قطب العالم حضرت خواجہ سید اسماعیل چشتی علیہ الرحمہ


 

ہندوستان کی سرزمین ایک بابرکت سرزمین ہے بزرگوں کی سرزمین ہے، بزرگان دین نے اپنے وجود ہائے مسعود سے ہندوستان کو شرف و سعادت بخشی ہے ، ان حضرات کی بدولت ہندوستان کے مشرق و مغرب و شمال و جنوب میں اسلام پھولا پھیلا اور اب بھی پھول پھل رہا ہے اور ان شاء اللہ تبارک و تعالیٰ تا قیامت یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، غیر منقسم ہندوستان میں اسلام کی نشر و اشاعت جس ذات ستودہ صفات کے ذریعہ زیادہ ہوئی ہیں ، اس ذات گرامی کا نام نامی خواجہ خواجگان سلطان الہند عطائے رسول حضور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، آپ اور آپ کے خلفائے عظام نے ہندوستان میں اسلام کی بڑی ترویج و اشاعت کی توحید ورسالت کا آواز بلند کیا، جس کا انکار کوئی باشعور و منصف نہیں کر سکتا ہے۔

سر چشمہ رشد و ہدایت واقف اسرار ورموز امین امانت بوتراب سلطان الہند حضور خواجہ غریب نواز کے بھانجے مرید وخلیفہ شیخ الاسلام والمسلمین حضور مخدوم خواجہ سید شاه اسماعیل چشتی علیہ الرحمۃ والرضوان ، رفعت و عظمت کے مالک تھے اسلام کے مبلغ و موید تھے ، آپ نے تاحیات جام شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت سے لوگوں کو سیراب کیا، اور شرک وکفر کے خوگر کی ایک بڑی تعداد وحدہ لاشریک کی پرستار ہوگئی۔ یہی تاریکی ہدایت کے اُجالے میں آگئی۔

آپ کا اسم گرامی :

 حضرت خواجہ سید اسماعیل چشتی ۔

ولادت مبارکہ :

 ۱۳ / شعبان المعظم ۵۶۷ بروز دوشنبہ صبح صادق

بمقام :چشت ایران

والد گرامی :

 حضرت خواجہ سید الحق قادری علیہ الرحمہ

 والدہ ماجدہ:

 ولیہ کاملہ بی بی ام الخیر۔

ماموں جان:

 خواجہ خواجگان سلطان الہند عطائے رسول حضور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بشارت :

 آپ  علیہ الرحمہ کے جد امجد حضرت خواجہ سید داؤد علیہ الرحمۃوالرضوان ۔فرماتے ہیں کہ ان کی ولادت کے وقت میں اپنی خانقاہ میں تھا اولیائے کرام نے مجھے مبارکباد دی اور فرمایا کہ آپ کے شہزادے کے یہاں جو بچہ تولد لیا ہے ان کی ایک شان ہوگی ، ولایت کے مالک ہوں گے، دنیا ان سے فیض پائے گی۔

سلسلہ نسب:

 حضرت کا اٹھارہ واسطوں سے سلسلہ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔

فيضان غوث اعظم :

 حضور خواجہ سید اسماعیل چشتی علیہ الرحمہ کےوالد ماجد حضرت خواجہ سید الحق قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عیہ  کے حقیقی پوتے حضرت شیخ ابونصر قادری رضی اللہ عنہ بن حضور عبد الرزاق قادری رضی اللہ عنہ سے بیعت وخلافت حاصل تھی ۔ حضور سید الحق قادری علیہ الرحمۃ والرضوان زبر دست علم و فضل کے مالک تھے۔

تعلیم و تربیت :

آپ  علیہ الرحمہ نے پوری تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد سے حاصل کی بڑے ذہین و فطین تھے جلد ہی آپ نے علوم و فنون میں دسترس حاصل کر لی۔

بیعت و خلافت :

 آپ علیہ الرحمہ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو اپنے سگے بھائی سلطان الہند خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی کی خدمت میں پیش کیا حضور خواجہ پاک علیہ الرحمہ نے اپنی پے فیض صحبت و معیت سے ان کے ظاہر و باطن کو پرنور کیا، پانچ چلے کرائے پھر بیعت وخلافت سے سرفراز کیا سر پر کلاہ رکھی ، سبز عمامہ عطا کیا اور ایک خاص گدڑی مرحمت فرمائی۔اپنے ماموں و پیر و مرشد کی بارگاہ میں کچھ مدت گذاری پھر آپ کے ماموں جان سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ نے خدمت خلق و رشد و ہدایت پر مامور فرمایا ، حضرت نے پر رشد و ہدایت کے لیے دندھیا چل ، مرزا پور ، رینوکوٹ اور مضافات بنارس کو منتخب فرمایا ان علاقوں میں کفر و شرک کی دبیز چادر پڑی تھی ، جہالت و ضلالت میں تھے لوگ ۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی خدادا دصلاحیت وقوت سے ہدایت کا چراغ روشن کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقه لا الہ الا الله محمد رسول الله کے نغمہ سے گونج اُٹھا اور تاحیات اس علاقے کے لوگوں کو نوازتے رہے، عشق و عرفان کی دولت سے لوگوں کو مالا مال کرتے رہے ، آپ کے بعد آپ کی اولا دو امجاد نے خطے میں آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔حضرت کے شہزادے حضرت خواجہ میر سید تاج الدین چشتی علیہ الرحمہ اور پوتے حضرت خواجہ میرسید علاؤ الدین چشتی علیہ الرحمہ کے مزارات مبارکہ قدیم بنارس میں موجود ہیں ، یادر ہے کہ حضور خواجہ اسماعیل چشتی علیہ الرحمہ کو والد گرامی کی طرف سے بھی خلافت واجازت ملی تھی اور جانشینی بھی عطا کی تھی۔

زہدورع :

اکل حلال و صدق مقال اور اوراد وظائف کے پابند تھے حق گوئی و بیبا کی میں کسی لومة لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، متواضع خاکسار اور منکسر المزاج تھے۔ فرض کو اپنے نانا جان سردار دو جہاں محمد مصطفے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بجائےو پیروی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے تھے۔

آپ کے شہزادگان:

 جہاں آپ علیہ الرحمہ کے فیضان سے مستفیض تھے وہیں اکابر بزرگان دین کے فیوض و برکات سے بھی مالا مال تھے۔حضرت علیہ الرحمہ کے شہزادے حضرت خواجہ سید تاج الدین علیہ الرحمہ کو حضور قطب الدین بختیار کا کی علیہ الرحمۃ والرضوان سے بیعت و خلافت حاصل تھی ، اور والد گرامی حضور خواجہ اسماعیل چشتی علیہ الرحمہ سے بھی خلافت حاصل تھی  اور حضرت کے پوتے حضرت خواجہ سید علاؤ الدین قدس سره حضور با با فرید الدین گنج شکر رضی اللہ عنہ کے مرید و خلیفہ تھے، اور آپ علیہ الرحمہ اپنے والد ماجد سے بھی خلافت حاصل کی اور جانشین ہوئے، اور حضرت کے پر پوتے حضرت خواجہ جمال الدین علیہ الرحمہ سلطان المشائخ حضور خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید و خلیفہ تھے ، اور اپنے والد ماجد سے بھی خلافت حاصل کی اور جانشین ہوئے ، اور حضرت خواجہ جمال الدین چشتی علیہ الرحمہ کے فرزند قطب العالم حضرت میر سید محمد الملقب بہ گیسو در از حضرت محبوب المشائخ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرید و خلیفہ تھے۔

