اﷲسبحانہ
و تعالیٰ نے دلیل المجتہدین ، فخر المحدثین ، حامل بشارتِ نبی ﷺ ، سید الفقہاء و
العلماء ، جامع المحاسن والفضائل ، افتخار ملت اسلامیہ ، امام الائمہ ، سراج الأمہ
، کاشف الغمہ ، حضرت سیدنا نعمان ابن ثابت ، امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
کو دو بڑے احسانات سے نوازا ہے۔ پہلا یہ کہ آپ کو پہلی صدی ہجری میں پیدا کرکے
’’خیرالقرون‘‘ میں شامل فرمایا اور دوسرا یہ کہ آپ کو پلند پایہ ’’فقہی بصیرت‘‘
سے نوازا۔ صحابہ عظام اور عظیم تابعین کی صحبت بافیض نے امام صاحب کی اس خدا داد
صلاحیت کو مزید نکھارا، جس کی بناء پر آپ نے قرآن اور حدیث کا فہم ، مسائل کا
اخراج، احکام کے استنباط میں نئی فکر کی بنیاد رکھی۔
امام
اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی ولادت کے متعلق اختلاف ہے۔
۱۔ اسّی (۸۰) ہجری
میں ہوئی (جمہور ائمہ کے نزذیک یہی تاریخ مقبول و مختار ہے)۔
۲۔ ستر (۷۰) ہجری میں ہوئی۔
۳۔ اکسٹھ (۶۱) ہجری
میں ہوئی۔
آپ کا
نام: نعمان۔
کنیت: ابو حنیفہ۔
لقب: امام اعظم۔
سلسلہ
نسب: آپ علیہ الرحمہ کا
سلسلہ نسب کچھ اس طرح سے ہے : نعمان بن ثابت بن زوطٰی۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خلیفۂ
چہارم حضرت سیدنا علی کرم اﷲوجہہ الکریم کی دعا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے دادا زوطیٰ
، جن کااسلامی نام نعمان تھا، مسلمان ہونے کے بعد جب وہ کوفہ منتقل ہوئے تو سیدنا
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے اصحاب یعنی ان کے ہم نشین اور عقیدت مندوں میں شامل
ہوگئے۔
حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کے پوترے حضرت اسماعیل بن حماد سے
ہی روایت ہے فرماتے ہیں ’’میرے دادا امام ابوحنیفہ کے والد محترم ثابت جب وہ کم
عمر کے تھے، حضرت علی رضی اﷲعنہ کی بارگاہ میں پیش ہوئے تو آپ رضی اﷲعنہ نے ثابت
کے لئے اور انکی اولاد کیلئے دعا کئے‘‘۔ (ابن حجر ہیتمی،
سیوطی، خطیب بغدادی، تاریخ بغداد)
امام اعظم علیہ الرحمہ کے سفر:امام اعظم نے علم
حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم
حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا،
کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔
جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔
اساتذہ کرام:
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی
تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ
درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقہ كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار
ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ خود حضرت سیدنا امام
ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں
چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو۔
حضرت امام ابوحنیفہ علیہ
الرحمہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد الباقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر
ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:’’آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے
اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی تعظیم و تکریم واجب تھی‘‘۔(المناقب للموفق المکی صفحہ
168)
فقہی مسائل میں امام اعظم علیہ الرحمہ نے سب سے زیادہ ائمہ اہل
بیت سے فیض پایا۔ امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر
آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا؟
آپ نے جواب دیا: "میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد
الصادق سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا"۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی شریعت کا مزاج ائمہ
اہل بیت سے بہتر کوئی نہ سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہےکہ امام اعظم سیدنا أبو حنیفہ رضی
اللہ عنہ نے کمال محبت اور ادب سے ائمہ اہل بیت سے شاگردی کا شرف حاصل کیا، آپ
علیہ الرحمہ کے چند سادات مشائخ درجِ ذیل ہیں؛
·
حضرت سیدنا امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے
اور امام حسین کے پوتے)
·
حضرت سیدنا امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے
بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
·
حضرت سیدنا امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
·
حضرت سیدنا امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
·
حضرت سیدنا امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
·
حضرت سیدنا حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے پوتے)
·
حضرت سیدنا امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (ﷺ کے چچا
حضرت عباس کے پوتے)
صوفی بزرگ حضرت بہلول دانا رضی اللہ عنہ بھی آپ کے استاد تھے
امام اعظم ابو حنیفہ آپ کے پاس تعلیم حاصل کر نے جاتے رات را ت بھر ان کی خد مت
میں رہکر تصوف کے راز جانتے اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ تصوف کے کس قدر
اعلیٰ مقام پر فائز ہیں شاگر دوں کی تعداد لا کھوں میں ہے،آپ نے تحصیل علم کے بعد
جب درس و تدریس کے سلسلے کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں ازدھام ہو تا اور
حاضرین میں اکثریت اس دور کے جید علما کرام کی ہوتی علامہ کرو ری نے آپ کے خاص
شاگر دوں کی تعداد ایک ہزار فقہا ،محد ثین، صوفیا ومشائخ شمار کیا ہے یہ ان لا
کھوں انسانوں کے علاوہ تھے جو ان کے درس میں شامل ہوتے تھے آپ کے شاگر دوں میں
چالیس افراد بہت ہی جلیل المر تبت تھے اور وہ درجئہ اجتہاد کو پہنچے تھے وہ آپ کے
مشیر خاص تھے، ان میں چند کے نام یہ ہیں:
·
امام ابو یوسف
·
امام محمد بن حسن شیبانی
·
امام حماد بن ابی حنیفہ
·
امام زفر بن ہذیل
·
امام عبد ﷲ بن مبارک
·
امام وکیع بن جراح
·
امام داؤد بن نصیر
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے
بعد اہل سنت و الجماعت کی صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کے مؤلف امام
محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔
اہم تصانیف: آپ علیہ الرحمہ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
اصول دین / عقائد
·
فقہ اکبر : بروایت ، امام حماد بن ابی حنیفہ
·
فقہ اکبر :بروایت ، امام ابو مطیع بلخی ؒ
·
العالم والمتعلم : بروایت ، امام ابو حفص مقاتل السمرقندی
·
الرسالہ الی البتی :یہ
مشہور فقیہ اور امام عثمان البتی کی طرف بعض مسائل کی وضاحت کے سلسلہ میں لکھا۔
·
الوصایا: حضرت سیدنا ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
·
امام صاحب نے اصول دین ، قضاء وغیرہ سے متعلق اپنے تلامذہ کو
وصیتیں کیں۔
·
الوصیہ الی اصحابہ
·
الوصیہ الی ابویوسف قاضی
·
الوصیہ الی یوسف السمتی
·
الوصیہ الی حماد بن ابی حنیفہ
·
الوصیہ الی نوح بن ابی مریم
اصول حدیث
·
کتاب الآثار : ابو حنیفہ النعمان علیہ الرحمہ
حدیث کی قدیم ترین اور صحیح روایات پر مشتمل کتاب ہے ۔ اس کو
ائمہ کی بڑی تعداد نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اس کے علاوہ امام صاحب کی روایت کردہ احادیث کو جلیل القدر ائمہ
نے مسانید ، اربعین ، وحدان ،موسوعہ کی شکل میں جمع کیا۔
اصول فقہ
امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے قرآن و سنت سے ہزاروں مسائل نکالے
اور فقہ کی تدوین فرمائی ۔
جن کو ان کے تلامذہ کی جماعت نے ان کی زیر نگرانی کتب میں لکھا۔
امام صاحب کے تلامذہ نے ان مسائل کو امام صاحب سے روایت بھی کیا
اور اُن پر اپنی آراء کا بھی اضافہ کیا ، جس کی تکمیل امام محمد بن حسن شیبانی نے فرمائی
، انھوں نے ان مسائل کو 6 کتب میں بیان کیا ۔ یہ کتب ظاہر الروایۃ کہلاتی ہیں ۔ جو
فقہ حنفی کی بنیاد ہیں ۔
·
کتاب الاصل (المبسوط )
·
جامع الصغیر
·
جامع الکبیر
·
السیر الصغیر
·
السیر الکبیر
·
الزیادات
دیگر تصانیف
اس کے علاوہ امام صاحب کی تصانیف جو ہم تک نہیں پہنچ سکیں ۔
·
كتاب الصلاة
·
المناسك
·
كتاب الرہن
·
الشروط
·
الفرائض
·
كتاب الاجاء
·
كتاب السير
·
كتاب الرأي
·
اختلاف الصحابۃ
·
كتاب الجامع
·
كتاب السير
·
الكتاب الأوسط
ایک دفعہ حضرت امام اعمش رحمۃ اﷲعلیہ سے کچھ مسائل دریافت کئے
گئے اور اسوقت محفل میں حضرت امام صاحب بھی تشریف فرما تھے تو انہوں نے امام صاحب
کی طرف رجوع کیا۔ پس امام صاحب تمام مسائل کے جوابات دیدیئے۔ امام اعمش علیہ
الرحمہ نے دلیل طلب کی تو آپ نے وہی احادیث و روایات پیش کیں، جو خود امام اعمش
سے مروی تھیں۔ اس استنباط پر امام اعمش حیران رہ گئے اور امام صاحب کی تحسین کرتے
ہوئے فرمائے ’’ائے گروہ فقہاء آپ طبیب ہیں اور محدثین ادویات والے ہیں‘‘۔ یہی وجہ
تھی امام اعمش علیہ الرحمہ سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو آپ فرماتے ’’لوگو تم
ابوحنیفہ کی مجلس میں ضرور جایا کرو‘‘۔
محدث کبیر حضرت امام سفیان بن عیینہ (متوفی ۱۹۸ ہجری) امام صاحب کی فقاہت کے متعلق بیان کرتے ہیں ’’جو شخص علم
مغازی کو جاننا چاہے، وہ مدینہ منورہ کا رخ کرے۔ جو مناسک حج سیکھنا چاہے، وہ مکہ
مکرمہ کی راہ لے اور جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا چاہے، وہ کوفہ جاکر اصحابِ
ابوحنیفہ کے حلقہ درس میں جا بیٹھے‘‘۔
امام خوارزمی علیہ الرحمہ (متوفی ۶۶۵ ہجری) اپنی کتاب جامع المسانید میں لکھتے ہیں ’’امام ابوحنیفہ
ہی وہ شخص ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کی ابواب بندی
کی‘‘۔ فقہ اور حدیث کے امام صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نہ صرف تابعی ہیں، بلکہ
صحابہ و تابعین کی خیرالقرون جماعت کے ساتھ منسلک بھی تھے۔حضرت امام اعظم ؒ ذہین
اور قوی حافظہ کے مالک ہیں۔ آپ کا زہد و تقوی فہم و فراست اور حکمت بہت ہی مشہور
ہیں۔ امام صاحب تقریبا سات ہزار (۷۰۰۰) مرتبہ
قرآن مجید ختم کئے۔ رات بھر نفل نماز کے ذریعہ قرآن مجید ختم کرتے۔ اس طرح دن
میں دین اسلام کی اشاعت فرماتے اور رات میں عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔
حضرت امام اعظم ؒایک تاجر (کپڑوں کی تجارت) تھے۔
بادشاہوں کے نذرانے قبول نہیں فرماتے تھے۔ کثرت سے خوشبو استعمال کرنے والے تھے،
فضـول کاموں سے اجتناب فرماتے اور کسی بھی دنیا دار کی ملامت سے خوف
نہیں کھاتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی
جامعہ نظامیہ حقیقۃ الفقہ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں کہ اسّی (۸۰) ہجری آپ کی پیدائش کا یہ وہ متبرک زمانہ ہے کہ بہت سے صحابہ
عظام رضی اﷲعنہم اجمعین اُس میں موجود تھے، مگر آفتاب وجود صحابہ غروب ہونے کو
تھا۔ اُدھر صحابہ بحسب ارشاد ’’فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ سرگرم اشاعت علوم تھے،
اِدھر مسلمانوں پر یہ خیال مسلط تھا کہ ایسا نہ ہوکہ کوئی ارشاد اپنے نبی کریم ﷺ
کا، صحابہ ہی کے ساتھ واپس ہوجائے، جس سے تمام امت مسلمہ مرحومہ محروم رہ جائے۔
چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام صاحب نے
انس بن مالک رضی اﷲعنہ کو کئی بار دیکھا ہے، جس سے امام صاحب کا تابعی ہونا ثابت
ہے۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت امام اعظم کو فضل و حکمت اور علم عطا فرما۔ پس یہی وجہ تھی
کہ سب خوارج توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔(حقیقۃ الفقہ جلد اول صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۷)
وصال مبارک :
حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں کہ ابن ہبیرہ نے امام اعظم کو کوفہ کا
قا ضی بنا نا چاہا تو آپ نے انکا ر کر دیا اور فر مایا: اللہ کی قسم اگر مجھے قتل
بھی کردے تو میں یہ منصب قبول نہیں کروں گا، آپ کو کہا گیا کہ وہ محل تعمیر کر نا
چاہتا ہے،آپ اینٹوں کی گنتی قبول کر لیں، امام اعظم نے فر مایا: کہ اگر وہ مجھے
کہے کہ میں اسکے لئے مسجد کے دروازے ہی گن دوں تو میں نہیں گنوں گا ۔( ذیل الجواہر
المضیہ،ج۲،ص۵۰۵، )
امام علامہ محمد بن یو
سف صا لحی رحمتہ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے امام اعظم کو
کو فہ سے بغداد بلایا ہی اسی لیے تھا کہ انھیں شہید کر دے، امام اعظم ابو حنیفہ
لوگوں میں بہت معزز تھے اور ان کی بات سنی جاتی تھی، ان کے پاس مال تجارت کی بھی
فراوانی تھی، ابو جعفر کو سید ابراہیم کی طرف ان کے میلان سے خوف محسوس ہوا،
چنانچہ اس نے بلا وجہ انھیں قتل کر نے کی جر اٗت تو نہ کر سکا، البتہ انھیں قاضی
بننے کی پیش کش کی، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ منصب قبول نہیں
کریں گے،آپ نے انکار کیا تو آپ کو قید کردیا اور اس نے بہانے سے انھیں زہر دیکر
شہید کر دیا،( عقو دالجمان ص۳۵۹،فقہ و تصوف ص۲۸۲)
حضرت حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا وصال دو (۲)
شعبان المعظم ایکسوپچاس (۱۵۰) ہجری کو ہوا۔