تارک السلطنت محبوب یزدانی حضرت سید مخدوم
اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح کو دلچسپی اور گہرائی سے مطالعہ کرنے
والوں پر آشکارا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت میں اولیاء اللہ میں مقام غوثیت و محبوبیت
رکھنے کے ساتھ بے مثال فقیہ، محدث، مفسر، مناظر، مترجم، کے ساتھ واعظ لاثانی بھی تھے
مندرجہ ذیل میں آپ علیہ الرحمہ کے ملفوظات شریفہ کا مجموعہ"لطائف اشرفی"
سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ آپ علیہ الرحمہ،عربی،ترکی،فارسی
اور اردو کے کس انداز کے مقرر تھے! چناں چہ حضرت محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ
عنہ کے مرید و خلیفہ حضرت نظام الدین یمنی اشرفی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ: حضرت قدوۃ الکبریٰ"حضرت مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ"نے
جامع مسجد بغداد میں خلیفہ"بغداد"اور وہاں کے اہل معرفت و مکرمت کے بے حد
اصرار پر وعظ فرمایا۔اس مجمع میں تقریباً پانچ ہزار ارباب فضل اور سرکاری امیر و سردار
موجود تھے۔"محفل وعظ کی افتتاح پر ایک"قاری صاحب نے سورۂ یوسف تلاوت کی
تو حضرت" سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ" پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی۔"بعد
تلاوت" اسی کیفیت میں آپ علیہ الرحمہ نے تقریر شروع کی اور اس وعظ میں معرفت و
عرفان کے اس قدر نکات بیان فرمائے کہ سارے مجمع پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور لوگ
گریہ وزاری کرنے لگے۔خاص طور پر آپ علیہ الرحمہ نے آیت پاک: لَوۡ لَاۤ اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ(سورۃ يوسف آیت ٢٤) اگر اپنے رب کی پختہ دلیل نہ دیکھ لیتے۔کی
تفسیر میں ایسی ایسی عاشقانہ باتیں بیان کیں کہ سارے مجمع پر اُن کا اثر ہوا یہاں تک
کہ اکثر لوگ اپنے گھروں کی طرف دوڑے یا جنگل کی جانب نکل گئے۔
اندازہ لگائیں کہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر
سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے وعظ کی محفل کی افتتاح میں قاری صاحب قبلہ سے سورۂ یوسف
کی تلاوت سماعت فرمائی تو آپ علیہ الرحمہ پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اس کیفیت کو برقرار
رکھتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ نے سورۂ یوسف کی ہی ایک آیت کو اپنا موضوع سخن بنا کر واعظ
شروع کردی اور پھر کیسے کیسے نکات بیان کیے جس سبب سامعین پر کیا کیفیت طاری ہوئی اس کا انداز اوپر کی عبارت سے لگایا
جا سکتا ہے اور مزید ملاحظہ فرمائیں! آگے "اسی محفل وعظ پر
کلام کرتے ہوئے حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ایک بزرگ نے جنہیں لوگ شیخ قطب متقی کہتے تھے فرمایا
کہ میری عمر سو سال کے لگ بھگ ہے،بہت سے واعظین مختلف ملکوں اور اطراف کے یہاں"
بغداد"آئے اور" اس طرح "وعظ کی مجلس میں تقریریں کیں لیکن کسی نے ایسی
خوبی و لطافت سے لبریز تقریر نہیں کی جیسی حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی"
نے کی۔ مزید لکھتے ہیں: خلیفہ بغداد بھی"تقریر
اشرف سن کر اتنا خوش ہوا اور ان پر بھی ایسی کیفیت تاری ہوئی کہ"ایک ہزار اشرفی
اور ایک گھوڑا جس کی زین اور لگام سونے کی تھیں لے کر"بارگاہ مخدوم اشرف
جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ میں "حاضر ہوا لیکن آپ علیہ الرحمہ نے قبول نہیں کیا۔تبھی
کہا جاتا ہے....
