وندے ماترم ایک
بنگالی شاعر و ادیب بنکم چندر چٹرجی کی ۱۸۷۶ء میں لکھی نظم
ہے۔ نظم میں ملک کو ایک دیوی خیال کرتے ہوئے جہاں اس کی تعریف و توصیف بیان کی گئی
ہے‘ وہیں اس کی پرستش کرتے ہوئے اسے ’درگا‘ اور ’کالی‘ قرا ردیا گیا ہے اور دشمن کو
نیست و نابود کرنے کے عزائم بھی ظاہر کر دیے گئے ہیں۔ اپنے مشمولات کے لحاظ سے بنکم
چندر چٹرجی کی یہ نظم یوں بھی خالص مذہبی حیثیت کی حامل ہے جسے دیگر مذاہب کے لوگ کسی
بھی صورت میں نہیں پڑھ سکتے اور اگر اس کے پس منظر کی مناسبت سے بات کی جائے تو مذکورہ
نظم سے نہ صرف فرقہ پرستی بلکہ وطن دشمنی کی بھی بو آتی ہے۔
یہ نظم ۱۸۷۶ء میں ضرور لکھی گئی تھی مگر ابتدائی ۶ برسوں تک گمنامی میں پڑی رہی۔ اس نظم کو شہرت اس وقت ملی جب مغل حکمرانوں
سے ہندوؤں کی جنگ کے موضوع پر بنکم چندر چٹرجی نے اپنا ناول ’آنند مٹھ‘ لکھا اور اس
میں اس نظم کو شامل کیا۔ مذکورہ ناول فرضی کرداروں پر مشتمل ہے‘ جس کا مرکزی کردار
بھوانندہ نامی ایک برہمن سنیاسی ہے جو ہندوؤں کو مغل حکمراں کے خلاف اکساتا ہے۔ مذکورہ
ناول فرقہ پرستی سے پوری طرح لبریز ہے‘ جس کا ثبوت اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے‘ جس
میں بھوانندہ ایک دوسرے کردار سے‘ جس کا نام مہندر ہے‘ کہتا ہے کہ ’’ہمارامذہب‘ ہماری
ذات‘ ہمارا وقار خطرے میں ہے اور جب تک اس ملک میں مسلمان رہیں گے‘ ہم کبھی سر اٹھا
کر نہیں جی سکیں گے‘‘۔ مہندر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا تم تنہا مقابلہ کرو گے؟
بھوانندہ کہتا ہے کہ ’’جب تین کروڑ آوازیں بلند ہوں گی اور ۶ کروڑ بازوؤں میں لہراتی تلواریں ہوں گی تو کیا تب بھی میری ماتا کمزور
ہو گی‘‘۔ مہندر کو تب بھی اطمینان نہیں ہوتا تو وہ اسے لے کر آنند مٹھ مندر جاتا ہے‘
جہاں درگا اور کالی کی مورتیوں کے سامنے اس کے جذبات برانگیختہ کرتا اور جوش دلاتا
ہے۔ اسی ناول کے ایک اور منظر میں ہندوؤں کو مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے ہوئے دکھایا
گیا ہے جو بندے (وندے) ماترم کا نعرہ لگاتے ہوئے آپس میں سوال کرتے ہیں کہ ’’وہ دن
کب آئے گا جب ہم مسجدوں کو مسمار کرتے ہوئے ان مقامات پر مندر تعمیر کرنے میں کامیاب
ہوں گے؟‘‘ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب مذکورہ نظم کو جذبۂ حریت سے سرشار ایک تحریک کی
شکل میں پیش کیا جاتا ہے‘ جبکہ بنکم چندر چٹرجی کے کردار برہمن سنیاسی بھوانندہ نے
اس ناول میں انگریز حکمرانوں کا استقبال کیا ہے۔ بھوانندہ اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ
’’اب ہمارے جان و مال کو امان ملے گی کیونکہ مغل حکمرانوں کی جگہ پر انگریز آگئے ہیں‘‘۔
علاوہ ازیں بذاتِ خود بنکم چٹرجی انگریز حکمرانوں کے وفادار تھے اور انگریزی حکومت
میں ڈپٹی کلکٹر اور ڈپٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر کام کرتے ہوئے ۱۸۹۴ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
مسلمانوں کو
یہ بات صاف کہہ دینی چاہیے کہ وہ وطن پرست نہیں‘ محب وطن ہیں۔ لہٰذا وندے ماترم پر
اصرار کرنے والوں کو ’’پہلے وطن پرست‘‘ اور ’’محب وطن‘‘ کا مفہوم سمجھ لینا چاہیے۔
پش منظر: بنگالی زبان
میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا ناول ’’آنند مٹھ‘‘ انگر یزوں کے دور میں بنکم
چٹر جی نام کے ایک ایسے شخص نے لکھا جس نے ’ حاجی محسن فنڈ‘ سے وظیفہ پاکر بی اےپاس
کیا تھا۔ انگریزوں کی تائید و حمایت میں ہندئووں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے
لکھے گئے اس ناول میں ایک گانا’وندے ماتر م ‘ شامل کیا گیا۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو
فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت سے پوری طرح آلودہ ہے۔ یہ ناول وطن کے مشرکانہ تصور پر
مبنی ہے ۔اس میں مادر وطن کو ایک مذہبی دیوی کہکر پکارا گیا ہے اور اس کے بت کو معبود
کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس گانے کے ایک ایک لفظ سے اس مشرکانہ عقیدہ کی بو آتی ہے جو
نت نئے بھگوان تراشنے والوں کی پہچان کا درجہ رکھتا ہے۔اس مشرکانہ گیت کا اردو ترجمہ
حسب ذیل ہے پڑھکر جان لیں ’’نقل کفر کفر نباشد‘‘
)۱( میں تیری حمد کرتا ہوں اے میری
ماں؛ تیرےاچھے پانی ،اچھے پھلوں، بھینی خشک جنوبی ہواؤں، شاداب کھیتوں والی میری ماں
(۲) حسین چاندنی
سے روشن رات والی، شگفتہ پھو لوں والی، گنجان درختوں والی، میٹھی زبان والی، میٹھی
ہنسی والی، سکھ دینے والی، برکت دینے والی میری ماں
(۳)تیس کروڑ لوگوں کی پر جوش آوازیں؛
ساٹھ کروڑ بازؤوں میں سنبھلنے والی تلوار یں؛ کیا اتنی قوت کے ہوتے ہوئے بھی اے ماں
تو کمزور ہے؟ توہی ہماری بازؤوں کی قوت ہے ؛میں تیرے قدم چو متا ہوں اے میری ماں!
