قطب وحدت شہنشاہ اولیاء کبارسرکارسرکاراںقطب المدار مدارالعالمین
حضرت سیدبدیع الدین احمد قطب المداررضی اللہ تعالی عنہ
اسم گرامی:سید بدیع الدین احمد ہے.کنیت ابوتراب ہے۔
بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں،اہل تصوف اور اہل
معرفت وحقیقت آپکوعبداللہ قطب المدارفردالافرادکہتے ہیں"مدارعالم,مداردوجہاں" مدارالعالمین،شمس الافلاک
آپکے القابات مقدسہ ہیں برصغیر ہندوپاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے
زیادہ شہرت حاصل ہے"
ولادت باسعادت:آپکی ولادت
باسعادت صبح صادق کے وقت پیر کے دن یکم شوال المکرم سنہ دوسوبیالس
ھجری(242)مطابق(856)عیسوی میں ملک شام کے شہرحلب میں محلہ جنار"میں ہوئی۔صاحب
عالم سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے۔
والدماجد کا نام نامی سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی ہے اوروالدہ
موصوفہ سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ سےمشہورہیں۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
حضرت سید بدیع الدین زندہ
شاہ مدار رضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
اناحلبی بدیع الدین اسمی
بامی وامی حسنی حسینی جدی
مصطفے سلطان دارین محمداحمدومحمودکونین (الکواب الدراریہ)
میں حلب کا رہنے والا ہوں
میرانام بدیع الدین ہے، ماں کیطرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوں، میرے
نانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔
حضرت قاضی حمید الدین ناگوری قدس سرہ القوی نے اپنےملفوظات میں آپکا
شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہےکہ آنحضرت اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدرآں عالی قدرسیدعلی حلبی ابن
سیدبہا ءالدین ابن سید ظھیر الدین ابن سیداحمد ابن سیدمحمد ابن سید اسماعیل ابن
سید امام الائمہ جعفر صادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارینزین
العابدین ابن امام الشھداءامام حسین ابن امام الاولیاء۔
یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ
الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں آپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ
ہے سید علی حلبی ابن سید بہاءالدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد
ابن سید اسماعیل ابن.سیدامامالائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام
الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداءامام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی
کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔
والدہ ماجدہ کی طرف سے آپکا
نسب نامہ یہ ہے: والدہ ماجدہ کا نام نامی
فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابومحمدابن
سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت
سید حسن مثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ
وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔
پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور
آپ جب شکم مادر سے اس جھاں تیرہ تارمیں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی
تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا جس میں آپ پیدا ہوئے-پیدا ہوتے ہی جبین نیاز کوخالق
بے نیاز کی بارگاہ میں بہر سجدہ جھکا دیا-زبان حق نوا سے یہ صدا بلند ہویئ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ
حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب
کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ جب اس عالم گیتی کو
اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک صاحب لولاک حضرت محمد مصطفے صلی
