا پیادہ اور متعدد بار سواریوں سے حرمین شریفین کی زیارت کی ہے، آپ صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، دعائے حیدری کے عامل تھے، قطب عالم نے حج بیت اللہ کے دوران اپنے مریدین اور متعلقین کے لئے سر بہ سجود ہو کر دعا کی کہ انھیں دنیا میں تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بروزِ محشر ترے سامنے ان سے روسیاہ نہ ہو سکوں۔

قطب عالم تا زیست مجاہدہ اور ریاضت میں مصروف رہے، زہد و تقوا سے باہر کبھی ایک قدم نہ رکھا، آپ خواجہ معین الدین اجمیری علیہ الرحمہ ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ ، خواجہ فریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ ، حضرت علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری علیہ الرحمہ ، حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبدالحق ردولوی علیہ الرحمہ ، حضرت سید میران بھیک علیہ الرحمہ ، حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری علیہ الرحمہ کی درگاہوں پر خصوصی چلے اور مجاہدے کئے، مرزاپور، چکیا اور بہار شریف کے جنگلوں میں برسوں تک ریاضت و مجاہدے میں مصروف رہے، حضرت اپنے مریدان سے تین وقت تہجد، بعد نمازِ فجر و بعد نمازِ مغرب حلقہ بناکر ذکر اللہ اللہ کرایا کرتے تھے۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ نے خدمت خلق کے لئے ننداواں میں مسجد شاہ کی تعمیر کرائی جس میں سنگ سیاہ کا ٹکڑا اور بابا فریدالدین گنج شکر کی زنجیر کا ٹکرا نصب ہے، آپ نے فرمایا

اس مسجد میں جس نے ۴۰؍ وقت کی نماز ادا کی اس پر دوزخ کی آنچ حرام ہے، چکیا میں سیّد صاحب کا روضہ بنوایا، ردولی شریف میں حضرت شیخ العالم مخدوم احمد عبدالحق ردولوی علیہ الرحمہ کی قبر پر سنگ مرمر کا تعویذ لگوایا اور چھت گیری کرائی، خانقاہ سے ملحق ایک کنواں بھی آپ کی دین ہے، آپ نے اپنے پیر و مرشد مخدوم حضرت سیدشاہ صابر کلیری علی بنارسی علیہ الرحمہ کا روضہ جو کلیر شریف کا نمونہ ہے بنوایا۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ ایک جلیل القدر بزرگ تھے سلسلۂ صابریہ کے فروغ کے لئے سیاحت فرماتے، عقیدت مندوں اور مریدوں کا قافلہ ساتھ رہتا، آپ علیہ الرحمہ کے تقریباً سوا لاکھ مرید تھے، ہر مذہب و ملت کے لوگ آپ کے حلقے میں شامل تھے، آپ کے مریدین و خلفا میں حضرت سید شاہ امجد علی علیہ الرحمہ کے علاوہ

·      حضرت حافظ شمس الدین مرزاپوری

·      حضرت مو لانا سید شاہ شمس الحق بنارسی(خلف حضرت سید شاہ صابر علی بنارسی)

·      حضرت محمد عبداللہ نندانوی

·      حضرت شاہ رحمۃ اللہ رام نگری

·      حضرت شاہ عبدالواحد فیض آبادی

·      حضرت شاہ حافظ عبدالرحمن بیوروی

·      حضرت شاہ سونا بھارت گنجوی

·      حضرت شاہ وزیر سرسیاوی

·      حضرت شاہ تراب بنگالی

·      حضرت شاہ جنگلی گونڈوی

·      حضرت شاہ عبدالرحیم جونپوری

·      حضرت شاہ علی حسین

·      حضرت شاہ غلام چشتی

·      حضرت شاہ رمضان علی بارہ بنکوی

·      حضرت شاہ عبدالرزاق بارہ بنکوی

·      حضرت شاہ عبدالمجید چکیاوی

·      حضرت شاہ چکیاوی مول

·      حضرت شاہ قاسم پنجابی

·      حضرت سیدشاہ شکراللہ

·      حضرت شاہ گلاب ٹونڈلوی

·      حضرت شاہ بندھو

·      حضرت شاہ شیخ صابر علی چکیاوی

·      حضرت شاہ حافظ بصری

·      حضرت شاہ شہادت چلی بیوروی

·      حضرت شاہ عبدالحق

·      حضرت شاہ یار علی بھدوہوی

·      حضرت مولوی شاہ مہندی نوادوی

·      حضرت شاہ شین خان

·      حضرت محمد ولی رحمہم اللہ علیہم اجمعین وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کا لنگر وسیع تھا، تقریباً سواسو مریدین ہردم ساتھ رہتے، ان کو دو وقت کا کھانا حضرت کے بھنڈارے سے عطا ہوتا جو مرید خشک غذا لیتے انھیں تین چھٹانک چاول اور ایک چھٹانک دال دی جاتی تھی، حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کی کم خوراکی کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی غذا ۱۶(سولہ)تولہ سے زیادہ تناول نہ فر ماتے تھے، خوشبو میں آپ کو عطر حنا بہت پسند تھی، اسی لئے آپ کے مزارِ مبارک پر عطر حنا بعد غسل پیش کی جاتی ہے۔

