حضرت مخدوم کچھوچھوی علیہ الرحمہ بے مثال واعظ

 

تارک السلطنت محبوب یزدانی حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح کو دلچسپی اور گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں پر آشکارا ہے کہ آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت میں اولیاء اللہ میں مقام غوثیت و محبوبیت رکھنے کے ساتھ بے مثال فقیہ، محدث، مفسر، مناظر، مترجم، کے ساتھ واعظ لاثانی بھی تھے مندرجہ ذیل میں آپ علیہ الرحمہ کے ملفوظات شریفہ کا مجموعہ"لطائف اشرفی" سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ آپ علیہ الرحمہ،عربی،ترکی،فارسی اور اردو کے کس انداز کے مقرر تھے!  چناں چہ حضرت محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے مرید و خلیفہ حضرت نظام الدین یمنی اشرفی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ: حضرت قدوۃ الکبریٰ"حضرت مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ"نے جامع مسجد بغداد میں خلیفہ"بغداد"اور وہاں کے اہل معرفت و مکرمت کے بے حد اصرار پر وعظ فرمایا۔اس مجمع میں تقریباً پانچ ہزار ارباب فضل اور سرکاری امیر و سردار موجود تھے۔"محفل وعظ کی افتتاح پر ایک"قاری صاحب نے سورۂ یوسف تلاوت کی تو حضرت" سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ" پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی۔"بعد تلاوت" اسی کیفیت میں آپ علیہ الرحمہ نے تقریر شروع کی اور اس وعظ میں معرفت و عرفان کے اس قدر نکات بیان فرمائے کہ سارے مجمع پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور لوگ گریہ وزاری کرنے لگے۔خاص طور پر آپ علیہ الرحمہ نے آیت پاک: لَوۡ لَاۤ  اَنۡ رَّاٰ بُرۡہَانَ رَبِّہٖ ؕ(سورۃ  يوسف آیت ٢٤) اگر اپنے رب کی پختہ دلیل نہ دیکھ لیتے۔کی تفسیر میں ایسی ایسی عاشقانہ باتیں بیان کیں کہ سارے مجمع پر اُن کا اثر ہوا یہاں تک کہ اکثر لوگ اپنے گھروں کی طرف دوڑے یا جنگل کی جانب نکل گئے۔

اندازہ لگائیں کہ حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے وعظ کی محفل کی افتتاح میں قاری صاحب قبلہ سے سورۂ یوسف کی تلاوت سماعت فرمائی تو آپ علیہ الرحمہ پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اس کیفیت کو برقرار رکھتے ہوئے آپ علیہ الرحمہ نے سورۂ یوسف کی ہی ایک آیت کو اپنا موضوع سخن بنا کر واعظ شروع کردی اور پھر کیسے کیسے نکات بیان کیے جس سبب سامعین پر کیا  کیفیت طاری ہوئی اس کا انداز اوپر کی عبارت سے لگایا جا سکتا ہے اور مزید ملاحظہ فرمائیں! آگے "اسی محفل وعظ پر کلام کرتے ہوئے حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:  ایک بزرگ نے جنہیں لوگ شیخ قطب متقی کہتے تھے فرمایا کہ میری عمر سو سال کے لگ بھگ ہے،بہت سے واعظین مختلف ملکوں اور اطراف کے یہاں" بغداد"آئے اور" اس طرح "وعظ کی مجلس میں تقریریں کیں لیکن کسی نے ایسی خوبی و لطافت سے لبریز تقریر نہیں کی جیسی حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی" نے کی۔ مزید لکھتے ہیں: خلیفہ بغداد بھی"تقریر اشرف سن کر اتنا خوش ہوا اور ان پر بھی ایسی کیفیت تاری ہوئی کہ"ایک ہزار اشرفی اور ایک گھوڑا جس کی زین اور لگام سونے کی تھیں لے کر"بارگاہ مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ میں "حاضر ہوا لیکن آپ علیہ الرحمہ نے قبول نہیں کیا۔تبھی کہا جاتا ہے....

        سمناں کا تخت چھوڑ کر غوث الوریٰ ہوئے۔              یوں سلطنت کے ترک نے سلطاں بنا دیا۔

مزید لکھتے ہیں: دوسرے دن خلیفہ" بغداد" پھر"ایک ہزار اشرفی اور ایک گھوڑا جس کی زین اور لگام سونے کی تھیں لے کر "حاضر خدمت"سید مخدوم اشرف" ہوا اور بے حد اصرار کیا تو آپ"علیہ الرحمہ" نے قبول کیا۔ (لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٦ تا ٣٩٧،لطیفہ نمبر ٤٦)

پھر جامع "ملفوظات اشرفی" حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ ایک جگہ لکھتے ہیں:"  جس زمانے میں حضرت قدوۃ الکبریٰ"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ "مدینہ طیبہ میں روضہ منورہ پر حاضر تھے،"تو"حضرت شیخ احمد یسوی" رضی اللہ عنہ "کے سلسلہ یسویہ میں داخل ترکوں کی ایک جماعت بھی وہاں"مدینہ منورہ میں"حاضر تھی۔انہوں نے آپ علیہ الرحمہ کی تعریف کی اور ان"ترکوں" کے"جو" مشائخ"ان کے ساتھ تھے انہوں"نے آپ علیہ الرحمہ سے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ کو وعظ کہنے پر راضی کرنے میں" کامیاب ہوئے۔اُس زمانے میں حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ" ترکی زبان جانتے تھے لیکن"ترکی زبان میں اس وقت"زیادہ مہارت نہ تھی۔"لیکن"چوں کہ یہ مجلس ترکوں نے منعقد کی تھی یہ بھی لازم ہوا کہ ترکی زبان میں تقریر کی جائے تو" حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ "نے اس کے مطابق ترکی زبان میں تقریر کی اور ایسے فصیح لہجے میں حقائق و معارف بیان فرمائے کہ اہل زبان کو رشک ہونے لگا۔جتنے"ترکی" مشائخ اس مجلس وعظ میں موجود تھے سب کو ذوق باطنی حاصل ہوا اور ہر شخص ترکی میں کہتا ہوا آیا۔  (یہاں ترکوں نے کیا فرمایا تھا جامع ملفوظات اشرفی نے اسے بھی نقل کیا تھا مگر مترجم چوں کہ ترکی زبان نہیں جانتے تھے اس لیے مترجم نے نہ ترکی زبان نقل کی نہ اس کا ترجمہ کیا،یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے ترکوں کے سامنے ترکی زبان میں تقریر فرمائی ناکہ اپنی زبان میں یہاں سے سبق ملتا ہے کہ سامنے سامعین جس زبان میں مہارت رکھتے ہیں اسی زبان میں وعظ زیادہ موثر ہوتی ہے نیز یہ بھی دیکھیں کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے تبلیغ دین کے لیے الگ الگ زبان سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے تھے،خیر! آگے ملاحظہ فرمائیں کہ اس تقریر اشرف کا ان ترکوں پر یہ اثر ہوا کہ: تقریباً سو ترک حضرت"سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ"کے ہمراہ روانہ ہوئے اور"آپ علیہ الرحمہ کی" خدمت و ملازمت پر کمر بستہ ہوئے۔یہ"ترکی"لوگ ایسی محنت سے"آپ علیہ الرحمہ کی"خدمت بجالاتے جیسی برگزید وخلفا اور نہایت عاقل حضرات کرتے تھے،چناں چہ انہوں نے تھوڑی سی مدت میں اپنی اپنی ہمت کے مطابق مقصد حاصل کر لیا اور چہرۂ مقصود اُن پر ظاہر ہو گیا۔ (لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٧ تا ٣٩٨،لطیفہ نمبر ٤٦) معلوم ہوا کہ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ اس ہستی کا نام ہے جن کی صحبت فیض سے مختصر وقت میں لوگ عارف باللہ بن جاتے تھے۔اسی طرح"جامع ملفوظات اشرفی حضرت نظام الدین یمنی اشرفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