اللہ علیہ.وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطہار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئے
اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید
بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی-غیب سے ہاتف نے ھذا ولی اللہ ھذا ولی اللہ کا مژدہ سنایا-شاہدان بارگاہ
لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے-
تعلیم وتربیت:
اللہ تعالی جسکو اپنا
برگزیدہ بناتا ہے اور اپنی محبوبیت کے لیے انتخاب فرماتا ہے اسکی تعلیم وتربیت کے
لئے بھی بے نظیر اور بہترین انتظام فرماتا ہے چناچہ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی
عمر چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئ تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق والد گرامی نے بمنشائے رحمانی آپکو رسم بسم
اللہ خوانی کے لیئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی متوفی 276ھجری کی خدمت میں پیش کیا- استاذ محترم حق استاذی ادا
کیا.ابتدائ تعلیم سے لے کر شریعت کے تمام علوم وفنون سے آراستہ وپیراستہ کیا جب آپکی
عمر مبارک 14سال کی ہوئی تو علوم عقلیہ
ونقلیہ میں آپکو مہارت تامہ حاصل ہو چکی تھی-حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ
تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت.زبور انجیل,کے بھی حافظ وعالم تھے-
(بحوالہ : تزکرۃالکرام تاریخ خلفائے عرب واسلام..ص493)
محبوب یزدانی حضرت سلطان سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی ( کچھوچھہ
شریف) رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں'کہ
بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا,سیمیا'کیمیا'اور ریمیا'میں کامل دسترس
رکھتے تھے-
( بحوالہ: لطائف اشرفی فارسی ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی)
بیعت وخلافت:
ظاہری علوم سے فراغت کے بعد
سعادت ازلیہ نے جزب دروں کو علم باطن کے حصول کہ لیے پابہ اشتییاق کردیا-جزبہ شوق
نے زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم
مکہ اور مدینہ ہوگے-جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے
بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ
اولیاءبایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں-آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف
موڑ دیا۔
-259ھجری میں سلطان الاولیاء حضرت بایزید بسطامی عرف طیفور شامی قدس سرہ السامی نے صحن بیت
المقدس میں نسبت صدیقیہ ،بصریہ و طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت وخلافت کا
تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا-تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی
معیت میں رہکر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے۔ ذکرواشغال اورادو
وظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے
اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی
تعلیم فرمائی، حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ
تعالی عنہ کا انتقال :
مرشد برحق نے مرید صادق کو عرفان حق اور مشاہدات حقیقت کا ایسا لطیف
احساس اور سلیم جزبہ عطا فرمایا کہ آپ مشاہدہ ذات الہی اور درک صفات لا متنا ہیہ
میں محو ومستغرق رہنے لگے -دوسو اکسٹھ ہجری کا سورج اپنے آٹھویں برج میں قدم رکھ
چکا تھا ۔ چودہویں رات کا چاند اپنی پر شباب چاندنی سے جبین کائنات کو منور ومجلی
کر چکا تھا داعی اجل نے حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کے
در زیست پر دستک دی اور عالم وقرب واقرب میں حضوری کا دعوت نامہ پیش کردیا۔ ۱ شعبان المعظم 261 ہجری مطابق
875ء میں اس دار فانی سے عالم بالا کی طرف کوچ کر گے اناللہ وانا الیہ راجعون۔
حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری
مرشد سے جدائی کے بعد حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ
اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص
مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپنے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائی
کے دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپکا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور
دنیا و آخرت سے مجرد ہوگے تجلیات ربانیہ کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنوائی
میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھو کے دریچے بند ہوئے تھے
کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئے
اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کہ بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت
قریب آگیا ہے گنبد خضری کے مکین تیرے نانا جان سنہری جالیوں سے تیری راہ دیکھ رہے
ہیں آنکھیں کھلی تو دل کی دنیا میں مسرتوں کا طوفان برپا تھا وارفتگی شوق احساس و
وجدان پہ چھاتی جل گئ لیکن خرد نےسر گوشی
کی کہ اے شوق مچل اے پاوں ٹہر ،اے دلکی تمنا خوب تڑپ آپنے رہوار شوق کو خانہ کعبہ
کی طرف موڑ دیا موسم حج شروع ہو چکا تھا فریضہ حج وزیارت ادا کیا جب جمال الہی کی
تجلیوں کے فروغ سے قلب دروں کندن ہوگیا تو دل بیتاب پر مدینہ منورہ کے احساسات
چھاتے چلے گئے وہ سر زمین جس کے نام کو سنکر اہل ایمان کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں وہ نورانی گلیاں جن میں
جاروب کشی کے لیے آنکھیں اور پلکے آرزو
مند رہتی ہیں مسجد نبوی کے وہ معطر منقش
ستون جنہیں تصویروں میں دیکھ کر ہی احساس وجدان سجدہ ریز ہوجاتے ہیں وہ گنبد خضری
جس میں سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر ساری کائنات کو روشن کرتی ہیں ۔اب وہاں کی
حضوری رسائی اور باریابی کی دھن میں پائے
شوق وارفتہ وتند رو ہوجاتا رہا ہے جوں جوں منزل مقصود قریب آرہی ہے دل ودماغ اور
روح کی تمام حسیات پر ادب واحترام کارنگ غالب ہوجاتا رہا ہے مقدر کی باریاب سے در
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حضوری ہوتی ہے یہ اللہ کے حبیب صلی اللہ عیہ وآلہ
وسلم کا آستانہ ہے یہاں خلقت کا ہجوم رہتا ہے یہاں تو شہنشاہ بھی گدا بن کے آتے
ہیں یہ مقام تو فہم وادراک کی منزل سے بھی بالاتر ہے یہاں شرمساری کے جلووں میں
امیدوں کا دیا جلتا ہے اضطراب کے پس پردہ چین وسکون کی ہوا چلتی ہے۔ وہ ادھر دایئں
ہاتھ کومنبر نبوت ہے اور وہ ریاض الجنۃ یہاں قدم قدم پر انوار رحمت سجدہ ریز ہیں
نور ونکہت کی زمین پر چاند سورج اور ستارے دست بستہ نور کی خیرات کے لیے کھڑے ہیں
دن رات کی کسی گھڑی میں ایک پل کے لیے بھی یہ جگہ خالی نہیں رہتی ہے ۔دیوان اور
مستانے یہاں دھونی رمائے رہتے ہیں بیک وقت ستر ہزار فرشتے درودوسلام کے نغموں کے
ساتھ یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں اہل محبت کا یہاں ہر دم ہجوم رہتا ہے اللہ ھو کی باز
گشت فضا کو گرمائے رہتی ہے یہاں کا ایک سجدہ ہزاروں سجدوں پر بھاری ہوتا ہے ۔حضرت
قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ رسالت میں باریاب ہیں دل کی بیتابی کو قرار
مل رہا ہے اضطراب شوق پر حصول تمنا کی امیدوں کا غلبہ ہورہا ہے احساسات پر سکون کی
خنکی چھائی ہوئی ہے رات اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے فجر صادق اپنے اجالے کو
کائنات پر بکھیر نے کی تیاری کررہا ہے کہ اسی اثنا میں رحمت ونور کے پیغامبر صلی
اللہ تعالی وآلہ وسلم اپنی نورانیت کے ساتھ عالم مثال میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے
دلبند بدیع الدین قطب المدار کو اپنے دامن رحمت میں ڈھاپ لیتے ہیں قطرہ سمندر سے ملکر سمندر ہونے جارہا ہے ذرہ