تو میرا علم ہے ؛تو میرا ادھرم ہے؛ تو میرا باطن ہے؛ تو میرا مقصد ہے؛ تو ہی میرے جسم
کے اندر کی جان ہے ؛تو ہی بازؤوں کی قوت ہے؛ دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے ؛تیری
ہی محبوب مورتی ہےایک مندر میں
(۴)تو ہی درگا ہےدس مسلح ہاتھوں والی؛
تو ہی کملا ہے،کنول کی پھولوں کی بہار؛ تو ہی دانی ہے علم سے بہرہ ور کرنے والی؛ میں
تیرا غلام ہوں؛ غلام کے غلام کا غلام ہوں؛ اچھے پانی والی، اچھے پھولوں والی میری ماں!
میں تیرا بندہ ہوں
(۵)لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی،
آراستہ پیراست
ہ، بڑی قدرت والی
قائم و دائم ماں! میں تیرا بندہ ہوں۔
تنازعہ نیا نھیں ھے: مذکورہ ناول
اور اس کا گیت آج ہی نہیں جنگ آزادی میں بھی متنازعہ رہا ہے؛ اسے کبھی بھی ہندوستان
کے قومی گیت کا درجہ نہیں دیا جا سکا اگرچہ جار حانہ ہندو قومیت کا تصور رکھنے والوں
میں اس کا چلن چلا آرہا ہے مگر متعدد ہندو لیڈروں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ایک قابل
اعتراض گیت ہے۔ مشہور لیڈر ایم این رائے نے کہا ہے’’وندے ماترم کے خلاف مسلمانوں کی
نکتہ چینی صحیح بنیاد پر قائم ہے ‘‘۔ڈاکٹر رام منوہر لو ہیا نے۱۹۳۸ء میں صاف طورپر کہا تھا کہ آنند مٹھ ناول ہماری تحریک پر ایک داغ
ہے۔ آنجہانی سبھا ش چندر بوس بھی اس گیت کو ناپسند کرتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے
آزادی کے قبل ہی اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ مسٹر جواہر لال نہرو اس گیت کو قومی ترانہ
نہیں مانتے تھے۔ سی پی ایم کے سیکرٹری سروج مکھر جی نے اعلان بھی کیا تھا کہ ’’ بنکم
چندر چٹو پا دھیا ئےکی تصنیف آنند مٹھ ایک ایسا ناول ہے کہ اسے جلاکر اس کی راکھ دریا
ہگلی میں بہا دی جائے‘‘۔اس ناول میں اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا گیا ہے۔ ’’ بھائی
وہ دن کب آئے گا جب ہم مسجدوں کو مسمار کریں گے‘‘۔
ہر انصاف پسند
آدمی اس مختصرتعارف کے بعد با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ وندے ماترم کے عنوان سے لکھا
ہوا گیت مشرکانہ اور جارحانہ تصور قومیت کی نمائندگی کرنے والا ہے۔ یہ گیت تنگ نظری
اور تعصب پھیلانے کے ارادے سے لکھا گیا ہے اور اس کو کبھی ہندوستان کے قومی و قار اور
حب الوطنی کی علامت کا درجہ نہیں دیا گیا نہ دیا جانا چاہیے۔ مگر افسوس کہ سیاسی بازی
گروں نے اپنی اغراض کے لیے یہ تأثر دینا شروع کر دیا گویا یہ کو ئی مقدس گیت ہے اور
مسلمانوں کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ نہایت چالاکی سے اس کو پار لیمانی کارروائی
میں شامل کیا جانے لگا اور سرکاری ذرائع ابلاغ میں کثرت سے اس کاا ستعمال شروع کردیا
۔غور سے دیکھا جائے تو یہ اندازہ قائم کرنے میں کوئی معقول وجہ حائل نہیں ہے کہ انگریزوں
کی ’’ لڑاؤاور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت جو چالیں چلی گئیں، آنند مٹھ کے مصنف
مسٹر چٹرجی کی تصنیفات بھی انہی کا حصہ ہے کیو ں کہ اس ناول نگار نے آنند مٹھ کے علاوہ’’درگیس
نندنی ‘‘ اور کپال کنڈلا جیسی کتابوں میں بھی مسلمانوں کے ظلم و ستم کی فرضی داستانیں
منسوب کی ہیں ۔ افسوس کہ ملک آزاد ہونے کے بعد انگریزوں کی سیاسی ضرورت کو پورا کر
نے والوں نے اپنے گھٹیا عزائم کو قومی سطح پر لاکر رکھ دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج
خوا مخواہ وندے ماترم کو اتنی اہمیت نہ دی جاتی۔
بنیادی حقیقت: مسلمان کہیں بھی ہو اس کا بنیادی عقیدہ اس کے ساتھ ہے اگر وہ اس کو چھوڑ
دے تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر مسلمان نہیں رہ سکتا ۔یہ بنیادی عقیدہ توحید کا عقیدہ
ہے جس سے رسالت کا عقیدہ بھی منسلک ہے ۔ توحید کا عقیدہ ہے:
’’اللہ(سبحانہ وتعالیٰ) کے سوا
کوئی معبود نہیں ہےاور محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
مسلمان اس عقیدہ
کی راہ میں اپنے جان و مال اور خونی رشتوں؛ ماں، باپ، بھائی، بہن، قریبی تعلقات، خاندان
اور استاذ کسی کو بھی رکاوٹ بننے نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ وہ بزرگ پیغمبروں کو بھی لائق
عبادت تسلیم نہیں کرتا ؛ان سب کی عظمت بھی بندگئیِ رب کے دائرہ میں ہے ،نہ کہ انہیں
معبود ومسجود بنانے میں۔ مسلمانوں کے بارے میں اس عظیم حقیقت کو جان بوجھ کر یا انجانے
میں نظر انداز کرکے ان کے موقف کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جا سکتا ۔
بد قسمتی سے
ہندوستان میں شرک اور بت پرستی ایک طبقہ کی پہچان بلکہ سیاسی ضرورت بن گئی ہے ۔اس طبقہ
کو اسلام اور اسکی تعلیمات سے وحشت ہوتی ہے؛ وہ اس لیے کہ وحدت الٰہ اور مساوات بنی
