سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ

 

سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ کی ذات محتاج تعارف نہیں۔آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا اسم گرامی عبدالعلیم اور تاریخی نام "ظہور الحق" ہے اور پہلے عاصی تخلص اختیار کیا پھر آسی۔، 19 شعبان المعظم 1250ھ میں موضع سکندر پور ضلع بلیا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد ماجد شیخ قنبر حسین اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے، آپ کا پدری نسب نامہ حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے، آپ کی نویں پشت میں حضرت شیخ مبارک اپنے عہد کے مرشد کامل تھے، 966ھ میں قصبہ سکندر پور ضلع بلیا میں رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا اور 1016ھ میں وصال فرمایا، آپ کی والدہ بی بی عمدہ مفتی احسان علی قاضی پورہ آرہ کی صاحبزادی تھیں، مفتی موصوف شاہ غلام حیدر بلیاوی کے اجل خلفا میں شمار کئے جاتے ہیں، مفتی احسان علی حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں اس لئے آپ پدری اور مادری نسب کے اعتبار سے صدیقی اور فاروقی ہیں۔

تعلیم و تربیت : آپ علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم وتربیت قطب الہندحضرت مولاناشاہ غلام معین الدین رشیدی سجادہ نشین خانقاہِ رشیدیہ جون پور کی آغوشِ شفقت میں ہوئی اوربیعت وارادت کاشرف بھی انہیں سےحاصل ہے۔ یہ حضرت مولانا غلام معین الدین حضرت آسؔی کےوالد ماجد حضرت شیخ قنبر حسین کےپیربھائی تھے۔ابوالحسنات مولانا عبدالحئی فرنگی محلی لکھنؤی کےوالدِماجد حضرت مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی سےحضرت آسؔی نےمدرسہ حنیفہ جون پور میں کتبِ منقول ومعقول کی تکمیل فرمائی۔ اورفنِ شاعری میں حضرت شاہ غلام اعظم افؔضل الہ آبادی سجادہ نشین دائرہء شاہ اجمل الہ آباد کی شاگردی اختیارکی۔ آپ نے علم و فن دین و مذہب اخلاق وروحانیت سلوک و تصوف ،قوم وملت سماج معاشرہ شعر و ادب زبان و بیان فکر و تحقیق و تصنیف وتالیف غرض کہ ہر شعبے میں نمایاں اور قابل فخر خدمات پیش فرمائی ہیں۔کیونکہ آپ عالم، فقیہ ، عارف،مصلح،صوفی، واعظ، مصنف، طبیب ، حکیم، شاعر، اور خانقاہ رشیدیہ جونپور کے آٹھویں سجادہ نشین تھے۔

آپ کے مشاہیرمعاصرین : شیخ المشائخ مخدوم الاولیاءمولاناسید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی، اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی، حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی، سلطان الواعظین حضرت سیداحمد اشرف اشرفی الجیلانی ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر عثمانی بدایونی، مولانا شاہ انواراللہ فاروقی حیدرآبادی، شاہ حفیظ الدین لطیفی رحمن پوری کٹیہاری بہار،سید شاہ شہودالحق اصدقی بہاری،حضرت خواجہ الطاف حسین حالی، نواب مرزا خان داغ دہلوی، ڈاکٹر اقبال، شاہ سراج الدین وارثی تھے۔

 سوانح اشرفی میاں کچھوچھوی بنام”حیات مخدوم الاولیاء ” میں مرقوم ہے۔ کہ شیخ المشائخ مولانا سید شاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی،خانقاہ رشیدیہ جونپور شریف بحرالاسرار قطب العرفاء والعشاق حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم آسی رشیدی سکندری ثم غازی پوری کی دیدو ملاقات کے لیےتشریف لائے۔ حضرت آسی علیہ الرحمہ نےاستقبال کیا اور معانقہ و مصافحہ کے بعد فرمایا کہ: آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے آپ حضرت غوث پاک اور مخدومِ کچھوچھہ کی اولاد ہیں سید ہیں، حضور اشرفی میاں تاجدار کچھوچھہ نے بھی فرمایا کہ : آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ "حق تعالی میرا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آپ اللہ والے ہیں ۔” (حیات مخدوم الاولیاء صفحہ 140)