آفتا ب بن رہا ہے معا امیر کبیر حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم عیاں ہوتے ہیں
بارگاہ رسالت سے حکم جاری ہوتا ہے اے علی اپنے نور نظر کو روحانیت کی تربیت دےکر
اور رجل کامل بناکر میرے پاس لاؤ۔
نسبت اویسیہ سے مشرف ہونا
تاجدار اقلیم ولایت نے آپکو
اپنے آغوش عاطفت میں لیکر آپکے روحانیت کو
صیقل فرمایا اور قلب کو متحمل بار ولایت عظمی بناکر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا
رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بشمول عواطف فرماکر خانہ نبوت
میں اسلام حقیقی تلقین فرمائی اور اپنے جمال جہاں آرا سے آپکے قلب وروح کو مزین
فرماکر شرف اویسیت سے ممتاز فرمایا اور ہندوستان جانے کی تاکید فرمائی
اویسیت کا مطلب
قارئین !اویسیت کیا ہے اور
اسکی شان کتنی نرالی ہے ؟
اسکے فہم وادراک کے لیے شاہ سمنا ں غوث العالم حضرت مخدوم اشرف
جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں تھوڑی دیر کے لیے حاضری دیتے ہیں آپ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ کا گفتہ کہ قومے
ازاولیاء اللہ عزّوجل باشند کہ ایشاں کہ را مشائخ طریقت وکبرائے حقیقت اویسیان
نامندکہ ایشاں را درظاہر ہربہ پیری احتیاج بنود زیراکہ ایشاں راحضرت رسالت پناہ
صلی اللہ علیہ وسلم در حجرہ عنایت خود پرورش می دہند بے واسطہ غیرے چنانکہ اویس
دادہ ایں عظیم مقامی بود وروش عالی ترکرااینجارسانند وایں دولت بکہ رونماید بموجب آیتہ کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہن یشاء
واللہ ذوالفضل العظیم
( بحوالہ لطائف اشرفی ملفوظات حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالی
عنہ لطیفہ 14/واں )
ترجمہ : شیخ فرید الدین عطار
قدس سرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں
بزرگان دین مشائخ طریقت "اویسی""کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی
پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے
حجرہ عنایت میں بذات خود انکی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اس میں کسی غیر کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت
نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کس کی یہاں تک رسائی ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب
آیتہ کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ
تعالی عظیم فضل والا ہے مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین المقلب شاہمدار ایشاں نیز
اویسی بودہ اند وبسے مشرب عالی داشتند وبعضے علوم نوادر از ہیمیاوکیمیا وریمیا
ازایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے راباشد (لطائف اشرفی فارسی ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع
دہلی )
ترجمہ.حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بہ شاہمدار قدس سرہ بھی اویسی ہوے
ہیں نہایت ہی بلند مرتبہ ومشرب والے ہیں بعض نوادر علوم جیسے ہیمیا سیمیا کیمیا
ریمیا انسے مشاہدہ میں آئے ہیں جو اس گروہ اولیاء میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔
مقام مداریت
قطب کا لغوی معنی: چکی کی
کیل جس پر چکی گھومتی ہے مدار کا سردار قوم زمین کے محور کا کنارہ ایک ستارہ کا
نام جس سے قبلہ کا تعین کرتے ہیں۔
قطب کا اصطلاحی معنی:قطب اسکو کہتے ہیں جو عالم میں منظور نظر حق تعالی
ہو ہر زمانہ میں
اور وہ برقلب اسرافیل علیہ السلام ہوتا ہے ۔
(الدرالمنظم ص ۰۵لطائف اشرفی )
اقطاب کی برکت سے عالم محفوظ ہے
حضرت شیخ اکبر فتوحات کے باب تین سو تراسی میں لکھتے ہیں کے قطب کے
سبب سے اللہ تعالی محفوظ رکھتا ہے کل دائرہ وجود عالم کو فساد سے اور امامین کی
وجہ سے عالم غیب و شہادت کو اور اوتاد کی وجہ سے جنوب وشمال کو اور مشرق ومغرب کو
اور ابدال کی وجہ سے ساتوں ولایتوں کو محفوظ رکھتا ہے اور قطب الاقطاب سے ان سب کو
