Madarise Deeniya ki Tabahi ka Asl Sabab

سوال۔ مدارس دینیہ کی تباہی کا اصل سبب کیا ہے؟؟؟
جواب۔ چونکہ مدارِس اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ ہیں اسلئے ان کی تباہی پورے مسلمانوں کی تباہی ہے"چو کفر ازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی"
یہ مسئلہ انتہائی توجہ طلب ہے لیکن جانے کس وجہ سےادھر ہماری توجہ ہی نہیں ہے۔ذیل میں محمد غازی شمیم اشرفی اپنے احساسات پیش کرتاہے امید ہے کہ حساس علمائے کرام نقد ونظر سے ممنون فرمائیں گے۔ 
اگر مدرسوں میں منصب اور عہدہ صرف اس کو ملتا جو شرعًا اس کا حقدار اوراہل ہے تو آ ج مدارس کو موجودہ حالتِ زار سے دوچار نہ ہونا پڑتا  شرعًا معلمی اور استاذی کا حقدار اوراہل وہ ہے جس کے پاس حقیقۃً علم ہو عمل ہو اور وہ طلبہ کو بھی عمل پر ابھارے اوروہ علومِ رائجہ سے متعلق اپنی ہر بات طلبہ کے خوب ذہن نشین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جن کے پاس یہ چاروں چیزیں نہ ہوں وہ معلمی اور مدرسی کے ہرگز حقدار اور اہل نہیں ، ان سے طلبہ کی صحیح تعلیم وتربیت اور افرادسازی کی امید کھلی بیوقوفی ہے_ یہ نااہل ہی دراصل دین کو برباد کرنے والے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذون دينكم"يعني يہ علم ہی دین ہے لہذا تم یہ دیکھو کہ اپنا دین کس سے لے رہے ہو ۔اپنا معلم کس کو مقرر کررہے ہو۔
نیز ارشاد فرمایا ''لاتبکوا علی الدین إذا ولیہ أھلہ وابکوا علیہ إذا ولیہ غیر أھلہ''
یعنی جب اہل اور حقدار لوگ دین کی سرپرستی کریں تو دین پر رونے کی ضرورت نہیں ہاں جب دین کا معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں ہو تو پھر دین پر رونے کی ضرورت ہے۔اس حدیث سے پتاچلا کہ دین کی تباہی وبربادی نااہلوں سے ہوگی
ایک اور حدیث میں ہے إذاوسد الأمرإلی غیرأھلہ فانتظر الساعۃ
یعنی جب معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں تھمادیا دیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا''
اس سے پتہ چلا کہ دنیا کی بربادی بھی نااہل لوگوں کے سبب ہوگی تبھی تو فرمایا کہ جب معاملہ نااہلوں کے ہاتھ میں تھمادیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا"
نااہلوں کے ہاتھوں دین تباہ ہوتا جارہاہے مدرسوں میں دینی روح اور دینی ماحول پیداکرنے والے ناپید ہورہے ہیں پھر بھی آج بیشتر مدارس میں مدرس کی تقرری اس کے علم ،صلاحیت اور استتحقاق پر نہیں ہوتی بلکہ رشتے داری، دوستی دنیوی منفعت’ رشوت، خوش آوازی اور گھن گرج تقریر وغیرہ کی بنا پر ہوتی ہے اور اپنے رشتے دار، دوست ،قریبی اور چاپلوس کو مستحق ثابت کرنے کیلئے پوری کوشش بلکہ منظم سازش کی جاتی ہے اس بلا میں نہ یہ کہ صرف عوام بلکہ اچھے اچھے اہل علم حتی کہ خانقاہوں کے بوریہ نشین بھی گرفتار ہیں ۔اپنی اولاد، احباب اور نااہل طلبہ کو جگہ کا حقدار ثابت کرنے کیلئے کیا کیا نہیں کیا جاتا اگر اولاد انگریزی پڑھ رہی ہو تو بھی انھیں عربی فارسی بورڈ کا امتحان دلاکر عالم وفاضل باور کرایاجاتا ہے اس کے لئے باقاعدہ نقل کرنے اور کرانے کا جرم عظیم بھی کیا جاتا ہے گھوس کی صورت بھی اپنائی جاتی ہے اس طرح سے نااہل لوگ نااہلوں کا استحقاق ثابت کرتے ہیں اور حقدار واہل حضرات کا حق مارتے ہیں
