The Farsi Tarjuma e Quran of Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani Alaihirrahmah Kichhauchha Sharif

 

                    غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی  نہایت جلیل القدر اولیاء کرام میں سے ہیں جنھوں نے کثیر تصانیف فرمائیں۔حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی   کا خود ارشاد ہے کہ اس فقیر نے حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قد س سرہ النورانی  کی تصانیف سے پانچ سو کتابیں دیکھی ہیں،دو سو پچاس کتابوں کا دیباچہ اور خطبہ مجھ کو یاد ہے۔نیز مکتوبات اشرفی میں حضرت نورالعین علیہ الرحمہ سے منقول ہے کہ حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  نے فرمایاکہ اس  فقیر کو سند علم قرأت پانچ پشتوں تک اپنے آباء واجداد سے علی الاتصال پہنچی ہے۔اور یہ بھی فرماتے تھے کہ میرے زمانہ سلطنت میں میرے خاندان سادات نور بخشیہ سے ستر حافظ قرآن و قاری فرقان ایک زمانے میں موجود تھے۔کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی قد س سرہ النورانی  کی کہ پانچ پشتوں میں  سلطان بن سلطان،سید بن سید، ولی بن ولی ، حافظ بن حافظ ، قاری بن قاری اور عالم بن عالم برابر نسلا بعد نسل حضرت تک  ہوتے چلے آئے۔( بحوالہ:  صحائف اشرفی /اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ جلد ۱  صفحہ ١١٨-١١٩  مطبوعہ ا   دارہ فیضان اشرف ممبئی۔١٩٨٤ ء) یہ فضیلت خاص حضرت ہی کے خاندان کو اللہ تعالی نے عطاء فرمائی تھی۔

قرآن شریف کا فارسی ترجمہ : حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  کی اہم تصانیف میں قرآن شریف کا فارسی ترجمہ بھی ہے۔جس کے قلمی نسخہ کی فوٹو کاپی مختار شرف لائبریری میں موجود ہے۔یہ نسخہ  بانی جامع اشرف حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کے ذریعہ۱۳؍رمضان المبارک ۱۴۰۲ہجری بمطابق  ٥  ؍جولائی ١٩٨٢عیسوی بروز دوشنبہ حاصل ہوا۔جس پر پاکستان میں سلسلہ اشرفیہ کی مشہور شخصیت شیخ ہاشم رضا اور علامہ ڈاکٹر سید مظاہر اشرف  کی تصدیق ہے۔اس کا اصلی نسخہ کراچی(پاکستان ) میں ڈاکٹر علامہ سید مظاہر اشرف علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں ہے جس کی زیارت سلسلہ اشرفیہ کے مشائخ نے کی ہے۔پھر حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ کی کوششوں سے اس کی طباعت کا کام مخدوم اشرف اکیڈمی کراچی نے صفر ۱۴۲۶ھ؍مارچ ٢٠٠٨ ء   میں انجام دیا۔جو اشرف البیان مع اظہارالعرفان کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے جس میں قرآن شریف کے ساتھ حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ کا فارسی ترجمہ ہے پھر اس کا ترجمہ و تفسیر اردو میں ہے جس کو مولانا سیدممتاز اشرفی استاذ دارالعلوم اشرفیہ رضویہ کراچی نے کیا ہے۔  بہر کیف حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ کے تصانیف میں قرآن کریم کا فارسی ترجمہ بھی ہے جس کا ذکر سمنان کی ایک خاتون ریسرچ اسکالر نیرہ ابیات  نے بھی انگریزی زبان میں اپنے تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی میں ا ن کی تصانیف بیان کرنے کے بعداس طرح کیا ہے:

There is holy Quran translated by Syed Ashraf Jahangir Simnani (Ref: Mir Syed Ashraf Jahangir Simnani/The Thought and Simnani Page No: ١٤٧)            Note: Thesis submitted for Doctor of Philosophy in Hamdard University New Delhi.

