حیر ت انگیز واقعات بزبان مخدوم پاک کچھوچھوی قد س سرہ النورانی

حضرت قدوۃ الکبری ٰمخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے روح آباد خانقاہ اشرفیہ میں زیادہ عرصہ قیام نہ فرمایا بلکہ شاید ایک سال قیام فرمار ہے، اس کے بعد آپ نے پھر قصد سفر فر مایا۔ سفر کا مطلب طالبان حق کی رہنمائی کر،حاجتمندوں کی دستگیری کرنا اور بزرگان سے روحانی استفادہ کرنا اور اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں  آپ  علیہ الرحمہ نے پوری دنیا کی سفر تین بار کئے اس لئے آپ علیہ الرحمہ کو جہاں جہانیاں گشت بھی کہا جاتا ہے۔جس طرح حضرت دنیا کی سفر و سیاحت فرمائے ایسی بہت کم نظیر ہوگی جو کچھ صنائع قدرت عالم کے آپ نے دیکھے اس کو دیکھ کر انسان دنگ ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں اس کی سمجھ سے باہر ہیں۔ چنانچہ  مولف لطائف اشرفی حاجی نظام غریب یمنی رقم طراز ہیں کہ حضرت قدوۃ الکبری کے سفرو سیاحت میں جو جو عجائبات عالم نظر آئے حضرت  (علیہ الرحمہ ) فرمائے کہ اس کا اظہار اگر تمہارے سامنے کیا جائے تو اس کو تم لوگ یقین نہیں کر سکو گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ چند لوگ تھے ہمارا گذر ایک جزیرہ میں ہوا وہ نہایت شاداب خوش فضا تھا اور یہ حصہ ایک پہاڑ کے دامن میں آباد تھا۔ وہاں پر ایک عجیب درخت دیکھنے میں آیا اس کو اکثر شجرة الوقواق کہتے تھے اور بہت تن آور تھا۔ اس کی شاخیں  بکثرت پھیلی ہوئی تھیں۔ شاخوں کی نوکوں پر آدمی پھلے ہوئے تھے ان کی ناف سے شاخیں لگی ہوئی تھیں۔ جب ہوا شدت سے چلتی تو یہ انسان اُچک اُچک کر ڈالیوں پر بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ ان کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔ حضرت قدوۃ الکبریٰ ایک روز وہاں قیام فرمائے ۔ حضرت کو فکر تھی دیکھیں یہ کیا غذا کھاتے ہیں ۔ جب رات ہوئی تو اکثر پرندے اڑ اڑا کر  اس درخت کی شاخوں پر بیٹھنے لگے۔ ان کے پر بہت خوبصورت تھے ۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے سونے کے پر لگا دیئے ہیں وہ اپنے بچوں کیلئے چونچوں میں میوہ لاتے تھے جس وقت وہ بچوں کو منہ بھرانے لگے تو ان کی چونچوں سے وہ میوہ زمین پر گرنے لگا اوپر سے لٹکے ہوئے انسان ان کو کود کر اُٹھا لیتے اور کھاتے جاتے تھے ۔ حضرت قدوۃ الکبریٰ اس جھاڑ کے قریب جا کر اس میوہ کو دیکھے تو بہترین دو قسم کے انگور تھے۔ آپ دیکھ کر سبحان اللہ فرمائے کہ کیسی شان رزاقی ہے اپنی مخلوق کو کس کس ذریعہ سے رزق پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد آپ کو یہ خیال ہوا کہ کس طرح ان کی موت واقع ہوتی ہوگی اس جزیرہ کے قریب جو لوگ تھے اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا جب ان کی موت آتی ہے تو وہ رگ جو ناف سے درخت کے شاخوں کی نوک میں لگی ہوئی ہے وہ اکھڑ جاتی ہے وہ اسی وقت مر جاتے ہیں، آپ وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ میں نواحی ایلاق میں پہونچا تو اس شہر کے کنارے ایک دریا جاری ہے۔ دریا کے کنارے پر شہر آباد ہے ۔ ایک عمدہ طور پر بنایا گیا ہے ۔ جب ہم اس شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس شہر کے رہنے والی سب عور تیں تھیں۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ اس شہر میں مرد کا وجود ہی نہیں جس کی قسمت میں اولاد ہوتی ہے وہ عورت بعد ایام حیض دریا میں غسل کرتی ہے اور خدا کی قدرت سے حاملہ ہو جاتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے سوائے لڑکی کے لڑ کا نہیں پیدا ہوتا۔

حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ سفر راہ سیلان میں ایک جگہ ٹھہرے یہاں تین دن تک کوئی آنے جانے والا دکھلائی نہ دیا،جس سےکہ  راستہ کا دریافت کیا جائے جب ہمرا بیان بھوک و پیاس سے بے حد پریشان ہوئے ۔ درخت کشن کے نیچے اترے اور یاروں نے اپنے اسباب اتارے۔ ایک ساعت بیٹھے تھے کہ ایک چیونٹی چوہے کے برابر آئی اور حضرت کے نزدیک بیٹھی اور اس کے اور حضرت کے درمیان کچھ باہمی اشارے ہوئے ہمراہیوں کو گمان ہوا کہ اشاروں میں کچھ باتیں ہو رہی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد چونٹی چلی گئی ۔ حضرت محبوب یزدانی معمولی طور سے جلوس فرماتھے ۔ ایک پہر کے بعد چیونٹی آئی اور حضرت کی طرف اشارہ کیا ۔ آپ معہ  ہمراہیاں روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور چل کر جس درخت کے نیچے چیونٹی کا مسکن تھا، چالیس ڈھیر مٹھائی کے چنے ہوئے تھے ۔ ایک ڈھیر بڑا تھا جس پر حضرت کو بٹھایا اور باقی سب ڈھیر برابر تھے۔ ہر ہمراہی کو ایک ایک ڈھیر پر بیٹھایا اور حضرت نے ہر شخص کو کھانے کی اجازت دی۔ سب لوگ شوق کے ساتھ کھانے لگے ۔ جب کھا چکے چیونٹی نے التماس فاتحہ کیا۔ بعد پڑھنے فاتحہ کے اپنے مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ چیونٹی حضرت کے ہمراہ آپ کی قیام گاہ تک پہونچانے آئی۔ حضرت نے اس کو قیام گاہ سے رخصت کیا جب چیونٹی چلی گئی حضرت نورالعین نے پوچھا۔ آپ  قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا یہ چیونٹی چیونٹیوں پر بادشاہی کرتی ہے۔ ایک روز ایک امیر اس جنگل میں شکار کے لئے آیا اس کے پاس کھانے کا توشہ بہت تھا۔ اس مقام پر ٹھہرا، کھانے کے بعد جو کچھ مٹھائی بچی تھی چوٹیوں کے سوراخ پر ڈال دی۔ چیونٹیوں کے بادشاہ نے سب مٹھائی جمع کر رکھی اور دل میں یہ ارادہ کیا کہ یہ مٹھائی محفوظ رکھوں جب کوئی مہمان عظیم الشان یہاں آئے تو اس کی ضیافت کروں۔ حق تعالےٰ نے جماعت فقراء کو یہاں پہونچایا چیونٹی نے ضیافت مورانہ کی جیسا کہ دیکھا گیا ۔

حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی نے فرمایا کہ ہم لوگ  ایک جزیرہ کے جنگل میں پہونچے   یکایک ایک پیر والے آدمیوں کی جماعت دکھائی دی ۔ نہایت تیزی کے ساتھ چلتے تھےانکی رفتار دوڑ اتنی زبردست ہوتی تھی کہ  انسان  ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔  ہماری جماعت کو نہایت تعجب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی زبان سمجھ میں نہیں آتی تھی ۔ آخر ان کے اشارے اور کنایہ سے معلوم ہوا کہ کمال تعجب سے یہ پوچھتے تھے کہ آپ لوگ دو پیروں  سے کیسے چلتے ہو  ؟اور ہم ان کا ایک پیر دیکھ کر تعجب کرتے ۔ آخر ان کے دین و مذہب کے بابت دریافت کیا گیا کہنے لگے کہ ہم میں دین و مذہب نہیں ہے اور نہیں جانتے کہ دین و مذہب کیا چیز ہے لیکن اس قدر جانتے ہیں کہ ایک کا دیگر زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہ اکثر جنگل کے پھلوں پر گزربسر کیا کرتے تھے ۔ان کی اولاد کی پیدائش ہم لوگوں کی طرح تھی بعض لوگ اس گروہ کو نسناس کہتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت نسناس وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں پہچانتے ہیں ۔

حضرت نظام یمنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی قد س سرہ ا لنورانی ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے ہوئے بیت المقدس میں داخل ہوئے وہاں پر حضرت انبیاء علیہ السلام کی زیارت کئے اور ان کے رُوح پر انوار سے جو فیوض و برکات آپ کو حاصل ہوئے وہ لامتناہی ہیں۔ آپ قد س سرہ کا قیام بھی کئی روزتک بیت المقدس (فلسطین ) میں رہا۔  آپ قد س سرہ سفر کرتے کرتے کوہ بتا اپنے حِبال ِجنتی میں پہنچے یہاں آپ قدس سرہ نے  اپنا عَلَم گاڑ دیے چونکہ یہ ابدال کا مسکن کہلاتا ہے اور اہل سلوک کے جملہ سلوک یہاں رفع ہوتے ہیں اس کا قلب مثل آئینہ بن جاتا ہے اور اس جائے پر سالک کامل ہو جاتا ہے۔ آپ اس جائے(جگہ) پر دس روز اعتکاف میں  ٹھہرے رہے۔ آپ پر تمام اسرارکھل گئے۔ وہاں سے آگے روانہ ہوئے۔  جب کوہ نہاوند میں پہنچے تو وہاں پر ایک مسجد عالیشان دیکھے اس مسجد کو ایک بہادر جوان مرد ، داؤد نامی نے بنایا تھا۔ اس کے ہمراہ سب غازیان و مجاہدان اسلام تین ہزار تھے اس جائے وہ سب لوگ جہاد کئے اور شہید ہوئے ۔ ان سبھوں  کی لاش تابوتوں میں رکھی ہوئی تھی ۔ دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ لاشیں بالکل تروتازہ ہیں جیسے کوئی مست خواب ہو اور اُن کے زخموں پر روئی کے پھائے رکھے ہوئے تھے۔ قابل ذکر یہ بات ہے کہ اگر کوئی ان کے زخموں پر سے روئی ہٹائے تو اس وقت خون جاری ہو جاتا تھا۔ جب تلک پہلے کے موافق اس کو نہ باندھے بند نہیں ہوتا تھا۔ وہاں پر بھی فیض و برکات کا نزول ہوتا ہے اور آپ اس سے مستفیض ہوئے۔ جب آپ  قد س سرہ کا سفر کوہ طور کی جانب ہوا۔ وہاں کی خوبیاں جو آپ اظہار فرمائے وہ نا قابل تحریر تھے۔ یہاں پر آپ کی خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ آپ کو اپنے ہمراہ لے چلے۔ حضرت جب طواف طور کر رہے تھے تو ایسے وقت میں ابلیس علیہ اللعنۃ آیا اور آپ سے باتیں کرنے لگا آپ اس سے پوچھے تو آدم کو سجدہ کیوں نہ کیا اس کا کیا سبب ہے؟ اس نے کہا کہ عاشق غیر کو نہیں دیکھتے یہی ثابت قدمی ہے ورنہ ہیچ۔ آپ فرمائے تو عشق کی راہ سے بالکل واقف نہیں یہاں تو تو گمراہ ہو گیا ۔ اس لئے کہ معشوق کی عدول حکمی تو نے کی، تیرا دعویٰ غلط ہے۔ آپ فرمائے سچا عاشق وہ ہے کہ جو حکم اس کا معشوق کرے، وہ فورا تحمیل کرے، رمق برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔ ورنہ دفتر عشق سے اُس کا نام خارج ہو جائے گا اس کے بعد آپ اس سے کچھ باتیں کئے اور عجیب انداز سے اس کا جواب دیتا ہوا بھا گا۔

حضرت قدوۃ الکبریٰ سید اشرف جہانگیر سمنانی کا سفرکوہ سراندیپ کی جانب شروع ہوا ۔حضرت سید نا آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے کوہ سراندیپ پر اترے اسی وجہ سے دنیا کے تمام انسان اس کی عظمت کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ چالیس سال اور بعض کہتے ہیں کہ ستر سال ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر روتے رہے اور توبہ واستغفار کرتے تھے اور اتنا روئے کہ آپ کے رونے سے نہریں جاری ہو گئیں اور اس کے اطراف کی زمین نیلے رنگ کے گھاس سے شاداب ہوئی۔ مخلوق خدا اس کی زیارت کیلئے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے آتی ہے۔ وہاں پر ہر وقت خلق کا اژ دہام رہتا ہے اکثر فقرا و مسکینوں کا ہجوم رہتا ہے۔ ایک پتھر پر آپ کا نقش قدم ہے لوگ اس مبارک نقش کی زیارت کرتے ہیں راستہ وہاں جانے کیلئے بہت تنگ تھا۔ انسان کا گذر بمشکل ہوتا تھا۔ جبکہ سکندراعظم یہاں پہنچا تو اس نے ایک زنجیر تیار کرائی جو طول میں تین فرسنگ تھی اس پہاڑ پر نصب کرائی جس طرح بغیر سہارے سیڑھی کے اوپر نہیں جا سکتا اس کے معاوضہ میں یہ زنجیر سیڑھی کا کام دیتی ہے اس کو پکڑ کر لوگ آتے جاتے ہیں۔ اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ تلاوت قرآن مجید کی آواز صاف طور پر سنائی دیتی ہے کیا اعجازسمجھ میں نہیں آتا ۔ بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔ ایک اور بات نادرات سے ہےیعنی  فقرا اور درویش اپنے وجود اصلی کو بھی دیکھتے ہیں یہ ان کے ارادت کمال کی انتہا کا باعث ہے۔ لیکن آدمی کواس جائے پر خوف ہوتا ہے۔ (بقیہ اگلا شمارہ میں۔ ان شاء اللہ )

No comments:

Post a Comment