یادرکھو !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ﻣﻦ ﻭﻟﻲ ﻣﻦ ﺃﻣﺮ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﺷﻴﺌﺎ ، ﻓﻮﻟﻰ ﺭﺟﻼ ﻭﻫﻮ ﻳﺠﺪ ﻣﻦ ﻫﻮ ﺃﺻﻠﺢ ﻟﻠﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻣﻨﻪ ﻓﻘﺪ ﺧﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪﻭﺭﺳﻮﻟﻪ . یعنی جو مسلمانوں کے کسی معاملے کاذمہ دار ہو اور وہ مسلمانوں کیلئے زیادہ مناسب اور بہتر شخص کو چھوڑکر کسی دوسرے کو ان کا والی ونگراں بنائے اس نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ : ﻣﻦ ﻗﻠﺪ ﺭﺟﻼ ﻋﻤﻼ ﻋﻠﻰ ﻋﺼﺎﺑﺔ ، ﻭﻫﻮ ﻳﺠﺪ ﻓﻲ ﺗﻠﻚ  ﺍﻟﻌﺼﺎﺑﺔ ﺃﺭﺿﻰ ﻣﻨﻪ ، ﻓﻘﺪﺧﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺧﺎﻥ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻭﺧﺎﻥ ﺍﻟﻤﺆمنین
یعنی جو کسی گروہ)مثلًا گاؤں ،قبیلے اور قوم( کیلئے کسی شخص کو کام پر لگائے جبکہ وہ اس گروہ میں شرعًا اس سے زیادہ بہتر کو موجود پائے تو اس نے اللہ کے ساتھ خیانت کی ،اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی اس سے پتہ چلا کہ کوئی بھی عہدہ مستحق اور اہل حضرات کا ہی حق ہے ۔اگر ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ کسی عہدہ پر کسی کو فائز کرسکتے ہیں تو اس کا اہل تلاش کر ہی اس کے سپرد کریں اس لئے کہ وہ اسی کا حق ہے جو کہ ہمارے پاس محض امانت ہے ورنہ ہم اس اہل کے حق میں گرفتار ہونے کے ساتھ اللہ ورسول اور قیامت تک جنھیں بھی نااہل کی تقرری کے سبب کوئی نقصان پہنچے ان سب کے حق میں گرفتار ہوں گےیہ تماشا بھی دیکھنے کو ملا کہ اگر کسی نے اپنی طاقت استعمال کرکے کسی اہل کو اس کا حق دیدیا اور اسے اس کی جگہ پر متمکن کردیا تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں نے اس کے اوپر بڑا احسان کیا ہے اور وہ بسااوقات نہایت متکبرانہ انداز میں اس کا ذکر بھی کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس حقدار پراحسان نہیں کیا بلکہ اللہ نے اس پر احسان کیا کہ اس نے حقدار کو اس کا حق دیا لیکن آگے اس نے احسان جتا کے اپنا اجر ضائع کرلیا اس کو اپنی اصلاح کی سخت ضرورت ہے کیونکہ وہ منافق اَعرابیوں کے طریقے پر گامزن ہے قرآن پاک میں ہے کہ "ﻳﻤﻨﻮﻥ ﻋﻠﻴﻚ ﺃﻥ ﺃﺳﻠﻤﻮﺍ ﻗﻞﻻ ﺗﻤﻨﻮﺍ ﻋﻠﻲ ﺇﺳﻼﻣﻜﻢ ﺑﻞ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﻤﻦ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻥ  ﻫﺪﺍﻛﻢ ﻟﻺﻳﻤﺎﻥ ﺇﻥ ﻛﻨﺘﻢ ﺻﺎﺩﻗﻴﻦ"
یعنی اے میرے محبوب!منافق اَعرابی تم پر اپنے ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں۔تم فرمادو کہ تم اپنے ایمان لانے کا احسان مجھ پر مت رکھو بلکہ اگر تم سچے ہو تو اللہ تم پر احسان رکھتاہے کہ اس نے تمھیں ایمان کی ہدایت دی۔کسی حقدار کو اس کا حق دیکر احسان جتاناانتہائی گھٹیا کام ہے اوراسے اس کا حق نہ دینا اس پر ظلم اللہ ورسول کے ساتھ خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ دغابازی ہے 
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے " ﻳﺎﺃﻳﻬﺎ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮﺍ ﻻ ﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﻭﺗﺨﻮﻧﻮﺍ ﺃﻣﺎﻧﺎﺗﻜﻢﻭﺃﻧﺘﻢ ﺗﻌﻠﻤﻮﻥ { .
