حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ


 حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ  کوفہ میں پیدا ہوئے آپ علیہ الرحمہ  کا اصل نام وہاب بن امر تھا۔ آپ علیہ الرحمہ  حضرت سیدنا  امام جعفر صادق  علیہ السلام کے شاگرد اور  حضرت سیدنا امام موسی کاظم  علیہ السلام کے معتقد خاص میں سے تھے ۔ آپ علیہ الرحمہ  بنوامیہ کے امیر خلیفہ ہارون رشید کے رشتہ دار تھے۔ حق بیان کرتے تھے اور سچوں کا ہمیشہ ساتھ دیتے تھے۔

خلیفہ ہارون رشید نے جن  حضرت سیدنا امام موسی کاظم علیہ السلام  کے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا شروع کیا تو آپ علیہ الرحمہ  کچھ ساتھیوں کے ہمراہ حضرت حضرت  امام موسی کاظم  علیہ السلام سے ملے جو اس وقت  خلیفہ ہارون الرشید کے قید خانے میں زیرحراست تھے حضرت جب امام موسی کاظم  علیہ السلام نے درپیش حالات کے حوالے سے مشورہ مانگا تو آپ علیہ الرحمہ  نے صرف ایک حرف "ج" (جیم) لکھ دیا اس حرف کی سب نے اپنے اپنے انداز سے تشریح کی اور اس پر عمل کیا ۔جیم سے جلا وطن جبل یعنی پہاڑ اور حضرت بہلول دانا علیہ الرحمہ  کے لیے جیم سے جنون۔   اگلے روز آپ علیہ الرحمہ  نے اپنے عالیشان زندگی کو خیرآباد کہا اور فقیرانہ  حلیے  میں بغداد کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتے تھے اور جس جگہ تھک جاتے وہیں ڈیرہ ڈال لیتے ۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر  اہل بغداد نے آپ علیہ الرحمہ  کو مجنوں کے نام سے پکارنا شروع کیا  چنانچہ آپ  علیہ الرحمہ کے چند مشہور واقعات بیان کیے جاتے ہیں :

ایک دن بہلول دریا کے کنارے بیٹھے ساحل کی گیلی ریت کو اپنے سامنے جمع کر کے اس کی ڈھیریاں بنا رہےتھے۔ اور ملکہ زبیدہ اپنے محل کے جھروکے سے بڑے انہماک سے ان کو یہ کام کرتے دیکھ رہی تھی وہ مٹی کی ڈھیری بناتے اور پھر اپنے ہاتھ سے ہی اس کو مسمار کر دیتے ملکہ جھروکے سے اتر کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے آ گئ اور بہلول سے پوچھا کیا کر رہے ہو بہلول ؟

بہلول نے ادائے بے نیازی سے کہا جنّت کے محل بنا رہا ہوں ،،

ملکہ نے سوال کیا اگر کوئی تم سے یہ محل خریدنا چاہے تو کیا تم کو اس کو فروخت کرو گے ،

بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں

تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے ملکہ کے سوال کرتے ہی بہلول نے بے ساختہ کہا تین درہم ،

ملکہ زبیدہ نے اسی وقت اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ بہلول کو تین درہم ادا کئے جائیں ۔ اور ادا کردئیے گئے۔

یہ تمام واقعہ ملکہ نے اپنے شوہر خلیفہ ہارون الرشید کو بتایا۔خلیفہ نے اس واقعہ کو مذاق میں ٹال دیا۔ رات کو جب ہارون الرشیدسوئے تو انہوں نے خواب میں جنت کے مناظر دیکھے ، آبشاریں، مرغزاریں اور پھل پھول وغیرہ دیکھنے کے علاوہ بڑے اونچے اونچے خوبصورت محلات بھی دیکھے، ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر انہوں نے زبیدہ کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ ہارون الرشیدنے سوچا کہ میں دیکھوں تو سہی کیوں کہ یہ میری بیوی کا گھر ہے۔ وہ محل میں داخل ہونے کے لیئے جیسے ہی دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے انہیں روک لیا۔ ہارون الرشیدکہنے لگے ، اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیئے مجھے اندرجانا ہے، دربان نے کہا نہیں، یہاں کا دستور الگ ہے، جس کا نام ہوتا ہے اسی کو اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے، کسی اور کو اجازت نہیں ہوتی، لہذا آپ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی۔

بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ مجھے تو لگتا ہےکہ بہلول کی دعا زبیدہ کے حق میں اللہ رب العزت کے ہاں قبول ہوگئی، وہ ساری رات اسی افسوس میں کروٹیں بدلتے رہے۔

چنانچہ وہ شام کو بہلول کو تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا کہ بہلول ایک جگہ بیٹھے اسی طرح مکان بنا رہے ہیں، ہارون الرشید نے اسلام وعلیکم کہا، بہلول نے جواب دیا وعلیکم سلام، ہارون الرشیدنے پوچھا، کیا کررہے ہیں؟

 بہلول نے کہا، جنّت کے محل بنا رہا ہوں۔ ہارون الرشیدنے پوچھا ۔ بیچو گے ۔تو بہلول نے کہا ہاں ہاں ! کیوں نہیں۔ میں بناتا بھی ہوں اور فروخت بھی کرتا ہوں۔

تو بتاؤ ایک محل کی قیمت کیا ہے۔بہلول نے بے ساختہ کہا تیری پوری سلطنت۔

ہارون الرشیدنے کہا ، اتنی قیمت تو میں نہیں دے سکتا، کل تو آپ تین درہم کے بدلے دے رہے تھے، اور آج پوری سلطنت مانگ رہے ہیں؟

بہلول دانا نے کہا، خلیفہ! کل بن دیکھےمعاملہ تھا اور آج تم محل دیکھ کر آئے ہو۔

خلیفہ یہ سن کر گھٹنوں کے بل بہلول دانا کے سامنے مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔ اور کہا حضرت آپ مجھ سے میری ساری سلطنت لے لیں۔ اور مجھے ایک محل دے دیں۔ جب بہلول دانا نے خلیفہ کی عاجزی دیکھی تو کہا ۔ کہ میں تمہاری اس سلطنت کا کیا کروں گا۔ اس دنیا کی محبت تو بہت سے گناہوں کی جڑ ہے۔جاؤ اپنی سلطنت اپنے پاس رکھو ۔اس محل کو بھی تمہارے لئے تین درہم میں فروخت کرتا ہوں۔

 

حضرت سید نا سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''ایک بار مجھے قبرستان جانا ہوا۔ وہاں میں نے حضرت سید نا بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ ایک قبر کے قریب بیٹھے مِٹی میں لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔

میں نے پوچھا:''آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

'' جواب دیا:''میں ایسی قوم کے پاس ہوں جو مجھے اذیت نہیں دیتی اور اگر میں غائب ہوجاؤں تو میری غیبت نہیں کرتی۔''

میں نے عرض کی:''روٹی مہنگی ہو گئی ہے ؟''

تو فرمانے لگے:''اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم !مجھے کوئی پرواہ نہیں،اگرچہ ایک دانہ دینار کا ملے۔ ہم پر اس کی عبادت فرض ہے جیسا کہ اس نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمارا رزق اس کے ذمہ کرم پر ہے جیسا کہ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے۔''

 

ایک مرتبہ کسی نے کہا : ’’ بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں -

ایک مرتبہ حضرت بہلول دانا ہارون الرشید کے پاس پہنچے۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھا کر دی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔

حضرت بہلول دانا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔

عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہو گئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا۔ حضرت بہلول دانا عیادت کے لئے پہنچے اور سلام کے بعد پوچھا۔ بادشاہ کیا حال ہے؟

 ہارون رشید نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟

 بڑا لمبا سفر درپیش ہے۔

کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔

حضرت بہلول دانا نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہو گی؟

 جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔

 حضرت بہلول دانا نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اور ساتھ ساتھ کون جائے گا؟

 جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جا رہا ہوں۔

 حضرت بہلول دانا بولے۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین و مددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ امانت واپس لے لو۔ مجھے تمہارے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ تم جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم و خدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ تم نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو رو پڑے اور کہا۔ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگر آج پتہ چلا۔ کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں۔