حضرت سرکار آسی غازی پوری علیہ الرحمہ پروصال سےچارپانچ سال پہلے چشتیَت کا بہت زیادہ غلبہ ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ صوفی شاہ عبدالسبحان (جو سرکار آسی علیہ الرحمہ کے مریدوخلیفہ تھے)مراقبےمیں تھے توحضرت خواجہ غریب نواز کی زیارت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے یہ ارشاد فرمایا:”میں محمد عبدالعلیم کاہوں اور محمد عبدالعلیم میرے ہیں۔”اسی طرح حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رضی اللہ عنہ کے مزار پر تھے کہ حضرت محبوب الہی نے یہ زریں قول ارشاد فرمایا:محمد عبدالعلیم کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میرے سلسلےکارواج ان اطراف میں تمہاری ذات سے قائم ہے۔(نفس مصدر صفحہ 67 )

یہ قبولیت اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے دینی و دعوتی خدمات کو قبول فرما لیا ہے اور آپ بانی سلسلہ رشیدیہ حضرت قطب الاقطاب جونپوری علیہ الرحمہ،پیران کرام صوفیہ اسلام اور سلاسل طریقت کےمشن ومقصدکے سچے امین و جانشین اور ترجمان علمبردار تھے۔

وصال مبارک : سرکار آسی علیہ الرحمہ صاحبِ کمال شاعر گذرے ہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی اچھی خاص ہوئی ہے، شمشاد لکھنوی، حکیم فریدالدین احمد فرید، حکیم سید محمد شاد غازی پوری، مولانا محمد ایمن سکندپوری اور لبیب سکندر پوری ان کے اہم شاگرد ہیں، آسی غازی پوری نے اپنی ساری زندگی غازی پور ہی میں گذار دی، علم و فضل، رشد و ہدایت، شعر و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 2 جمادی الاول 1335ہجری کو پچاسی برس کی عمر میں وابستگان سلسلہ رشیدیہ سے ہمیشہ کے لئے پردہ فرما کر واصل بحق ہوگئے اور محلہ نورالدین پورہ، غازی پور میں سپرد خاک ہوا، آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے جس سے فیوض و برکات جاری ہیں۔


حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ

 

اﷲسبحانہ و تعالیٰ نے دلیل المجتہدین ، فخر المحدثین ، حامل بشارتِ نبی ﷺ ، سید الفقہاء و العلماء ، جامع المحاسن والفضائل ، افتخار ملت اسلامیہ ، امام الائمہ ، سراج الأمہ ، کاشف الغمہ ، حضرت سیدنا نعمان ابن ثابت ، امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کو دو بڑے احسانات سے نوازا ہے۔ پہلا یہ کہ آپ کو پہلی صدی ہجری میں پیدا کرکے ’’خیرالقرون‘‘ میں شامل فرمایا اور دوسرا یہ کہ آپ کو پلند پایہ ’’فقہی بصیرت‘‘ سے نوازا۔ صحابہ عظام اور عظیم تابعین کی صحبت بافیض نے امام صاحب کی اس خدا داد صلاحیت کو مزید نکھارا، جس کی بناء پر آپ نے قرآن اور حدیث کا فہم ، مسائل کا اخراج، احکام کے استنباط میں نئی فکر کی بنیاد رکھی۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت کے متعلق اختلاف ہے۔

۱۔ اسّی (۸۰) ہجری میں ہوئی (جمہور ائمہ کے نزذیک یہی تاریخ مقبول و مختار ہے)۔

۲۔ ستر (۷۰) ہجری میں ہوئی۔

۳۔ اکسٹھ (۶۱) ہجری میں ہوئی۔

آپ کا نام: نعمان۔

 کنیت: ابو حنیفہ۔

 لقب: امام اعظم۔

سلسلہ نسب: آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے : نعمان بن ثابت بن زوطٰی۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خلیفۂ چہارم حضرت سیدنا علی کرم اﷲوجہہ الکریم کی دعا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے دادا زوطیٰ ، جن کااسلامی نام نعمان تھا، مسلمان ہونے کے بعد جب وہ کوفہ منتقل ہوئے تو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اصحاب یعنی ان کے ہم نشین اور عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔

حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کے پوترے حضرت اسماعیل بن حماد سے ہی روایت ہے فرماتے ہیں ’’میرے دادا امام ابوحنیفہ کے والد محترم ثابت جب وہ کم عمر کے تھے، حضرت علی رضی اﷲعنہ کی بارگاہ میں پیش ہوئے تو آپ رضی اﷲعنہ نے ثابت کے لئے اور انکی اولاد کیلئے دعا کئے‘‘۔ (ابن حجر ہیتمی، سیوطی، خطیب بغدادی، تاریخ بغداد)

امام اعظم علیہ الرحمہ کے سفر:امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔

اساتذہ کرام: علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقہ كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ خود حضرت سیدنا امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو۔

 حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد الباقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:’’آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی‘‘۔(المناقب للموفق المکی صفحہ 168)

فقہی مسائل میں امام اعظم علیہ الرحمہ نے سب سے زیادہ ائمہ اہل بیت سے فیض پایا۔ امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا؟

آپ نے جواب دیا: "میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد الصادق سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا"۔

اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی شریعت کا مزاج ائمہ اہل بیت سے بہتر کوئی نہ سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہےکہ امام اعظم سیدنا أبو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے کمال محبت اور ادب سے ائمہ اہل بیت سے شاگردی کا شرف حاصل کیا، آپ علیہ الرحمہ کے چند سادات مشائخ درجِ ذیل ہیں؛

·      حضرت سیدنا امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)

·      حضرت سیدنا امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)

·      حضرت سیدنا امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)

·      حضرت سیدنا امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)

·      حضرت سیدنا امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ

·      حضرت سیدنا حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے)

·      حضرت سیدنا امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (ﷺ کے چچا حضرت عباس کے پوتے)

صوفی بزرگ حضرت بہلول دانا رضی اللہ عنہ بھی آپ کے استاد تھے امام اعظم ابو حنیفہ آپ کے پاس تعلیم حاصل کر نے جاتے رات را ت بھر ان کی خد مت میں رہکر تصوف کے راز جانتے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ تصوف کے کس قدر اعلیٰ مقام پر فائز ہیں شاگر دوں کی تعداد لا کھوں میں ہے،آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں ازدھام ہو تا اور حاضرین میں اکثریت اس دور کے جید علما کرام کی ہوتی علامہ کرو ری نے آپ کے خاص شاگر دوں کی تعداد ایک ہزار فقہا ،محد ثین، صوفیا ومشائخ شمار کیا ہے یہ ان لا کھوں انسانوں کے علاوہ تھے جو ان کے درس میں شامل ہوتے تھے آپ کے شاگر دوں میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المر تبت تھے اور وہ درجئہ اجتہاد کو پہنچے تھے وہ آپ کے مشیر خاص تھے، ان میں چند کے نام یہ ہیں:

·      امام ابو یوسف

·      امام محمد بن حسن شیبانی

·      امام حماد بن ابی حنیفہ

·      امام زفر بن ہذیل

·      امام عبد ﷲ بن مبارک

·      امام وکیع بن جراح

·      امام داؤد بن نصیر

علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد اہل سنت و الجماعت کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔

اہم تصانیف: آپ علیہ الرحمہ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :

اصول دین / عقائد

·      فقہ اکبر : بروایت ، امام حماد بن ابی حنیفہ

·      فقہ اکبر :بروایت ، امام ابو مطیع بلخی ؒ

·      العالم والمتعلم : بروایت ، امام ابو حفص مقاتل السمرقندی

·      الرسالہ الی البتی  :یہ مشہور فقیہ اور امام عثمان البتی کی طرف بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلہ میں لکھا۔

·      الوصایا: حضرت سیدنا ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

·      امام صاحب نے اصول دین ، قضاء وغیرہ سے متعلق اپنے تلامذہ کو وصیتیں کیں۔

·      الوصیہ الی اصحابہ

·      الوصیہ الی ابویوسف قاضی

·      الوصیہ الی یوسف السمتی

·      الوصیہ الی حماد بن ابی حنیفہ

·      الوصیہ الی نوح بن ابی مریم

اصول حدیث

·      کتاب الآثار : ابو حنیفہ النعمان علیہ الرحمہ

حدیث کی قدیم ترین اور صحیح روایات پر مشتمل کتاب ہے ۔ اس کو ائمہ کی بڑی تعداد نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

اس کے علاوہ امام صاحب کی روایت کردہ احادیث کو جلیل القدر ائمہ نے مسانید ، اربعین ، وحدان ،موسوعہ کی شکل میں جمع کیا۔