یعنی اے ایمان والو! تم جان بوجھ کر اللہ ورسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو۔
نیز فرماتاہے :إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات الي أهلها"
يعني بیشک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو
صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  ﻣﺎ ﻣﻦ ﺭﺍﻉ ﻳﺴﺘﺮﻋﻴﻪﺍﻟﻠﻪ ﺭﻋﻴﺔ
، ﻳﻤﻮﺕ ﻳﻮﻡ ﻳﻤﻮﺕ ، ﻭﻫﻮ ﻏﺎﺵ ﻟﻬﺎ ، ﺇﻻ ﺣﺮﻡ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺭﺍﺋﺤﺔ ﺍﻟﺠﻨﺔ ـ
یعنی اللہ جسے کسی گروہ کا ذمہ دار بنائےجس دن وہ مرے گا اللہ اس پر جنت کی خوشبو حرام کردے گا جبکہ اس نے اس گروہ کےساتھ دغابازی کی ہو۔
ہم لاکھوں لاکھ کی لاگت سے جلسے جلوس کرتے ہیں اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ ہم مدرس ومعلم کی تقرری سے پہلے پچیس پچاس ہزارخرچ کرکے کچھ باصلاحیت علما کو بلواکر ان کی اہلیت کی جانچ کرلیں پھر ان کی تقرری کریں نا اہلوں کی تقرری کے بعد تعلیمی معیار بنانے کیلئے کتنی بھی کتابیں بدلیں کتنے بھی نئے نصاب مقرر کریں اور کتابوں کی کتنی بھی مقدار یں متعین کریں۔لیکن کامیابی کی امید نہ رکھیں ۔اگر دل میں خدا کا خوف ہے تو نااہل کی تقرری کرکے اللہ ورسول کیساتھ خیانت اورقوم وملت کے ساتھ دھوکے بازی کا عذاب مول نہ لیں۔اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بحرمۃ النبی الامین صلی للہ علیہ وآلہ وسلم ...

Hazrat Khawaja Hafiz Shairazi

حضرت خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ
حضرت خواجہ حافظ شیرازی قدس سرہ اکابر طریقت  میں اہم مقام رکھتے ہیں آپ ایک صوفی شاعر تھے آپ نے شاعری  کے ذریعے تصوف کے بہت سے اہم نکات کو بیان کیا ہے ان کے اشعار حقیقت و معرفت ہر مبنی ہے ۔ حضرت خواجہ حافظ شیرازی  قدس سرہ غوث العالم محبوب یزدانی کے معاصرین میں سے تھے ان دونوں حضرات کی ملاقات شیراز میں ہوئی ۔
لطائف اشرفی میں ہے کہ  حضرت قدوۃ الکبریٰ فرماتے ہیں کہ جب میں شیراز پہونچا اور وہاں کے اکابرسے ملاقات کی تو خواجہ حافظ شیرازی سے ملاقات ہوئی پہلے ان کا یہ شعر مجھ تک پہونچ چکا تھا :
حافؔظ بھی معتقد ہورکھوں میں تم کو عزیز
ہیں اس پہ ایک روح مکرم  کی  بخششیں
میں نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ وہ اویسی ہیں جب ملاقات ہوئی تو ہم دونوں میں بڑی  محرمانہ  باتیں ہوئیں ایک عرصہ تک ہم دونوں ایک ساتھ شیراز میں رہے ان کا مشرب میں نے بہت بلند پایا اس زمانے میں جس کو ان کی نیابت جاننے کی خواہش ہوتی وہ ان کی طرف رجوع کرتا تھا ۔ ان کے اشعار سے معارف کا اظہار اور حقائق کی پردہ کشائی ہوتی تھی اکابر روزگار نے ان کے اشعار کو لسان الغیب کہاہے کہ بلکہ ایک بزرگ نے تو یہاں تک کہاہے کہ کوئی دیوان حافؔظ کے دیوان سے بڑھ کر نہیں ہے مردصوفی اسے سمجھ سکتا ہے۔                                                                                 (حوالہ:لطائف اشرفی حصہ دوم 370)
اس عبارت سے پتہ چلتاہے کہ ان دونوں ہستیوں میں بڑی قربت رہی اور رازونیازکی باتیں بھی ہوتی رہیں سید اشرف جہانگیر سمنانی نے خواجہ حافظ شیرازی کا جس انداز سے ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند پایہ صوفی تھے اکثر نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مجذوب تھے کیونکہ ہروقت جذب کی کیفیت میں رہتے تھے ان کے اشعار ان کی قلبی کیفیات کے آئینہ دار ہیں جن میں طریقت کے بڑے اسرارورموز  بیان کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مشائخ وقت نے آپ کے اشعار کو لسان الغیب سے تعبیر کیا ۔
لطائف اشرفی میں متعدد مقامات میں پر حضرت خواجہ حافظ شیرازی کا ذکر خیر ملتا ہے ۔ سید اشرف  جہانگیر سمنانی السامانی  نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اویسی تھے  یعنی حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے مشرب پر تھے ایک مقام پر یہ بھی فرمایا کہ جب حقائق و معارف پر گفتگو ہوتی تھی تو آپ اہل محفل  دنگ رہ جاتے اور آپ کی عملیت و روحانیت کے قائل ہوجاتے ۔