یعنی حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے۔   مذکورہ مقالہ انگریزی زبان میں ہے جس کو ہمدرد یونیورسیٹی نئی دلی کے شعبہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی  کے کئے داخل کیا گیا ہے او ر اس مقالہ پر ایرانی خاتون  نیرہ ابیات کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی ہے۔ جب کہ اہل علم جانتے ہیں کہ ماہرین کے ذریعہ مقالہ کے ہر جزء کی تحقیق و جرح و بحث کے بعد سند دی جاتی ہے۔مذکورہ خاتون نے مقالہ کی ایک کاپی مختار اشرف لائبریری میں بھی پیش کی ہے۔الغرض حضرت مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  نے ان تصا نیف کے ذریعہ نہایت عظیم دینی خدمات انجام دئے ہیں جن سے رہتی دنیا تک علماء مستفید ہوتے رہیں گے۔ان کا وصال ۲۸؍محرم الحرام ۸۰۸ ھ بمطابق ١٤٠٥ ء کو ہوا۔  

        اب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ  الرحمہ  کے حالات ملاحظہ کریں: شاہ ولی اللہ دہلوی کی ولادت ۴؍ شوال ۱۱۱۴ھ بمطابق ٢١؍فروری ١٧٠٣ء بروز چہارشنبہ  عالمگیر بادشاہ کے عہد میں ہوئی۔ان کا نسب والد کی طرف سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک اور والدہ کی طرف سے حضرت موسی کاظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔    انہوں نے اپنے والد شاہ عبدالرحیم سے تعلیم حاصل کی ،۱۴؍ سال کی عمر میں شادی ہوئی۔۱۵؍ سال کی عمر میں اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی۔والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہو گئے۔اور ۱۲؍سال تک درس دیتے رہے۔اس کے بعد ۱۱۴۳ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور ۱۱۴۴ھ میں مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔اس کے بعد مدینہ منورہ گئے اور وہاں کے مشائخ سے علم حدیث و سند حدیث حاصل کئے۔۱۱۴۴ھ میں بھی حج کئے۔ ۱۴؍رجب ۱۱۴۵ھ بمطابق ٩؍جولائی ١٧٣٢ء کو دہلی واپس آئے۔

            تصانیف :  مصنف کی حیثیت سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  علیہ الرحمہ  کا درجہ بہت بلند ہے۔ان کا شمار جلیل القدر مصنفین میں ہوتا ہے۔علوم دینیہ میں ان کی تصانیف نوے کے قریب ہیں۔جو تفسیر، حدیث، اصول، فقہ  اور کلام سے متعلق ہیں۔جن میں سے اہم ہیں:  فتح الرحمن، الفوز الکبیر، فتح الخبیر، مصفی، مسوی، حجۃ اللہ البالغہ، البدور البازغہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ،قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین  وغیرہ۔( فقہائے ہند/محمد اسحاق بھٹی۔جلد ۵  حصہ دوم ص٣١٦-٣٣١۔ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور۔١٩٨١ء)

      فارسی ترجمہ قرآن :شاہ صاحب علیہ الرحمہ  کی سب سے نمایاں اور رفیع المرتبت خدمت قرآن شریف کا فارسی ترجمہ ہے۔وہ اس بر صغیر کے پہلے عالم ہیں جنہوں نے فارسی ترجمہ کی شدت سے ضرورت محسوس کی اور شروع سے آخر تک پورے قرآن پاک کا ترجمہ کر ڈالا۔جس کی تکمیل رمضان المبارک ۱۱۵۱ہجری  بمطابق ١٧٣٨ء میں ہوئی۔ان کا وصال ۲۹؍محرم ۱۱۷۶ھ بمطابق ١٧٦٢ ء ہوا،نئی دلی میں مدفون ہیں۔(فقہائے ہند۔محمد اسحاق بھٹی۔جلد ۵  حصہ دوم ص٣٤١-٣٤٣۔ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور۔١٩٨١ء)

        دونوں ترجموں میں فرق:     کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مخدوم اشرف علیہ الرحمہ  کا ترجمہ قرآن  شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ  ہی کا ہے،۔لیکن یہ غلط ہے ،کیونکہ حضرت مخدوم اشرف  قد س سرہ النورانی  نے ۷۲۷  ہجری  میں اس کو تحریر فرمایا ہے، جبکہ شاہ صاحب نے ۱۱۵۱ہجری  میں لکھا ہے۔اور دونوں ترجموں کے درمیان فرق بھی ہے ۔نمونہ کے طور پر چند آیتوں کا دونوں ترجمہ پیش ہے:

الحمد للہ رب العالمین ۔ (القرآن  /  الفاتحہ  آیت  ۱)

        حضرت سید مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  کا ترجمہ: ثنائی وستائش خدائے راست پروردگار عالمہا بخشائندہ مہربان۔

        شاہ صاحب علیہ الرحمہ  کا ترجمہ:                   : ستائش خداراست پروردگار عالم  بخشائندہ مہربان ۔

ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر (القرآن  /القمر آیت ۱۸)

حضرت سید مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  کا ترجمہ: وہر آئینہ آسان کردیم قرآن را برائے یاد کردن پس آیا ہست پند گیرندہ۔         

شاہ صاحب علیہ الرحمہ  کا ترجمہ:                   وہر آئینہ آسان کردیم قرآن راتا  پند گیرند پس ایا ہیچ پند پذیرندہ است ۔

فبای آلاء ربکما تکذ بان  (القرآن / الرحمن آیت۱۳ )

       حضرت سید مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  کا ترجمہ: پس بکدام از نعنتہائے پروردگار خود تکذیب می کنید۔

       شاہ صاحب علیہ الرحمہ  کا ترجمہ:                   پس کدام یک را از نعمتہائے پروردگار خویش دروغ می شمرید۔

                قل اعوذ برب الناس ملک الناس (القرآن  / الناس آیت ۱ )

          حضرت سید مخدوم اشرف قد س سرہ النورانی  کا ترجمہ: بگو پناہ گیر م   پروردگار مردماں  پادشاہ مردماں۔

           شاہ صاحب علیہ الرحمہ  کا ترجمہ:                   بگو پناہ میگیرم  بہ پروردگار مردماں بادشاہ مردمان۔         اس طرح دونوں ترجمہ سے واضح ہے کہ حضور مخدوم اشرف  قد س سرہ النورانی  کا ترجمہ الگ ہے اور شاہ صاحب کا الگ۔           مختار اشرف لائبریری میں موجود فارسی ترجمہ قرآن حضرت مخدوم اشرف ہی کا ترجمہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ لطائف اشرفی میں موجود آیات قرآنی کا ترجمہ بعینہ وہی ہے جیسا ترجمہ قرآن مخدوم اشرف میں ہے،نمونہ کے طور پر چند آیات پیش ہیں:

           ان ابراھیم لاواہ حلیم (القرآن/ التوبۃ  آیت ۱۱۴)

   لطائف اشرفی  میں مذکور ترجمہ:            ہر آئینہ ابراہیم درد مند بردبار بود   (لطائف اشرفی / اول لطیفہ ۹  ص ٢٨٦)

 فارسی ترجمہ قرآن مخدوم اشرف:            ہر آئینہ ابراہیم دردمند بردبار بود( فارسی ترجمہ قرآن مخدوم اشرف  ص ٤٦٣)

           ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ انہ لا یحب المعتدین( القرآن /الاعراف  آیت ۵۵)

بپرستید پروردگار خودرا زاری کناں وپوشیدہ از مردماں ہر آئینہ او دوست ندارد از حد گذرندگاں را۔ (لطائف اشرفی / اول لطیفہ ۹  ص ٢٨٦)

      بپرستید پروردگار خود را زاری کناں و پوشیدہ  از مردماں  ہر آئینہ او دوست ندارد از حد گذرندگاں را۔ ( فارسی ترجمہ قرآن مخدوم اشرف ص ٣٥٥)

      یا ایھا اللذ ین آمنوا اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا واذکروا اللہ کثیرا (القرآن/ الانفال  آیت ۴۵)

     اے مسلماناں چوں روبرو شوید با گروہے پس ثابت باشید ویاد کنید خدا را بسیار( لطائف اشرفی جلد اول لطیفہ ۹  ص ٢٨٧  مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی  )

    اے مسلماناں چوں روبرو شوید با گروہی پس ثابت باشید ویاد کنید خدا را بسیار (فارسی ترجمہ قرآن مخدوم اشرف  ص   ٤١٢  ، مطبوعہ مخدوم اشرف اکیڈمی  کراچی   )