اصول فقہ

امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے قرآن و سنت سے ہزاروں مسائل نکالے اور فقہ کی تدوین فرمائی ۔

جن کو ان کے تلامذہ کی جماعت نے ان کی زیر نگرانی کتب میں لکھا۔

امام صاحب کے تلامذہ نے ان مسائل کو امام صاحب سے روایت بھی کیا اور اُن پر اپنی آراء کا بھی اضافہ کیا ، جس کی تکمیل امام محمد بن حسن شیبانی نے فرمائی ، انھوں نے ان مسائل کو 6 کتب میں بیان کیا ۔ یہ کتب ظاہر الروایۃ کہلاتی ہیں ۔ جو فقہ حنفی کی بنیاد ہیں ۔

 

·      کتاب الاصل (المبسوط )

·      جامع الصغیر

·      جامع الکبیر

·      السیر الصغیر

·      السیر الکبیر

·      الزیادات

دیگر تصانیف 

اس کے علاوہ امام صاحب کی تصانیف جو ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔

·      كتاب الصلاة

·      المناسك

·      كتاب الرہن

·      الشروط

·      الفرائض

·      كتاب الاجاء

·      كتاب السير

·      كتاب الرأي

·      اختلاف الصحابۃ

·      كتاب الجامع

·      كتاب السير

·      الكتاب الأوسط

ایک دفعہ حضرت امام اعمش رحمۃ اﷲعلیہ سے کچھ مسائل دریافت کئے گئے اور اسوقت محفل میں حضرت امام صاحب بھی تشریف فرما تھے تو انہوں نے امام صاحب کی طرف رجوع کیا۔ پس امام صاحب تمام مسائل کے جوابات دیدیئے۔ امام اعمش علیہ الرحمہ نے دلیل طلب کی تو آپ نے وہی احادیث و روایات پیش کیں، جو خود امام اعمش سے مروی تھیں۔ اس استنباط پر امام اعمش حیران رہ گئے اور امام صاحب کی تحسین کرتے ہوئے فرمائے ’’ائے گروہ فقہاء آپ طبیب ہیں اور محدثین ادویات والے ہیں‘‘۔ یہی وجہ تھی امام اعمش علیہ الرحمہ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ فرماتے ’’لوگو تم ابوحنیفہ کی مجلس میں ضرور جایا کرو‘‘۔

محدث کبیر حضرت امام سفیان بن عیینہ (متوفی ۱۹۸ ہجری) امام صاحب کی فقاہت کے متعلق بیان کرتے ہیں ’’جو شخص علم مغازی کو جاننا چاہے، وہ مدینہ منورہ کا رخ کرے۔ جو مناسک حج سیکھنا چاہے، وہ مکہ مکرمہ کی راہ لے اور جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہے، وہ کوفہ جاکر اصحابِ ابوحنیفہ کے حلقہ درس میں جا بیٹھے‘‘۔

امام خوارزمی علیہ الرحمہ (متوفی ۶۶۵ ہجری) اپنی کتاب جامع المسانید میں لکھتے ہیں ’’امام ابوحنیفہ ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کی ابواب بندی کی‘‘۔ فقہ اور حدیث کے امام صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نہ صرف تابعی ہیں، بلکہ صحابہ و تابعین کی خیرالقرون جماعت کے ساتھ منسلک بھی تھے۔حضرت امام اعظم ؒ ذہین اور قوی حافظہ کے مالک ہیں۔ آپ کا زہد و تقوی فہم و فراست اور حکمت بہت ہی مشہور ہیں۔ امام صاحب تقریبا سات ہزار (۷۰۰۰) مرتبہ قرآن مجید ختم کئے۔ رات بھر نفل نماز کے ذریعہ قرآن مجید ختم کرتے۔ اس طرح دن میں دین اسلام کی اشاعت فرماتے اور رات میں عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔
حضرت امام اعظم ؒایک تاجر (کپڑوں کی تجارت) تھے۔ بادشاہوں کے نذرانے قبول نہیں فرماتے تھے۔ کثرت سے خوشبو استعمال کرنے والے تھے، فضـول کاموں سے اجتناب فرماتے اور کسی بھی دنیا دار کی ملامت سے خوف نہیں کھاتے تھے۔