وصال مبارک:

 تقریباً پنچانوے سال کی عمر میں ۶ رجب المرجب کو آپ واصل بحق ہوئے ، آپ کا مزار شریف کشت شریف مرزا پور میں ہے۔اور پورے اہتمام کے ساتھ ۶ رجب المرجب کو آپ کا عرس مقدس منعقد ہوتا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں زائرین کا مجمع ہوتا ہے۔

حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ

 

نام مبارک :

آپ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے ایک عظیم المرتبت بزرگ ہیں آپ کا نام سیدنا شیخ جلال الدین تبریزی سہروردی ہے۔

 کنیت: ابوالقاسم ہے اور تبریز کی نسبت سے تبریزی مشہور ہوئے۔

ولادت با سعادت:

حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ 532ہجری بمطابق 1137عیسوی میں تبریز میں رونق بخش عالم ہوئے۔

والد محترم:

آپ علیہ الرحمہ کے والد گرامی کا نام اسم گرامی سیدنا شیخ محمد سہروردی ہے آپ شیخ المشائخ حضرت شیخ بدرالدین ابو سعید تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ کے دست گرفتہ تھے آپ کے والد ماجد نہایت دیندار تقوی شعار پرہیزگار صوفی زمانہ بزرگ تھے۔

بادشاہت :

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ تبریز کے بادشاہ تھے۔ عرصہ دراز تک شاندار عدل و انصاف کے ساتھ تبریز کی بادشاہت فرماتے رہے۔لیکن جب بادشاہت سے دل اچاٹ کھا گیا تو بادشاہی ترک کر کے اپنے بیٹے کے سپرد کی اور بہت سا مال و نقد لے کر حضور شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں حاضر ہوے اور وہ مال و دولت حضور شیخ الشیوخ کی بارگاہ میں پیش کیا حضرت نے وہ زر و نقد و مال قبول نہ فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ مال و نقد خدا جل جلا لہ کی راہ میں مساکین فقراء محتاجوں کو دے دو چنانچہ حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے وہ مال محتاجوں میں بانٹ دیا اور پرانا لباس زیب تن فرمایا۔

ارادت و خلافت :

 حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ حضرت بدرالدین ابو سعید تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ کے مرید تھے چونکہ قدرت خداوندی نے آپ کا نصیبہ شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں لکھ دیا تھا لہذا آپ اپنے مرشد کے وصال کے بعد تبریز سے بغداد شریف چلے گئے اور حضور شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر سہروردی علیہ الرحمہ سے اپنا نصیبہ حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے سات سال تک آپ کی صحبت میں رہ کر سخت مجاہدے کیے سلوک و معارفت کی منازل طے کیں اس کے بعد مرشد گرامی نے آپ کو خرقئہ خلافت سے سرفراز فرمایا اور تبلیغ دین و خدمت خلق کا حکم دیا ۔

لقب وکنیت :

 سلطان الاولیا، شیخ المشایخ، گنج رواں، گنج بخش،ابوالقاسم

کمالات :

عالم، عارف ، تارک السلطنت ،مصنف،صاحب ولایت بنگالہ وغیرہ۔

تصانیف جلیلہ :

حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ تصنیف و تالیف بزرگ تھے ۔ آپ علیہ الرحمہ کی طرف دو معرکۃ الآراء رسالے منسوب ہیں :

 (۱) شرح نو دونہ نام کبیر : یہ رسالہ خدائے بزرگ و برتر کے اسماے گرامی کی توضیح وتشریح پرمشتمل ہے ۔

(۲) مرآۃ الاسرار : اس میں خدائےتعالی کے اسرار ورموز اور حقائق و دقائق کا بیان ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔ دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی ج ۱۸ کی درج ذیل عبارت سے آپ کے ان دونوں رسالے کی تائید بھی ہوتی ہے: ” دورسالہ شرح نو دونہ نام کبیر ومرآۃ الاسرار را بہ جلال الدین تبریزی نسبت داده اند۔ (قریشی ،ص:۱۸۴؛ ۸، قد وی ،ص:۱۱۳)حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کے علم وعرفان میں بے مثال ہونے کی دلیل ان کے اقوال عارفانه وفرمان فاضلانہ بھی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہیں۔

ہند میں آمد :

 آپ علیہ الرحمہ مرشد کے حکم سے برائے تبلیغ دین مبین بغداد معلا سے ہند کے دارالخلافہ دہلی تشریف لائے اور کچھ مدت یہاں قیام فرماکر لوگوں کو فیضیاب کرتے رہے پھر یہاں سے بدایوں تشریف لے گئے۔آپ کا نور برستا چہرہ تقوی و طہارت کا مرقع تھا جو بھی آپ کے نوربار چہرے کو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا اللہ جسے توفیق دیتا وہ آپ کے چہرے کے دہدار سے مشرف بہ اسلام ہوجاتا اور اعمال صالحہ کرنے لگتا چنانچہ فوائدالفواد میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک روز حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ گھر کی دہلیز پر بیٹھے ہوے تھے کہ ایک دہی فروش دہی کی مٹکی سر پر رکھے اس گھر کے سامنے سے گزرا جب اس کی نظر حضرت کے چہرے پر پڑی تو دل کی دنیا بدل گئ جب اس نے غور سے حضرت کا چہرہ دیکھا تو بولا دین محمدی ﷺ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں اور فوراً ایمان لے آیا حضرت نے اس کا نام علی رکھا اور اس کو بدایوں کا قطب مقرر کر کے سارا علاقہ اس کے سپرد کر دیا"اس کے بعد آپ یہاں سے بنگال روانہ ہو گئے ۔

بنگال میں آمد :

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ بدایوں سے بنگال تشریف لائے بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کے بعد سب سے پہلے جو بزرگ یہاں تشریف لائے وہ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ تھے بنگال میں سب سے پہلے آپ نے دیوتلا میں نزول اجلال فرمایا وہاں سے پنڈوہ گور یعنی لکھنوتی تشریف لائے ۔

دیو ہلاک ہو گیا :

