Islam Ki Dawat (Urdu)


 بنی اسرائیل کو اسلام کی دعوت
یٰبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۝۴۰ وَ اٰمِنُوْا بِمَااَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْا اَوَّلَ كَافِرٍ بِهٖ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًاوَ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ۝۴۱ وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴۲ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ۝۴۳ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۴۴ وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِوَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ۝۴۵ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۝۴۶ (بقرہ)
ترجمہ:اے اولاداسرائیل!میری اس نعمت کویادکرو جومیں نے تم پر کی تھی اور تم میرا وعدہ پورا کرو،میں تمہاراوعدہ پورا کروںگااورمیرا خوف کرو۔میری نازل کی ہوئی کتاب (قرآن)جوتمہارے پاس موجودکتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، اس پر ایمان لاؤاورتمہی اس کے اول منکر مت ہوجاؤاورمعمولی قیمت پرمیری آیتوں کومت بیچواورمیرا خوف کرواورحقیقت حال سے واقف ہوتے ہوئے بھی حق کوباطل کے ساتھ مت ملاؤ اورحق کو مت چھپاؤ،نمازقائم کرو،زکاۃ اداکرو اوراللہ کی بارگاہ میں جھکنے والوںکے ساتھ جھکو،کیاتم دوسروں کو بھلائی کاحکم دیتے ہواورخود کو فراموش کرجاتے ہو،جب کہ اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو،تم سمجھتے کیوںنہیں؟صبراورنمازسے مددلیاکرو،یہ بہت گراںہے سوائے ان کے لیےجن کے دلوںمیں اللہ کاخوف ہے،جنھیں اس بات کایقین ہے کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور لوٹ کر اسی کی بارگاہ میں جانے والے ہیں۔
قرآن کریم نے اپنی دعوت کومختلف مقامات پردعوت ابراہیمی اور ملت ابراہیمی کہاہے(بقرہ:۱۳۰-۱۳۵)توحید و معرفت کی جو دعوت حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے شروع کی تھی،تقریباًڈھائی ہزارسال بعداسی دعوت کی نشاۃ ثانیہ اللہ کے آخری پیغمبر جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاران کی اسی وادی سے شروع کی جس میں برسوں قبل حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم اپنے بڑےصاحب زادے حضرت اسمٰعیل کو چھوڑگئےتھے۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم پیغمبروںکی سرزمین فلسطین میں تھے ۔ ۱۳؍برسوںکے بعدآپ کے دوسرے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام پیداہوئے۔ حضرت اسحاق کے دوبیٹے ہوئے، عیصو اور یعقوب۔ مورخین نے لکھاہے کہ یونان وروم اورایران کی قومیں حضرت عیصو کی اولاد ہیں۔ اللہ کی نعمت خاص نبوت ورسالت کی بادِبہاری حضرت یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کی نسل میں چلی۔حضرت یعقوب کا ہی دوسرا نام اسرائیل تھا۔ اسرائیل کے معنی عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ کے ہوتے ہیں۔انہی کی نسل کوبنی اسرائیل یایہود کہتے ہیں۔ان کے بارہ بیٹے تھے جن میں سب سے زیادہ معروف ومشہور حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام ہیں۔
حضرت ابراہیم کے چھوٹے صاحب زادے حضرت اسحاق علیہ الصلاۃ والسلام کی نسل پیغمبروں کی نسل رہی ہے۔ حضرت یعقوب،حضرت یوسف،حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان،حضرت یحیٰ،حضرت عیسیٰ اوران جیسے سیکڑوں پیغمبران عظام اس نسل میں پیداہوئے۔خودقرآن کریم کی شہادت کے مطابق اللہ نے اس نسل کو سارے جہان پر فضیلت بخشی تھی۔(بقرہ:۴۷