آدم پر مبنی اسلام کی دعوت اس کے گھروندے کو باقی نہیں رہنے دیتی جس میں ہر بات کی
گنجائش نکال لی جاتی ہے مگر خدائے واحد کی بندگی اور انسانی برابری کے تصور کے لیے
کو ئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک خدا کی بندگی ان سب جھوٹے خداؤں کے انکار کو لازم ہے جن
کی تعداد کروڑوں تک پہنچادی گئی ہے ۔اور ضرورت کے مطابق اس کو گھٹا بڑھا بھی لیا جاتا
ہے۔ اسی طرح انسانوں کی مساوات کا اصول اس برہمنی سامراج کی موت کا پیغام بن جاتا ہے
جو ایک(خاص) طبقہ کی برتری پر مبنی ہے اور جو انسانی سماج کو اَن گِنت خانوں میں بانٹ
کر ان کو محکوم بنا کر رکھتا ہے؛ جہاں پیدائشی طور پر کو ئی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اونچا
اور کوئی نیچا ہے؛ اس سامراجی ذہنیت کی ضرورت ہے کہ وہ انسانی معاشرے کو منقسم اور
جوں کی توں (Status co)کی پوزیشن بحال رکھے ۔اور باقی لوگ جان ومال کے ساتھ اپنا دل ودماغ بھی
ان کے پاس گروی رکھے رہیں ۔ ایک زمانہ میں جب ہندوستان مسلمانوں کے زیر اقتدار تھا
تو یہ مذہب کی حفاظت (دھرم رکشا) کا نعرہ لگا کر ہی اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے تھے۔
مگر جب حالات بدلے تو انہوں نے دیش اور سنسکرتی (وطن اور تہذیب)کی بات چھیڑ دی ۔یہی
لوگ کبھی ’’ہم ہندو نہیں آریہ ہیں ، ہمارا دھرم ہندو نہیں آریہ سماج ہے‘‘ ( ملاحظہ
ہو روداد آریہ سماج)؛آریوں کی نسلی برتری کے خلاف جب دراوڑوں اور آدی باسیوں نے
زبان کھولنا شروع کی تو پینترا بدل کر ’’راشٹرواد‘‘اور ’’ہندوتو‘‘کا چولہ پہن لیا ؛اسلام
اور مسلمانوں کو حریف اول مان کر ان کے خلاف نفرت و اشتعال کا کاروبار شروع کر دیا۔
یہ لوگ کبھی اکھنڈ بھارت کا جارحانہ نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی سندھو دیش کے تخیل کا
سہارا لیتے ہیں ۔ کبھی گئوماتا کے نام پرہندو سماج کو بھڑ کاتے ہیں؛ حالانکہ وہ بھی
ہندو ہیں جوبے تکلف گائے کا گوشت استعمال کرتےہیں ۔ یہ گاندھی جی کے قاتل گوڈسےؔ کی
اس وصیت کو ایک ہیرو کی وصیت کا درجہ دیتے ہیں کہ اس کی مبینہ ہڈیاں اس وقت دریا برد
کی جائیں جب دریائے سندھ پاکستان کی بجائے ہندوستان (بھارت ) کا حصہ بن جائے ۔ آج
یہ دوسروں سے، خاص طور پر مسلمانوں سے، پوچھتے ہیں بتاؤ دیش بڑا ہے یا دھرم۔ انہیں
ترغیب دیتے ہیں کہ وہ کعبہ سے بڑھ کر کاشی کا احترام کریں تبھی اچھے ہندوستانی بن سکتے
ہیں، مگر عہد مغلیہ کے علیحدگی پسندوں رانا پر تاپ اور شواجی کو اپنا ہیرو بھی مانتے
ہیں۔ کیا اس وقت انہیں یاد نہیں رہتا کہ دیش کی ایکتا اور اکھنڈتا کا کیا مفہوم ہے؟
آج دیش (ملک) پہ اپنا ڈنڈا گھومتا نظر آرہا ہے تو دیش بڑا ہے اور جب سیاسی قوت مسلمانوں
کے ہاتھ میں تھی تو ملک چھوٹا تھا اور دھرم بڑا تھا بقول شاعر:
مارچ میں بلبل ہیں تو جولائی
میں پروانے ہیں
جیسا موسم ہو اسی نسبت سے
یہ دیوانے ہیں
مگر اسلام جو
کل تھا وہی آج بھی ہے ۔وہ ایک سچے خدا کے علاوہ ،جو سب کا پیدا کرنے والا اور پالنے
والا ہے، کسی اور کی خدائی کو نہ کل مانتا
تھا نہ اور نہ آج مانتا ہے نہ کل مانے گا۔ خدائے بر حق کے مقابل جو بھی آئے وہ طاغوت
ہے اور اس کا انکار ایمان کی شرط ہے۔ اگر کوئی آج وطن یا قوم کو خدا بناتا ہے اور
مسلمان اس کا منکر ہے تو اس پر اعتراض دراصل اسلام پر اعتراض اور اس سے دشمنی مسلمانوں
کے دین سے دشمنی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ وطن کوئی بولنے سننے والی ہستی نہیں ہے ۔ دریا
،صحرا ،پہاڑ، گاؤں ،شہر یہ سب ہی وطن ہیں اور ہوسکتے ہیں مگر ان میں کون ہے جو اپنی
مرضی اور پسند بتا سکے تاکہ تمام آدمی جان لیں کہ وطن یہ چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا
۔ ملک کے بسنے والے یعنی وطن کے باشندوں کے مفاد اور مرضی کو ہی زیادہ سے زیادہ وطن
کا مفاد سمجھا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ جارحانہ ہندو قوم پرستی کی نمائندگی کرنے والے
سارے اہل ملک کے مفاد کو نظر انداز کر کے اپنے مفاد کو ہی ملک کا مفاد سمجھتے ہیں اور
اگر کوئی ان کی الٹی منطق کو نہیں مانتا تو اس کو دیش دروہی، غدار وطن، حملہ آور اور
غیر ملکی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے ایک بڑے اہم حصہ کو دانستہ نظر انداز کر
کے ایسے نامعلوم دور سے اپنا رشتہ جو ڑا ہے جس کا وسیلہ کچھ مذہبی عقیدوں ، اور غیر
معتبر روایتوں کو ہی بنایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس کوئی ایسا عقیدہ و نظریہ بھی
نہیں ہے جو علم وتحقیق کی کسوٹی پر جانچا جا سکے اور تمام انسانوں کے لیے اس میں کوئی
کشش پائی جاتی ہو۔ان کے اس سماج میں بھی جس کو یہ ترجمان اور رہنما باور کراتے ہیں