بنگال کے دیوتلا پر آپ کا پہلا قدم پڑا تھا یہاں قدم رکھتے ہی ایک دیو کو آپ نے ہلاک کر دیا جیسا کہ فوائدالفواد میں شیخ المشائخ محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "ولایت تو اسی کا نام ہے جو حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کو حاصل تھی کیوں کہ جب انہوں نے ہندوستان کا ارادہ فرمایا تو ایک شہر میں آئے وہاں ایک دیو تھا وہ ہر رات ایک آدمی کو کھا جاتا تھا حضرت شیخ نے اس دیو کو پکڑ لیا اور ایک لوٹے میں قید کر دیا اس شہر کا چودھری ہندو تھا جب اس نے یہ کرامت دیکھی تو تمام لوگوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا پھر حضرت کچھ مدت تک وہاں رہے اور حکم دیا کہ ایک خانقاہ تعمیر کریں جب خانقاہ تیار ہو گئ تو ہر روز بھکاری کو بازار سے لے آتے تھے اس کا سر تراشتے تھے اس کو بیعت کرتے تھے اور کہتے کہ میں نے تجھ کو خدا تک پہنچا دیا اسی طرح 50 بھکاری صاحب سجادہ کر دہے اور ہر ایک کو صاحب کرامات کر دیا" جب آپ نے بنگال میں پہلا قدم رکھا تھا تو یہ ملک دیوتاؤں کا گڑھ تھا لیکن اب کایا پلٹ چکی تھی سارا ملک آپ کا مرید ہو گیا اور آپ کے فیضان سرمدی سے پورا ملک بقعہ نور بن گیا تھا۔آپ علیہ الرحمہ کی تبلیغ سے بنگال و بنگلہ دیش و ہند کے علاقے توحید کی دل نواز صداوں سے گونجنے لگے۔ آپ علیہ الرحمہ نے بنگال اور ہند کے مختلف علاقوں میں نہایت خوش اسلوبی سے تبلیغ اسلام کے فرائض سر انجام دیے تھے ہزاروں لاکھوں کفار داخل اسلام ہوے انہوں نے قبول اسلام کے لیے کسی غیر مسلم کو مجبور نہیں کیا تھا بلکہ غیر مسلم آپ کے عادات و اطوار طہارت و پاکیزگی دیکھ کے خود بخود اسلام قبول کر لیتے تھےحضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ نے بنگال و بنگلہ دیش,پنڈوہ شریف,دیوتلا,گواہاٹی آسام,بندر دیومحل,سنارگاؤں,کامروپ کوچک پھاڑ،بلکہ پورے بنگال و بنگلہ دیش،بدایوں،یوپی وغیرہ میں جو خدمات اسلام انجام دی ہیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔

علوے شان :

 حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ بہت عالی ہمت و بلند پایہ بزرگ تھے آپ کی قدر و منزلت اور عظمت شان کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز ،حضرت غوث بہاءالدین زکریا ملتانی ، حضرت بابا فرید گنج شکر، خواجہ حسن موئے تاب حضرت علی کھیری وغیرہم علیہم الرحمہ جیسی ہستیوں نے آپ سے اکتساب فیض فرمایا۔ اور حضرت علاءالدین اصولی ( حضرت نظام الدین اولیاء کے استاذ ) قطب بدایوں حضرت شیخ علی حضرت قاضی قطب الدین جعفری حضرت برہان الدین وغیرہم علیہم الرحمہ جیسے خوش نصیب مشائخ کو آپ سے ارادت و خلافت کا شرف حاصل ہوا۔

چلہ گاہیں :

 ملک بنگال و بنگلہ دیش میں جگہ جگہ آپ کی چلہ گاہیں موجود ہیں جن میں دیوتلا کے قریب بندر دیومحل،پنڈوہ شریف شہر وغیرہ کی چلہ گاہیں زیادہ مشہور ہیں۔آپ علیہ الرحمہ نے بنگال میں جگہ جگہ مساجد و لنگر خانہ قائم کیے جن کے نشانات و اثرات آج بھی موجود ہیں۔

کرامت : اولیاءاللہ کی کرامتیں حق ہیں اور قرآن و حدیث میں بھی اولیائے کرام کی کرامتوں کا بیان ہوا ہے حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ صاحب کرامات بزرگ تھے آپ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا ہیں جن مں سے چند ایک یہاں پیش کی جاتی ہیں ۔

کفرستان بنگالہ میں ورود:

حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ  کا ورود پنڈ وہ میں غالبا۱۱۹۷ء میں ہوا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی ۔ اس زمانے میں پنڈ وہ کفر وشرک اور بت پرستی کا گہوارہ تھا۔ یہاں پر تالاب کے کنارے ایک بہت بڑا مندر تھا ، جس میں سینکڑوں بت رکھے ہوۓ تھے، بہت سارے پجاری ان معبودان باطلہ کی پرستش میں مصروف تھے ۔ شب و روز ناقوس کی منحوس صدائیں ہر چہار جانب بلند ہوتی تھیں، کفر وضلالت کے گھن گرج بادل برس رہے تھے، پورا پنڈوہ اسی کے ناپاک پانی سے سیراب ہور ہا تھا ۔ اس مندر کے سبب بنگال بھر میں پنڈ وہ کو شہرت عام حاصل تھی ۔ دور دور سے اہل ہنود اس بت خانہ کی زیارت کے لیے آتے تھے ،اہل کفر وشرک کا بڑا اجتماع ہوتا تھا اور پنڈ وہ زیارت گاہ اہل ہنود و مرکز کفر وشرک بنا ہوا تھا۔ سید بذل الرحمن نے شیخ جلال الدین تبریزی کی را جالکھن سین کے ساتھ ملاقات اور پنڈوہ کی تاریخی حیثیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:مشہور مورخین کے بیان کے مطابق شیخ جلال الدین تبریزی کی راجا لکھن سین کے ساتھ ملاقات کن ۱۱۹۷ء میں یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد ہوئی ۔ اس زمانے میں پنڈوہ ہندو دھرم کا بڑا مرکز تھا، یہاں پر بے شمار بت تھے اور ان گنت دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہورہی تھی اور ہر طرف گھنٹی کی آواز سنائی دے رہی تھی‘‘ ۔  شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ نے تن تنہا اس کفرستان میں مخلوق خدا کی دعوت وتبلیغ کے لیے قدم رکھا اور ایک درخت کے نیچے اپنا مسکن بنایا۔ کچھ دنوں کے بعد جب پجاریوں نے آپ کو درخت کے نیچے آرام کرتے ہوئے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے اور آپ کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھنے لگے ۔ شیخ کو جب بھوک لگتی تو درخت کے پتے کھالیتے ، کپڑے میلے ہوتے تو از خود تالاب میں دھو لیتے ۔ جب آپ کپڑے دھونے کے لیے ہندوؤں کے تالاب میں جاتے تو وہ بہت شور وغل مچاتے اور آپ کا مزاق اڑاتے لیکن آپ کچھ پرواہ کیے بغیر اپنے کاموں میں لگے رہتے ۔

گوبر سنا بن گیا :

 جب آپ پنڈوہ شریف آئے اور ایک گائے کے چرواہا کی جگہ بیٹھ گئے تو اس چرواہا نے کہا تم کون ہو کہاں جا رہے ہو ؟ یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں حضرت نے جواب دیا میں جو ہوں سو ہوں تمہیں کیا جب بات مزید بگڑ گئ اور سارے گاؤں والے وہاں جمع ہوے تو شیخ نے گاوں والوں سے کہا مجھے چوتھائی چاہیے آج کے لیے صبر کرو اور دیکھو اس پر چرواہا نے کہا گوبر کا ڈھیر اگر سونا بن جائے تو جو تمہیں چاہیے وہ میں دونگا اس پر حضرت نے کہا کیا تمہارے پاس شیر کا چمڑا ہے مجھے اتنی سی جگہ ہی دے دو سب نے ہاں کہدیا پھر شیخ نے کہا اس گوبر کے ڈھیر پر راکھ ڈال دو اور رات میں اس میں آگ لگادو اور تم سب کل صبح آجانا اور دیکھنا اس کے بعد سب لوگ وہاں جمع ہو گئے اور دیکھا کہ گوبر کا ڈھیر اب سونا بن چکا ہے اور سب آپس میں بانٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