سمناں
کا تخت چھوڑ کر غوث الوریٰ ہوئے۔ یوں
سلطنت کے ترک نے سلطاں بنا دیا۔
مزید لکھتے ہیں: دوسرے دن خلیفہ" بغداد" پھر"ایک ہزار اشرفی اور ایک گھوڑا
جس کی زین اور لگام سونے کی تھیں لے کر "حاضر خدمت"سید مخدوم اشرف"
ہوا اور بے حد اصرار کیا تو آپ"علیہ الرحمہ" نے قبول کیا۔ (لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٦ تا ٣٩٧،لطیفہ نمبر ٤٦)
پھر جامع "ملفوظات اشرفی" حضرت نظام
الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ ایک جگہ لکھتے ہیں:" جس زمانے میں حضرت قدوۃ الکبریٰ"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ
عنہ "مدینہ طیبہ میں روضہ منورہ پر حاضر تھے،"تو"حضرت شیخ احمد یسوی"
رضی اللہ عنہ "کے سلسلہ یسویہ میں داخل ترکوں کی ایک جماعت بھی وہاں"مدینہ
منورہ میں"حاضر تھی۔انہوں نے آپ علیہ الرحمہ کی تعریف کی اور ان"ترکوں"
کے"جو" مشائخ"ان کے ساتھ تھے انہوں"نے آپ علیہ الرحمہ سے وعظ کہنے
کے لیے اصرار کیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ
عنہ کو وعظ کہنے پر راضی کرنے میں" کامیاب ہوئے۔اُس زمانے میں حضرت"سید مخدوم
اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ" ترکی زبان جانتے تھے لیکن"ترکی زبان میں اس وقت"زیادہ
مہارت نہ تھی۔"لیکن"چوں کہ یہ مجلس ترکوں نے منعقد کی تھی یہ بھی لازم ہوا
کہ ترکی زبان میں تقریر کی جائے تو" حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ
عنہ "نے اس کے مطابق ترکی زبان میں تقریر کی اور ایسے فصیح لہجے میں حقائق و معارف
بیان فرمائے کہ اہل زبان کو رشک ہونے لگا۔جتنے"ترکی" مشائخ اس مجلس وعظ میں
موجود تھے سب کو ذوق باطنی حاصل ہوا اور ہر شخص ترکی میں کہتا ہوا آیا۔ (یہاں ترکوں نے کیا فرمایا تھا جامع ملفوظات اشرفی
نے اسے بھی نقل کیا تھا مگر مترجم چوں کہ ترکی زبان نہیں جانتے تھے اس لیے مترجم نے
نہ ترکی زبان نقل کی نہ اس کا ترجمہ کیا،یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت سید مخدوم
اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے ترکوں کے سامنے ترکی زبان میں تقریر فرمائی ناکہ اپنی
زبان میں یہاں سے سبق ملتا ہے کہ سامنے سامعین جس زبان میں مہارت رکھتے ہیں اسی زبان
میں وعظ زیادہ موثر ہوتی ہے نیز یہ بھی دیکھیں کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ
عنہ نے تبلیغ دین کے لیے الگ الگ زبان سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے تھے،خیر!
آگے ملاحظہ فرمائیں کہ اس تقریر اشرف کا ان ترکوں پر یہ اثر ہوا کہ: تقریباً سو ترک حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ"کے
ہمراہ روانہ ہوئے اور"آپ علیہ الرحمہ کی" خدمت و ملازمت پر کمر بستہ ہوئے۔یہ"ترکی"لوگ
ایسی محنت سے"آپ علیہ الرحمہ کی"خدمت بجالاتے جیسی برگزید وخلفا اور نہایت
عاقل حضرات کرتے تھے،چناں چہ انہوں نے تھوڑی سی مدت میں اپنی اپنی ہمت کے مطابق مقصد
حاصل کر لیا اور چہرۂ مقصود اُن پر ظاہر ہو گیا۔ (لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٧ تا ٣٩٨،لطیفہ نمبر ٤٦) معلوم ہوا کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ اس ہستی
کا نام ہے جن کی صحبت فیض سے مختصر وقت میں لوگ عارف باللہ بن جاتے تھے۔اسی طرح"جامع
ملفوظات اشرفی حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
" ایک روز ایسا ہوا کہ حرم شریف کے"عربی"شیوخ اصرار کرنے لگے
کہ حضرت شیخ حرم حضرت نجم الدین اصفہانی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں وعظ کہیں۔آپ علیہ
الرحمہ مجبور ہو گئے کیوں کہ شیخ حرم کے حکم کو بجالانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا چناں
چہ مجلس ترتیب دی گئی۔آپ علیہ الرحمہ نے عربی زبان میں تقریر کی۔اہل مجلس کو اس قدر
ذوق و شوق حاصل ہوا کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔حتیٰ کہ بعض عرب جو صحرا اور بستی
سے آئے تھے،شریک مجلس ہوئے۔اُن پر اس قدر وجد و حال طاری ہوا کہ لوگ تعجب کرتے تھے
کہ یہ نہایت عجیب واقعہ ہے کہ صحرا میں رہنے والے تقریر سے اس قدر متاثر ہوئے۔(لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٨،لطیفہ نمبر ٤٦) مندرجہ بالا اقتباس سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت محبوب یزدانی
سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عربی زبان میں کتنی مہارت تامہ حاصل
تھی کہ آپ علیہ الرحمہ زبان عرب میں ایسی تقریر فرمائی کہ شیوخ عرب اور دیہات سے آئے
ہوئے عربیوں سب کے سب لطف اندوز ہوئے۔ لطائف اشرفی کا مکمل مطالعہ کرکے اس طرح لکھا
جائے تو مکمل کتاب تیار ہو سکتی ہے فی الحال اتنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (بشکریہ ش۔ الف ۔ راج
محلی)