سلطان الہند حضرت خواجہ معین
الدین چشتی رح کے والد 551 ھجری میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 15
سال تھی۔ والد گرامی کی رحلت پر آپ ہر وقت اداس رہنے لگے۔ ایسے لمحات میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی نور نے
بڑی استقامت کا ثبوت دیا اور بڑے حوصلے کے ساتھ بیٹے کو سمجھایا۔ اے فرزند! زندگی
کے سفر میں ہر مسافر کو تنہائی کی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے اگر تم ابھی سے اپنی
تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے دشوار گزار راستے کیسے طے کرو گے۔
اٹھو اور پوری توانائی سے
اپنی زندگی کا سفر شروع کرو۔ ابھی تمہاری منزل بہت دور ہے یہ والد سے محبت کا ثبوت
نہیں کہ تم دن رات ان کی یاد میں آنسو بہاتے رہو۔ اولاد کی والدین کیلئے حقیقی
محبت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہر عمل سے بزرگوں کے خواب کی تعبیر پیش کرے۔ تمہارے
والد کا ایک ہی خواب تھا کہ ان کا بیٹا علم و فضل میں کمال حاصل کرے۔ چنانچہ تمہیں
اپنی تمام تر صلاحیتیں تعلیم کے حصول کیلئے ہی صرف کر دینی چاہئیں۔ مادر گرامی کی
تسلیوں سےحضرت خواجہ معین الدین چشتی رح کی طبیعت سنبھل گئی اور آپ زیادہ شوق
سےعلم حاصل کرنے لگے۔ مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سے
ایک سال ہی گزرا ہو گا کہ آپ کی والدہ حضرت بی بی نور بھی خالق حقیقی سےجا ملیں۔
اب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اس دنیا میں اکیلے رہ گئے۔ والد گرامی کی وفات پر
ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثےمیں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد
باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ درختوں کو خود پانی دیتے۔ زمین کو ہموار کرتے
پودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ حتیٰ کہ منڈی میں جا کر خود ہی پھل بھی فروخت کرتے۔ آپ
کاروبار میں اس قدر محو ہو گئے کہ آپ کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا
بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی کہ جس کا بظاہر کوئی علاج ممکن نہ
تھا۔ آپ اکثر اوقات اپنی اس محرومی پر غور کرتے جب کوئی حل نظر نہ آتا تو شدید
مایوسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے اور رونے لگتے۔ یہ خدا کےحضور بندے کی ایک
خاموش التجا تھی۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی
دے رہے تھے کہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو
دیکھا تو دوڑتے ہوئے گئے اور حضرت ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ حضرت
ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے کمال شفقت
سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے
حضرت ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔ حضرت ابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا
اے نوجوان! ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ آپ چند
لمحے اور میرے باغ میں قیام فرما لیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب
ہوتی ہے کہ نہیں۔ آپ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ حضرت ابراہیم سے انکار نہ
ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق
لئے آپ حضرت ابراہیم کے سامنے رکھ دئیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ اس نو عمری
میں سعادت مندی اور عقیدت مندی کا بےمثال مظاہرہ دیکھ کر حضرت ابراہیم حیران تھے۔
انہوں نےچند انگور اٹھا کر کھا لیے۔ حضرت ابراہیم کے اس عمل سے آپ کے چہرے پر خوشی
کا رنگ ابھر آیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم قندوزی نے فرمایا۔ معین الدین بیٹھ جائو
! آپ دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ فرزند! تم نے ایک فقیر کی خوب مہمان نوازی کی ہے۔ یہ
سرسبز شاداب درخت، یہ لذیذ پھل، یہ ملکیت اور جائیداد سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔
آج اگر یہاں بہار کا دور دورہ ہے تو کل یہاں خزاں بھی آئے گی۔ یہی گردش روز و شب