" ایک روز ایسا ہوا کہ حرم شریف کے"عربی"شیوخ اصرار کرنے لگے کہ حضرت شیخ حرم حضرت نجم الدین اصفہانی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں وعظ کہیں۔آپ علیہ الرحمہ مجبور ہو گئے کیوں کہ شیخ حرم کے حکم کو بجالانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا چناں چہ مجلس ترتیب دی گئی۔آپ علیہ الرحمہ نے عربی زبان میں تقریر کی۔اہل مجلس کو اس قدر ذوق و شوق حاصل ہوا کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔حتیٰ کہ بعض عرب جو صحرا اور بستی سے آئے تھے،شریک مجلس ہوئے۔اُن پر اس قدر وجد و حال طاری ہوا کہ لوگ تعجب کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب واقعہ ہے کہ صحرا میں رہنے والے تقریر سے اس قدر متاثر ہوئے۔(لطائف اشرفی مترجم ج ٣،ص ٣٩٨،لطیفہ نمبر ٤٦) مندرجہ بالا اقتباس سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عربی زبان میں کتنی مہارت تامہ حاصل تھی کہ آپ علیہ الرحمہ زبان عرب میں ایسی تقریر فرمائی کہ شیوخ عرب اور دیہات سے آئے ہوئے عربیوں سب کے سب لطف اندوز ہوئے۔ لطائف اشرفی کا مکمل مطالعہ کرکے اس طرح لکھا جائے تو مکمل کتاب تیار ہو سکتی ہے فی الحال اتنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ (بشکریہ  ش۔ الف ۔ راج محلی)


مسواک اور جدید سائنسی انکشافات

 

مسواک کا استعمال سنت نبوی ﷺ ہے اور اسلامی کلچر کا حصہ ہے۔ جدید سائنسی تحقیق اور مغربی سائنسدانوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دانتوں کی صفائی کیلئے مسواک سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ امریکہ کی مشہورWrigley کمپنی نے مسواک پر تحقیقات کیں اور  جنرل آف ایگریکلچر اینڈ فو ڈ کیمسٹری  میں انہیں شائع کیا۔ ان تحقیقات کے مطابق مسواک میں بیکٹیریا کو ختم کرنے کی صلاحیت کسی بھی دوسرے طریقہ کی نسبت ٢٠ فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح سویڈن کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق "Journal Parodontologie"میں شائع ہوئی جس میں مسواک کے ریشوں کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا۔ سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ مسواک کے ریشے بیکٹیریا کو براہ راست چھوئے بغیر ہی ختم کردیتے ہیں اور دانتوں کو متعدد بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح                        US National Library Of Medicine کی ویب سائٹ پر شائع شدہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مسواک کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ دانتوں کی صفائی، منہ کی صفائی اور مسوڑھوں کی صحت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد تحقیقات میں مسواک کی افادیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق کچھ ایسے جراثیم بھی ہوتے ہیں جو مروجہ برش اور پیسٹ سے دور نہیں ہوتے بلکہ ان کو صرف مسواک سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔طب اور میڈیکل سائنس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ مسواک سے دماغ کو قوت حاصل ہوتی ہے اور اس سے دماغ کی صحت برقرار رہتی ہے۔ دماغ مسواک کرنے سے تیز ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک تندرست رہ سکتا ہے۔احادیث مبارکہ میں مسواک کے بے شمار فوائد کے باوجود مسلمان تو مسواک کی افادیت کو عالمی سطح پر اجاگر نہ کر سکے البتہ یورپ کے ملک چیک ریبلک کی کمپنی Yoniنے مسواک کو Raw Toothbursh کا نام دے کر فروخت کے لئے پیش کردیا۔کمپنی کی جانب سے’’ را ٹوتھ برش‘‘ کی تشہیر کے لئے تصویریں اور وڈیوز بھی جاری کی ہیں جن میں ہر عمر اور ہر جنس کے افراد کو چلتے پھرتے مسواک کرتے ہوئے دکھایا گیا۔اشتہار میں مسواک استعمال کرنے کی بہت سی خوبیاں بیان کی ہیں۔ آپ بھی اس لنک Https://Yonilife.Com/Uk/Rawtoothbrush/ 

پر اس کی تفصیلات دیکھ سکتے ہیں راقم نے ابھی آن لائن دیکھا کہ اس کمپنی کے پانچ مسواک کے ایک پیک کی قیمت اٹھارہ پونڈ ہے جو کہ تین ہزار روپے سے زائد بنتے ہیں۔ بحیثیت مسلم ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام جہاں مسلمانوں کو روحانی پاکیزگی کا حکم دیتا ہے،وہاں اس کی تعلیمات مسلمانوں کے جسم ولباس کی تطہیر کا بھی درس دیتی ہیں۔ نماز سے پہلے مسواک اور وضو کا حکم دیا گیا۔ یہ روحانی وجسمانی فوائد پر حاوی ہے،اسی وجہ سے خود مسواک کوروحانی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ایک مسلمان نماز پنجگانہ میں ایک دن میں ١٥ مرتبہ منہ کو صاف کرتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان نمازی آدمی کامنہ اندر سے بالکل صاف رہتا ہے۔ نمازی نے نماز میں بزرگ وبرتر خالق ومالک کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اس کی حمدوثناء کرنی ہوتی ہے لہذا منہ کا صاف وپاک ہونا از حد ضروری ہے۔منہ صاف نہ ہو تو بدبو آتی ہے،ساتھ والے نمازی بھی متنفر اور بیزار ہوتے ہیں، نیز گندے منہ سے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء اورعبادت کا انسان کے دل ودماغ پر اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی نماز میں خشوع وخضوع حاصل ہوتا ہے۔ عصر حاضر کے انسان نے سہل پسندی کی بناء پر اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ نتیجتاً مہلک اور پیچیدہ امراض میں مبتلا ہو کر لا کھو ں، کروڑوں روپے علاج پر صرف کر رہا ہے حالانکہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر مفت میں صحت و تندرستی کی دولت حاصل کر سکتا ہے۔ اسلام دین طہارت ہے جس میں دانتو ں کی صفائی کے لئے مسواک کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ مسواک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی استعمال کی اوراس کے استعمال پر تاکید بھی فرمائی۔ ابن ماجہ شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’ مسواک کا استعمال اپنے لئے لازم کر لو۔ اس میں منہ کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے‘‘۔ جامع ترمذی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’ اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا تو ضرور تمہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘۔ ابوداؤد شریف میں ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیداری کے بعد مسواک کرتے تھے اور حضور اکرمﷺسونے سے قبل بھی مسواک کرتے تھے‘‘۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے تھے۔ مسواک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت مبارکہ ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اپنائے رکھا یہا ں تک کہ بوقت وصال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک استعمال فرمائی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ’’ مسواک حافظہ کو بڑھاتی ہے اور بلغم دور کر تی ہے‘‘۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ مسواک میں دس خوبیاں ہیں۔دانتوں کی زردی دور کرتی ہے، آنکھوں کی بینائی کو تیز اور مسوڑھوں کو مضبوط بناتی ہے، منہ کو صاف کرتی ہے، ملائکہ خوش ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا، سنت کی اتباع، نماز کے ثواب میں اضا فہ، جسم کی تندرستی اور معدے کی اصلاح یہ سب امور حاصل ہوتے ہیں۔ علامہ ابنِ عابدین شامی فرماتے ہیں کہ مسواک کے فوائد ستر سے زیادہ ہیں، سب سے کم تر فائدہ یہ ہے کہ منہ سے میل کچیل صاف ہو جاتی ہے۔ سب سے اعلیٰ فائدہ یہ ہے کہ موت کے وقت ایمان والے کو کلمہ یاد رہتا ہے۔ حضرت  امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:چار چیزیں عقل  بڑھاتی ہیں:فضول باتوں سے پرہیز،مسواک کا استِعمال، نیک لوگوں کی صحبت اور اپنے علم پر عمل کرنا۔  ماہرین طب کی تحقیق کے مطابق٠ ٨فی صد امراض، معدہ اور آنتوں کے نقص کی وجہ سے پیدا ہو تے ہیں۔ مسوڑھوں کی پیپ غذا کے ساتھ یا بغیر غذا کے لعاب دہن کے ساتھ مل کر معدے میں جاتی ہے تو یہی پیپ مرض کا سبب بنتی ہے اور تمام پاکیزہ غذا کو غلیظ اور متعفن بنا دیتی ہے۔ مسواک Antisepticہے، جب انسان مسوا ک استعمال کر تا ہے تو یہ منہ کے اندر کے تمام جراثیم کو ختم کر دیتی ہے۔ آج کل برش اور پیسٹ کا استعمال نئی تہذیب کی اختراع ہے۔یہ پیسٹ اور برش سادہ مسواک جیسے فوائد سے عاری ہے بلکہ نقصانات کی حامل ہے۔ اس نئی تہذیب کی چمک دمک سے مرعوب لوگ سستی، آسان،مفید اور فطری چیز مسواک کو ترک کرکے متعدد امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت کی کماحقہ پیروی کی جاتی تو دنیا میں دانتوں کی بیماریاں اورڈینٹل سرجنزکی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔                                   


الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ اتردیش

 

مجمع البحرین   حاجی الحرمین اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد محمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی والحسینی قدس سرہ النورانی مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم (الجامعۃ الاشرفیہ) مبارکپور کے محرک اور بانیوں میں سے ہیں۔

دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم مبارکپور کا قیام

جب مبارکپور میں آمد و رفت کی کوئی سہولت نہیں تھی  اس وقت شیخ المشائخ مولانا سید شاہ ابو احمد محمد علی حسین اعلیٰ حضرت  اشرفی میاں  کچھوچھوی( میاں بابا) قدس سرہ ا لنورانی  اونٹنی پر سوار ہوکر کچھوچھہ مقدسہ سے مبارک پور آئے تھے ، انہوں نے رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا ، رفتہ رفتہ ان کے گرد مبارک پور کے سنی مسلمان اکھٹے ہوگئے حضرت میاں بابا (اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  علیہ الرحمہ ) نے لوگوں پر زور دیا کہ  " دین کی ترویج واشاعت کے لئے ایک درسگاہ ضروری ہے"۔ حضرت میاں بابا کی تحریک پر مبارک پور کے سنی مسلمانوں نے لبیک کہا اور میاں شیخ عبدالوہاب شیخ حاجی عبدالرحمٰن و شیخ حافظ عبدالاحد پسران شیخ علیم اللہ شاہ مرحوم ساکنان مبارک پور ضلع اعظم گڑھ نے ١٩٢٢ عیسوی میں ایک مکان واقع محلہ پرانی بستی وقف کیا ، جس میں تعلیم وتعلم کا دور شروع ہوا۔چونکہ مبارکپور میں باقاعد ہ دینی درسگاہ کے مؤجد محرک اور بانی حضرت میاں بابا   (اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ ) حضرت محبوب یزدانی  سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ النورانی کے خاندان ذی شان سے متعلق تھے ۔اس لئے اس درسگاہ کا نام مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم  رکھا گیا اور مدرسہ کے دیکھ بھال کے لئے جاں نثاران اشرفیہ کی خواہشات کے مطابق بانئ ادارہ حضرت میاں بابا رحمۃ اللہ علیہ(اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ) کو مدرسہ کا سرپرست  بھی مقرر فرمایا ۔ ١٩٢٢ عیسوی تا ١٩٢٤ عیسوی استاذالعلماء مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی اشرفی قدس سرہ مسند صدارت پر رونق افروز رہے ۔ الفقیہ امرتسر ١٤/اکتوبر  ١٩٣١ عیسوی کے شمارہ میں جناب ولی جان قصبہ کوٹلہ بازار ضلع اعظم گڑھ کا مضمون شائع ہوا تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا:"میں  بغرض تجارت قریب آٹھ سال سے مبارک پورآتا ہوں چونکہ مجھ کو مدرسہ سے دلچشپی ہے جب بھی آیا مدرسہ ضرور آیا ، یہ مدرسہ تخمیناً تیس سال سے جاری ہے اس کی عمارت تنگ و خام و بوسیدہ ہے ، یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت قبلہ سلطان الصوفیہ شاہ ابواحمد المدعو علی حسین صاحب قبلہ اشرفی جیلانی کچھوچھوی کے دست مبارک کا قائم کیا ہوا ہے ۔" خداوندِ عالم ۔ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ کارکنان مدرسہ کی سعی بلیغ کے باوجود مگر مدرسہ کا انجم عروج پر نہ پہونچا۔ مدرسہ کی طرف سے سالانہ جلسہ (١٩٣١  عیسوی) میں منعقد ہوا تھا جس میں اعلیٰ حضرت قبلہ وکعبہ شاہ سید محمد صاحب محدث اعظم ہند اشرفی جیلانی کچھوچھوی بھی تشریف فرما ہوئے بعد اختتام امتحان جناب محدث اعظم ہندصاحب قبلہ نے سالانہ میٹنگ طلب کی ازسرنو ارکان کا انتخاب عمل میں آیا جناب محمد امین صاحب رئیس قصبہ صدر۔ جناب عظیم اللہ صاحب ناظم ۔سیٹھ حاجی احمداللہ صاحب خازن، جناب فقیراللہ صاحب مہتمم، حکیم محمد عمر صاحب نائب ناظم ، جناب مقیم اللہ صاحب ، و خیراللہ صاحب دلال عمال، قاری شفیع صاحب  مولوی نورمحمد صاحب سفیر مقرر کئے گئے۔، مدرسہ نے کروٹ لی اور چند ماہ کے بعد ٩ /شوال ١٣٥٢ ہجری مطابق ١٤ جنورى ١٩٣٢عیسوی جناب مولانا عبد العزیز صاحب فاضل مرادآبادی کو بلایا اور بیرونی جات سے طلبہ کی آمد شروع ہوگئی اور دومولوی صاحبان مقرر کئے گئے"۔  (بحوالہ: الفقیہ امرتسر ١٤/اکتوبر ١٩٣١)

 اس سے پتہ چلا کہ٩ /شوال ١٣٥٢ ہجری بمطابق ١٤ جنورى ١٩٣٢عیسوی میں جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ تشریف لائے۔  جس وقت آپ علیہ الرحمہ اعظم گڑھ ضلع کے قصبہ مبارکپور تشریف لائے اس وقت یہاں ایک مدرسہ" اشرفیہ مصباح العلوم '' کے نام سے قائم تھا ۔ حضرت حافظ ملت علیہ الرحمۃ کی انتھک محنت کے باعث اللہ عزوجل نے اسی چھوٹے سے مدرسے میں برکت عطا فرمائی اور بالآخر یہ مدرسہ ایک عظیم الشان پھل دار درخت کی حیثیت سے جامعہ اشرفیہ  مصباح العلوم کے نام سے بہت مشہور ومعروف  ہوا ۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ کے فاضلین آج بھی اس جامعہ کے نام کی طرف نسبت کرتے ہوئے دنیابھر میں "مصباحی" معروف ہیں ۔ صاحب "مخدوم الاولیا محبوب ربانی" فرماتے ہیں : شوال المکرم ١٣٥٣ ہجری کا وہ مبارک وقت بھی آیا جبکہ شیخ امین صاحب صدرمدرسہ کی جدوجہد سے نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنا قرار پایا اور سالانہ جلسہ کے موقع پر حضور پرنور اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیاء مرشدالعالم  محبوب ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  قدس سرہ مبارک پور تشریف فرما ہوئے اور جمعہ کے بعد اپنے مقدس ہاتھوں سے مدرسہ کی جدید عمارت کا سنگ بنیاد رکھااور دعاء فرمائی اور اسی موقع پر فرمایا:  "مدرسہ بہت ترقی کرے گا فتنہ بھی اٹھے گا مگراللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے۔"

حضور پر نور کی مخصوص دعاؤں اور آپ کے نواسہ حضرت محدث اعظم کی جانبدارسرپرستی اور ارکان عمائد دارالعلوم غلامانِ سلسلہ اشرفیہ کی غیر معمولی جدوجہد اور ایثار اور اخلاص نے غیر معمولی رفتار سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردیے اور اساتذہ وقت ، غیر معمولی سوچ رکھنے والے مستعد علماء حضرت مولانا سلیمان صاحب اشرفی بھاگلپوری ،  حضرت مولانا غلام جیلانی اعظمی ، حضرت مولانا عبدالمصطفی ازہری، حضرت مولانا عبدالمصطفی اعظمی نے دارالعلوم کے تعلیمی معیار کی دھاک جمادی اور اشرف فیضان اور اشرفی نسبت نے  اپنا اثر دکھایا۔ اکابر کچھوچھہ مقدسہ کے دل میں اہل مبارک پور کی عقیدت مندی ، ایثار پسندی نے کچھ اس طرح مستحکم جگہ بنائی کہ اکابر کچھوچھامقدسہ نے جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کا بدل دارالعلوم اشرفیہ کو قرار دیا اعلیٰ حضرت مخدوم الاولیا محبوب ربانی قدس سرہ النورانی کے محالات وجودعالی مرتبت مرجع خاص عام مرشد انام ذات گرامی نےدارالعلوم اشرفیہ مبارکپور کے لئے جھولی پھیلائی اور چندہ کی اپیل فرمائی۔ ١٩٦٠عیسوی   تک حضور محدث صاحب کی مظبوط و مستحکم سرپرستی میں دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور نشیب و فراز کے بھنور سے نکلتا رہا۔ آپ کے وصال کے بعد غوث وقت مخدوم المشائخ تاجداراہلسنت حضرت مولانا سید شاہ مختار اشرف علیہ الرحمہ نے سرپرستی کے منصب کو رونق دی۔   (بحوالہ: مخدوم الاولیاء محبوب ربانی صفحہ٧ ٣٤) دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ "جامعہ اشرفیہ کے قیام وبنا کا ذکر خیر اعلیٰ حضرت عظیم البرکت سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس یاد "فرمان " میں بھی فرمایا ہے۔

حضرت مخدوم المشائخ قدس سرہ کی ولی عہدی اور سجادہ نشین کے متعلق اپنی حیات بافیض کے آخری ایک ماہ قبل جمادی الاول  ١٩٥٥ہجری میں تحریر فرمایا تھا۔"اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ان کی اب دستاربندی ہوچلی ہے اور تمام علوم ومعقول تفسیر و حدیث وفقہ ومعانی وتصوف کو بکمال جانفشانی "جامعہ اشرفیہ جو اس فقیر کا بنایا ہوا دارالعلوم ہے سے حاصل کیا"۔ جامعہ اشرفیہ (مبارکپور) کا انتظام انصرام حضرت عالم ربانی سلطان الواعظین حضرت سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ قدس سرہ جیسے روشن دل و دماغ بزرگ فرماتے تھے، حضرت فرماتے تھے :"اگر میری زندگانی نے وفا کی تو جامعہ اشرفیہ کو ہندوستان کا جامع ازہر بنادوں گا "۔  (بحوالہ: مخدوم الاولیا محبوب ربانی  صفحہ ٣٣٤)

صاحب"سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ "  کے موضوع "جامعہ اشرفیہ کا قیام" میں فرماتے ہیں : اشرفی میاں (کچھوچھوی) نے مبارکپور میں ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا اور اس کا نام " جامعہ اشرفیہ " رکھا اس میں درس نظامیہ کا مکمل اہتمام کیا آپ نے ہندوستان کے جید علماء کو اس دارالعلوم میں تدریس کے لئے راغب کیا آپ کے حکم پر علماء نے رضامندی ظاہر کی اورپڑھائی کا آغاز ہوگیا اور بہت تھورے عرصہ میں یہ دارالعلوم ہندوستان کے بڑے مدارس میں شامل ہوگیا یہاں سے ہرسال کافی تعداد میں علماء فارغ التحصیل ہوتے تھے۔اشرفی میاں خود اس کی کفالت فرماتے تھے ، جب سالانہ جلسہ ہوتا تو آپ بنفس نفیس مبارکپور تشریف لے جاتے جلسے کی صدارت فرماتے اور آخر میں اپنے دست مبارک سے فارغ التحصیل طلباء کی دستاربندی فرماتے۔ یہ دارالعلوم آج بھی مبارکپور میں موجود ہے اور اب تک بے شمار تشنگان علم یہاں آکر پیاس بجھا چکے ہیں یہ        ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی  اعلی حضرت سیداشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ  کا ایساکارنامہ ہے جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔     (بحوالہ: سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ، دینی اور روحانی خدمات کا تحقیقی جائزہ /ڈاکٹر سیداشرف جیلانی، مکتبہ کلیہ اسلامیہ کراچی صفحہ٢٢٤ (

   یہ جامعہ برسہابرس سے  کتاب و سنت کی ترویج واشاعت کرتا رہا اسی جامعہ کے شیخ الحدیث محدث اعظم ہند کچھوچھوی ، حضرت   مولانا عمادالدین سنبھلی، مفسر شہیرحکیم الامت  مولانا مفتی احمد یار خاں  اشرفی صاحب ، علامہ مفتی عبدالرشید خاں اشرفی ناگپوری صاحب ،غوث الوقت سرکارکلاں علامہ سید محمد مختار اشرف کچھوچھوی، جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ مولانا الشاہ عبد العزیز صاحب محدث مرادآبادی، محی الملۃ والدین علامہ سید محی الدین اشرف اشرفی ( اور ان کے خلف ارشد حضرت مولانا سید شاہ معین الدین اشرف) رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین نیز دیگر اکابر علماء مختلف عہدوں میں ہوتے رہے اور یہاں کے فارغین طلبہ آج اکابر ملت اسلامیہ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔

ایک شبہ کا ازالہ : اس ادارہ کو مدرسہ اشرفیہ سے دارالعلوم اشرفیہ میں تبدیل ہونے میں اس کی مساعی جمیلہ کا سب سے اہم رول ہے ۔ مبارکپور کی اکثر وبیشتر آبادی آپ کے دامن کرم سے وابستہ رہی ۔ اس ادارہ کی ترقی اور اس کے باغ کو سینچنے اور سنوارنے میں "اشرفی نسبت" رکھنے والوں کا خون جگر شامل ہے۔ پھرذہن نشین کرتا چلوں کہ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی قد س سرہ النورانی اشرفیہ کے تاحیات سرپرست رہے۔ اس کے بعد حضور سید محدث اعظم ہند اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اس ادارہ کی سرپرستی کی ۔ ان کے وصال کے بعد غیر متبدل دستوری ضمانت کے مطابق سجادہ نشین سرکارکلاں حضرت سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کی طرف سرپرستی منتقل ہوئی۔ غالباً ١٩٦٩ عیسوی میں دستور پر شبخون مارا گیا اس اسے موت کے گھات اتارکر غیر دستوری طور پر ایک نیا دستور بنا لیا گیا اور اس وقت کے اشرفیہ کے شیخ الحدیث و صدرالمدرسین حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب مرادآبادی علیہ الرحمہ اشرفیہ کے "سب کچھ " بنا دئے گئے۔ پھر اسی پر اکتفانہیں کیا گیا ، لوگوں کو شخصیت پرستی کا ایسا نشہ سوار ہوا کہ جو مدرس یا صدر مدرس کی حیثیت سے بلایا گیا تھا جو مدرسہ اشرفیہ ، دارالعلوم اشرفیہ اور خود جامعہ اشرفیہ کا صدر مدرس تھا بانی کی رحلت کے بعد اچانک انہیں "بانی " بنا دیا گیا ۔ اس تاریخی بددیانتی کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے ۔  واضح رہے کہ جس جامعہ کا بانی حافظ ملت کو کہا جارہا ہے اور جس جگہ یہ واقع ہے اس اراضی کا ایک بڑا حصہ اسی "درجہ شہادت سے سرفراز دستوری کمیٹی " نے خریدا جس کے سرپرست سجادہ نشین حضور سرکارکلاں سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ تھے۔ اسلئے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو جامعہ اشرفیہ کا "تنہامعمار" نہیں کہا جاسکتا ۔ چہ جائیکہ بانی کہا جائے۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی روح ان "مطرین" کے احمقانہ بلکہ ظالمانہ رویہ پر ماتم کناں ہوگی۔

اگر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ الجامعۃ الاشرفیہ کے بانی ہیں تو ١٩٧٢ عیسوی میں قائم شدہ یہ ایک نیا ادارہ ہوا اور اس کا تعلق اس کے پہلے کے اشرفیہ سے عقل ومنطق کی رو سے نہیں ہوسکتا۔ جس "نادرمنطق" کی بنیاد پر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بانئ جامعہ اشرفیہ ہیں اس کو صحیح مان لیا جائے تو سرسید احمد خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی نہیں رہ جاتےہیں کیونکہ ان زمانے تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک معمولی کالج ہی کی شکل میں تھا ۔ (اینگلو اینڈین کالج) ١٩٢٠عیسوی میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ۔  (ماہنامہ غوث العالم فروری٢٠٠٧ صفحہ ١٢)


محاسبہ و مراقبہ کیسے کریں؟؟؟

جب ہم نماز فجر و  وظائف اور تلاوت سے فارغ ہو جائیں تو اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور دل کو حاضر کر کے فکر کریں کہ میرا رب میرے ساتھ ہے ، میرے پاس ہے ۔ مجھے دیکھ رہا ہے ، میرے دل کی دھڑکن جانتا ہے، میرا ظاہر و باطن اس سے پوشیدہ نہیں رب کے عطا کردہ انعام و اکرام کو یاد کریں اور غور و فکر کریں کہ اسکے کرم و عطا کے سامنے نہ ذکر کر پا رہا ہوں نہ شکر ادا ہو رہا ہے۔ کہاں اسکا فضل ، کہاں اپنی بندگی ، نہ حمد نہ شکر نہ ذکر نہ فکر، نہ تسبیح نہ تلاوت ، کچھ بھی نہیں کر پارہا ہوں ۔ ہم یہ فکر کریں کہ عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ ختم ہو چکا ہے ۔ اب نہ جانے کتنی زندگی باقی ہے ، کب موت کا فرشتہ آجائے اور ہم دنیا سے رخصت ہو جائیں ۔

دنیا کے ہر سفر میں ہمارے بچے ، بیوی، دوست و احباب ساتھ رہنے پر اصرار کرتے رہے ہیں، مگر آخرت کے سفر میں نہ بیوی بچے ساتھ آئیں گے نہ دوست واحباب نہ تجارت و زراعت آئے گی نہ مال و دولت، اور مجھے قبر کے حوالے کر کے چلے آئیں گے۔ ساری پراپرٹی و جائداد، گھر بار سب پر وارثوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور مجھے قبر کے حوالے کر کے پہلے آئیں گے " میرے ایک " اشارہ پر حاضر ہونے والے آنکھیں پھیر کر ایسا پلیٹیں گے کہ جیسے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ اب یہاں پر ہم خوب سوچیں اور غور وفکر کریں کہ جب قبر د حشر کے امتحان سے ہم کو گزرنا ہی گزرنا ہے تو اسکی تیاری میں لگ جانا ضروری ہے تاکہ رزلٹ اچھا آئے، فوز و فلاح نصیب ہو۔

لہذا قبر میں جانےسے پہلے بڑا  سرمایہ (نیکی) جمع کریں، جونہ ضائع ہوگا اور نہ کوئی اس پر  قابض ہوگا۔ وہ سرمایہ ہے ذکر الہی ، تسبیح و تلاوت ، خیر و خیرات ، عبادت الہی و اطاعت نبوی صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ نیکی کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے بچیں گے اور برائی سے بچنے کی ہدایت کریں گے ، خیر و سعادت کی جانب داعیانہ کردار ادا کریں گے۔ اپنے شب روز کو " یاد موئی ، میں گزارنے کی کوشش کریں گے۔ بچی ہوئی عمر کو " آخرت کی کمائی میں لگائیں گے ، قضا نمازوں کو قضا روزوں زکوة وحج کو جلد از جلد ادا کرنے کا خصوصی اہتمام کریں گے۔ ایک ایک نافرمانیوں کو یاد کریں ۔ اور مولائے کریم سے اسکے تدارک نجات کی توفیق مانگیں ۔ ہدایت ورہبری کی بھیک مانگیں۔ اس کو " مراقبہ کہتے ہیں یعنی ایسی فکر جو بندے کو مولیٰ کے قریب کر دے۔ ایسے مراقبے میں جو تسلسل جاری رکھا جائے جب پختگی اور استقامت حاصل ہو جاتی ہے تو یہی مراقبہ راہِ سلوک کے لئے مجاہدہ بن جاتا ہے اور جب توفیق الہی سفر مجاہدہ میں معاون بن جاتی ہے تو طالب کا مجاہدہ ، مشاہدہ کی جگہ لے لیتا ہے ۔ جہاں بندہ کائنات کی ہر شئے میں مولیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے ۔

محاسبہ : اپنا حساب کرنا، اپنے باطن میں جھانکتے رہنا ،ایک ایک کوتاہیوں کو تلاش کرنا ، گذرنے والے کل میں کتنا جھوٹ بولا ۔ فلاں کو میں نے اس کا حق نہ دیا۔ فلاں کو  گالی دی ، عیب لگایا۔ فلاں کی غیبت کی فلاں سے حسد کیا، فلاں کے تعلق سے میرے سینے میں بغض ہے ، عداوت ہے ۔ لہذا اپنے مولی کو اپنے ساتھ جان کرمان کر عزم وارادہ کرنا ہے، آج جو سورج نکلا ہے ، اس میں جھوٹ فساد، بغض وحسد ، فحش کلامی، حق تلفی اوردیگر برائیوں کا گراف کم کرنے کی کوشش کروں گا ۔اس لئے ہمیں محاسبے میں یہ بھی حساب کرنا ہے کہ کل جو کچھ نیکیاں ہوئیں اس میں مزید اضافہ ہو   تاکہ اور بھی کامیابی نصیب ہو ۔ وقت ابھی ہے ، قبروحشر کا توشہ جتنا زیادہ جمع کرلوں اتنا ہی مجھے سکون روحانی حاصل ہوگا اور برزخ کی دنیا میں فلاح نصیب ہوگی ۔ ہم شب و روز کسی بھی وقت جو بالکل سکون و تنہائی کا ہو۔ اس میں چند منٹ تک محاسبہ کی عادت ڈالیں کیونکہ اسی راستے سے ہم اپنے نفس کے عیوب سے مطلع ہو سکیں گے، اور نفس کی شرارتوں سے آگہی باطن سنوارنے کی روحانی دوا ہے ۔ ہم اپنے باطن کے محاسبہ میں لگیں گے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے گناہ و جرم نظر آئیں گے ۔ اور یہ منزل خیر و ہدایت سے قریب کر نیوالی ہے۔ ہادی اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ خَيْرًا يُبْصِرَةُ بِغُيُوبِ نَفْسِاء ( جب اللہ تعالے کسی بندے کے لئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تواسکے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے۔  (کشف المحجوب / حضور داتا گنج  بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ )

کچھوچھہ شریف میں شہنشاہ اکبر اور ولی عہد سلطان شہزادہ سیلم کی حاضری اور جہانگیر کا لقب اختیار کرنا

تاریخ او دھ  میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ درج ہے، جس کو اب تک تاریخ دانوں اور تاریخ  لکھنے والوں نے اہمیت نہ دی۔  اس طرح یہ واقعہ آہستہ آہستہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا لیکن میرے لئے یہ واقعہ بہت اہم ہے اسلئے میں اپنی اس الاشرفی جنتری  میں اس اہم واقعہ کو جگہ دینے پر مجبور ہوں ۔ واقعہ کا کچھ حصہ تو بہت عام ہے کہ اکبر بادشاہ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی اور یہ اس سلسلہ میں مختلف بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سلسلہ میں  عارف بااللہ حضرت سیدنا  خواجہ شیخ سلیم چشتی  علیہ الرحمہ  جن کا مزار فتح پور سیکری میں مرجع الخلائق ہے ، کی خدمت میں اکبر بادشاہ  حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی حضرت سلیم چشتی  علیہ الرحمہ نے دعا فرمائی تو شہزادہ سلیم عرف جہانگیر پیدا ہوا۔ یہاں تک لوگوں کو بتایا گیا ہے اس سے آگے کا واقعہ نہ معلوم کیوں عام نہ کیا گیا۔ بہر حال اگلا حصہ یہ ہے کہ حضرت شیخ سلیم چشتی نے اکبر بادشاہ کو  کہا کہ تیرے یہاں مقدر میں اولاد نہیں تھی ، چنانچہ میں نے شمالی ہند کے ایک بزرگ  غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کا واسطہ پیش کیا تو میری دعا قبول ہوئی ، تیرے ہاں یہ بیٹا پیدا ہوا، چنانچہ اکبر بادشاہ نے بیٹے کا نام حضرت سلیم چشتی کے نام پرشہزادہ سلیم رکھا بعد میں اکبر بادشاہ  اپنے بیٹے کو لے کر اودھ کی مشہور درگاہ کچھوچھہ شریف  گیا۔ ایک مقام پر اس نے اپنا ڈیرا  ڈالا اور تمام فوج و دیگر عمال حکومت کو یہاں چھوڑ کر  غوث العالم محبوب یزدانی حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ  کی درگاہ عالیہ پر حاضری دی جہاں اس کو بشارت کے ذریعے بیٹے کی سر بلندی اور اقبال حکومت کی وعید سنائی گئی اور یہ کہا گیا کہ یہ لقب جہانگیر اختیار کرے، جہاں اکبر بادشاہ نے اپنا پڑاؤ کیا تھا اس جگہ کا نام      اکبر پور رکھ دیا گیا اورا کبر پورا یک جنکشن ریلوے اسٹیشن ہے اور آج کچھوچھہ شریف جانے کے لیے اسی اسٹیشن پر اتر نا پڑتا ہے۔ لکھنو سے کلکتہ کے راستے میں تین لائن پر واقع ہے ۔ چنانچہ اس بشارت کی وجہ سے جب شہزادہ سلیم حکمراں ہوا تو اس نے اپنا لقب جہانگیر رکھا اور اسی لقب سے مشہور عالم ہوا ۔ (بحوالہ لطائف اشرف صفحہ  ٤٣ از قلم : ڈاکٹر سید مظاہر اشرف اشرفی الجیلانی/مکتبہ سمنانی فردوس کالونی کراچی  علیہ الرحمہ)

حیر ت انگیز واقعات بزبان مخدوم پاک کچھوچھوی قد س سرہ النورانی

حضرت قدوۃ الکبری ٰمخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے روح آباد خانقاہ اشرفیہ میں زیادہ عرصہ قیام نہ فرمایا بلکہ شاید ایک سال قیام فرمار ہے، اس کے بعد آپ نے پھر قصد سفر فر مایا۔ سفر کا مطلب طالبان حق کی رہنمائی کر،حاجتمندوں کی دستگیری کرنا اور بزرگان سے روحانی استفادہ کرنا اور اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں  آپ  علیہ الرحمہ نے پوری دنیا کی سفر تین بار کئے اس لئے آپ علیہ الرحمہ کو جہاں جہانیاں گشت بھی کہا جاتا ہے۔جس طرح حضرت دنیا کی سفر و سیاحت فرمائے ایسی بہت کم نظیر ہوگی جو کچھ صنائع قدرت عالم کے آپ نے دیکھے اس کو دیکھ کر انسان دنگ ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر ہیں۔ چنانچہ  مولف لطائف اشرفی حاجی نظام غریب یمنی رقم طراز ہیں کہ حضرت قدوۃ الکبری کے سفرو سیاحت میں جو جو عجائبات عالم نظر آئے حضرت  (علیہ الرحمہ ) فرمائے کہ اس کا اظہار اگر تمہارے سامنے کیا جائے تو اس کو تم لوگ یقین نہیں کر سکو گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ چند لوگ تھے ہمارا گذر ایک جزیرہ میں ہوا وہ نہایت شاداب خوش فضا تھا اور یہ حصہ ایک پہاڑ کے دامن میں آباد تھا۔ وہاں پر ایک عجیب درخت دیکھنے میں آیا اس کو اکثر شجرة الوقواق کہتے تھے اور بہت تن آور تھا۔ اس کی شاخیں  بکثرت پھیلی ہوئی تھیں۔ شاخوں کی نوکوں پر آدمی پھلے ہوئے تھے ان کی ناف سے شاخیں لگی ہوئی تھیں۔ جب ہوا شدت سے چلتی تو یہ انسان اُچک اُچک کر ڈالیوں پر بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ ان کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔ حضرت قدوۃ الکبریٰ ایک روز وہاں قیام فرمائے ۔ حضرت کو فکر تھی دیکھیں یہ کیا غذا کھاتے ہیں ۔ جب رات ہوئی تو اکثر پرندے اڑ اڑا کر  اس درخت کی شاخوں پر بیٹھنے لگے۔ ان کے پر بہت خوبصورت تھے ۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے سونے کے پر لگا دیئے ہیں وہ اپنے بچوں کیلئے چونچوں میں میوہ لاتے تھے جس وقت وہ بچوں کو منہ بھرانے لگے تو ان کی چونچوں سے وہ میوہ زمین پر گرنے لگا اوپر سے لٹکے ہوئے انسان ان کو کود کر اُٹھا لیتے اور کھاتے جاتے تھے ۔ حضرت قدوۃ الکبریٰ اس جھاڑ کے قریب جا کر اس میوہ کو دیکھے تو بہترین دو قسم کے انگور تھے۔ آپ دیکھ کر سبحان اللہ فرمائے کہ کیسی شان رزاقی ہے اپنی مخلوق کو کس کس ذریعہ سے رزق پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد آپ کو یہ خیال ہوا کہ کس طرح ان کی موت واقع ہوتی ہوگی اس جزیرہ کے قریب جو لوگ تھے اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا جب ان کی موت آتی ہے تو وہ رگ جو ناف سے درخت کے شاخوں کی نوک میں لگی ہوئی ہے وہ اکھڑ جاتی ہے وہ اسی وقت مر جاتے ہیں، آپ وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ میں نواحی ایلاق میں پہونچا تو اس شہر کے کنارے ایک دریا جاری ہے۔ دریا کے کنارے پر شہر آباد ہے ۔ ایک عمدہ طور پر بنایا گیا ہے ۔ جب ہم اس شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس شہر کے رہنے والی سب عور تیں تھیں۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ اس شہر میں مرد کا وجود ہی نہیں جس کی قسمت میں اولاد ہوتی ہے وہ عورت بعد ایام حیض دریا میں غسل کرتی ہے اور خدا کی قدرت سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے سوائے لڑکی کے لڑ کا نہیں پیدا ہوتا۔

حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ سفر راہ سیلان میں ایک جگہ ٹھہرے یہاں تین دن تک کوئی آنے جانے والا دکھلائی نہ دیا،جس سےکہ  راستہ کا دریافت کیا جائے جب ہمرا بیان بھوک و پیاس سے بے حد پریشان ہوئے ۔ درخت کشن کے نیچے اترے اور یاروں نے اپنے اسباب اتارے۔ ایک ساعت بیٹھے تھے کہ ایک چیونٹی چوہے کے برابر آئی اور حضرت کے نزدیک بیٹھی اور اس کے اور حضرت کے درمیان کچھ باہمی اشارے ہوئے ہمراہیوں کو گمان ہوا کہ اشاروں میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد چونٹی چلی گئی ۔ حضرت محبوب یزدانی معمولی طور سے جلوس فرماتھے ۔ ایک پہر کے بعد چیونٹی آئی اور حضرت کی طرف اشارہ کیا ۔ آپ معہ  ہمراہیاں روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور چل کر جس درخت کے نیچے چیونٹی کا مسکن تھا، چالیس ڈھیر مٹھائی کے چنے ہوئے تھے ۔ ایک ڈھیر بڑا تھا جس پر حضرت کو بٹھایا اور باقی سب ڈھیر برابر تھے۔ ہر ہمراہی کو ایک ایک ڈھیر پر بیٹھایا اور حضرت نے ہر شخص کو کھانے کی اجازت دی۔ سب لوگ شوق کے ساتھ کھانے لگے ۔ جب کھا چکے چیونٹی نے التماس فاتحہ کیا۔ بعد پڑھنے فاتحہ کے اپنے مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ چیونٹی حضرت کے ہمراہ آپ کی قیام گاہ تک پہونچانے آئی۔ حضرت نے اس کو قیام گاہ سے رخصت کیا جب چیونٹی چلی گئی حضرت نورالعین نے پوچھا۔ آپ  قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا یہ چیونٹی چیونٹیوں پر بادشاہی کرتی ہے۔ ایک روز ایک امیر اس جنگل میں شکار کے لئے آیا اس کے پاس کھانے کا توشہ بہت تھا۔ اس مقام پر ٹھہرا، کھانے کے بعد جو کچھ مٹھائی بچی تھی چوٹیوں کے سوراخ پر ڈال دی۔ چیونٹیوں کے بادشاہ نے سب مٹھائی جمع کر رکھی اور دل میں یہ ارادہ کیا کہ یہ مٹھائی محفوظ رکھوں جب کوئی مہمان عظیم الشان یہاں آئے تو اس کی ضیافت کروں۔ حق تعالےٰ نے جماعت فقراء کو یہاں پہونچایا چیونٹی نے ضیافت مورانہ کی جیسا کہ دیکھا گیا ۔

حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ ہم لوگ  ایک جزیرہ کے جنگل میں پہونچے   یکایک ایک پیر والے آدمیوں کی جماعت دکھائی دی ۔ نہایت تیزی کے ساتھ چلتے تھےانکی رفتار دوڑ اتنی زبردست ہوتی تھی کہ  انسان  ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔  ہماری جماعت کو نہایت تعجب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ آخر ان کے اشارے اور کنایہ سے معلوم ہوا کہ کمال تعجب سے یہ پوچھتے تھے کہ آپ لوگ دو پیروں  سے کیسے چلتے ہو  ؟اور ہم ان کا ایک پیر دیکھ کر تعجب کرتے ۔ آخر ان کے دین و مذہب کے بابت دریافت کیا گیا کہنے لگے کہ ہم میں دین و مذہب نہیں ہے اور نہیں جانتے کہ دین و مذہب کیا چیز ہے لیکن اس قدر جانتے ہیں کہ ایک کا دیگر زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہ اکثر جنگل کے پھلوں پر گزربسر کیا کرتے تھے ۔ان کی اولاد کی پیدائش ہم لوگوں کی طرح تھی بعض لوگ اس گروہ کو نسناس کہتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت نسناس وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں پہچانتے ہیں ۔

حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہوئے وہاں پر حضرت انبیاء علیہ السلام کی زیارت کئے اور ان کے رُوح پر انوار سے جو فیوض و برکات آپ کو حاصل ہوئے وہ لامتناہی ہیں۔ آپ قد س سرہ کا قیام بھی کئی روزتک بیت المقدس (فلسطین ) میں رہا۔  آپ قد س سرہ سفر کرتے کرتے کوہ بتا اپنے حِبال ِجنتی میں پہنچے یہاں آپ قدس سرہ نے  اپنا عَلَم گاڑ دیے چونکہ یہ ابدال کا مسکن کہلاتا ہے اور اہل سلوک کے جملہ سلوک یہاں رفع ہوتے ہیں اس کا قلب مثل آئینہ بن جاتا ہے اور اس جائے پر سالک کامل ہو جاتا ہے۔ آپ اس جائے(جگہ) پر دس روز اعتکاف میں  ٹھہرے رہے۔ آپ پر تمام اسرارکھل گئے۔ وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔  جب کوہ نہاوند میں پہنچے تو وہاں پر ایک مسجد عالیشان دیکھے اس مسجد کو ایک بہادر جوان مرد ، داؤد نامی نے بنایا تھا۔ اس کے ہمراہ سب غازیان و مجاہدان اسلام تین ہزار تھے اس جائے وہ سب لوگ جہاد کئے اور شہید ہوئے ۔ ان سبھوں  کی لاش تابوتوں میں رکھی ہوئی تھی ۔ دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ لاشیں بالکل تروتازہ ہیں جیسے کوئی مست خواب ہو اور اُن کے زخموں پر روئی کے پھائے رکھے ہوئے تھے۔ قابل ذکر یہ بات ہے کہ اگر کوئی ان کے زخموں پر سے روئی ہٹائے تو اس وقت خون جاری ہو جاتا تھا۔ جب تلک پہلے کے موافق اس کو نہ باندھے بند نہیں ہوتا تھا۔ وہاں پر بھی فیض و برکات کا نزول ہوتا ہے اور آپ اس سے مستفیض ہوئے۔ جب آپ  قد س سرہ کا سفر کوہ طور کی جانب ہوا۔ وہاں کی خوبیاں جو آپ اظہار فرمائے وہ نا قابل تحریر تھے۔ یہاں پر آپ کی خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ آپ کو اپنے ہمراہ لے چلے۔ حضرت جب طواف طور کر رہے تھے تو ایسے وقت میں ابلیس علیہ اللعنۃ آیا اور آپ سے باتیں کرنے لگا آپ اس سے پوچھے تو آدم کو سجدہ کیوں نہ کیا اس کا کیا سبب ہے؟ اس نے کہا کہ عاشق غیر کو نہیں دیکھتے یہی ثابت قدمی ہے ورنہ ہیچ۔ آپ فرمائے تو عشق کی راہ سے بالکل واقف نہیں یہاں تو تو گمراہ ہو گیا ۔ اس لئے کہ معشوق کی عدول حکمی تو نے کی، تیرا دعویٰ غلط ہے۔ آپ فرمائے سچا عاشق وہ ہے کہ جو حکم اس کا معشوق کرے، وہ فورا تحمیل کرے، رمق برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔ ورنہ دفتر عشق سے اُس کا نام خارج ہو جائے گا اس کے بعد آپ اس سے کچھ باتیں کئے اور عجیب انداز سے اس کا جواب دیتا ہوا بھا گا۔

حضرت قدوۃ الکبریٰ سید اشرف جہانگیر سمنانی کا سفرکوہ سراندیپ کی جانب شروع ہوا ۔حضرت سید نا آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے کوہ سراندیپ پر اترے اسی وجہ سے دنیا کے تمام انسان اس کی عظمت کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چالیس سال اور بعض کہتے ہیں کہ ستر سال ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر روتے رہے اور توبہ واستغفار کرتے تھے اور اتنا روئے کہ آپ کے رونے سے نہریں جاری ہو گئیں اور اس کے اطراف کی زمین نیلے رنگ کے گھاس سے شاداب ہوئی۔ مخلوق خدا اس کی زیارت کیلئے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے آتی ہے۔ وہاں پر ہر وقت خلق کا اژ دہام رہتا ہے اکثر فقرا و مسکینوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ایک پتھر پر آپ کا نقش قدم ہے لوگ اس مبارک نقش کی زیارت کرتے ہیں راستہ وہاں جانے کیلئے بہت تنگ تھا۔ انسان کا گذر بمشکل ہوتا تھا۔ جبکہ سکندراعظم یہاں پہنچا تو اس نے ایک زنجیر تیار کرائی جو طول میں تین فرسنگ تھی اس پہاڑ پر نصب کرائی جس طرح بغیر سہارے سیڑھی کے اوپر نہیں جا سکتا اس کے معاوضہ میں یہ زنجیر سیڑھی کا کام دیتی ہے اس کو پکڑ کر لوگ آتے جاتے ہیں۔ اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ تلاوت قرآن مجید کی آواز صاف طور پر سنائی دیتی ہے کیا اعجازسمجھ میں نہیں آتا ۔ بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔ ایک اور بات نادرات سے ہےیعنی  فقرا اور درویش اپنے وجود اصلی کو بھی دیکھتے ہیں یہ ان کے ارادت کمال کی انتہا کا باعث ہے۔ لیکن آدمی کواس جائے پر خوف ہوتا ہے۔ (بقیہ اگلا شمارہ میں۔ ان شاء اللہ )

فاتحہ بدرگاہ سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ


 بروح اقدس حضرت سلطان الاولیاء   درۃ تاج الاصفیاء عمدۃ الکاملین زبدۃ الواصلین، عین عیون محققین، وارث علوم انبیاءو مرسلین،کان عرفان، جان ایمان، منبائے خاندان چشتیہ، منشائے دودمان بہشتیہ، تارک المملکۃ و الکونین ، مرشد الثقلین،اولاد حسین شہید کربلا ، نوردیدہ فاطمہ زہرا، جگرگوشہءعلی مرتضےٰ، نبیرہ حضرت محمد مصطفے، سالک طرق طریقت ، مالک ملک حقیقت ، مقتدائے اولیاء روزگار ، پیشوائے اصفیاء کبار، صدر بارگار کرامت مقتدائے کنتم خیر امۃ اخرجت واقف رموز حقائق الہی، کاشف وقائق لا متناہی ، سیمرغ قاف قطع علائق ،شہباز فضائے حقائق، شمع شبستان ہدایت ، مہر انور اوج ولایت ، ملجا ارباب شوق و عرفاں، معاذ اصحاب ذوق وجداں ، مقتدیٰ الانام، شیخ الاسلام، حافظ قراءت سبعہ جہاں گست حدود اربعہ، مقیم سراوقات جلال مہبط تجلیات جمال الذی من اقتدی بہ فقد اھتدی ومن خالف فقد ضل و غویٰ متابعوۃ سالکون و مخالوۃ ھالکون وھو الواقففی مقام القطبیۃ و المتمکن فی مرام الغوثیہ،مظہر صفات ربانی، مورد الطاف سبحانی حضرت شاہ مردان ثانی مخاطب بہ خطاب محبوب یزدانی، سیدنا و مولانا و شفاء صدورنا و طیب قلوبنا مقتدائے اولیاء کثیر حضرت امیر کبیر مخدوم سلطان سید اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی النورانی سرہ العزیزو بروح اقدس حضرت قدوۃ الابرار عمدۃ الاخیار سروگلستاں حسنی الحسینی ، نہال بوستاں بنی المدنی نوردیدہ حضرت محبوب سبحانی سرور سینہ سید عبدالقادر جیلانی، مظہر اسرار اشرفی ، منظر انظار شگرفی حاجی الحرمین الشریفین، مخاطب بہ خطاب نورالعین، زبدۃ الآفاق مرضی الاخلاق مہبط انوار مشیخت علی الاطلاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین رضی اللہ عنہ مع جمیع خلفاء و مریداں یکبار فاتحہ و سہ بار اخلاص با صلوات بخوانید۔

دعائے عاشوراء


 

یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا مُغِیْثَ اِبْرَاھِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآ ءَo یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَo یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ o وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ o بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ o اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہٖ وَ جَدِّہٖ وَ بَنِیْہٖ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ o

غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ النورانی فرماتے ہیں کہ مشرق ومغرب کے تمام اکابر جن سے ہم نے ملاقات کی ہے ان پر عمل کرتے ہیں  اور یہ  تمام مشائخ کے اوراد سے منقول ہے  ، چنانچہ آپ نے تمام اصحاب و احباب اولاد و اخفا ء کو روز عاشورہ طلب کرکے یہ دعا  پڑھنے کا حکم فرمایا دعا یہ ہے۔ (لطائف اشرفی / لطیفہ٣٨ /صفحہ ٣٣٥، وظائف اشرفی صفحہ ٦۴)

سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا ۤاِلَیْہِ o سُبْحَانَ اللّٰہِ الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ o وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ o نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ o وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ o وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰیۤ اٰلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْد۔ (٧ بارپڑھیں)

فاتحہ و ایصال ثواب کا طریقہ

 

کسی بھی مسلمان میت یا بزرگ کو ثواب پہنچانا اہل سنت وجماعت کے نزدیک درست ہے، خواہ نماز پڑھ کر ہو یا صدقہ وخیرات کے ذریعہ ہو یا قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ ہو، چنانچہ نماز جائز اوقات میں سے کسی بھی وقت میں پڑھ کر یا کسی بھی وقت سورہٴ فاتحہ یا قرآن کریم کی کوئی بھی سورت پڑھ کر بنا کسی خاص طریقہ کے میت کو اس کا ثواب پہنچاسکتے ہیں، سب سے پہلے  کم سے کم تین بار درود شریف پڑھے  پھر چاروں قل سورہ فاتحہ  اور الم سے مفلحون تک پڑھےاس کے بعدپڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھئے : وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠  (البقرۃ : ۱۶۳) اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ  (الاعراف : ۵۶) وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ  (الانبیاء : ۱۰۷)   مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَاللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠  (الاحزاب : ۴۰) اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا  (الاحزاب : ۵۶) اب دُرُود شریف پڑھئے  : اَللّٰھُمَّ صَلِّی وَ سَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِ نَا مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی بِاَنْ تُصَلِّیَ عَلِیْہِ o اس کے بعد یہ آیات پڑھئے : سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ o وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ o وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠ o  (اَلصّٰفٰت : ۱۸۰۔  ۱۸۲) اب  فاتحہ پڑھانے والا ہاتھ اٹھاکربلند آواز سے ’’ اَلْفَاتِحَہ‘‘ کہے۔  سب لوگ آہستہ سے یعنی اتنی آواز سے کہ صرف خود سنیں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ پڑھیں۔  اب فاتحہ پڑھانے والا اس طرح اعلان کرے :  ’’آپ نے جو کچھ پڑھا ہے اس کا ثواب مجھے دیدیجئے ۔  ‘‘  تمام حاضِرین کہہ دیں : ’’ آ پ کودیا۔ ‘‘اب فاتحہ پڑھانے والا ایصالِ ثواب کر دے۔

ایصال ثواب کیلئے دعا کا طریقہ

           یااحکم الحاکمین! جو کچھ پڑھا گیا (اگر کھانا وغیرہ ہے تو اس طرح سے بھی کہئے)  اور جو کچھ کھانا وغیرہ پیش کیا گیا ہے اس کا ثواب ہمارے ناقص عمل کے لائق نہیں بلکہ اپنے کرم کے شایان شان مرحمت فرما۔  اور اسے ہماری جانب  سےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بارگاہ میں نذر پہنچا۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کے تَوَسُّط سے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام تمام صَحابۂ کرام عَلَیْہمُ الرِّضْوَان تمام اولیائے عِظام علیہم الرحمہ کی جناب میں نذر پہنچا۔  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تَوَسُّط سے حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیہ السلام سے لے کر اب تک جتنے انسان و جنات مسلمان ہوئے یا قیامت تک ہوں گے سب کو پہنچا۔  اس دوران بہتر یہ ہے کہ جن جن بزرگوں کو خصوصاً ایصال ثواب کرنا ہے ان کا نام بھی لیتے جائیے۔  اپنے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں اور اپنے پیر و مرشد کو بھی نام بہ نام ایصال ثواب کیجئے۔  ( فوت شُدَگان میں سے جن جن کا نام لیتے ہیں ان کو خوشی حاصل ہوتی ہے اگر کسی کا بھی نام نہ لیں صرف اتنا ہی کہہ لیں کہ یا اللہ!  اس کا ثواب آج تک جتنے بھی اہل ایمان ہوئے ان سب کو پہنچاتب بھی ہر ایک کو پہنچ جائے گا۔  (ان شاء اللہ)  اب حسب معمول دعاختم کردیجئے۔  (اگر تھوڑا تھوڑا کھانا اور پانی نکالا تھا تو وہ دوسرے کھانوں اور پانی میں ڈال دیجئے)  نوٹ: جب بھی آپ کے یہاں نیاز یا کسی قسم کی تقریب ہو،  جماعت کا وقت ہوتے ہی کوئی مانِع شَرْعی نہ ہوتو تمام مہمانوںسمیت نمازباجماعت کیلئے مسجد کا رُخ کیجئے ۔  بلکہ ایسے اَوقات میں دعوت ہی مت رکھئے کہ بیچ میں نماز آئے اور سستی کے باعث معاذاللہ جماعت فوت ہوجائے ۔ میزبان ،  باورچی ،  کھانا تقسیم کرنے والے وغیرہ سبھی کو چاہیے کہ جوں ہی نماز کا وقت ہو،  سارا کام چھوڑ کر باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔   بزرگوں کی ’’نیاز کی دعوت‘‘کی مصروفیت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ’’نماز باجماعت ‘‘میں کوتاہی بہت بڑی معصیت ہے ۔