کیونکہ وہ تو وہ شخص ہے جس پر سارے عالم کا امر دائر ہ ہے ۔
قطب علوم اسرار کا عالم ہوتا ہے
شیخ عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر کے پینتالیسویں باب میں لکھتے
ہیں کہ شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو پچپن میں لکھتے ہیں کہ قطب اپنی قطبیت میں
قائم نہیں رہ سکتا تاوقتیکہ اسکو ان حروف مقطعات کے معانی معلوم نہ ہوں جو اوائل
سور قرآنی میں ہوتے ہیں۔ (بحوالہ
الدرالمنظم)
شیخ اکبر فتوحات کے باب دوسو ستر میں لکھتے ہیں کے قطب کا نام ہر
زمانہ میں عبداللہ اور عبدالجامع ہے اور اسکی تعریف یہ ہے کہ وہ موصوف باوصاف الہی
ہو یعنی بمصداق واتصفوا بصفات اللہ وتخلقواباخلاق اللہ قطب صفات الہیہ سے متصف
ہوتا ہے اور اخلاق سرمدیہ کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس طور پر کے اس میں تمام
معانی اسمائے الہیہ پائے جاتے ہیں ۔لطائف اشرفی (مؤلف حضور نظام یمنی رضی اللہ
عنہ) میں ہےکہ قطب کہتے ہیں چند ذاتوں کو جو متفرق آبادیوں میں رہتے ہیں کیونکہ ہر
ولایت میں اگر قطب نہ ہو تو آثار برکات اور ظہور حسنات اور قیام دنیاوی ممکن نہ ہو۔
قطب کی وراثت
شیخ اکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں
کہ قطب وہ مرد کامل ہے جس نے وہ چار دینار حاصل کیے ہوں جس کا ہر دینار
پچیس قیراط کا ہو اور ان سے مردان خدا کی کیفیت معلوم کی جاتی ہوں اور چار دینار سے مراد رسول انبیاء اولیاء اور
مومنین ہیں اور ان سب کا وارث قطب ہوتا ہے ۔
قطب کی شان
شیخ اکبر فتوحات مکیہ کہ باب تین سو اکاون میں رقم طراز ہیں کہ قطب
کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس حجاب میں
رہتا ہے جو اسکے اور اللہ تعالی کے درمیان ہوتا ہے اور حجاب مرتے دم تک نہیں اٹھتا
اور جب قطب انتقال کرتا ہے تو اللہ تعالی
سے جاملتا ہے۔
ایک.قطب کےتصرف کی حد کیا ہے؟
سرکار غوث پاک عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
اقطاب کہ لیے سولہ عالم ہیں اور ہر عالم ان میں سے اتنا بڑا ہے جو اس عالم.کے
دنیاوآخرت دونوں کو محیط ہے مگر اس امر کو سواءقطب کہ کوئی نہیں جانتا۔ (الدرالمنظم
فی مناقب غوث اعظم ص۸۵)
ہر زمانہ اور ہر ولایت کے لیے ایک قطب ہوتا ہے
الدرالمنظم میں ہے کہ ہرہر مقام کی حفاظت کے لئیے وہ گاؤں ہو قصبہ
ایک ولی اللہ ہوتا ہے جو اس گاؤں کا قطب کہا جاتا ہے خواہ اس گاؤں میں مسلمان رہتے
ہو یاکافر اگر مسلمان موجود ہیں توان کی پرورش زیر تجلی اسم ہادی ہوگی اور اگر
کافر ہیں توانکی پرورش زیر تجلی اسم مضّل ہوگی اور یہ دونوں صفتیں ایک ہی ذات کی
ہیں۔ (الدرالمنظم ص64) اور فصل الخطاب میں
ہے کہ بقول صاحب فتوحات مکیہ قطبوں کی کوئی انتہا نہیں ہرہرسمت میں ایک قطب ہوتا
ہے جیسے قطب عبّاد ، قطب زھّاد،قطب عرفاء، قطب متوکلان وغیرہ۔
اقطاب امم گزشتہ
یادرکھیں کہ اقطاب سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہتا۔حضرت آدم علیہ
السلام سے لیکر عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہردور میں قطب زماں کا
ورود وظہور ہوا ہے ۔شیخ اکبر فتوحات مکیہ کے چودھویں باب میں رقم فرماتے ہیں
"امم گزشتہ کے تمام اقطاب کاملین حضرت آدم علیہ السلام سے عہد مآب صلی اللہ
علیہ وسلم تک کل پچیس ہوئے ہیں اللہ تعالی نے مشہد قدس میں کہ جو مشاہدہ برزخیہ ہے
ان سے میری ملاقات کرائی اس وقت میں شہر قرطبہ میں تھا اور وہ پچیس یہ ہیں :
(1)فرق
(2)مداویالکلوم (3)بکاء (4)مرتفع (5)شفاءالماضی (6)ماحق (7)عاقب (8)منجور (9)سجرالماء (10)عنصرالحیات
(11)شرید (12)صائغ (13راجع (14)طیارہ (15)سالم (16)خلیفہ (17)مقسوم (18)حی (19)راقی
(20)واسع (21)بحر (22)مضف (23)ہادی (24)اصلح (25)باقی۔
وہ اقطاب جو انبیاءعلیھم السلام کے قلب پر ہیں
شیخ عبدالرحمن چشتی بحوالہ فتوحات مکیہ نقل فرماتے ہیں بارہ اقطاب