متضاد اور مختلف مذہبی تصورات پائے جاتے ہیں ۔ صحیح اور غلط کی بات تو الگ ہے کسی بھی
عقیدے اور خیال کو یہاں کی اکثریت کا عقیدہ و مسلک قرار دینا محال ہے ۔ اسی لیے انہوں
نے مذہب کو چھوڑ کر تہذیب کے نام پر جوڑناچاہا مگر بد قسمتی سے اس تہذیب کے آثار اور
علائم بھی واضح نہیں ہیں۔ وہ اصول کیا ہیں جن پر وہ تہذیب قائم تھی تاکہ انکی معقولیت
اور افادیت کا کسی کو قائل کیا جاسکتا، یہ سب کچھ کسی کو معلوم نہیںہے ۔ اب آسان نسخہ
یہ ہے کہ کوئی نعرہ لگایا جائے اور نامعلوم منزل کی طرف چلنے کے لیے لوگوں کو اکسایا
جائے اور یہ کہہ کر بھڑکایا جائے کہ فلاں اور فلاں تمہیں منزل پہ نہیں پہنچنے دینگے
اس لیے اس ان کو ختم کر دو۔یہ بھی معلوم رہے کہ ’’ وندے ماترم‘‘ گیت کوئی مذہبی درجہ
نہیں رکھتا ہندؤوں کی کسی مذہبی کتاب سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک فرضی داستان
(آنند مٹھ) کا ایک حصہ ہے جو تعصب اور نفرت کے جذبے سے لکھی گئی تھی اور بس۔ نسلی
برتری پر مبنی ایک بے اصل تہذیب کے احیاء کو قدم قدم پر سہاروں کی ضرورت پڑرہی ہے
۔ اسی لیے وندے ماترم نامی گیت کو زور زبردستی قومی ترانے کی حیثیت دینے کی کوشش کی
جارہی ہے۔
شرک سے سمجھوتا نھیں: شرک ایک ایسی برائی ہے جس سے اسلام کہیں بھی اور کبھی بھی سمجھوتا نہیں
کرتا ۔یہ ایسا ناقابل معافی جرم ہے کہ اگر اسی حالت میں انسان مر جاتا ہے تو خدا اس
کی مغفرت نہیں کریگا ۔شرک عظیم ترین گناہ ہے اور افسوس ناک جہالت بھی ۔یہ اندھیرا ہے
،اور روشنی اور اندھیرا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔ اسی لیے توحید اور شرک میں اتحاد
نہیں ہوتا، نہیں ہو سکتا۔ جہاں توحید ہے وہاں شرک نہیں رہتا ،جہاں شرک ہوگا وہاں توحید
کا سوال نہیں ۔ ہم بتا چکے ہیں کہ توحید مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اور شرک اس کی ضد ہے ۔اس لیے فطری اور قدرتی
طور پر مسلمان شرک بیزار ہوتا ہے اور اسے ہو نا ہی چاہیے۔ اب ہندوستان جیسے ملک میں
جہاں مذہبی آزادی کے حق کو دستور ی طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسی کے تحت پتھروں،
درختوں دریاؤں اور جانوروں کی پوجا کرنے والوں پر قانونی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی
تو آخر کس طرح خدائے واحد کی بندگی پر یقین رکھنے والوں کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ
وہ مشرکانہ خیالات اور افکار پر مبنی کسی گیت کو قوم وو طن کے نام پر قبول کرلیں ۔
اگر اپنے عقیدہ اور عمل کے معاملہ میں ہندوستان کے شہری آزاد ہیں تو کس منطق سے مسلمان
کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ وطن کی خدائی کے تصور کو گلے لگا لے حالانکہ وہ اس کےعقیدہ
توحید کی ضد ہے۔ اگر ایسا کرنا ہےتو دستور ملکی ،شہری حقوق اور جمہوریت کو دیش سے نکال
دو اور کوئی ایسا دستور بنائو جس میں من مانی کرنے کا حق کسی ایک طبقہ یا ایک پارٹی
کو دے دیا گیا ہو۔ بصورت دیگر وندے ماترم جیسے گیت کو سب کے لیے لازم قرار دینے کی
کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معلوم رہنا چاہئے کہ مسلمانوں سے وندے ماترم گانے کا مطالبہ کرنا
اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی بھی ہے۔آخر کسی ملک سے اس سے بڑی دشمنی اور کیا
ہو سکتی ہے کہ اس کے باشندوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے اور انکی آزادی
سلب کر لی جائے ۔
عدالت کی نظر میں: یاد رہے کہ گجرات ہائی کورٹ
نے ۱۹۹۵ءمیں انجمن اسلامیہ ٹرسٹ کی جانب سے دائر کردہ مقدمہ میں مسلمانوں کے
اعتراض کو قبول کر لیا تھا کہ بھارت ماتا کا درگا دیوی کے روپ میں پیش کیا جانا اسلامی
نظریات کے خلاف ہے ۔ اور وندے ماترم کا نفاذ سیکولرازم اور دستور ہند کی خلاف ورزی
ہے ۔ ۱۹۸۷ءمیں ہندوستان کی سپرم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ’’ اگر قومی ترانہ
جن گن من سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں تو اس کے لیے اس کو مجبور نہیں کیا
جاسکتا ۔‘‘قومی ترانہ کے معاملے میں بھی کسی کو پابندنہ کرنے کا فیصلہ آجانے کے بعد
آخر کس دلیل سے بندے ماترم یا کسی دوسرے گیت کے لیے مسلمانوں کو پابند کیا جاسکتا
ہے جب کہ مذہبی بنیادوں پر انہیں اس پر اعتراض ہے ۔ وندے ماترم محض ایک گیت ہے اگر
کسی کے لیے وہ دلکش ہو سکتا ہے تو کسی کے لیے نا پسندیدہ بھی ہو سکتا ہے ایسے متنازعہ
گیت کو قومی سند عطا کرنا اور زورزبر دستی اس کا عمل میں لانا ایک ایسا غیر ذمہ دارانہ
فعل ہے جسے قانون اور عدالت بھی ناجائز ٹھہرا چکی ہے۔ (ابھی حال ہی میں اسی طرح کی
عرضی کو یوپی ہائی کورٹ بھی خار ج کرچکا ہے)
ہندوستان ایک
ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذہبوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے آباد ہیں ۔ اور یہ
سب برابر کے شہری کا درجہ رکھتے ہیں۔ بہت سی نسلیں آباد ہیں ؛الگ الگ زبانیں بولی
جاتی ہیں؛ جداجدا تہذیبی دائرے ہیں ۔کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنا مذہب، اپنی تہذیب،
اپنی زبان دوسروں پر زبردستی مسلط کرے۔ اگر ایسا ہوگا اور ایسا ہو بھی رہا ہے تو اس
کا نتیجہ کشید گی، انتشار اور علیحدگی کی صورت میں سامنے آئے گااور اس تاریخی عمل
کو طاقت کے بل پر روکا نہیں جاسکے گا ۔ہندوستان کے بارے میں فی الوقت یہی کہنا بجا
ہے اور مفید بھی کہ یہ ملک نہ صرف ہندؤوںکا ہے ،نہ صرف مسلمانوں کا، نہ کسی اور نسل
اور مذہب کا ،بلکہ ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے ۔ اگر ہندوستان کو متحد رکھنا ہے تو
ظاہر ہے کہ ہندوستانیوں کو متحد رکھنا ہوگا اور یہ اتحاد دوسروں کو تسلیم کرنے پر ہی
قائم رہ سکتا ہے نہ کہ ان کا انکار کرنے پر۔لہٰذا وندے ماترم جیسے گیت کو مسترد کرنا
ہو گا جو ایک مخصوص مشرکانہ تصور پر مبنی اور مسلمانوں کے دین و عقیدہ کے منافی ہے۔
ایسی باتوں کا دوسروں کو پابند کرنا دراصل ہندوستان کے حقیقی تصور کا مذاق اڑانا ہے۔
دیش بھگتی ( وطن پرستی) کے نام پر ایسی حرکتوں کو کس طرح برداشت کیا جا سکتا ہے جو
ملک کے اتحاد و سالمیت کو پارہ پارہ کرنے والی ہوں۔ وندے ماترم تو محض ایک گیت ہے؛
آپ کسی دیوی ،دیو تاکانام لینے پر بھی دوسروں کو مجبور کریں گے تو ہندوستان کمزور
ہوگا۔ ہندوستان توبڑا ملک ہے، ہند وسماج کو بھی اس طرح جوڑنے میں کامیابی نہیں مل سکتی
کیوںکہ اس میں کئی طرح کے عقیدے ہیں اور کتنے ہی معبودوں کی پرستش ہوتی ہے ۔وہاں رام
کو ماننے والے بھی ہندوہیں اور رام کو نہ ماننے والے بھی ہندو ہیں ۔شاید اسی لئے سنگھ
خاندان بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ( جو خود کو) ہندو کہے (وہ) ہندو ہے۔ اس کا صاف مطلب
ہے کہ کوئی بھی عقیدہ رکھتے ہوئے خود کو ہندو کہنا ہی ہندو سماج سے جوڑنے کے لیے کا
فی ہے ،کسی مستقل عقیدہ اور اصول کی پابندی لازم نہیں ہے ۔ وندے ماترم والے خود ہی
بتائیں کہ نت نئے شو شے چھوڑکراور انہیں مذہب کا رنگ دیکر کس طرح ایک مضبوط ہندو ستان
کی تعمیر کر سکیں گے؟ کوئی چاہے تو وندے ماترم کا روز راگ الاپے مگر دوسروں کو اس کا
پابند کرنا کسی طرح جائز اور مفید نہیں ہو سکتا ۔ نہ ہی اسے سرکاری سطح پر رائج کرنا
درست ہے۔
حب الوطنی یا وطن پرستی: ہم بتا چکے ہیں کہ توحید مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔ سچی خدا پرستی
یہ ہے اور یہ ہی ہےکہ اس کی بندگی و اطاعت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔خدا اپنی ذات
و صفات اور حقوق و اختیارات میں یکتا ویگانہ ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے خاندان، قوم
،علاقہ سے محبت کرتا ہے؛ ایسے فطری رشتوں کو اسلام کا ٹتا نہیں بلکہ ان کو تسلیم کرتا
ہے اور برقرار رکھتا ہے۔ آدمی کو اپنی جائے پیدائش( وطن اصلی معنی میں ) سے بھی فطری
محبت ہوتی ہے۔ جس ماحول میں وہ پلتا بڑھتا ہے؛ جس جگہ کا پانی پیتا ہے؛ جس ہوا میں
پرورش پاتا ہے اس سے قدرتی طور پر اسے لگاؤ ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے دوستوں ،رشتہ داروں
اور پڑوسیوں سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے۔ مگر اس تعلق ، محبت اور لگاؤ کا مطلب یہ نکالنا
کسی طرح درست نہیں ہے کہ انہیں خدائی کادرجہ دیا جائے اور ان کی پوجا اور پرستش شروع
کر دی جائے ۔انسانی عقل اس خطرناک غلوکا انکار کرتی ہے۔ وطن دوستی یا حب الوطنی اور
وطن پرستی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔پوجا اور عبادت صرف خدا کا حق ہے ۔جو لوگ اس
کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مطالبہ کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کسی مسلمان شخص
یا قوم کے لئے ایسا مطالبہ ہر گز ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ بحیثیت مسلمان ہم انہیں
دوٹوک انداز میں بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم وطن سے محبت کرتے ہیں مگراس کی عبادت نہیں
کرتے اور نہیں کرسکتے ۔ کسی جھجھک کے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں ’’ ہم خدا
پرست ہیں اس لئے بت پرست، قوم پرست یا وطن پر ست نہیں ہو سکتے اور اسی لئے وندے ماترم
جیسا گیت جس میں وطن کو معبود کی طرح پکارا گیا ہے ہمیں قبول و تسلیم نہیں ہے‘‘۔
ارادوں کو سمجھو: اب ہم براہ راست مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ وندے ماترم والوں کے ارادوں