شیر کی کھال نے پورا گاؤں گھیر لیا :

حضرت نے کہا میں ابھی بھی زمین کے اتنے حصہ کا انتظار کر رہا ہوں جتنا ایک شیر کے چمڑے سے ڈھک جائے لوگوں نے کہا جتنا چاہیے اتنا لے لیجیے حضرت اٹھے اور شیر کے چمڑے کو زمین پر بھیلا دیا اور وہ چمڑا بڑھنے لگا یہاں تک کہ اس نے سارا گاؤں گھیر لیا لوگوں کو کوئی جگہ نہ ملی جہاں وہ کھڑے رہ سکے لوگوں کو پریشانی ہونے لگی اب ہمارا کیا ہوگا شیخ نے کہا تم لوگ پریشان کیوں ہوتے ہو لوگوں نے کہا ہم نے آپ کی طاقت دیکھ لی اب بتائیں ہم کیا کریں حضرت نے کہا ڈرو مت چین سے رہو اب میں زمین کا مالک ہوں لوگوں نے حامی بھر لی پھر حضرت نے کہا اب میں اس علاقے میں اللہ تعالی کا گھر بناؤں گا ۔

بھوتنی کو جلا ڈالا :

ایک دن ایک قاصد راجا کے قدموں میں گر کر کہنے لگا نندی نام کی ایک بھوتنی کھیتوں پر قابض ہے لوگوں کو روزانہ ختم کر رہی ہے اس پر راجا خاموش رہا حضرت نے یہ دیکھتے ہوے راجا سے کہا تم کیسے خاموش رہ سکتے ہو جب اس طرح کی پریشانیاں تمہارے ملک میں ہیں چلو میرے ساتھ ایک مشیر کو ساتھ لے کر دونوں وہاں گئے حضرت نے اس بھوتنی پر غصہ سے نظر ڈالی نندی جل کر راکھ ہو گئ سارے علاقے میں امن ہو گیا راجا نے وہ زمین حضرت کو دے دی حضرت نے اس جگہ کا نندوا ( شاید پنڈوہ ) نام رکھا اس طرح اور بھی آپ کی کرامات کثیرہ ہیں جن کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔

وصال با کمال:

 حضرت جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ نے 7 رجب المرجب 642ھ میں اس دار فانی سے دار بقا کی سمت وصال فرمایا۔حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپ وصال کے بعد مسکرا رہے تھے مرید نے پوچھا آپ تو رحلت کر چکے ہیں مسکرا کیوں رہے ہیں آپ نے فرمایا عارفوں کا یہی حال ہے ۔(راحت القلوب)

تاریخ وفات:

شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کی تاریخ وفات کے سلسلے میں مورخین کی رائیں مختلف ہیں ۔ چنانچہ صاحب خزینۃ الاصفیاء مفتی غلام سرور نے سن وفات ٦٤٢ہجری تحریر کیا ہے۔

آپ کا مزار اقدس کہاں ہے؟

یہ عجیب اتفاق ہے کہ سال وفات کی طرح آپ کے مزار پر انوار کے متعلق بھی مورخین کا بڑا اختلاف ہے ۔ مولانا غوثی مانڈوی نے گلزار ابرار میں، ابوالفضل نے آئین اکبری میں ، حامد بن فضل اللہ جمالی نے سیر العارفین میں اور غلام حسین خان نے سیر المتاخرین میں لکھا ہے کہ آپ کا مزار بندردیومحل میں ہے۔ جبکہ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ سلہٹ موجودہ بنگلہ دیش میں ہے ۔ مگر تحقیق یہ ہے کہ آپ کا مزار انوار کوہ کوچک علاقہ کا مروپ ،صوبہ آسام میں ہے، جس کی تصدیق مشہور مورخ و سیاح ابن بطولہ کے اس بیان سے ہوتی ہے:"ساتگام سے میں کامرو کے پہاڑوں کی طرف ہولیا ۔ یہ ملک ساتگام سے ایک مہینہ کے رستے پر ہے ۔ یہ بہت وسیع پہاڑی ملک ہے اور چین اور تبت سے ملحق ہے ۔اس ملک کے اکثر باشندوں نے شیخ جلال الدین تبریزی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے ۔ ان کا ایک ہمراہی مجھ سے کہتا تھا کہ انہوں نے اپنے سب دوستوں کو مرنے سے ایک دن پہلے بلایا اور وصیت کی کہ خدا سے ڈرتے رہو میں ان شاءاللہ کل تم سے رخصت ہوں گا۔ ظہر کی نماز کے بعد آخر سجدہ میں ان کا وصال ہو گیا ۔ غار کے برابر ایک کھدی ہوئی قبر نکلی ،اس پر کفن اور خوشبو موجودتھی۔انکے ہمراہیوں نے غسل دیا اور کفن پہنا کر نماز پڑھی پھر دفن کردیا. خدا ان پر رحمت کرے"(سفرنامہ ابن بطوطہ(اردو ترجمہ)علاوہ ازیں کوہ کو چک کے قرب و جوار میں رہنے والوں کا بیان آپ کے مزار پرانوار کے متعلق یہی ہے۔ شیخ محمد اکرام نے بھی دیوتالہ میں آپ کے مزار کے ہونے کی تردید کی ہے اور اپنی راۓ

 یہی ظاہر کی ہے کہ آپ کا روضہ انورکوہ کو چک پر ہے چنانچہ وہ تحریر کرتے ہیں ضلع مالدہ صوبہ مغربی بنگال سے آٹھ ، دس میل دور قصبہ تبریز آباد کے نواح میں ایک جگہ دیوتالہ یا دیوتلاو ہے لیکن یہاں پر بھی شیخ جلال الدین تبریزی کا چلہ خانہ ہے مزار نہیں ۔ بنگالہ کے سفر میں بعض اہل تحقیق نے راقم الحروف سے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ شیخ نے اخیر عمر میں عزلت نشینی اختیار کر لی تھی اور وہ گوہاٹی صوبہ آسام سے چند میل دور ایک پہاڑی پر ایک دشوارگزاراورنسبتا غیر معروف بلکہ ہیبت ناک جنگل میں مدفون ہیں ۔‘‘

موضع مزار کی تفصیل:

گوہاٹی سے پانچ میل کی دوری پر پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ وہ پہاڑی وادی الگ الگ ناموں سے مشہور و معروف ہے ۔ اس کا بلند ترین پہاڑ کوہ کوچک ہے جو اس وقت بوندا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسی کوچک پہاڑ کے اوپر ایک غار ہے جو شخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کی ابدی آرام گاہ ہے اور مخلوق خدا کے لیے قبلہ حاجات ہے ۔حضرت کی وفات کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آپ کا نام لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہے اور آپ کے عشاق اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ان پر خطر پہاڑی راستوں سے ہوتے ہوئے آپ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ہیں اور آپ کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ہیں ۔ تذکرہ شیج جلال الدین تبریزی/ مفتی ذاکر حسین اشرفی جامعی، استاذ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف/حضرت جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ,تذکرةالواصلین,نفحات سہروردیہ / بشکریہ :سید محمد نذیر میام سہروردی حفظہ اللہ )

 


حضرت شاہ جمال محمد عرف جمن جنتی قادری پھلواروی علیہ الرحمہ


 

 آپ علیہ الرحمہ  حضرت امام محمد تاج فقیہ ہاشمی قدس سرہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔

 شجرہ نسب:

شاہ جمال محمد بن شاہ محمد ماہ بن شاہ حسیب اللہ بن شیخ بھولا بن شیخ محبوب بن شیخ محمد بن شیخ عبدالقادر بن شاہ چاند بن قاضی ہیگن بن شیخ منہاج الدین بن شیخ اسماعیل منیری بن امام محمد تاج فقیہ ہاشمی قدس سرہ۔

 بیعت و خلافت:

 تاج العارفین شاہ مجیب اللہ قادری پھلواروی قدس سرہ

 تاج العارفین شاہ مجیب اللہ قادری آپ کو جمن جنتی کہ کر بلاتے تھے۔ آپ دنیا سے دور اور الگ تھلگ رہنا پسند فرماتے۔ جوانی سے آخر دم تک سخت ریاضتیں کیں اور ہمیشہ شیخ کی خانقاہ میں گوشہ نشیں رہے۔ نہایت متقی و پرہیزگار تھے۔ آپ نے بارہ برس تک سوکھی روٹی کھا کر گزارا کیا اور اس عرصے میں روزہ بھی رکھا۔ چھ سال تک بغیر تیل مسالہ کے کھچڑی کھائی۔ آپ کبھی کسی پر غصہ نہ ہوئے۔ کسی کے ساتھ کبھی سخت کلامی نہیں کی۔

 آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، جو دراصل ان کے عشق الہی میں دل سوختگی کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک دن رات ایک وضو سے سماع میں بیٹھے رہ گئے۔ صرف نماز کے لیے اٹھتے اور محفل میں بیٹھ جاتے۔ تاج العارفین کے چار ابدال خلفاء میں ایک آپ بھی تھے۔
 
وصال پرملال :

 جمعرات، ١٩ رجب المرجب ١٢٠٨ ہجری

 آستانہ پاک :

 باغ مجیبی، پھلواری شریف، پٹنہ

قطب العالم مخدوم شاہ خادم صفی محمدی علیہ الرحمہ


ولادت باسعادت:

اس پیشین گوئی کے مصداق حضرت قطب العالم مخدوم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ ہوئے۔ آپ ۱۲؍ رجب ۱۲۲۹ھ (۳۰؍ جون ۱۸۱۴ء) کو دوشنبہ کی رات صفی پور میں پیدا ہوئے۔

نسب و حسب:

آپ کے والد کانام حضرت شاہ عطاے صفی تھا۔ آپ حضرت بندگی شیخ مبارک کی اولاد میں ہیں۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

حضرت شاہ خادم صفی بن شاہ عطاے صفی بن شاہ محمدمعصوم (جن کا تذکرہ چند صفحات قبل گزرا۔) ۔آپ کی والدہ ماجدہ بھی بہت پارسا اور خدا رسیدہ تھیں۔ والدہ صاحبہ کی طرف سے بھی آپ فاروقی تھے۔آپ کے نانا شیخ فیض اللہ بن حضرت شاہ غلام پیر رحمہما اللہ تعالیٰ تھے۔ والد و والدہ ہر دو کا سلسلۂ نسب شیخ دانیال بن شیخ عبد الرزاق (نبیرۂ بندگی شیخ مبارک) پر ایک ہو جاتا ہے۔

ابتدائی احوال، تعلیم و تربیت

آپ مادرزاد ولی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت لہو ولعب کی طرف مائل نہیں تھی۔ بچپن سے پرندے پالنے کا شوق تھا جو ہمیشہ رہا۔ بچپن میں حضرت شاہ غلام زکریا قدس سرہٗ نے آپ کی ایک خدمت گزاری پرخوش ہوکر فرمایا تھا کہ ہم نے تمہاری ایک امانت برادرم حفیظ اللہ شاہ کو سپردکردی ہے، جب سن شعور کو پہنچوگے تمہیں مل جائے گی۔

آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہٗ کے شاگرد مولانا شیخ چراغ علی علیہ الرحمہسے حاصل کی اور مثنوی مولوی معنوی، سبع سنابل اور تصوف وسلوک کی چند کتابیں مولانا حکیم ہدایت اللہ صفی پوری پڑھیں۔ ہرعلم وفن میں کسی نہ کسی کواپنااستاد بنایا۔ علم برائے عمل حاصل کیا۔ ہمیشہ اس کو واسطہ خیال کیا اور اصل مقصد کوپیش نظررکھا۔

 ابتداے عمر سے ہی احکام شرعیہ کے پابندتھے، ہمیشہ ہر سنت و مستحب پر نظر رکھتے تھے۔ مسائل شرعیہ کی نہایت تحقیق فرماتے تھے اور باوجود علم و آگہی علماسے ضرور استفسار فرماتے تھے ۔ابتدا سے ہی دل طلب مولیٰ کے جذبے سے سرشار تھا۔
بیعت و خلافت:

باشعور ہونے کے بعدمرشدکامل کی تلاش ہوئی۔اس وقت صفی پور میں حضرت مخدوم محمدحفیظ اللہ شاہ قدس سرہ کا فیض جاری تھا، جو آپ کے حقیقی ماموں تھے۔ بیس سال کی عمرمیں آپ نے ان کے دست حق پرست پر بیعت کی۔ بیعت کے بعد حالت مزیدبدل گئی، صرف یادالٰہی سے کام رہا۔ اسی زمانے میں چچازاد بہن سے آپ کا عقد مسنون بھی ہوگیا۔ ازدواجی زندگی میں مصروف ہونے کے باوجود طلب مولیٰ کے جذبےمیں کوئی کمی نہ آئی۔ مجاہدات و ریاضات کے پہلے ہی سے عادی تھے، مرشدکے حکم کے مطابق اس راہ میں مختلف قسم کی شدتیں برداشت کرنی پڑیں اور ایک دن ان تمام مجاہدات شاقہ کی تپش سے کندن ہو گئے ۔ بالآخر ماہ ذی قعدہ ۱۲۵۵ھ / جنوری ۱۸۴۰ء میں جمعہ کے روز مرشدگرامی نے تمام روحانی نعمتوں سے نوازا اور اجازت وخلافت سے سرفراز فرما کر مسند ارشاد پر فائز کیا ۔

اخلاق

آپ خُلق نبوی ﷺ کے آئینہ دار تھے۔ اسی حسنِ خُلق کی وجہ سے غیروں نے بھی آپ کو تسلیم کیا اور اکثر راہِ راست پر آئے۔ آپ کی بارگاہ میںطالبین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ موجود رہتی جن کی تعلیم و تلقین کو آپ اپنادینی و منصبی فریضہ خیال کرتے ہوئے ان کی ہر طرح کی کفالت بھی فرماتے۔

حاضر یا غائب کسی کی برائی نہیں کرتے تھے۔

۱۲۵۵ھ / ۱۸۴۰ء میں جب حضرت مخدوم حفیظ اللہ شاہ نے اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا تو آپ نے اپنی تمام جائداد یہاں تک کہ ذاتی گھربھی مرشد کو نذر کردیا اور خود مرشد کے عنایت فرمودہ گھرمیں رہنے لگے۔

آپ نے عمرکی صرف ۵۸ بہاروں کو دیکھا۔ زندگی کے اکثر حصے عبادت و ریاضت اورتنگی میں گزارے۔ آپ ۱۲۷۷ھ کے بعد مسلسل بیمار رہے اور درمیان میں والدہ کے اصرارپرعلاج ومعالجہ کی غرض سے لکھنؤ اور کان پورجانے کا اتفاق ہوا۔

ایام علالت میں پیرو مرشد کی عیادت بھی حاصل رہی،مرشدکی دعاکی برکت سے مکمل صحت یاب بھی ہوئے۔ اس کے شکرانے میں مرشدکے وصال (۱۲۸۱ھ) کے بعد مزار مبارک پر چادرپیش کی اور اپنے مرشد زادے حضرت امیر اللہ شاہ کوعمامہ، پیرہن اور نقد نذر کیا۔ مرشدِ برحق کے مرقد منوّر کی چادر پر یہ شعر نقش کرایا:

در بشر رو پوش گشتہ آفتاب

فہم کن واللہ أعلم بالصواب

(بشر کے پردے میں آفتاب روپوش ہوگیا ہے، اس بات کو سمجھو، اللہ درستی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔)

سفر:

آپ ساری عمر صفی پور میں رہے اور صرف ضرورت کے تحت آس پاس کے چند ایک مقامات پرچھ سات بار جانا ہوا۔ علاج کے لیے کان پور کے سفر کے دوران جاجمؤمیں حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی قدس سرہٗ (جو آپ کے اجدادمیں آتے ہیں) کی درگاہ میں حاضر ہوئے۔

حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی کی درگاہ پرجب آپ پہلی بار حاضر ہوئے تو خلاف عادت بہت ساری قبروں کا لحاظ نہ کیا اور ان پرپاؤں رکھتے ہوئے داخل ہو گئے۔ معمول کے خلاف یہ عمل دیکھ کرلوگوںکوحیرت ہوئی۔تھوڑی دیربعدآپ نے فرمایا کہ ان قبروںمیں کوئی مدفون نہیں ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ پرانے زمانے میں امراء و وزراء، بزرگوں کی قبروں کے قریب دفن ہونے کی خواہش کرتے تھے، ان کودور رکھنے کے لیے لوگوں نے بہت سی مصنوعی قبریں بنادی تھیں۔ ([3])

کان پورمیں قیام کے درمیان حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے ملاقات ہوئی۔ دونوں بزرگوں کے مابین پر لطف صحبت رہی۔ آخری ملاقات کے روز آپ نے حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے فرمایاکہ آج آپ کا گھر بے رونق نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا : گھر چونکہ پرانا ہو چکا ہے، مزدور اس کی مرمت میں لگے ہیں، شکست و ریخت درست کر رہے ہیں، اسی لیے ایسا نظر آرہا ہے۔ جب حضرت اقدس اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لائے تو فرمایا: شاہ صاحب کی وفات کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ اس کے دوسرے یا تیسرے روز حضرت شاہ غلام رسول قدس سرہ کا وصال ہوا۔ 

عادات و اطوار:

آپ روپئے پیسے کو ہاتھ سے نہ چھوتے مگر محفل سماع میں جب کوئی نذر دیتا تو کبھی اس کے ہاتھ کو پکڑ کر قوال کے سامنے کر دیتے اور کبھی خود دست مبارک سے اٹھا کر دے دیتے، یا پیر ومرشد کو اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے کو جب نذر دیتے تب ہاتھ لگاتے۔ نہ دنیاداروں کی محفل میں جاتے اور نہ کسی کے گھر کا کھانا تناول فرماتے۔

آپ توبہ کرانے اور بیعت لینے میں تاخیر نہ فرماتے، لیکن آخر ایام میں بہت کم بیعت لیتے تھے۔ مرید کرنے کی خواہش کو بہت مذموم جانتے تھے۔ فرماتے تھے:

درویشی کی پہلی شرط یہ ہے کہ مرید کرنے کا حریص نہ ہو۔

چودھری حشمت علی سنڈیلوی نامی گرامی تعلقہ دار اور بڑے رئیس تھے۔ انہوں نے آپ کو بذریعۂ خط بیعت کی غرض سے دعوت دی۔ آپ نے بہ مصداق ’’ اگر جنبد زمیں جُنبَد، قطب از جا نمی جُنبَد ‘‘(زمین جنبش کر سکتی ہے لیکن قطب اپنی جگہ پر مستحکم رہتا ہے)اُسی خط پر یہ دو شعر لکھ کر روانہ فرما دیے اور خود تشریف نہیں لے گئے:

کرا دماغ کہ از کوئے یار برخیزد

نشستہ ایم کہ از ما غبار برخیزد

(کس میں یہ حوصلہ کہ یار کے کوچے سے اٹھ سکے! ہم تو ایسا بیٹھے ہیں کہ ہمارا غبار ہی اٹھے گا)

نہ نالے کے قابل نہ فریاد کے

پھنسے دام میں ایسے صیاد کے 

آپ کی غذا بہت قلیل تھی اور چونکہ دعاے سیفی (حرزِ یمانی ) آپ کے ورد میں تھی، اس لیے مچھلی اور بڑے گوشت سے پرہیز فرماتے تھے۔

آپ کی نظروں میں بڑی تاثیر اور جاذبیت تھی۔ سید ارادت حسین اثناعشری محفل سماع میں ہنسے، آپ نے پلٹ کر دیکھا وہ فورا تڑپنے لگے۔ محفل کے بعد تائب ہو کر مرید ہو گئے۔ ان کے اعزّہ انہیں مجتہد تک لےگئے لیکن کچھ نہ ہوا،آخر مجتہد نے کہا کہ ان پر پڑھا ہوا جن سوار ہے ۔

اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے ۔

ارشادات

آپ قولاً و فعلاً ہر وقت خلقِ خدا کی خیر خواہی اور فائدہ رسانی پر آمادہ رہتے۔ باطنی ہمت، دعا تعویذ، مالی امداد اور زبانی ارشاد سے ہمہ وقت لوگوں کی دلجوئی اور ہدایت کا سامان فراہم کرنا، آپ کی حیاتِ مبارکہ کا روشن ترین باب ہے۔

آپ کے ملفوظات معرفتِ الٰہیہ کا مخزن ہیں، تفصیل کا یہ مقام نہیں ، اس لیے ذیل میں بالاختصار آپ کے چند ارشادات ’مخزن الولایت والجمال‘ (مؤلّفہ حضرت شاہ عزیز اللہ صفی پوری) سے نقل کیے جاتے ہیں۔

• کوئی شخص اگر آسمان میں اُڑے اور ذرہ برابر شریعت کی خلاف ورزی کرے تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ۔ اس کے کشف و کرامت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔

• اگر مرید پایۂ طریقت سے گرا تو شریعت اس کا مقام ہے، اگر شریعت سے بھی گرا تو اُس کا ٹھکانا کہاں!

• آخری زمانہ ہے، اب اگلوں سا وقت کہاں! برتن میں تلچھٹ باقی ہے اسے ہی چاٹ لینا چاہیے۔

• زمانہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے خالی نہیں ہے، اس وقت بھی ایسے بہت سے بندے ہیں کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ البتہ بہت نازک دور ہے، اب دن مثلِ رات تاریک ہیں ، اگر کسی سے خرق عادت کا ظہور ہوا تو لوگ اسے جاں بہ لب کر دیں گے اور فرصت ہی نہ دیں گے -

• طالبِ صادق جب تک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی ایک کا تابع نہیں ہوگا، منزل مقصود تک نہیں پہنچے گا۔

• رسمی مرید تو بہت ہوتے ہیں لیکن حقیقی مرید بہت کم ہوتے ہیں - حقیقی مرید وہی ہے جو بالکلیہ پیر کے نقش قدم پر ہو۔

• مرید جو کچھ پیر کو کرتا دیکھے اس پر عمل نہ کرے بلکہ جو پیر کہے اس پر عمل کرے۔ [یعنی مرید کو عزیمت پر عمل کرنا چاہیے، رخصت پر عمل شیخ کے حکم سے کرے ]

• مرید اگر ظاہری شکل و صورت بھی اپنے پیر کی طرح نہ کر سکا تو اس سے آگے اور کیا ہو سکتا ہے!

• مرید وہی ہے جس میں مرشد کی بو آتی ہو- شاخ میں جب تک قلم نہیں لگتی اس میں لذیذ پھل نہیں آتا۔

• محض اسلامِ تقلیدی (یعنی نام کا اسلام) کام نہیں آتا ہے، جب تک کہ حقیقی ایمان حاصل نہ ہو جائے۔

• طالب کو کشفِ صدر اور کشفِ قبر کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے ، جتنا ہو سکے طلب خدا میں جد و جہد کرے کیونکہ مَن لَه المَولٰی فَلَه الکُلُّ(جس کا رب ، اُس کا سب۔)

• بعض لا (مقام نفی) میں رہ گئے اور بعض الا اللہ (اثبات) میں ، کوئی کوئی ہی حقیقت محمدی ﷺ تک پہنچ سکا، جس کی رسائی یہاں تک ہوئی وہی کامل ہے ورنہ وہ کمال سے بے بہرہ ہے-

• لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم شیخ زادے اور پیرزادے ہیں! در اصل یہی چیز راستے کی رکاوٹ ہوتی ہے۔

• لوگ جو ہمارے پاس آتے ہیں نرمی اور مدارات کی وجہ سے آتے ہیں، اگر ایک دن بھی ان کی طرف نظرِ التفات نہ کروں تو کوئی نہ آئے۔

• جن یا خبیث جو بھی ہو مقابلہ (سامنا) کرتا ہے، لہٰذا جس جگہ ڈر محسوس ہو وہاں پلٹ کر نہ دیکھے۔

آثار

آپ ہندی میں اکثر چیزیں ارشاد فرماتے، فارسی اور اردو میں نسبۃً کم کہتے۔ آپ کا عرفانی کلام آپ کے دیوان موسوم بہ ’اسرارِ حقیقت‘ میں جمع ہے۔ 

آپ کے ملفوظ کے دو مجموعے ہیں:

(۱) نغمۂ طریقت (تاریخی نام: نغمۂ صوفیہ ۱۲۸۶ھ) آ پ کے مرید وخلیفہ مخدومی حضرت شاہ محمد شفیع قیس صفی پوری (م ۱۳۳۶ھ/ ۱۹۱۸ء) نے فارسی زبان میں مرتب فرمایا۔ ۱۳۲۴ھ / ۱۹۰۶ء میں قیصر ہند پریس الٰہ آباد سے شائع ہوا۔

(۲)مخزن الولایت والجمال (۱۲۸۶ھ) جسے آپ کے عزیز خلیفہ، مخدومی شاہ محمد عزیز اللہ عرف منشی ولایت علی صفی پور ی (م ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۸ء) نے جمع کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد ولاجواب ملفوظ ہے۔ اس میں آپ کی سوانح کے ساتھ آپ کے خلفاکے بھی مختصر حالات درج ہیں۔ ۱۳۰۰ھ میں مطبع انوار محمدی، لکھنؤ سے طبع ہوا ۔ یہ بھی فارسی میں ہے۔ اردو ترجمہ پاکستان سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوچکا ہے۔

اولاد و امجاد:

آپ کے ایک صاحبزادے حضرت نیاز صفی تھے، جو تین سال کی عمر میں ہی وفات پا گئےاور ایک صاحبزادی مُنیا بی بی رحمہا اللہ تھیں جو حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ کو منسوب تھیں۔ منیا بی بی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ۱۳۰۷ھ/ ۱۸۸۹ء میں ان کی وفات ہوئی۔

خلفاءکرام:

سلسلۂ صفویہ جس طرح سے آپ کی ذات سے شائع ہوا، بندگی شیخ مبارک قدس سرہ کے بعد کسی کی ذات سے اس کی ایسی اشاعت نہیں ہوئی۔ ۴۲؍نفوس قدسیہ کی تکمیل فرما کر ان کو اجازت وخلافت سے سرفرازفرمایا، جن میں سے سب کے سب اپنے وقت کے کامل مرشداور رہنماکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے دست حق پرست پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعدادمیں لوگ تائب ہوئے اور ان کے ذریعے طالبین مولیٰ نے اپنے مقصد حیات تک رسائی حاصل کی

کعبۃ العشاق باشد این مقام

ہر کہ ناقص آمد این جا شد تمام

(یہ بارگاہ عشاق کا مرکز ہے، اس کے گرد جو بھی ناقص آیا اس کی تکمیل ہوئی )۔

(۱) حضرت خلیفۃاللہ شاہ عرف شاہ امیراحمد(جانشین)

(۲) حضرت ذوالفقاراللہ شاہ عرف الطاف محمدصفی پوری

(۳)حضرت کریم اللہ شاہ عرف کریم بخش (صفی پور)

(۴)حضرت عظمت اللہ شاہ (فرخ آبادی)

(۵)حضرت حبیب اللہ شاہ عرف رمضان خان بانگرموی (سیتل گنج)

(۶)حضرت یقین اللہ شاہ عرف سیدقمرعلی پنجابی ثم لکھنوی

(۷)حضرت عطاء اللہ شاہ عرف عطا حسین صفی پوری

(۸)حضرت عنایت اللہ شاہ صفی پوری

(۹)حضرت مولاناحافظ شاہ عبدالرحمن ترہوانی

(۱۰)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سیدمظہرحسین لکھنوی

(۱۱)حضرت اہل اللہ شاہ عرف مشرف علی دہلوی ثم میرٹھی

(۱۲)حضرت مبارک اللہ شاہ عرف مبارک حسین

(۱۳)حضرت ظہوراللہ شاہ عرف اجپل شاہ ملتانی

(۱۴)حضرت مولاناحافظ شوکت علی سندیلوی

(۱۵)حضرت سعادت علی شاہ رام پوری

(۱۶)حضرت امیراللہ شاہ اناوی

(۱۷)حضرت شرافت اللہ شاہ (آسیون،انائو)