اللہ کاکرنا دیکھئے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے چھوٹے صاحب زادے حضرت اسحاق کی نسل میں تو اتنےسارے پیغمبر،مگربڑے صاحب زادے حضرت اسمٰعیل کی نسل میں فقط ایک پیغمبر جس پر باب نبوت ورسالت ہی مقفل ہوگیا۔حضرت ابراہیم کے ایک صاحب زادے کی نسل کے ہزاروں پیغمبروں نے جس مشن کو اپنے اپنے عہدمیں برپا کیا،ان کے دوسرے صاحب زادے کی نسل کےفقط ایک پیغمبر نے اس مشن پر قرآن جیسی دائمی کتاب ہدایت کے ذریعے مہرلگادی اور اس طرح قیامت تک کے لیے ربانی ہدایت کا آخری تحریری دستور محفوظ ہوگیا۔
اس کے بعد اس دین حق کی ترویج واشاعت اورتبلیغ ودعوت کی ذمے داری کسی ایک قوم پر نہ رہی ،بلکہ دعوت محمدی قبول کرنے والی امت پر آگئی،جسے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرط کے ساتھ خیرامت کا لقب دے دیا گیا۔( آل عمران:۱۱۰(
اللہ کے آخری پیغمبرجناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ایک مکمل ،جامع اورآخری دعوت تھی جس کی مخاطب کوئی ایک قوم نہیں تھی،بلکہ پوری نوع انسانی تھی۔(سبا:۲۸(
بنی اسرائیل/یہود بھی نوع انسانی کافردہونے کی حیثیت سے اس دعوت کے مخاطب تھے۔اس لیے قرآن نے دعوت حق کے لیے جب عام انسانوں کودعوت دی تو براہ راست وہ اس کے مخاطب ہوگئے،لیکن اس کے بعد بطور خاص ان کو خطاب کیا۔سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۴۰سے لے کر ۱۰۳تک صرف انہی سے خطاب ہے۔اس کے بعد بھی جابجاقرآن نے بطورِ خاص قوم یہودکومخاطب کیاہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے یہود کےذکر میں کس قدر اہتمام فرمایاہے۔ غورکیجئے تو اس اہتمام کے اسباب بھی ہیں،مثلاً:
۱۔نبوت ورسالت حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے کی نسل میں ایک طویل عرصے تک باقی رہی اوراس سلسلے کا اختتام اللہ نے دوسرے بیٹے کی نسل کے ایک منتخب شخص پر کردیا ۔ایسے میں سابق پیغمبرانہ نسل کا تفصیلی ذکر اس کی تالیف قلب کے لیے بھی مناسب معلوم ہوتاہے۔
۲۔مجموعی اعتبارسے دونوں نسلیں ایک ہی ہیں،کیوںکہ دونوں کا سراحضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے ملتا ہے، اس لیے بنی اسرائیل/یہود،اسلام کے خصوصی مخاطب بھی تھے کہ وہ انسان ہونے کی حیثیت سے دین حق کے مدعوتوتھے ہی،اس کے ساتھ پیغمبرآخرالزماں علیہ الصلاۃ والتسلیم کےچچا زاد ہونے کی حیثیت سے وہ اہل قرابت بھی تھے اورخصوصی مخاطب بھی،اس لیے ان کاسب سے پہلا فرض تھاکہ وہ اس دعوت کوقبول کرتے جو دعوت ابراہیمی ہے اوراس پیغام کو اپنے سینے سے لگاتے جس پیغام کو اسی خانوادے کے دیگر انبیا اپنے سینے سے لگاتے رہے،مگربراہوخاندانی ونسلی عصبیت کا کہ صرف خانوادے کی شاخ تبدیل ہوجانے کی وجہ سے وہ اس دعوت کے پہلے مومن ہونے کے بجائے پہلے کافرہوگئے۔
۳۔جس وقت دین حق کی آخری آوازبلندہوئی،اس وقت عرب میںسب سے زیادہ تعلیم یافتہ اورباشعور یہودی تھے۔دوسری طرف وہ آخری پیغمبر کے منتظر بھی تھے،اس لیے جب وہ پیغمبرآگئےجن کو وہ اپنی اولادسے بھی زیادہ پہچانتے تھے،تو سب سے پہلا حق انہی کا تھاکہ وہ اس دعوت کوقبول کرتے،اس کے برخلاف وہ صرف اس وجہ سے کہ اللہ کی یہ آخری نعمت ان کی چچازاد نسل،یعنی نسل اسماعیلی میں آگئی،وہ مُکَرگئے،اس لیے عام انسانوں کو دعوت حق دینے کے بعد قرآن نے انھیں بطورخاص خطاب کیا،ان کے اوپر اللہ کے کیے ہوئے انعامات واکرامات کاتفصیلی ذکرکیا،ان کی سرکشی اورخود سری کو بیان کیا اورپیغمبرآخرالزماں کویہ تسلی دی کہ یہود کے اس رویے سے بہت زیادہ آزردہ خاطر نہ ہوں،اس قوم نے اپنے سابق پیغمبروںکے ساتھ بھی طرح طرح کی بدتمیزیاں روارکھی ہیں۔