           اس سے واضح ہو گیا کہ مختار اشرف لائبریری میں موجود ترجمہ قرآن حضرت مخدوم اشرف ہی کا ہے۔     اس پر کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ مخدوم اشرف کا ترجمہ قرآن  ۷۲۷ ہجری  کا ہے ،لیکن اس میں جو تحریر ہے وہ خط نستعلیق ہے  تو اس وقت یہ خط موجود نہیں تھا  لہذا یہ تحریر مخدوم اشرف کی نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت خط نستعلیق وجود میں آ چکا تھا ،جیساکہ اطلس خط  ( خط انسائیکلو پیڈیا)  میں ہے:

      در تعلیق چند نمونہ از خطو طی کہ در سالہائے  ۶۰۶  ،  ۶۱۰  ، ۶۱۱  ہجری نوشتہ شدہ بودآرائے واشارہ شد کہ بعض آں خطوط وامثال آنہاں کہ در نوشتہ ہا و کتابہا ء آں زماں  موجود است ہمہ مبشر و الہام دہندہ خط نستعلیق بودہ اند۔زیرا در آنہا علائم پیدائش  و حرکات حروف نستعلیق آشکار است ( اطلس خط/حبیب  اللہ فضائل،صفحہ  ٤٤٤   ،موٰسسہ انتشارات مشعل اصفہان  ١٣٦٢ء)     ترجمہ :  تعلیق میں خطوط کے چند نمونے  جو ۶۰۶ ، ۶۱۰ ،  اور ۶۱۱ ہجری  میں لکھے گئے تھے  اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس زمانہ کی کتابوں کے کچھ خطوط خط نستعلیق ہے اس لئے کہ اس میں نستعلیق کی علامتیں ظاہر ہیں۔         لہذا ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختار اشرف لائبریری میں موجودفارسی ترجمہ قرآن شریف  حضرت مخدوم ا شرف ہی کا ہے۔اور یہ اعزاز مختار اشرف لائبریری کو حاصل ہے کہ سب سے پہلے حضرت مخدوم اشرف کے فارسی ترجمہ قرآن کوہندوبیرون ہندمیں متعارف کرایا اور اس کے بانی حضرت شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے اپنی انتھک کوششوں سے کراچی (پاکستان ) سے شائع کراکرمنظر عام پر لایا۔جو یقینا شیخ اعظم کا ایک بے مثال دینی وملی کارنامہ ہے۔اسی فارسی ترجمہ قرآن کو دیکھ کر حضرت ڈاکٹرسید طلحہ رضوی برق  سجادہ نشین  داناپور،وسابق صدر شعبہ اردو فارسی ویر کنور سنگھ یونیورسیٹی آرہ(بہار)نے کہا تھا کہ اب تک میں یہی سمجھ رہاتھا اور ہر جگہ یہی بیان کرتا تھا کہ ہندوستان میں فارسی ترجمہ قرآن صرف دو ہیں : ایک شاہ ولی اللہ صاحب کا اور دوسرا حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ  کا ،  لیکن اب یہ کہنا ہوگا کہ ہندوستان میں تین فارسی ترجمہ قرآن ہیں۔

نوٹ: موصوف حفظہ اللہ  نے ٢٠٠٣  عیسوی  میں جامع اشرف (کچھوچھہ شریف)  کے سلور جوبلی کے موقع پر مقالہ نگار کے سامنے مختار اشرف  لابئریری میں بیان دیا تھا۔

     اس طرح شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے  غوث العالم حضرت مخدوم اشرف  قد س سرہ کے اس علمی خزانہ کو شائع کر کے ایک تاریخ سار علمی انقلاب پیدا کیا ہے۔مولی تعالیٰ ان کی قبر پررحمت و انوار کی بارش برسائے اور ان کے جانشین حضرت قائد ملت قبلہ( حفظہ اللہ ) کے دینی و ملی عظیم منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔  آمین   بحاہ سید المرسلین وعلی الہ و اصحابہ اجمعین ۔(بشکریہ: مولانا قمرالدین اشرفی حفظہ اللہ استاذ جامع اشرف کچھوچھہ شریف )