حضرت شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ حقیقۃ الفقہ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں کہ اسّی (۸۰) ہجری آپ کی پیدائش کا یہ وہ متبرک زمانہ ہے کہ بہت سے صحابہ عظام رضی اﷲعنہم اجمعین اُس میں موجود تھے، مگر آفتاب وجود صحابہ غروب ہونے کو تھا۔ اُدھر صحابہ بحسب ارشاد ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ سرگرم اشاعت علوم تھے، اِدھر مسلمانوں پر یہ خیال مسلط تھا کہ ایسا نہ ہوکہ کوئی ارشاد اپنے نبی کریم ﷺ کا، صحابہ ہی کے ساتھ واپس ہوجائے، جس سے تمام امت مسلمہ مرحومہ محروم رہ جائے۔ چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام صاحب نے انس بن مالک رضی اﷲعنہ کو کئی بار دیکھا ہے، جس سے امام صاحب کا تابعی ہونا ثابت ہے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت امام اعظم کو فضل و حکمت اور علم عطا فرما۔ پس یہی وجہ تھی کہ سب خوارج توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔(حقیقۃ الفقہ جلد اول صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۷)

وصال مبارک : حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں کہ ابن ہبیرہ نے امام اعظم کو کوفہ کا قا ضی بنا نا چاہا تو آپ نے انکا ر کر دیا اور فر مایا: اللہ کی قسم اگر مجھے قتل بھی کردے تو میں یہ منصب قبول نہیں کروں گا، آپ کو کہا گیا کہ وہ محل تعمیر کر نا چاہتا ہے،آپ اینٹوں کی گنتی قبول کر لیں، امام اعظم نے فر مایا: کہ اگر وہ مجھے کہے کہ میں اسکے لئے مسجد کے دروازے ہی گن دوں تو میں نہیں گنوں گا ۔( ذیل الجواہر المضیہ،ج۲،ص۵۰۵، )

 امام علامہ محمد بن یو سف صا لحی رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام اعظم کو کو فہ سے بغداد بلایا ہی اسی لیے تھا کہ انھیں شہید کر دے، امام اعظم ابو حنیفہ لوگوں میں بہت معزز تھے اور ان کی بات سنی جاتی تھی، ان کے پاس مال تجارت کی بھی فراوانی تھی، ابو جعفر کو سید ابراہیم کی طرف ان کے میلان سے خوف محسوس ہوا، چنانچہ اس نے بلا وجہ انھیں قتل کر نے کی جر اٗت تو نہ کر سکا، البتہ انھیں قاضی بننے کی پیش کش کی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ منصب قبول نہیں کریں گے،آپ نے انکار کیا تو آپ کو قید کردیا اور اس نے بہانے سے انھیں زہر دیکر شہید کر دیا،( عقو دالجمان ص۳۵۹،فقہ و تصوف ص۲۸۲)

حضرت حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا وصال دو (۲) شعبان المعظم ایکسوپچاس (۱۵۰) ہجری کو ہوا۔


حضرت علامہ قاری عبد القدوس رضوی کشمیری علیہ الرحمہ


 ولادت باسعادت: آپ کی ولادت باسعادت آپ کے آبائی گاؤں موضع وتکلو تحصیل چاڈورا ضلع بڈگام ریاست جموں کشمیر میں عبد الخالق ابن عبد الکریم کے یہاں انتہائی پاکیزہ گھرانے میں7 دسمبر 1933میں ہوئی۔

تعلیم وتربیت: آپ چونکہ بچپن سے انتہائی ذہین وفطین تھے اور علم دین سیکھنے کاشروع سے ذوق وشوق تھا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و فطانت کو دیکھ کر آپ کے بہنوئی جو کہ جاڈورا کے تحصیل دار تھے آپ کا داخلہ امام النحو شیخ الاساتذہ صدر العلماء علامہ سید غلام جیلانی اشرفی محدث میرٹھی قدس سرہ العزیز کےپاس مدرسہ اسلامیہ اندرکوٹ میرٹھ میں کرایا۔آپ علامہ غلام جیلانی اشرفی میرٹھی علیہ الرحمہ کے انتہائی چہیتے شاگرد رشید تھے۔فضیلت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مظہر العلوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور قاری عبد الخالق سے تین سال تک علم تجوید حاصل کیا۔ 