کو سمجھیں۔ پردے پر ابھرتی ہوئی تصویروں میں نگاہوں کو الجھانے کے بجائے پس پردہ جھانک
کردیکھیں ۔ بابری مسجد کی شہادت ہو، یا مسلم کش فسادات کا تسلسل ؛ اردو زبان کی مخالفت
ہو یا مسلم پرسنل لاء کے خاتمہ کی سازشیں یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔ مسلمانوں
کو تقسیم ہند کا ذمہ دار ٹھہرانے سے لیکر بنگلہ دیشی قرار دیکر انہیں ملک بدر کرنے
کی منصوبہ بندی تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کوئی وقتی و ہنگامی نوعیت کا عمل یا رد
عمل نہیں ہے بلکہ جارحانہ قوم پرستی، جسکو برادران وطن کی لیڈرشپ نے نصب العین بنا
رکھا ہے، وہی سارے گل کھلا رہی ہے۔ قوم پرستی کے اس بت پر ہی سارے نذرانے چڑھائے جارہے
ہیں۔ ہندوستان کی متحدہ قومیت کی جگہ جس ہندوقومیت ( ہندوراشٹرواد) کو لا کر بیٹھا
یا جا رہا ہے اس کا مطلب ہے ہندوستان ہندؤوں کا ملک ہے؛ یہاں جو بھی رہے ہندو بن کر
رہے یا اس طرح رہے جس طرح ہندو اسے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس جارحانہ قوم پرستی کی آنکھ
میں مسلمان اور عیسائی کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں ۔ اس فسطائی ذہنیت کے بنائے ہوئے منصوبوں
، نشانوں اور ٹھکانوں میں مسلمانوں سے دوستی اور محبت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہ انہیں
حملہ آوروں کی اولاد اور ملک دشمن سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر اورترقی
کے لیے جو کارنامے انجام دئے ہیں انہیں ایک بھی نظر نہیں آتا ۔ انہوں نے جو تاریخ
گھٹری ہے اس کا منشایہ ہے کہ مسلمانوں سے انتقام لیا جائے یہاں تک کہ وہ ملک چھوڑ دیں
یا خود کو ہندؤوں کے رحم و کرم پر جینے کے لیے چھوڑ دیں۔ انگریز دشمنی اب ماضی کی
کہانی ہے مگر مسلم دشمنی تو ان کے نزدیک قومی فریضہ ہے اور ایک ایسا سیاسی حربہ بھی
جو اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے سب سے زیادہ کار آمد نظر آرہا ہے۔ بر صغیر میں ان
کے اصل حریف اب مسلمان ہیں ان کی نظر میں ہر وہ چیزمٹادینے کے قابل ہے جس سے مسلمانوں
کے دین و تہذیب کا تعلق ہے۔ اس جارحانہ قوم پرستی نے بہت تلاش کے بعد جو ہیرو بنائے
ہیں ان میں انگریزوں سے لڑنے کا درجہ بعد میں ہے بھرت سنگھ اور سبھاش چندر بوس سے کہیں
بڑھ کر شوا جی مرہٹہ اور رانا پرتاپ کا مقام ہے ۔ جن مسلمانوںنے اپنے خون سے آزادی
کا چمن سیراب کیا ان کو تو یاد رکھنے کا سوال ہی نہیں۔ ہندؤوں میں بھی یہ صرف انہیں
کو لیڈر تسلیم کرتے ہیں جن کی مسلم دشمنی جانی پہچانی ہے۔ یہ لوگ جھانسی کی رانی کے
بت لگاتے ہیں اور بیزاری کا زہر فروخت کرنا ان کے لیے سب سے زیادہ منافع بخش تجارت
ہے ان کی لغت میں وطن پرستی اور مسلم دشمنی ایک ہی معنی رکھنے والے دولفظ یا ایک پہلوہیں
۔ہر وہ شے جسے مسلمان قائم رکھنا چاہتے ہیں اسے مٹا دینا ہی بہادری ہے ۔ ہر وہ بات
جسے مسلمان ناپسند کرتے ہیں اس کا نام قومی فخر اور قومی مفاد(راشٹریہ گورو،راشٹریہ
ہت) رکھ دیا گیا ہے۔
اس پورے منظر
نامے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جذباتیت اگر غلط ہے تو مرعوبیت اس سے بھی زیادہ غلط
ہے۔ دونوں سے اوپر اٹھ کر جائزہ لینا اور حکمت عملی مرتب کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ
ہے۔ جذباتیت سے روکنے والے تو بہت سے دانشور اور ناصح موجود ہیں مگر مرعوبیت اور غیر
اللہ کے خوف سے بچانے کے لیے کوئی نہیں اٹھ رہا ہے پہلا راستہ دوسروں کے ہاتھوں نقصان
پہنچنے کا ہو سکتا ہے۔ مگر دوسرا راستہ خود کشی کا رویہ ہے جس کی ذمہ داری بعد از مرگ
خود پر ہی آئے گی ۔ یہ کیسا علم ہے ؟ یہ کیسی دانش ہے؟ یہ کہاں کا ایمان ہے ؟
جو خدا سے بے
خوف اور دشمنان خدا سے خوفزدہ کر رہا ہے۔ افسوس کہ یہ عقیدہ رکھنے والے کہ ’’سب کو
مر کر خدا کے حضور پہونچنا ہے‘‘ اپنی قومی پالیسیاں اس طرح وضع کر رہے ہیں جیسے انہیں
کبھی مرنا ہی نہیں ۔ جان بچا نا ہی سب سے بڑی عقلمندی سمجھ رہے ہیں چاہے ایمان بچے
یا نہ بچے۔
یاد رہے کہ اس ملک کے عام باشندے جارحانہ قوم پرستی کے حامی نہیں ہیں اور ابھی تک
قومی سطح پر ہندؤوں اور مسلمانوں کی کوئی لڑائی بھی شروع نہیں ہوئی ( اگرچہ ہندو جارحیت
کے علمبردار اس کی تیاری میں مصروف ہیں ) اس لیے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ہمیں اس بات
کو یاد رکھنا ہے کہ ہمارا مقابلہ ہندوتو کا جھنڈا اٹھاکر چلنے والوں سے ہے ؛ اس ملک
کے عام ہندؤوں یا اکثریت سے نہیں ہے۔ آرایس ایس،بی جے پی،و شوہندو پریشد اور ان کے
حامی ہمیں مغلوب و مرعوب کرنے کے لیے یہ تأثر دے رہے ہیں کہ انہیں سارے ہندؤوں کی
تائید و حمایت حاصل ہے ۔انہیں ہمارے مقابلہ میں ہندؤوں کو متحد کردینا آسان بھی لگتا
رہا ہے۔ ہندو سماج پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے وہ نفرت کی بنیاد پر مصنوعی تاریخ
کے سہارے اور غزنوی، غوری، بابراور اور نگ زیب کی ہیبت دلا کر اپنا مقصد حاصل کرنے
میں لگے ہیں ۔مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ ابھی ایسا
ہے جو ان باتوں میں نہیں آتا اور اگر آپ اپنا موقف ان کے سامنے رکھیں گے تو وہ اس
کا مثبت اثر قبول کریگا۔ ہندوستان میں دراصل کسی کی اکثریت نہیں ہے۔ جارح ہندو قوم
پرست لیڈر بھی جانتے ہیں کہ برہمنی سامراج کے بارے میں یہاں کے آدی باسی ، کول ، بھیل،
دراوڑ کیا رائے رکھتے ہیں ۔انہیں یہ بھی یاد ہے کہ برہمنی سسٹم نے ان کے ساتھ کیا سلوک
روارکھا ہے؛ کس طرح انہیں ملیچھ اور پاؤں کی جوتی بناکر رکھا گیا؛ کس طرح انہیں سیاسی
طور پر بے اثر بنا کر جنگلوں ، پہاڑوں اور سمندروں کے ساحلوں پر دھکیل دیا گیا اور
آریوں نے قدرتی وسائل معیشت پر بالادستی حاصل کرکے کس طرح ان لوگوں کو جنہوں نے مقابلہ
کی سکت کھودی تھی غلام بنا کر ایسی ذلیل ترین زندگی گذارنے پر مجبور کیا جس کی کوئی
مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔انہیں ایسا عقیدہ دیا جو غلامی پر رضا مند کردے؛
ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دئے گئے؛ انہیں گدھوں ، گھوڑوں، بیلوں او ر کتوں کی طرح
زندہ رہنے کو چھوڑ دیا گیا ۔اسی ذلیل تجربہ کو مسلمانوں پر دہرانے کی ہندو قوم پرستی
کے جھنڈے تلے منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں ۔مسلمانوں کے ارباب علم و دانش اور رہنماؤں
کو بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس وقت ہمارے وطن میں کیا ہو رہا ہے اور ہمیں کیا
کرنا ہے ۔مرصع تقریروں ، خوشنما یادداشتوں ، محدود سوچ ، تنگ تنظیمی حلقوں اور مسلکی
خانوں میں بٹ کر رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دیا جا سکے گا؟ یہ سوال اپنا جواب مانگتا
ہے۔
دوٹوک بات: موجودہ حالات میں ان لوگوں کے کرنے کا کوئی کام نہیں ہے جو مقابلہ کا
حوصلہ کھو چکے ہیں ؛ جنہیں اپنی متاع گمشدہ کے حصول کی تمنا ہی نہیں رہی ؛جو ہر قدم
پسپائی کےلیے آمادہ ہیں؛ جن کے سامنے کھانے پینے اور مرجانے کے سوا زندگی کا کوئی
مقصد نہیں ہے ؛وہ جو حاکمان وقت کے چشم و ابر کے اشاروں کو تقدیر الٰہی کا درجہ دئے
ہوئے ہیں؛ جنہیں خدا کے بے لاگ قانون پہ یقین نہ رہا ہو؛ یہ لوگ جو آقاؤں کے دستر
خوان پر بچے کھچے ٹکڑوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں اور تاریخ سے غافل اور
مستقبل سے بے پرواہو کرزندگی کے دن کاٹ رہے ہیں ۔ایسے لوگ ،ایسی تنظیمیں ، ایسی قوم
کوئی تاریخی کردار پہلے ادا کر سکی ہیںاور نہ آئندہ ایسا ہوگا ۔انہیں لوگوں میں کچھ
وہ بھی ہیں جو وندے ماترم جیسے گیت کی بے جا تاویلات پیش کررہے ہیں اور نت نئے ترجمے
سامنے لا رہے ہیں ۔کہتے ہیں اس میں حرج کیا ہے۔ ان سے پوچھئے اگر غیرت نہ ہو تو بھیک
مانگنے میں کیا حرج ہے؟بے پردگی میں کیا عیب ہے؟ یہی بے ضمیر لوگ ہیں جوہر وقت تبدیلی
کے حامی بن کر اٹھتے ہیں بشرطیکہ کچھ دنیا بنتی نظر آتی ہو۔ کیا بعید ہے کل کہیں کہ
تلک لگانے میں کیا حرج ہے؟(زعفران ہو تو صحت کے لیے مفید بھی ثابت کیا جاسکتا ہے) چوٹی
رکھنے میں کیا حرج ہے؟ یہ سب اس لیے کہ درخت کا وجود پیار انہ ہو تو شاخیں کا ٹنے اور
پتے توڑنےمیں کیا حرج محسوس ہو سکتا ہے۔ باہمی رواداری ،خیر سگالی، فرقہ وارانہ تعلقات
جیسی اصطلاحوں کا سہارا لیکر سارا حرجانہ انہیں کے سر ڈالا جا تا ہے جو اپنی دینی و
تہذیبی شناخت کو باقی رکھنے کے خواہشمند ہیں ۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثہ بے سود ہے
؛بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے۔
سیکولر ھاتھ……کمزور سھارا
’’ہندو تو‘‘یاجارحانہ قوم پرستی سے تحفظ اور مقابلے کی بات آتی ہے تو
سیکولرازم تک بھی پہونچتی ہے ۔اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ میدان مقابلہ میں صرف دوہی
حریف ہیں تو کسی ایک کا ہی انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اس غلط مفروضہ کی بنیاد پر جو سیاسی
حکمت عملی بنتی رہی ہے ،اسے کسی طرح صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔پچاس برس بیت گئے یہ
نسخہ پیش کیا جارہا ہے اور استعمال بھی ہو تا رہا ہے کہ فسطائیت کو روکنا ہے تو سیکولرازم
کے ہاتھوں کو مضبوط کرو۔ مگر حاصل سامنے ہے ۔مسلمانوں کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں
ہو سکا بلکہ جارحانہ ہندو قومیت اور سیکولر طاقتوں نے ملکر ان کے مسائل میں اضافہ کیا