ایسے ہیں جو بعضے انبیا ءعلیھم السلام کے قلب پر ہیں جس میں پہلا قطب حضرت نوح
علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ یسین شریف ہے دوسرا قطب حضرت ابراھیم علیہ
السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نصر اذاجاءنصراللہ ہے چوتھا قطب حضرت عیسی علیہ
السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ فتح ہے۔پانچواں قطب حضرت داؤد علیہ السلام کے
قلب پر ہے اسکا ورد سوری زلزال ہے ۔چھٹا قطب حضرت سلیمان علیہ السلام کے قلب پر ہے
اسکا ورد سورہ واقعہ ہے ساتواں قطب حضرت ایوب علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد
سورہ بقر ہے۔آٹھواں قطب حضرت الیاس علیہ السلام کے کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ کہف
نواں قطب حضرت لوط علیہ السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ نمل ہے دسواں قطب حضرت
ہود علیہ السلام کے قلب پرہے اسکا ورد سورہ انعام ہے گیارواں قطب حضرت صالح علیہ
السلام کے قلب پر ہے اسکا ورد سورہ طہ ہے ~بارہواں قطب حضرت شیث علیہ السلام کے
قلب پر ہے اسکا ورد سورہ ملک ہے اور قطب المدارقلب محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوتا ہے اور
بڑے شہر میں ہوتا ہے اسکا فیض عالم سفلی وعلوی پر برابر ہوتا ہے۔
(اردو مرآۃ الاسرار ص93شیخ عبدالرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام نور)
تمام اقطاب قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں
اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب کے سب قطب مدار کے محکوم وماتحت ہوتے ہیں اور
یہ بارہ اقطاب بھی اور جنکا ماسبق میں ذکر ہوا قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں اور
ان بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ
قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں۔ انکو قطب ولایت کہتے ہیں ۔قطب عالم یعنی قطب مدار
کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہے اور اقطاب اقالیم کا فیض اقطاب ولایت پر
آتاہے اور اقطاب ولایت کا فیض تمام اولیاء پر جاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہے گا
۔
(مرآۃ الاسرار اردو ص938شیخ عبد الرحمن چشتی مطبوعہ مکتبہ جام.نور
دہلی)
مراتب اقطاب
گزشتہ اوراق میں بیان ہوچکا ہے کہ ولایت کے چار مرتبے ہیں (1)صغری
(2)وسطی (3)کبری (4)عظمی اور ان چاروں کے
ہر مرتبے میں تین تین مقام ہیں (1)بدایت (2)وسط (3)نہایت اسی طرح اقطاب کے بھی مختلف مقامات ومراتب ہیں
چناچہ سیدنا سید نصیر الدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ اپنی مشہور تصنیف بحرالمعانی میں
تحریر فرماتے ہیں کہ جب ولی یعنی قطب ترقی کرتا ہے تو قطب ولایت ہوجاتا ہے اور قطب
ولایت ترقی کرکے قطب اقلیم اور قطب اقلیم ترقی کرکے قطب عالم ہوجاتا ہے اور قطب
عالم ترقی کرکے عبدالرب کے مرتبے پر جو وزیر چپ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور قطب
اقلیم ہی کو قطب ابدال بھی کہتے ہیں پھر تیسری مرتبہ یہ قطب الارشاد ہوجاتا ہے اور
قطب الارشاد ترقی کرکے مقام فردانیت میں پہنچ جاتا ہے الغرض قطب عالم کو اختیار ہے
اگر چاہے تو اقطاب کو قطبیت سے معزول کردے۔
عبارت بالا سے اقطاب کے مراتب ودرجات میں ترقی وپرموشن صاف ظاہر ہے
مزید برآں قطب زہاد 'قطب عباد'قطب عرفا'قطب متوکلاں وغیرہ بھی اقطاب کے درجات ہیں
جیسا کہ فصل الخطاب میں ہے اور حضرت مولانا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ والرضوان
نفحات الانس میں حضرت احمد جام کے احوال میں لکھتے ہیں کہ وہ قطب اولیاء تھے اور
قطب اولیاء تمام ربع مسکوں میں ایک ہوتا ہے جسکو قطب ولایت کہتے ہیں اور اس کو قطب
جہاں اور جہاں گیر عالم بھی کہتے ہیں کیونکہ اسکے ماتحت کے کل اقسام ولایت کا قیام