وصال مبارک: حضرت خواجہ حافظ شیرازی کے سن وصال میں اختلاف ہے بعض نے 792 ہجری لکھاہے تاریخ اسلام میں 791 ہجری درج ہے وہ لکھتے ہیں 791 ہجری میں سلطان مراد خاں بروصہ میں مقیم تھا سی سال حضرت خواجہ حافظ شیرازی اور خواجہ بہاؤالدین نقشبند نے وفات پائی۔
حضرت نظام یمنی نے لطائف اشرفی میں 800 ہجری لکھا ہے اور اکثر حضرات نے اسی کو درست قرار دیا ہے ان کا سن وصال 800 ہجری ہی صحیح ہے ۔ واللہ اعلم و رسولہ اعلم 

Hazrat Shaikh Qaseem Tukistani

حضرت شیخ قثیم قدس سرہ
حضرت شیخ قثیم قدس سرہ اپنے جلیل القدر بزرگ گزرے ہیں آپ ترکستان کے مشائخ میں سے تھے اور طریقت میں ممتاز مقام رکھتے تھے ۔وقت کے عظیم بزرگوں نے آپ سے کسب فیض کیا جن میں حضرت بہاؤالدین نقشبند اور سید اشرف جہانگیر سمنانی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ آپ ترکستان کے مشائخ سے ہیں اور خواجہ احمد یسوی کے خاندان سے ہیں جو غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کے حقیقی نانا تھے۔
حضرت شیخ قثیم نے غوث العالم  محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کو ظاہری و باطنی نعمتوں سے نوازا اور ان کے فرزند قدوۃ الآفاق شیخ الاسلام و المسلمین سید عبد الرراق نورالعین الجیلانی  کو بھی شرف توجہ بخشا اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔

شیخ الاسلام کا لقب: غوث العالم  محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ملاقات آپ سے کرائی تو ان کی طرف ظاہری وباطنی توجہ فرمائی اور ان کے حسب نسب کے متلق دریافت کیا میں نے عرض کیا کہ سادات جیل سے ہیں اور حضرت غوث الثقیلن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولا د سے ہیں میں  نے انہیں اپنا فرزند بنا لیا ہے اور سبھی مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے فرمایا کہ ہم نے بھی قبول کیا کہ تمہارا فرزند ہمارا فرزند ہے حق تعالیٰ سے ہم نے دعا کی ہے کہ یہ اپنے زمانے کے شیخ الاسلام ہوں  ان شاء اللہ ۔ (حوالہ:لطائف اشرفی حصہ دوم فارسی 387)

Hazrat Syed Jamal Uddin Khurd Sikandarpuri

حضرت سید جمال الدین خورد سکندرپوری قدس سرہ
سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی کے معاصرین میں حضرت سید جمال الدین خورد سکندر پوری کا نام بھی آتا ہے آپ صاحب علم و فضل تھے اور زہد وتقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے لطائف اشرفی میں سید اشرف  جہانگیرسمنانی سے آپ کی ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے جو اس طرح ہے:
حضرت قدوۃ الکبری (سید اشرف جہانگیر سمنانی)  جمعہ ادا کرنے کے بعد سنجولی سے آرہے تھے جب موضع سکندپور کے پاس پہونچےتو فرمایا کہ اس قریہ سے بوئے سیادت آرہی ہے میر سید جمال الدین خورد جو اس قریہ کے مالک تھے حضرت قدوۃ الکبری  سے ملنے آرہے تھے آپ نے فرمایا بوئے سیادت زیادہ آرہی ہے اور ایک مدت کے بعد  بوئے سیادت دماغ میں پہونچی ہے ۔ حضرت قدوہ الکبری کو دیکھ کر سید جمال الدین دل میں آپ سے پورا اعتقاد ہوگیا اکثر اوقات بارگاہ عالی  کی ملازمت اور درگاہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے سید جمال الدین خورد کے  خاندان میں دو تین پشت سے صرف ایک فرزند ہوتا تھا اور ان کے دل میں آرزوتھی کہ کسی بزرگ سے ملاقات ہو تو عرض مدعاکریں ایک دن جب حضرت قدوۃ الکبریٰ جذب کے عالم میں  تھے تو سید جمال الدین نے کھڑے ہوکر نیاز مندی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا آپ نے فرمایا : تمہیں مبارک ہو تمارے بہت اولاد واحفاظ ہونگے۔                    (حوالہ: لطائف اشرفی حصہ اول صفحہ98)
مکتوبات اشرفی میں 37 واں مکتوب سید جمال الدین خورد کے نام ہے جس میں راہ سلوک کی آفات اور ان کے حل کا بیان ہے اور وظائف پر مواظبت کا حکم ہے ۔غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی خطوط کے ذریعے رہنمائی فرماتے تھے اور سید جمال الدین خورد نے آپ سے بڑافیض حاصل کیا اور ان کے بتائے ہوئے اوراد ووظائف ہر پوری طرح کا ربند رہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان کو خلافت ملی یا نہیں سید جمال الدین خورد نے ریاضت و مجاہدے میں زندگی گزاردی آپ کے وصال اور مزار کے متعلق علم نہیں کہ کہاں ہے غالبا سکندرپور میں ہی ہوگا۔  (واللہ اعلم ورسولہ اعلم) 