۴۔بنی اسرائیل /یہود کو خصوصی دعوت اوران کے تفصیلی احوال بیان کرنے کی ایک اورحکمت ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:تم بھی اپنے پہلوںکی راہ چلوگے، ایک ایک بالشت اورایک ایک ہاتھ،یہاں تک کہ اگروہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوںگے تو تم بھی داخل ہوگے۔ صحابہ کرام نے عرض کی:حضور!کیاآپ کی مرادیہود ونصاریٰ سے ہے؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھراورکون؟ 
(بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنہ)
اس سیاق میں دیکھئے تو احوال یہود کاتفصیلی ذکر خود امت محمدیہ کے لیے دعوت فکر ہے۔یہ اس بات کا ایک خاموش پیغام ہے کہ اس طرح کے امراض اس امت میں بھی پیدا ہوںگے۔اب اس امت کے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہودی اوصاف وامراض کا،ان کی نفسیات اورتاریخ کا تفصیلی مطالعہ کریں اوران کےمنفی ومغضوب اوصاف سے خود کو بچانے کی کوشش کریں۔
قرآن پاک نے اس مقام پر بنی اسرائیل /یہودکے جومنفی اوصاف بیان کیےہیں،ان میں سے چند نمایاںیہ ہیں:
۱۔لوگوں کوبھلائی کا حکم دینا اورخودکو فراموش کرجانا۔ (بقرہ:۴۴(
۲۔عہدموسوی میں بچھڑے کومعبود بنالینا۔(بقرہ:۵۱(
۳۔اللہ پر ایمان لانے کے لیے کھلی آنکھوںسے اللہ کو دیکھنے کامطالبہ کرنا۔(بقرہ:۵۵(
۴۔جس بات کا حکم من جانب اللہ ہوتا،اس کو بدل دینا۔ (بقرہ:۵۹(
۵۔آیات الٰہیہ کاانکارکرنا۔(بقرہ:۶۱(
۶۔پیغمبروں کوقتل کرنا۔(بقرہ:۶۱(
۷۔وعدہ کرکے اس سے مکرجانا۔(بقرہ:۶۴(
۸۔یوم السبت کے ممنوعات کا ارتکاب کرنا۔ (بقرہ:۶۵(
۹۔کتاب الٰہی میں تحریف کرنا۔(بقرہ:۷۵(
۱۰۔اللہ کی نشانیوں کو چھپانا۔(بقرہ:۷۶(
۱۱۔اپنے ہاتھوں کتاب الٰہی میں اضافے کرنا۔ (بقرہ:۷۹(
۱۲۔من حیث القوم یقینی نجات وبخشش کے گمان میں رہنا۔(بقرہ:۸۰(
۱۳۔باہم جنگ وقتال کرنا۔(بقرہ:۸۵(
۱۴۔کتاب اللہ کے بعض حصے کو ماننااوربعض کا انکار کردینا۔(بقرہ:۸۵(
۱۵۔پیغمبروں کی جوباتیں طبیعت مخالف ہوں،ان کا انکارکردینا۔(بقرہ:۸۷(
۱۶۔صرف نسلی عصبیت کی وجہ سے اللہ کی اس نعمت کورد کردینا جس سے وہ آشناتھے۔(بقرہ:۸۹(
۱۷۔اس بات سے جلناکہ اللہ نے اپنی آخری نعمت اولاد اسحاق سے باہر کیوںرکھ دی۔(بقرہ:۹۵(
۱۸۔آخری کتاب ہدایت کوردکردینا۔(بقرہ:۱۰۱(
۱۹۔عہدسلیمانی میں شیطانی باتوں اور جادؤں کی پیروی کرنا۔(بقرہ:۱۰۲(
۲۰۔جادوسے میاں بیوی میں تفریق کی کوشش کرنااور گھروں کو توڑنا۔(بقرہ:۱۰۲(
یہ اور اس قسم کی دوسری وہ یہودی خصلتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک قوم جوایک زمانے میں اللہ کی منتخب قوم تھی، دربدر ذلیل وخوار ہوئی اور آج بھی کہیں نہ کہیں یہ ذلت اس کے گلے کا تمغہ ہے۔ امت محمدیہ کافرد ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ اس قوم کی ہدایت کے لیے اگر کوئی امکانی صورت موجودہوتو اسے اختیارکریں،ان کے قبیح اوصاف واطوار سے خود کو بچانے کی فکرکریںاوراس زاویے سے غور کریں کہ آج قوم مسلم کے زوال وانحطاط اورذلت ورسوائی کے پیچھے بھی کہیں وہی اوصاف واطوار تو نہیں ہیں جنھوںنے قوم یہود کو صدیوں سے ذلیل وخواربنارکھا ہے۔