اسی کے وجہ سے ہوتا ہے۔
(نفحات الانس علامہ جامی)
اس عبارت سے ظاہر ہوا کہ قطب ولایت کو قطب اولیاء قطب جہاں اور جہاں
گیر عالم کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔
کیا قطب عالم صاحب زماں قطب الاقطاب اور قطب المدار ایک ہی شخص کے
نام ہیں؟
اسی طرح قطب عالم صاحب الزماں قطب الاقطاب قطب اکبر قطب الارشاد اور
قطب المدار کے بارے میں کیا جاتا ہے کی یہ سب ایک ہی شخص کے نام والقاب ہیں چناچہ
سید السادات سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں کہ قطب الارشاد قطب
الاقطاب اور قطب العالم اور صاحب زماں اور قطب المدار ایک شخص کے نام ہیں جو
بالاصالت عرفان کی کنجی ہے اور اقطاب کے در اصل موصل الی اللہ ہیں وہ نیابت میں
قطب الاقطاب کے رہتے ہیں اور اس کو اختیار ہوتا ہے کے وہ چاہے انکو اپنی نیابت میں
رکھے یا نہ رکھے۔ (مطالب رشیدی ص267الدرالنظم فی مناقب غوث اعظم)
بحرالمعانی میں ہے قطب عالم ہر زمانہ میں ایک ہوتا ہے اور موجودات
علوی وسفلی کا وجود اسکے وجود کے سبب قائم ہوتا ہے اور بوجہ ااکے قطب عالم ہونے ک
سبب چیزیں قائم ہوتی ہیں اور بارہ اقطاب اسکے سوا ہوتے ہیں اور قطب عالم کو حق
تعالی سے بے واسطہ فیض پہنچتا ہے اور اسی کو قطب اکبر قطب الارشاد اور قطب الاقطاب
اور قطب المدار بھی کہتے ہیں۔(کذالک فی مرآۃ الاسرار ص91)
بحرالمعانی میں مزید یہ بھی تحریر ہے کہ علامت قطب الارشاد (قطب
المدار)یہ ہیں کہ اسمیں نور تمکین نظر آئے جو سبز رنگ کا ہوتا ہے اور کبھی کبھی
سرخ رنگ کا اور وہ بے جہت تمام اطراف کو آنکھ کھولے خواہ بند کیئے ہویکساں دیکھتا
ہے ۔اس نور کی حقیقت جاننا خاصہ مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ہے کیونکہ
آپ ہی پر اسکا پرتو پڑا ہے انتہی کلامہ۔اسی طرح تزکرۃ العابدین ص 244/پر ہے اب یہ
سمجھ لینا چاہیئے کہ ان تمام گروہوں میں کیا کیا مرتبہ اولیاء اللہ کا ہوتا ہے ۔دنیا
کا کل کارخانہ اللہ جل وشانہ نے اولیاء کرام کی ذات سے وابستہ کیا ہے اور اس گروہ
کہ بارہ نوع ہیں۔اول ان میں قطب الاقطاب ہے جسکو قطب العالم بھی کہتے ہیں وہ ایک
ہی ہوتا ہے خواہ قطب الارشاد ہو یا قطب المدار اسکے بارہ نائب یایوں کہیئے کہ
مدارالمہام ہوتے ہیں دوسرا غوث ہے مرتبہ اسکا قطب سے کم ہوتا ہے الخ۔ان عبارتوں سے
خوب خوب معلوم ہوا کہ اقطاب کے مختلف درجات ومقامات ہیں نیز یہ بھی ظاہر ہوا کہ
قطب اکبر قطب عالم قطب الاقطاب اور قطب الارشاد وقطب المدار ایک ہی شخص کہ نام ہیں۔ان
ناموں میں سے کسی نام سے انکے اوصاف مراتب اور مقامات ومناقب بیان ہوں وہ سب قطب
المدار کے اوصاف ومراتب اور مقامات ومناقب ہوں گے۔
سب سے بڑا قطب قطب المدار ہوتا ہے
تفسیر روح البیان اردوزیر ایۃ والجبال اوتادا (پ عم) میں رقم ہے کہ ہر زمانے میں ایک قطب ہوتا
ہے یہ سب سے بڑاہوتا ہے اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔قطب عالم قطب اکبر قطب
الارشاد قطب مدار قطب جہاں اور جہانگیر عالم عالم علوی اورعالم سفلی میں اسی کا
تصرف ہوتا ہے اور ساراعالم اسی کے فیض وبرکت سے قائم ہوتا ہے اگر قطب عالم کا وجود
درمیان سے ہٹادیا جائے تو سارا عالم درہم برہم ہوکر رہے جائے قطب عالم برائے راست
اللہ تعالی سے احکام وفیض حاصل کرتا ہے اور فیوض کو اپنے ماتحت اقطاب میں تقسیم
کرتا ہے وہ دنیا کے کسی بڑے شہر میں سکونت رکھتا ہے بڑی عمر پاتا ہے نورخام مصطفوی
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہرسمت سے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ماتحت اقطاب
کے تقرر تنزل اور ترقی کے اختیار کا مالک ہوتا ہے ۔
ولی.کو معزول کرنا 'ولایت کو صلب کرنا'ولی کو مقرر کرنا'اسکے درجات
میں ترقی دینا اسی کے فرائض میں ہے۔وہ ولایت شمس پر فائزہوتا ہے لیکن اسکے ماتحت