Hazrat Syed Badi Uddin Zinda Shah Madar



حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار قدس سرہ
اسم گرامی:سید بدیع الدین احمد ہے۔کنیت ابوتراب ہے۔بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں۔اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپ کوعبداللہ ،قطب المدار،فردالافرادکہتے ہیں مدارعالم، مداردوجہاں ، مدارالعالمین،شمس الافلاک آپکے القابات مقدسہ ہیں برصغیر ہندوپاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔
 ولادت باسعادت:آپکی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت پیر کے دن یکم شوال المکرم 242ہجری بمطابق856عیسوی میں ملک شام کے شہرحلب میں محلہ"جنار" میں ہوئی "صاحب عالم "سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے۔
والدماجد کا نام: سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی ہے اوروالدہ موصوفہ سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ سےمشہورہیں آپ حسنی حسینی سید ہیں حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: اناحلبی بدیع الدین اسمی بامی وامی حسنی حسینی جدی مصطفے سلطان دارین محمداحمدومحمودکونین ۔ ترجمہ : میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہےماں کی طرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوںمیرے نانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجہاں میں کی جاتی ہے۔                                             (بحوالہ : الکواب الدراریہ)
حضرت قاضی حمید الدین ناگوری قدس سرہ القوی نے اپنےملفوظات میں آپکا شجرہ نسب اس طرح نقل فرمایا ہےکہ آنحضرت اجلہ ازاولادامجادحضرت علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ واسم پدرآں عالی قدرسیدعلی حلبی ابن سیدبہا ءالدین ابن سید ظہیر الدین ابن سیداحمد ابن سیدمحمد ابن سید اسماعیل ابن سید امام الائمہ جعفر صادق ابن سیدامام الاسلام سید باقرابن سیدامام الدارین زین العابدین ابن امام الشہداءامام حسین ابن امام الاولیاء  یعنی حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں ۔
آپ کے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاءالدین ابن سیدظہیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن سیدامام الائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشہداءامام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین۔
 والدہ ماجدہ کی طرف سے آپکا نسب نامہ یہ ہے: والدہ ماجدہ کا نام نامی فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابومحمدابن سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت سید حسن مثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
 پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور: آپ جب شکم مادر سے اس جہاں تیرہ تارمیں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا جس میں آپ پیدا ہوئے۔ پیدا ہوتے ہی جبین نیاز کوخالق بے نیاز کی بارگاہ میں بہر سجدہ جھکا دیا۔زبان حق نواسے یہ صدا بلند ہوئی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ جب اس عالم گیتی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک صاحب لولاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ.وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطہار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئے اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی۔غیب سے ہاتف نے ھذا ولی اللہ ھذا ولی اللہ کا مژدہ سنایا۔شایدان بارگاہ لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے۔