ہے اور یہی نظام قدرت بھی۔ تیرا یہ باغ وقت کی تیز آندھیوں میں اجڑ جائے گا۔ پھر
اللہ تعالیٰ تجھے ایک اور باغ عطا فرمائےگا جس کےدرخت قیامت تک گرم ہوائوں سےمحفوظ
رہیں گے ان درختوں میں لگے پھلوں کا ذائقہ جو ایک بار چکھ لے گا پھر وہ دنیا کی
کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے اپنے
پیرھن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف
بڑھا دیا اور فرمایا "وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔" یہ
کہہ کر خشک روٹی کا وہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی کے منہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سے
نکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سے چل دیئے۔ حضرت ابراہیم کی دی ہوئی روٹی کا ٹکڑا
اس قدر سخت اور خشک تھا کہ اس کا چبانا دشوار تھا۔ مگر آپ نے ایک بزرگ کا تحفہ
سمجھ کر وہ روٹی کا ٹکڑا کھا لیا۔ اس ٹکڑے کا حلق سے نیچے اترنا ہی تھا کہ حضرت
معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کائنات کی ہر
شے فضول ہے۔ دوسرے ہی دن آپ نے اپنی چکی اور باغ فروخت کر دیا اور اس سےحاصل ہونے
والی رقم غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دی۔ عزیز و اقارب آپ کی اس حرکت کو دماغی
خلل قرار دے رہے تھے لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ذہن و دل کے کس گوشے سے
روشنی کی وہ لکیر پھوٹ رہی ہے جس نے دنیا کے تمام اجالوں کو دھندلا کر کے رکھ دیا
ہے۔ (گلدستہءاولیاء)
ایک موقع
پر حضرت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
میں سالہا سال تک بارگاہ خداوندی میں طلب گار کی
حیثیت سے کھڑا رہا لیکن مجھے حیرت و ہیت کے سوا کچھ نہ ملا
پھر جب اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور اپنی قربت بخشی تو کوئی دشواری نہ رہی۔ دنیا
والوں کو میں نے دنیا میں مشغول دیکھا ۔ اور آخرت والوں کو ہر حال میں شرمندہ
پایا۔ عاشق وہ ہے کہ اگر صبح کی نماز ادا کرے تو دوسری صبح تک خیال دوست میں ڈوبا
رہے۔ دل محبت کا آتش کدہ ہے کہ جو چیز اس طرف آئے گی جل کر خاک ہو جائے گی۔ محبت
کی آگ سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی
رحمۃ اللہ علیہ بہت بلند پایہ کے ولئ کامل تھے، آپ نے ہندوستان میں اسلام کو پھیلانے
میں کلیدی کردار ادا کیا، آپ حضرت عثمان ہارونیؒ سے بیعت
تھے، آپ ۱۱۶۱ء میں حضرت علی بن عثمانؒ داتا گنج بخش کی مزارِ اقدس پر تشریف
لانے کے بعد پہلی فرصت میں چلہ کشی فرمائی اور روحانی فیض حاصل کئے، بعد ازاں آپ
نے حضرتا میراں حسین زنجانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزاق مقدس پر بھی چلہ کشی فرمائی،
مختلف شہروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے آپ نے ۱۲۰۶ء اجمیر کو رونق بحشنے کا مصمم ارادہ
کرلیا، اجمیر اس وقت راجہ پرتھوی راج کا دار الحکومت تھا اور ایک طرح سے تمام
ہندوستان کے ہندوؤں کا مرکز تھا اور اسی وجہ سے یہاں عام طور پر اسلام کی تبلیغ کو
مشکل کام جاتا تھا۔
آپ نے شدید مزاحمت کے
باوجودتبلیغ دین کا کام جاری رکھا اور کچھ ہی سالوں میں لوگ جو ق در جوق مسلمان
ہوگئے، آپ کےمریدین بھی بڑے بلند پایہ اولیاء تھے، جن میں حضرت قطب الدین بختیار
کاکی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں، حضرت معین الدین چشتیؒ نے سماع کو رواج دیا جس
نے بعد میں قوالی کی شکل اختیار کرلی۔
آپ کے لازوال و بے مثال
ملفوظات دیکھئے‘
(۱) نماز مومن کی معراج ہے، قرب الٰہی کے لئے
نماز ہی ذریعہ ہے۔
(۲) سن لو کہ کوئی گناہ اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا جتنا کسی مسلمان کو ذلیل اور بے عزت کرنا پہنچاتا ہے۔
(۳) عذاب جنہم سے بچنا چاہتے ہو تو بے بسوں کی مدد کرو، مجبوروں اور لا چاروں کی حاجت روائی کرو اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔
(۴) درویش و ہے کہ کسی کو محروم نہ کرے۔
(۵) لوگوں سے مدد کی امید نہ رکھنا اور حرف شکایت زبان پر نہ لانا ہی توکل ہے۔
(۶) محبت کی علامت یہ ہے کہ اطاعت کے ساتھ ہی محبوب (اللہ) کی ناراضگی سے ڈرتے رہو۔