آپ علیہ الرحمہ ردولوی حضرت شیخ العالم علیہ الرحمہ کے عرس میں کثیر جماعت کے ساتھ شریک ہوتے، لنگر کے لئے غلّہ اور نذر پیش کرتے، سجادۂ وقت مخدوم زادہ حضرت شاہ التفات احمد احمدی سے حددرجہ قربت تھی، اسی قربت کا نتیجہ ہے کہ حضرت شیخ العالم علیہ الرحمہ کے خانقاہ کا سجادہ آپ کے عرس میں شریک ہوکر قل و مجلس سماع کی صدارت فرماتے ہیں، فی الوقت شہزادۂ شیخ العالم حضرت شاہ عمّار احمد احمدی مدظلہٗ سجادگی پر رونق افروز ہیں تشریف لاتے ہیں۔ بنارس اور ردولی شریف کی قربت دیکھئے کہ ۲۷؍ رجب المرجب ۱۴۳۶؁ھ المطابق ۲۰۱۵؁ء کے عرس کے موقع پر خانقاہ قطبیہ کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت شاہ مشیر السلام صاحب مدظلہٗ کی غیر مو جودگی میں حضرت قطب عالم کی رسم غسل شریف و خرقہ و عمامہ حضرت شاہ عمّار احمد احمدی مدظلہٗ نے زیبِ تن کر کے زیارت کرا ئی تھی، اس عرس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ چکیا میں جب سیاحت کرتے ہو ئے قیام پذیر ہوئے اس موقع پر راجہ پربھو نرائن سنگھ رام نگر اپنے برہمن وزیر کے ہمراہ حاضر خدمت ہوا اور ملتجی ہو ا کہ یا حضرت قلعہ چراغ بتی سے محروم ہے۔ دعا کیجیے کہ مجھے اولاد نصیب ہو۔ آپ نے اسے کرم ناشاندی سے دوگھڑے پانی بھر کے سید صاحب کا مزار دھونے کا حکم دیا۔ حضرت قطب عالم کا حکم پاتے ہی راجہ گھڑا لے کر دریائے کرم ناشا کی طرف بڑھے، اسی درمیان اس برہمن وزیر نے راجا کو جھانسا دیا کہ مہاراج جی لائیے آپ کیوں دھوئیے گا ہم ہی دھودیتے ہیں، بر ہمن وزیر دوگھڑے پانی سے سید صاحب کا مزار دھوکر حضرت قطب عالم کے پاس حاضر ہوا، حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’آیا تھا رجوا اور لے گیا وزیروا‘‘ چوں کہ راجہ و بر ہمن وزیر دونوں لاولد تھے۔ اس بر ہمن وزیر کو اللہ نے دو اولادوں سے نوازا اور راجہ بے چارہ لاولد ہی رہ گیا۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ رام نگر چکیا ہوتے ہوئے درگاہ اجمیر شریف تشریف لے گئے اور زیارت سے مشرف ہوکر ردولی شریف پہنچے۔ ردولی شریف میں سخت بیمار ہوگئے۔ اسی علالت میں آخر کار ۲۶؍ رجب المرجب ۱۳۱۹؁ھ بروم شنبہ بوقتِ ۸؍ بجے شب واصلِ بحق ہوئے، آپ کی نعش اطہر کو مریدان با صفا بنارس علی پورہ لائے اور آپ کے پیرومرشد حضرت صابر علی بنارسی کے احاطۂ مزار کے پورب اتر جانب سپردِ خاک کیا، تربت سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے، سرھانے جالی پر سورۂ اخلاص کی آیت کندہ ہے، مزار پر انوار کے اوپر اجمیر شریف کے جیسا دلکش گنبد تعمیر ہے۔

حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کا عرس ہر سال ۲۶؍ اور ۲۷؍ رجب المرجب کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے جس میں آپ کے خلفا کے مریدین و متوسلین، زائرین دور دراز سے تشریف لاتے ہیں، ۲۶؍ رجب کی صبح ۹؍ بجے محفل سماع ہوتی ہے، بعد نمازِ مغرب قل شریف و محفل سماع ہوتی ہے، شب ایک بجے گاگر شریف کی رسم ہوتی ہے، صبح صادق بعد نمازِ فجر غسل کی رسم و چادر پوشی ہوتی ہے، ۲۷؍ ویں تاریخ کو ۹؍بجے صبح محفل سماع کا انعقاد ہوتا ہے، بعد نماز ظہر سجادۂ وقت خرقہ و عمامہ حضرت قطب عالم کا زیبِ تن کر کے مسجد میں دو رکعت نماز شکرانہ پڑھتے ہیں اس کے بعد قوال کے ہمراہ روضۂ حضرت قطب عالم میں حاضری دیتے ہیں، زیارت دعا کے بعد مختصر محفل ہوتی ہے، اس کے بعد عرس کے اختتام کا اعلان ہو جاتا ہے، عرس میں زائرین کے درمیان لنگر تقسیم کیا جاتاہے۔

مآخذات

(۱)     گل چمنِ چشتی۔شیخ علی احمد مرزاپوری (سنہ اشاعت ندارد)

(۲)    ارشاداعظم واحد (جلداول) سیدتصدق علی اسدؔ سنہ اشاعت۲۰۰۰ء۔ ناشر خانقاہ امجدیہ سیوان بہار

(۳)    سرہستی سید تصدق علی اسدؔ (مقالہ قطب عالم از سید شاہ صغیر احمد)سنہ اشاعت ۱۹۹۷ء خانقاہ امجدیہ سیوان بہار۔

(۴)    حیات شیخ العالم شاہ مبین احمد فاروقی منظر ردولوی۔ طبع دوم ۲۰۱۲ء ناشرشعبۂ نشرواشاعت جامعہ چشتیہ خانقاہ حضرت شیخ العالم

(۵)    سیرت ملّا فقیر اخوند رامپوری۔ مفتی سید شاہد علی حسنی سنہ اشاعت ۲۰۱۴ء