شیر ملت کی حق گوئی و بے باکی: مدرسہ مظہر العلوم سہارنپور کے زمانہ طالب علمی کے سال آخر فراغت کے ایام میں ایک روز آیت مبارکہ انّما انا بشر مثلکم پر قاری عبد الخالق اور دیگر مدرسین سے شدید بحت ومباحثہ ہو گیا۔ کیو نکہ ان لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ یہ سنی صحیح العقیدہ عالم ہیں اس بحث کے بعد جبکہ وہ لاجواب ہو چکے تھے جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ آپ کا تعلق اہل سنت وجماعت سے ہے تو وہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ اسی دوران آپ کے ایک ساتھی نے آپ کو مطلع کیا کہ مدرسین طلبہ کے ساتھ رات میں آپ پر حملہ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔تو آپ نے فوراً مدرسہ چھوڑا دیا لیکن بعد میں کچھ بااثراحباب کے دباؤ میں مدرسہ مظہر العلوم کی انتظامیہ کو سند قرات دینی پڑی جس میں خصوصیت کے ساتھ ظریف احمد خان ساکن خورجہ ضلع بلند شہر کا اہم کردار تھا جو کہ سہارنپور میں بھی ایک خاص پکڑ رکھتے تھے۔

بیعت وخلافت: حضور شیر ملت علامہ عبد القدوس کشمیری علیہ الرحمہ عالم اسلام کی اس عظیم المرتبت شخصیت سے بیعت تھے جس کے فتوی وتقوی کے ڈنکے ہر چہار جانب بج رہے تھے یعنی آپ علیہ الرحمہ شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم عالم اسلام حضرتِ علامہ الشاہ ابو البرکات مفتی مصطفیٰ رضا خان قدس سرہ العزیز سے بیعت تھے اور مرشد گرامی سے شرف خلافت بھی حاصل تھی علاوہ ازیں آپ کو امام المناظرین غیظ المنافقین سلطان العلماء حضور مجاہد ملت علامہ الشاہ حبیب الرحمٰن اشرفی قدس سرہ العزیز سے بھی تمام تر سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل تھی

دینی خدمات: تعلیم سے فراغت کے بعد کشمیر کے شہر سری نگر کے ایک علاقے میں جسے لال چوک کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں کی ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔آپ کے والد گرامی نے فرمایا بیٹا کشمیر میں آپ کی اشد ضرورت ہے لیکن یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں اس لئے تم نے جہاں تعلیم حاصل کی ہے وہیں دینی خدمت انجام دو آپ نے اس حکم پر پھر سے ایک بات خورجہ (میرٹھ) کا رخ کیا کچھ دن وہاں خدمت دین انجام دے کر ظریف احمد خاں کے مشورے پر م عروس البلاد ممبئی عظمی کا رخ کیا۔ تقریباً 1955ء میں آپ کا ورود مسعود شہر ممبئی میں ہوا اور یہاں مختلف مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ 5 مارچ 1962ء میں آپ بحیثیتِ امام وخطیب ہانڈی والی مسجد سیفی جبلی اسٹریٹ بھنڈی بازار ممبئی میں فائز ہوئے۔ جس وقت آپ امامت کے منصب پر فائز ہوئے اس وقت مسجد کے حالات بہت خستہ تھے۔ زلزلے میں ایک منارہ بھی شہید ہو چکا تھا مسجد کے ٹرسٹی حضرات جنہوں نے مسجد قائم کی تھی انہوں نے ٹیکس نہیں دیا تھا جس کے سبب عدالت کی طرف سے مسجد کی جائداد کے لئے نیلامی کا حکم ہو گیا تھا۔ اس وقت آپ علیہ الرحمہ نے ممبئی کے ایک مشہور سماجی خدمات انجام دینے والی شخصیت امین کھنڈوانی سے رابطہ کیا اور عدالت میں درخواست پیش کیا کہ ہمارا بھی موقف سنا جائے عدالت کے حکم پر اور بانی مسجد کی رضا مندی سے مسجد اور اسکی ملکیت کچھی میمن ٹرسٹ کو سونپ دی گئی بعد میں آپ نے ایک تعمیری کمیٹی تشکیل دی اور خود پوری مسجد از سر نو تعمیر کا ذمہ لیا جس پر نئی ٹرسٹ نے بھی رضا مندی ظاہر کی۔اس طرح آپ نے اس مسجد کو ضائع ہونے سے بچایا اور اسکی تعمیر نو کی۔

