حضرت امام
موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے فرزند اور ساتویں
امام تھے آپ رضی اللہ عنہ حضرت خواجہ سید معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے
نسبی جد بزگوار ہیں۔
کنیت:
ابوالحسن، ابو ابراہیم، اور ابوعلی
ہے۔
اسم گرامی:
موسیٰ۔
لقب:
کاظم، صالح اور صابر ہے۔
سلسلہ نسب :
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت
امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن علی امام زین العابدین بن
سید الشہداء امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ (رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین )۔
والدہ ماجدہ :
آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ کا
اسمِ گرامی امِ ولدحمیدہ بربریہ تھا۔
ولادت باسعادت :
آپ
رضی اللہ عنہ کی ولادت بروز اتوار،7صفرالمظفر 128 ھ بمقامِ ابواء (مکہ اور مدینہ
کے درمیان ایک جگہ کانام جہاں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبرِ انور ہے) میں
ہوئی۔
تعلیم و تربیت :
خاندانی روایت کےمطابق آپ نے تمام علوم ظاہری
وباطنی اپنے والدِگرامی سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے حاصل کیے۔تمام علوم
میں مہارتِ تامہ حاصل کی ،یہاں تک کہ اپنے وقت کےجید علماء کی صف میں شامل ہوگئے
۔بلکہ تمام اعلیٰ نسبتوں اور فضیلتوں اور علم وتقویٰ کی بدولت تمام پر سبقت لے
گئے۔ساداتِ بنی ہاشم کے نیرِ اعظم، علم وتقویٰ کے مہرِ کامل،سرورِ عالم ﷺ کے علم
واوصاف، شریعت وطریقت اور خاندانی عظمت و شرافت کے امین ،مولا علی کرم اللہ وجہہ
الکریم اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی علمی وخاندانی وراثت کے وارثِ کامل
سیدنا ابوالحسن امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ۔آپ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے
ولیِ کامل تھے۔فرزند
رسول حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ تقریبا" 35 سال مسند امامت پر فائز
رہے مگر اس میں سے بیشتر حصہ قید و بند میں گزارا یا پھر جلا وطن رہے۔یہ حالات اس
بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں اہل بیت کے سلسلے میں عباسی حکمرانوں کی
سختیاں اور دشمنی کس قدر شدت اختیار کرگئی تھی جس چیز نے فرزند رسول حضرت امام
موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کو اپنے دور کے حالات کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا
وہ مسلمانوں پر حکم فرما فاسد سیاسی اور سماجی نظام تھا ۔عباسی حکمرانوں نے حکومت
کو موروثی اور آمرانہ نظام میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کے محل بھی حکمرانوں کے لہو ولعب
اور عیش و نوش, شراب و کباب کا مرکز تھے اور ان بے پناہ دولت و ثروت کا خزانہ تھے
جو انہوں نے لوٹ رکھے تھے۔جبکہ مفلس و نادار طبقہ غربت ، فاقہ کشی اور امتیازی
سلوک کی سختیاں جھیل رہا تھا۔اس صورتحال میں فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم رضی
اللہ عنہ لوگوں کی سیاسی اور سماجی آگہی و بصیرت میں اضافہ فرماتے اور بنی عباس کے
حکمرانوں کی روش کو اسلامی تعلیمات کے منافی قراردیتے۔دوسری طرف خلیفہ ہارون
الرشید اس بات کی اجازت نہيں دیتا کہ لوگ فرزند رسول حضرت امام موسیٰ کاظم رضی
اللہ عنہ کے علم و فضل کے بحر بیکران سے فیضیاب ہوں اور وہ اس سلسلے میں لوگوں پر
سختیاں کرتا ۔لیکن ہارون الرشید کی ان سختیوں کے جواب میں فرزند رسول حضرت امام
موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کا ردعمل قابل غور تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ ہر مناسب وقت سے
فائدہ اٹھا کر اللہ رب العزت کے حضور نماز اور تقرب الہی میں مصروف ہوجاتے۔آپ رضی
اللہ عنہ پرجتنا بھی ظلم و ستم ہوتا وہ صبر اور نماز سے سہارا لیتے۔آپ رضی اللہ
عنہ ہرحال میں صبر و شکر ادا کرتے۔
بصرہ کا
زندان باں "عیسی بن جعفر" کہتا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ فرزند رسول
حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ پر ہر لحاظ سے نظر رکھوں یہاں تک کہ چھپ چھپ کر
ان کی دعاؤں کو سنتا تھامگر وہ فقط درگاہ اللہ رب العزت سے طلب رحمت و مغفرت
کرتےاور وہ اس دعا کی بہت زيادہ تکرار فرماتےاللہ تو جانتا ہے کہ میں تیری عبادت
کے لئے ایک تنہائي کی جگہ چاہتا تھا اور اب جبکہ تو نے ایک ایسی جگہ میرے لئے مہیا
کردی ہے۔میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں۔"آپ رضی اللہ عنہ اپنی کثرت عبادت کے
باعث اہل مدینہ میں ’’عبدصالح ‘‘کے لقب سے جانے جاتے تھے۔فرصت کے لمحات جوار
پروردگار میں گزارتے تھے۔آپ کو کبھی فارغ نہیں پایاگیا۔سرکاری جلاد بھی آپ کی
عبادت گزاری سے نہایت متاثر ہو جایا کرتے تھے جس کے باعث حکومت وقت کی طرف سے ان
کا تبادلہ کردیا جاتا۔اس پر بھی جب حکمرانوں کو تسلی نہ ہوتی تو آپ کا زندان بدل
دیاجاتا۔آپ رضی اللہ عنہ اپنے پدر بزرگوار حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی
شہادت کے بعد اپنے دور کے سب سے زیادہ بافضل اور عالم شخصیت تھے۔
علمی خدمات:
حضرت امام
جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے فرزند امام حضرت موسیٰ کاظم ( رضی اللہ عنہ ) کی
توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ "میرا بیٹا موسیٰ کاظم ( رضی اللہ عنہ )
علم و فضل کے اس درجہ کمال پر فائز ہے کہ اگر قرآن کے تمام مطالب و مفاہیم اس سے
پوچھو تو وہ اپنے علم و دانش کے ذریعے انتہائی محکم اور مدلّل جواب دے گا۔آپ( رضی
اللہ عنہ) سے متعدد کتب منسوب ہیں،کچھ کی تصنیف تو آپ( رضی اللہ عنہ) نے اپنے دست
مبارک سے کی اور اکثر آپ( رضی اللہ عنہ) کے ملفوظات پر مبنی ہیں۔جیسا کہ ’’مسند
امام کاظم‘‘
آپ( رضی
اللہ عنہ) سے منسوب ہے۔
وصال مبارک:
برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ کو بادشاہِ وقت(خلیفہ ہارون الرشید) کے حکم پر کھجور میں زہر ملا کر دیا گیا ۔کھجور کھاتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دشمنوں نے مجھے زہر دیا ہے تین دن کے بعد میری وفات ہوگی۔جیسا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا ۔یوں 25رجب المرجب 183ھ کوآپ مرتبۂ شہادت پر فیض ہوئے۔آپ کا مزارِ پراَنوار بغدادِ معلی میں کاظمین شریف کے مقام پر واقع ہے۔حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ مزار پرانوار حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجابتِ دعا کے لیے تریاق مجرب کا حکم رکھتی ہے۔ (بحوالہ : بارہ امام علیہم السلام /خاندان اہلبیت اطہار اور دیگر مضامین سے ماخوذ)
No comments:
Post a Comment