(۷) صادق وہ ہے جو کسی چیز کا بھی مالک نہ ہو اور دنیوی معاملات میں داخل نہ دیتا ہو۔
(۸) بلند آواز میں قہقہ لگانا اچھی بات نہیں کہی جاسکتا۔
(۹) قبرستان میں ہنسی مذاق نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لئے جاؤ۔
(۱۰) اللہ کے عارفین سورج کی طرح پوری دنیا کو معرفت کی روشنی سے چمکاتے ہیں۔
(۱۱) اے دنیا والو اللہ کے سواء کسی اور کو لائقِ عبادت مت سمجھو۔
(۱۲) جو دونوں جہانوں سے اپنی توجہ ہٹالے وہی عارف ہے۔
(۱۳) عارف کا کم تر درجہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ الٰہی کا مظہر ہے۔
(۱۴) اللہ کا عاشق وہ ہے جو ابتدائے عشق میں ہی فناء ہوجائے۔
(۱۵) قرب حق حاصل کرنے کے لئے دریا جیسی سعادت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع کی ضروری ہے۔
(۱۶)عارف وہ ہے جو موت کو عزیز رکھے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ اور کسی چیز سے تعلق نہ رکھے۔
(۱۷) جھوٹوں کے گھروں سے برکات اٹھالی جاتی ہیں۔
(۱۸) عاشقِ حق وہ ہے جو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد اگلی نمازِ فجر تک یادِ حق میں محو رہے۔
(۱۹) عارف وہ ہے جو دونوں جہانوں سے بیزار ہو۔
(۲۰) دل تو محبت کا آتشکدہ ہے اس میں جو داخل ہوتا ہے جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
(۲۱) اہل اللہ کا مقام بہت بلند ہے، یہ تو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔
(۲۲) محنت اور حدمت سے ہی بلند درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(۲۳) توبہ کی امید پر گناہ کرنے والا بدترین ہے۔
(۲۴) لوگوں سے اپنی پریشانیاں بیان کرتے پھرنا توکل نہیں۔
(۲۵) نفس کی زینت بھوکے کو کھانا کھلانا، حاتمند کی حاجت روائی کرنا اور مخالفوں سے حسنِ سلوک کرنے میں ہے۔
(۲) سن لو کہ کوئی گناہ اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا جتنا کسی مسلمان کو ذلیل اور بے عزت کرنا پہنچاتا ہے۔
(۳) عذاب جنہم سے بچنا چاہتے ہو تو بے بسوں کی مدد کرو، مجبوروں اور لا چاروں کی حاجت روائی کرو اور بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔
(۴) درویش و ہے کہ کسی کو محروم نہ کرے۔
(۵) لوگوں سے مدد کی امید نہ رکھنا اور حرف شکایت زبان پر نہ لانا ہی توکل ہے۔
(۶) محبت کی علامت یہ ہے کہ اطاعت کے ساتھ ہی محبوب (اللہ) کی ناراضگی سے ڈرتے رہو۔
(۷) صادق وہ ہے جو کسی چیز کا بھی مالک نہ ہو اور دنیوی معاملات میں داخل نہ دیتا ہو۔
(۸) بلند آواز میں قہقہ لگانا اچھی بات نہیں کہی جاسکتا۔
(۹) قبرستان میں ہنسی مذاق نہیں بلکہ عبرت حاصل کرنے کے لئے جاؤ۔
(۱۰) اللہ کے عارفین سورج کی طرح پوری دنیا کو معرفت کی روشنی سے چمکاتے ہیں۔
(۱۱) اے دنیا والو اللہ کے سواء کسی اور کو لائقِ عبادت مت سمجھو۔
(۱۲) جو دونوں جہانوں سے اپنی توجہ ہٹالے وہی عارف ہے۔
(۱۳) عارف کا کم تر درجہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ الٰہی کا مظہر ہے۔
(۱۴) اللہ کا عاشق وہ ہے جو ابتدائے عشق میں ہی فناء ہوجائے۔
(۱۵) قرب حق حاصل کرنے کے لئے دریا جیسی سعادت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع کی ضروری ہے۔
(۱۶)عارف وہ ہے جو موت کو عزیز رکھے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ اور کسی چیز سے تعلق نہ رکھے۔
(۱۷) جھوٹوں کے گھروں سے برکات اٹھالی جاتی ہیں۔
(۱۸) عاشقِ حق وہ ہے جو نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد اگلی نمازِ فجر تک یادِ حق میں محو رہے۔
(۱۹) عارف وہ ہے جو دونوں جہانوں سے بیزار ہو۔
(۲۰) دل تو محبت کا آتشکدہ ہے اس میں جو داخل ہوتا ہے جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔
(۲۱) اہل اللہ کا مقام بہت بلند ہے، یہ تو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔
(۲۲) محنت اور حدمت سے ہی بلند درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(۲۳) توبہ کی امید پر گناہ کرنے والا بدترین ہے۔
(۲۴) لوگوں سے اپنی پریشانیاں بیان کرتے پھرنا توکل نہیں۔
(۲۵) نفس کی زینت بھوکے کو کھانا کھلانا، حاتمند کی حاجت روائی کرنا اور مخالفوں سے حسنِ سلوک کرنے میں ہے۔