(۱۸)حضرت نوراللہ شاہ عرف نور محمدخان (گھاٹم پور، کانپور)

(۱۹)حضرت اسداللہ شاہ عرف چودھری محمدخصلت حسین (رئیس سنڈیلہ)

(۲۰)حضرت قل ہواللہ شاہ عرف قاضی عبدالغفور (بارہ بنکی)

(۲۱)حضرت مراد اللہ شاہ عرف مداربخش ( لکھیم پور کھیری)

(۲۲)حضرت کلیم اللہ شاہ عرف فرزندحسن (نیوتنی،اناؤ)

(۲۳)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سرفراز علی (سانڈی، ہردوئی )

(۲۴)حضرت وجہ اللہ شاہ عرف مولوی فیض محی الدین (ہردوئی)

(۲۵)حضرت کرامت اللہ شاہ بانگرمؤی

(۲۶)حضرت رحیم اللہ شاہ عرف سالار بخش کانپوری

(۲۷)حضرت احسان اللہ شاہ صفی پوری

(۲۸)حضرت خوب اللہ شاہ اناوی

(۲۹)حضرت سیدشاہ یعقوب علی ترکواسی (گڑگاؤں،ہریانہ )

(۳۰)حضرت شاہ محمدشفیع صفی پوری

(۳۱)حضرت برحق اللہ شاہ حقانی اناوی

(۳۲)حضرت شاہ نیازحسین بانگرموی

(۳۳)حضرت انواراللہ شاہ عرف نورمحمدمحمودنگری لکھنوی

(۳۴)حضرت کفایت اللہ شاہ (بلہور،کانپور)

(۳۵)حضرت سیدیعقوب علی موہانی (موہان، اناؤ)

(۳۶) حضرت اظہاراللہ شاہ عرف نیازمحمدصفی پوری

(۳۷) حضرت خلیل اللہ شاہ عرف حکیم خلیل الدین خان طبیب لکھنوی (الٰہ آباد)

(۳۸) حضرت روح اللہ شاہ عرف مولوی حسین علی صفی پوری ثم سندیلوی

(۳۹) حضرت احمداللہ شاہ عرف مولوی احمدعلی موہانی (صفی پور)

(۴۰) حضرت بشارت اللہ شاہ صفی پوری

(۴۱) حضرت عین اللہ شاہ عرف خلیل احمدصفی پوری

(۴۲)حضرت عزیزاللہ شاہ عرف منشی محمدولایت علی خان صفی پوری رَحِمَهُمُ اللهُ

 ان ۴۲؍حضرات کے علاوہ ۲۹؍ مردوں اور ۷؍عورتوں کو پیالہ نوش فقیربنایا۔

فقیر داس:

شیو چرن موضع تکیہ (لکھنؤ)کے رہنے والے ایک صاحبِ کمال برہمن تھے۔ حضرت اقدس کو خواب میں دیکھ کر حاضرہوئے، بعینہٖ وہی صورت پائی جو نظر آئی تھی، آپ کے سچے بھکت ہوئے اور مرید ہوگئے۔ حضرت صاحب قبلہ نے فقیر داس نام رکھا اور خلفا کی طرح تعلیم فرماکر صاحب اجازت کیا ،ان کے بہت سے چیلے ہوئے۔ 

جانشینی و تولّیت:

حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شیخ امیر احمد قدس سرہ آپ کے جانشین ہوئے۔ حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ آپ کے داماد اور بھتیجے تھے۔ پیر و مرشد نے آپ کے حق میں فرمایا تھا کہ میرے فرزند، لخت جگر اور جان و مال کے مالک ہیں۔ آپ اپنے مرشد گرامی کے آخری خلیفہ تھے۔ پیرو مرشد نے وصال سے صرف ۳؍ دن پہلے آپ کو اجازت و خلافت عطا کی اور جانشین مقرر فرمایا۔حضرت شاہ امیر احمد صفوی نے زوجۂ اولیٰ (بنت حضرت صاحب) کی وفات کے بعد دوسراعقد انیس بی بی سے کیا، وہ بھی لا ولد رہیں۔حضرت خلیفۃ اللہ شاہ عرف شاہ امیر احمد کا وصال ۷؍ ذو الحجہ ۱۳۱۴ھ / ۱۸۹۷ء کو ہوا۔ حضرت شاہ عزیز صفی پوری نے درج ذیل تاریخ کہی۔

جانشینِ مرشدِ ما رفت آہ

خوش برآمد جانِ او از کالبد

مصرعِ تاریخ بنوشتم عزیز

 شاہ امیر احمد گلِ فردوس شد

حضرت شاہ امیر احمد قدس سرہ کے بعد درگاہ شریف اور جائداد کی منتظم آپ کی اہلیہ انیس بی بی ہی رہیں۔ انہوں نے اپنے بھتیجے سید خادم علی بن سید فرزند علی اور ان کے چھوٹے بھائی سید ناظم علی کو اپنا وارث نامزد کیا۔حضرت مواہب اللہ شاہ عرف سید خادم علی رحمہٗ اللہ کو بیعت اور اجازت و خلافت حضرت شاہ شمشاد صفی محمدی قدس سرہ سے تھی اور اُنہی کی منجھلی صاحبزادی سے عقد بھی ہوا، جن سے ایک صاحبزادے حضرت سید ضیاء خادم عرف نوابو میاں یادگار ہوئے۔

حضرت خادم علی میاں کی حیات کے آخری دنوں میں کچھ ناچاقی اور نا اتفاقی کے سبب ان کے چھوٹے بھائی جناب سید ناظم علی میاں نے درگاہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لیا اور متولّی ہوئے۔ حضرت سید خادم علی میاں نے اپنے صاحبزادے سید ضیا خاد م عرف نوا بو میاں کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا۔ حضرت خادم علی صاحب کی وفات ۲۲؍ رجب ۱۳۹۶ھ / ۱۹۷۶ء میں ہوئی اور ان کے صاحبزادے حضرت نوا بو میاں رحمہ اللہ کی وفات ۱۶؍ ذی القعدہ ۱۴۲۳ھ / ۲۰۰۳ء کو ہوئی۔ اب آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سید ضیا عارف عرف ببو میاں آپ کے جانشین ہیں۔

درگاہ شریف کے متولی جناب سید لائق ناظم بن سید ناظم علی صاحب ہیں، جو معاملہ فہم، ذی شعور اور بہتر انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

وصال پرملال:

قطب العالم حضرت مخدوم شاہ خادم صفی محمدی کا وصال ۱۳؍ رجب ۱۲۸۷ھ مطابق ۹؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء بروز یک شنبہ کو ہوا۔ مزار مقدس صفی پور میں مرجعِ خلائق ہے۔