اقطاب کو ولایت قمری میں جگہ ملتی ہے قطب عالم اللہ تعالی کے اسم رحمن کی تجلی کا
مظہر ہوتا ہے ۔سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مظہر خاص تجلی الولایت
ہیں قطب عالم سالک بھی ہوتا ہے اور اسکا مقام ترقی پزیر ہوتا ہے حتی کے وہ مقام
فردانیت تک پہنچ جاتا ہے ۔یہ.مقام محبوبیت ہے رجال اللہ میں اس قطب عالم کانام
عبداللہ بھی ہے ۔
(تفسیرروح البیان اردو ص 12 زیرآہت والجبال اوتادا1..پ عم/مترجم
مولانا محمدفیض احمد اویسی..مطبوعہ رضوی کتاب گھر مٹیا محل دہلی)
قطب المدارپر مخلوق کےاحوال روشن رہتے ہیں
چونکہ قطب المدار پر خلق کے
احوال گردش کرتے رہتے ہیں اس لئیے قطب المدار مخلوق کے احوال کو جانتا ہے اور اس
پر خلق کی حالت آشکار ہوتی ہے۔شیخ عبدالرزاق قاشانی رحمہ اللہ تعالی سبحانی فرماتے
ہیں کہ القطب فی اصطلاح القوم اکمل
الانسان متمکن فی مقام الفردیۃ تدور علیہ احوال الخلق (رسالہ ابن عابدین الشامی ص256)
قطب المدار ولایت کے تمام مقامات واحوال کا جامع ہوتا ہے
صاحب فتاوی شامیہ علامہ ابن عابدین شامی ودس اللہ النورانی نقل
فرماتے ہیں کہ الخلیفۃ الباطن وھوسید اھل
زمنہ سمی قطبا لجمع جمیع المقامات والاحوال ودورانھاعلیہ (رسالہ ابن عابدین شامی)خلیفہ باطن جواپنے
زمانے والوں کا سردار ہوتا ہے اسی کو قطب المدار کہتے ہیں کیونکہ تمام مقامات واحوال کا وہ جامع ہوتا ہے
اور تمام مقامات و مراتب اسی کے گرد گھومتے ہیں۔
مرتبہ قطب المدار
شیخ اکبر الدین ابن عربی علیہ الرحمہ والرضوان فرماتے ہیں قطبیت کبری
قطب الاقطاب کا مرتبہ ہے کہ جو باطن نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور یہ
مرتبہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کیلئے مخصوص ہے اس لیئے کہ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم صاحب نبوت عامہ ورسالت
شاملہ میں سارے عالم کیلئے اور اکملیت کے ساتھ مخصوص ہیں توخاتمالولایت اور قطب
الاقطاب وہی ہوگا باطن خاتم النبوت پر ہوں۔
(فتوحات فصل 31باب 198بحوالہ
الدرالمنظم ص 150)
مرتبہ قطب المدار منتہائے درجہ ولایت ہے
صاحب الدرالمنظم فرماتے ہیں قطب الاقطاب وہ ہے جسکے مرتبہ سے اعلی
سوائے نبوت عامہ کے اور کوئی مرتبہ نہ ہو اسی وجہ سے قطب الاقطاب صدیقوں کا سردار
ہوتا ہے ~( الدرالمنظم ص 50)
حضرت سید باسط علی قلندر قدس سرہ الاطہر فرماتے ہیں مقام قطب الارشاد
بہت رفیع المنزلت ہے جس آگے اولیاء کا مقام نہیں ۔(الدرالمنظم60)
لطائف اشرفی میں شیخ اکبر رحمہ اللہ تعالی کے فرمان کو اس طرح نقل
کیا ہے:
اما القطب وھو الواحد الذی موضع نظر اللہ تعالی من العالم فی کل زمان
وجمیع اوان وھو علی قلب اسرافیل علیہ السلام
والقطب الاقطاب باطن نبوتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلا یکون
الالوارثتہ لا خنصاصہ علیہ السلام مالا
کملیت فلا یکون خاتم.الولایۃ وقطب الاقطاب الا علی باطن خاتم النبوۃ
(لطائف اشرفی نقل ازفتوحات فصل 31/باب198)
یعنی قطب.وہ ہے جو عالم میں منظور نظر الہی ہو تا ہے اور وہ ہر زمانے
میں ہوتا ہے اور وہ اسرافیل علیہ السلام کے مشرب پر ہوتا ہے اور قطبیت کبری جو قطب
الاقطاب (قطب المدار)کا مرتبہ ہے اور یہ مرتبہ باطن نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے
اور یہ مرتبہ کمال صرف وارثان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ.وآلہ.وسلم کا ہے اس لیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ.وسلم ہی
اکملیت سے مختص ہیں تو خاتم الولایت اور قطب الاقطاب وہی ہوگا جو باطن خاتم النبوت
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہو۔
حسب فرمائش: صدر المشائخ سید محمد مجیب الباقی جعفری مداری سجادہ
نشین خانقاہ عالیہ طبقاتیہ مکن پور شریف ضلع کانپور ہندوستان۔
طالب دعا: ال رسول احمد الاشرفی القادری