آپ ہمیشہ مسلک اہلسنت (مسلک اعلیٰ حضرت) کی تبلیغ واشاعت میں مصروف رہے آپ نے حقانی پالن پوری جیسے بد عقیدہ پر ممبئی کی زمین تنگ کر دی اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اس پر پابندی عائد کرائی ممبئی کی سرزمین کو ان ناپاک ناہنجاروں کی چنگل سے ان مساجد کو آزاد کرایا جو درحقیقت اہلسنّت وجماعت کی تھیں۔ جن میں بالخصوص پٹھان واڑی کی دونوں مسجدیں بڑی وچھوٹی اور بائکلہ موتی مسجد ،تیلی محلہ رسول مسجد ان کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس سے زائد مساجد ہیں جن کو آپ نے اہلسنّت وجماعت کے لوگوں کو واپس کرایا

رفاہی خدمات: جس طرح آپ نے دینی خدمات انجام دیں اسی طرح خدمت خلق اور قومی مسائل کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
 
آپ کئی ملی سماجی رفاہی تنظیموں سے جڑے ہوئے تھے جن سے دین وملت کی خدمت انجام دی جاتی انہیں میں سے مشہور ومعروف تنظیم آل انڈیا تبلیغ سیرت بھی ہے جس کے بانی وسرپرست رئیس اعظم اڑیسہ حضور مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا حبیب الرحمن علیہ الرحمہ تھے ممبئی اور مہاراشٹر سطح پر تبلیغ سیرت کا قیام 14 اپریل 1978ء کو عمل میں آیا آپ کی صدرات اور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں ایک جلسہ عام جمنا بازارا اسٹریٹ ممبئی3 بھنڈی بازار میں منعقد ہوا جس میں آپ کو مہاراشٹر سطح کا صدر منتخب کیا گیا۔ اسی طرح سنی جمعیۃ العلماء ہند کے نائب بھی تھے 1989ء میں جب بھاگل پور میں خوف ناک فساد برپا ہوئے تو اس وقت آپ کی قیادت میں ایک ریلیف کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ذریعے لاکھوں متاثرین کو مدد پہونچائی گئی۔1990ء میں خلیجی جنگ کے موقع پر ایک لاکھ سے زائد ہندوستانیوں کو آل انڈیا تبلیغ سیرت کے بینر تلے بخیر وعافیت ہندوستان لانے میں مدد کیا۔

1992 ء میں بابری مسجد فسادات کے موقع پر مسلم علاقوں میں جا جاکر ریلیف پہونچائی اور جن علاقوں میں مسلمان پھنسے ہوئے تھے انہیں وہاں سے نکال کر ہانڈی والی مسجد اور دوسرے محفوظ مقامات پر پہونچایا آپ پوری پوری رات علاقوں کا تن تنہا دورہ کرتے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ ایک موقعہ پر یہ افواہ پھیلی کہ اسلام پورہ میں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اس وقت ڈونگری پولیس تھانے کے A. C. P موجود تھا بھیڑ نے پھراؤ کیا جس میں  A. C. Pزخمی ہو گیا۔ آپ نے ان کو سمجھایا اور خود حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے پھیڑ پر لاٹھی چارج کیا اور مجمع کو پیچھے ڈھکیلا پھر اسلام پورہ جاکر حالات کا جائزہ لیا اور سازگار ماحول پیدا کیا۔

26 جولائی 2005 ء کو ممبئی اور مہاراشٹر کے علاقوں میں جو بھیانک سیلاب آیا تھا اس کے لئے آپ نے ایک ریلیف کمیٹی تشکیل دی جس کا نام سینٹرل ریلیف کمپنی رکھا گیا اس وقت کے مہاراشٹر چیف منسٹر نے آپ کے اعتماد پر کمیٹی کو کم وبیش 140 ٹن اناج فراہم کیا اس کے علاوہ ریاستی اس وقت وزیر انیس احمد نے ہزاروں کلو دودھ پاؤڈر ریاستی وزیر بابا صدیقی نے کئی ہزار کمبل کپڑے اور دیگر ذرائع سے بہت سارا تعاون حاصل ہوا جو آپ کی نگرانی میں مصیبت زدگان اور ضرورت مندوں کو تقسیم کیا گیا۔

وصال پر ملال: علم وفضل کا یہ مہر تاباں عالم اسلام کو ضیاءبار کرتے ہوئے 16 ذوالقعدہ 8 دسمبر 2006 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روپوش ہوا  ۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون