جب ہم نماز فجر و وظائف اور تلاوت سے فارغ ہو جائیں تو اپنی جگہ پر
بیٹھے رہیں اور دل کو حاضر کر کے فکر کریں کہ میرا رب میرے ساتھ ہے ، میرے پاس ہے
۔ مجھے دیکھ رہا ہے ، میرے دل کی دھڑکن جانتا ہے، میرا ظاہر و باطن اس سے پوشیدہ نہیں
رب کے عطا کردہ انعام و اکرام کو یاد کریں اور غور و فکر کریں کہ اسکے کرم و عطا کے
سامنے نہ ذکر کر پا رہا ہوں نہ شکر ادا ہو رہا ہے۔ کہاں اسکا فضل ، کہاں اپنی بندگی
، نہ حمد نہ شکر نہ ذکر نہ فکر، نہ تسبیح نہ تلاوت ، کچھ بھی نہیں کر پارہا ہوں ۔ ہم
یہ فکر کریں کہ عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ ختم ہو چکا ہے ۔ اب نہ جانے کتنی زندگی باقی
ہے ، کب موت کا فرشتہ آجائے اور ہم دنیا سے رخصت ہو جائیں ۔
دنیا کے ہر سفر میں ہمارے بچے ، بیوی، دوست و احباب
ساتھ رہنے پر اصرار کرتے رہے ہیں، مگر آخرت کے سفر میں نہ بیوی بچے ساتھ آئیں گے نہ
دوست واحباب نہ تجارت و زراعت آئے گی نہ مال و دولت، اور مجھے قبر کے حوالے کر کے چلے
آئیں گے۔ ساری پراپرٹی و جائداد، گھر بار سب پر وارثوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور مجھے
قبر کے حوالے کر کے پہلے آئیں گے " میرے ایک " اشارہ پر حاضر ہونے والے آنکھیں
پھیر کر ایسا پلیٹیں گے کہ جیسے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ اب یہاں پر ہم خوب سوچیں اور
غور وفکر کریں کہ جب قبر د حشر کے امتحان سے ہم کو گزرنا ہی گزرنا ہے تو اسکی تیاری
میں لگ جانا ضروری ہے تاکہ رزلٹ اچھا آئے، فوز و فلاح نصیب ہو۔
لہذا قبر میں جانےسے پہلے بڑا سرمایہ (نیکی) جمع کریں، جونہ ضائع ہوگا اور نہ کوئی
اس پر قابض ہوگا۔ وہ سرمایہ ہے ذکر الہی ،
تسبیح و تلاوت ، خیر و خیرات ، عبادت الہی و اطاعت نبوی صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
نیکی کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے بچیں گے اور برائی سے بچنے کی ہدایت
کریں گے ، خیر و سعادت کی جانب داعیانہ کردار ادا کریں گے۔ اپنے شب روز کو " یاد
موئی ، میں گزارنے کی کوشش کریں گے۔ بچی ہوئی عمر کو " آخرت کی کمائی میں لگائیں
گے ، قضا نمازوں کو قضا روزوں زکوة وحج کو جلد از جلد ادا کرنے کا خصوصی اہتمام کریں
گے۔ ایک ایک نافرمانیوں کو یاد کریں ۔ اور مولائے کریم سے اسکے تدارک نجات کی توفیق
مانگیں ۔ ہدایت ورہبری کی بھیک مانگیں۔ اس کو " مراقبہ کہتے ہیں یعنی ایسی فکر
جو بندے کو مولیٰ کے قریب کر دے۔ ایسے مراقبے میں جو تسلسل جاری رکھا جائے جب پختگی
اور استقامت حاصل ہو جاتی ہے تو یہی مراقبہ راہِ سلوک کے لئے مجاہدہ بن جاتا ہے اور
جب توفیق الہی سفر مجاہدہ میں معاون بن جاتی ہے تو طالب کا مجاہدہ ، مشاہدہ کی جگہ
لے لیتا ہے ۔ جہاں بندہ کائنات کی ہر شئے میں مولیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے ۔
محاسبہ : اپنا حساب کرنا، اپنے باطن میں جھانکتے رہنا ،ایک
ایک کوتاہیوں کو تلاش کرنا ، گذرنے والے کل میں کتنا جھوٹ بولا ۔ فلاں کو میں نے اس
کا حق نہ دیا۔ فلاں کو گالی دی ، عیب لگایا۔
فلاں کی غیبت کی فلاں سے حسد کیا، فلاں کے تعلق سے میرے سینے میں بغض ہے ، عداوت ہے
۔ لہذا اپنے مولی کو اپنے ساتھ جان کرمان کر عزم وارادہ کرنا ہے، آج جو سورج نکلا ہے
، اس میں جھوٹ فساد، بغض وحسد ، فحش کلامی، حق تلفی اوردیگر برائیوں کا گراف کم کرنے
کی کوشش کروں گا ۔اس لئے ہمیں محاسبے میں یہ بھی حساب کرنا ہے کہ کل جو کچھ نیکیاں
ہوئیں اس میں مزید اضافہ ہو تاکہ اور بھی کامیابی نصیب ہو ۔ وقت ابھی ہے ، قبروحشر
کا توشہ جتنا زیادہ جمع کرلوں اتنا ہی مجھے سکون روحانی حاصل ہوگا اور برزخ کی دنیا
میں فلاح نصیب ہوگی ۔ ہم شب و روز کسی بھی وقت جو بالکل سکون و تنہائی کا ہو۔ اس میں
چند منٹ تک محاسبہ کی عادت ڈالیں کیونکہ اسی راستے سے ہم اپنے نفس کے عیوب سے مطلع
ہو سکیں گے، اور نفس کی شرارتوں سے آگہی باطن سنوارنے کی روحانی دوا ہے ۔ ہم اپنے باطن
کے محاسبہ میں لگیں گے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے گناہ و جرم نظر آئیں گے ۔ اور یہ منزل
خیر و ہدایت سے قریب کر نیوالی ہے۔ ہادی اعظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے إِذَا أَرَادَ
اللهُ بِعَبْدِهِ خَيْرًا يُبْصِرَةُ بِغُيُوبِ نَفْسِاء ( جب اللہ تعالے کسی بندے
کے لئے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تواسکے نفس کے عیوب دکھا دیتا ہے۔ (کشف المحجوب / حضور داتا گنج بخش علی ہجویری علیہ الرحمہ )
No comments:
Post a Comment