ہے ۔ اول تو ہندوستان کے بازار سیاست میں ان ہاتھوں کی تلاش ہی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے
۔اصلی سیکولرازم ، نقلی سیکولرازم ،سائینٹیفک سیکولرازم سے لے کر گاندھی کا سیکولرازم
اور باجپائی کاسیکولرازم نہ جانے کتنے ناموں اور خوشنما اشتہاروں کے ذریعہ یہ دوا فروخت
ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ پر ہیز کا مطالبہ بھی لازمی قرار دیا جاچکا ہے ۔مسلم تنظیم سے
پرہیز ،مسلم لیڈر شپ سے پرہیز تو حددرجہ ضروری ہے؛ زیادہ معیاری پرہیز یہ ہے کہ اسلام
کے سیاسی واجتماعی تصور سے پرہیز کیا جائے۔ ہندوستان کی ملت اسلامیہ کے سیاسی مریضوں
نے مع پرہیز کے باربار یہ نسخہ استعمال کیا ،مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔اور
ذرا غور سے دیکھئے تو ہندوفاشزم اور ہندوستانی سیکولرازم دونوں کی مشترک قدروں کی کرشمہ
سازیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ یونی فارم سول کوڈ سے لیکر وندے ماترم کے گیت تک دونوں
میں کتنا اختلاف ہے؟ ایک نفرت انگیز ناول کے ایک مشرکانہ گیت کو اتنا اونچا رتبہ کس
نے دیا ؟ کیا ہندو جارحیت کے علمبردار تنہا اس راگ کو الاپتے ہیں یا خود کو سیکولرازم
کی نقیب اور ترجمان کہنے والی کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیاں بھی انکی ہمنوا ہیں؟
کیا ایک فرضی داستان (ناول) آنند مٹھ کی صدسالہ تقریبات کی تجویز کا نگریس کے ممبر
اسمبلی نے پیش نہیں کی تھی ؟ کوئی شک نہیں کہ وندے ماترم اور آنند مٹھ ناول کی مخالفت
کرنے والے بھی متعدد سیکولر ہندولیڈر بھی ہیں مگر یہ بھلادینا کہاں کی حساب دانی ہے
کہ بنگال کی فارورڈبلاک پارٹی نے اپنے ممبران اسمبلی کو باقاعدہ وہپ جاری کرکے کانگریس
ممبرکی اس تجویز کی حمایت کرنے کو کہا تھا جو اس ناول کی تقریبات کے لیے پیش کی تھی
۔یہ صحیح ہے کہ مسٹر کلیم الدین شمس اور سی۔پی۔ایم کے بعض لیڈروں کی مخالفت کی وجہ
سے تجویز نا منظور ہوگئی مگر کتنے سیکولر چہروں کے نقاب آئے دن الٹتے رہتے ہیں اور
یہ سوال اپنی نزاکت اور اہمیت کے ساتھ سامنے آتا رہتا ہے کہ جارحانہ ہندوقوم پرستی
کے منحوس ارادوں اور ناپاک منصوبوں کا مقابلہ کیا صرف سیکولرازم کے کمزور ہاتھوں کو
مضبوط کر کے کیا جاسکتا ہے؟
آنکھیں کھول کر دیکھو: گذرے ہوئے پچاس برسوں کا ایک ایک دن پکار رہا ہے کہ جب اور جہاں مسلمانوں
نے اپنے کسی حق کا مطالبہ کیا، کسی ظلم کے خلاف شکایت کی آواز بلند کی تو سیکولر پارٹیوں
کا سہارا کام نہیں آسکا ، عدالت کا نظام ، انتظامیہ کا ڈھانچہ انہیں انصاف نہیں دلاسکا۔
صرف یہی نہیں کہ ان کا حق نہیں ملا یا ان کی شکایت نہیں سنی گئی بلکہ الٹا انہیں کو
موردالزام ٹھہرایا گیا؛ ان کے زخموں پر مرہم کی جگہ نمک چھڑکا گیا؛ ان پر علیحدگی پسندی
اور فرقہ پرستی جیسے فقرے کسے گئے اور کچھ زر خرید اور نام نہاد مسلمانوں سے وہ سب
کچھ کہلوایا گیا جو مسلمانوں کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آج بھی ہوس اقتدار
کا بندہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور کانگریس کے غلام نبی آزاد جیسے سیکولر مسلمان ایسی
ہی بولیاں بول رہے ہیں جو سراسر مسلمانوں کے خلاف ہیں اور وحید الدین خاں صاحب جیسے
دانشور وں کی مفید خدمات بھی حاصل کرلی گئی ہیں نیزقومی آواز جیسے سیکولراخبار کے
صفحات بھی ان کے لیے حاضر ہیں ۔
غرض یہ کہ اردو
کے تحفظ کی جدو جہد ہو یا وندے ماترم سے انکار کی بات، ان سارے کاموں کے لیے ہمیں خدا
پرایمان اور خود اعتمادی کے ساتھ اٹھنا ہوگا اور خود کو ایک طویل کشمکش کے لیے تیار
کرنا ہوگا ۔یہ سوچنا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے یا ہمیں کچھ نہیں کرنا چاہیے؛ ایک گمراہ
کن سوچ ہے، خود کشی کا فیصلہ ہے ، نامرادی اور بے غیرتی کی علامت ہے۔
جب ہم خدا پر
ایمان اور خود اعتمادی کے راستہ پر چلنے کو کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ
ہم حالات واسباب سے آنکھیں بند کر کے چلنے کو کہتے ہیں ہماری اس بات کا ایسا مطلب
کو ئی شر یر یا جاہل انسان ہی لے سکتا ہے ہمارا مطلب یہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم سب کو
دشمن سمجھتے ہیں اور کسی سے تعاون لینے کو بالکلیہ مسترد کرتے ہیں ۔ افسوس کہ بات کو
سمجھے بغیر چہروں کا رنگ زرد ہو جاتا ہے، کتنے ہی مدعیان دین و دانش کے تیور بدل جاتے
ہیں ۔ یہ سارا خوف یہ ساری ناراضگی حقیقت فراموشی اور کوتاہ فہمی کا نتیجہ ہے ۔ کاش
ایسانہ ہوتا ۔ اے کاش یہ لوگ جان لیتے کہ حق وباطل کی کشمکش میں انکا کیا مقام ہے؟
دوسروں پر بھروسہ کس حد تک ناجائز ہے؛ عزت بھیک مانگ کر نہیں ملتی؛ اور حق کس طرح طلب
کیا جاتا ہے؛ اور خدا فراموشی کی سزا کتنی بھیانک ہے!