تعلیم وتربیت: اللہ تعالی جس کو اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور اپنی محبوبیت کے لیے انتخاب فرماتا ہے اسکی تعلیم وتربیت کے لئے بھی بے نظیر اور بہترین انتظام فرماتا ہے چنانچہ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئی تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق  والد گرامی نے بمنشائے رحمانی آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کے لیئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی (متوفی 276ہجری) کی خدمت میں پیش کیا۔استاذ محترم حق استاذی ادا کیا۔ابتدائ تعلیم سے لیکر شریعت کے تمام علوم وفنون سے آراستہ وپیراستہ کیا جب آپکی عمر مبارک 14سال کی ہوئی تو علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپکو مہارت تامہ حاصل ہو چکی تھی۔حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت، زبور ،انجیل کے بھی حافظ وعالم تھے۔                                     (تذکرۃالکرام تاریخ خلفائےعرب واسلام صفحہ493)
 ابوالفضائل مولانا نظام الدین غریب  لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ النورانی  ایک سفر میں آپ کے ساتھ رہے اور فیوض و برکات حاصل کئے ۔ اس کا ذکر انہوں نے لطائف اشرفی میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں: حضرت بدیع الدین الملقب شاہ مدار بھی اویسی تھے نہایت بلند مشرب رکھتے تھے بعض نادرعلوم مانند ہم ہیمیاوسیمیا وکیمیا ورریمیا سے دیکھے گئے جو کہ اس گروہ میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوگا مکہ معظمہ کے ایک سفر میں ہم دونوں ہمراہ تھے اور اس استفادہ کیا۔                                                                                           (لطائف اشرفی حصہ دوم فارسی صفحہ 64)
بیعت وخلافت: ظاہری علوم سے فراغت کے بعد علم باطن کے حصول کے لیے حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا۔ والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ اور مدینہ ہوگے۔جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین! صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ اولیاءبایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں-آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا۔ 259ہجری میں سلطان الاولیاء حضرت بایزید بسطامی عرف طیفور شامی قدس سرہ السامی نے صحن بیت المقدس میں نسبت صدیقیہ،طیفوریہ و بصریہ سے اجازت وخلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا۔تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی معیت میں رہ کر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے۔ذکرواشغال اورادووظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی تعلیم فرمائی۔
 سلطان العارفین حضرت سیدنا  بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال : مرشد برحق نے مرید صادق کو عرفان حق اور مشاہدات حقیقت کا ایسا لطیف احساس اور سلیم جزبہ عطا فرمایا کہ آپ مشاہدہ ذات الہی اور درک صفات لا متنا ہیہ میں محو ومستغرق رہنے لگے ۔261 ہجری کا سورج اپنے آٹھویں برج میں قدم رکھ چکا تھا چودہویں رات کا چاند اپنی پر شباب چاندنی سے جبین کائنات کو منور ومجلی کر چکا تھا۔داعی اجل نے حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کے در زیست پر دستک دی اور عالم وقرب واقرب میں حضوری کا دعوت نامہ پیش کردیا ۱ شعبان المعظم 261 ہجری مطابق 875عیسوی میں اس دار فانی سے عالم بالا کی طرف کوچ کر گئے۔  (اناللہ وانا الیہ راجعون)
حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری: مرشد سے جدائی کے بعد حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپنے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائی کے دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپ کا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور دنیا و آخرت سے مجرد ہوگئے تجلیات ربانیہ کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنوائی میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں  تھوڑی دیر کے لیے آنکھوں کے دریچے بند ہوئے تھے کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئی اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کے بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت قریب آگیا ہے گنبد خضری کے مکین تیرے نانا جان سنہری جالیوں سے تیری راہ دیکھ رہے ہیں آنکھیں کھلی تو دل کی دنیا میں مسرتوں کا طوفان برپا تھا وارفتگی شوق احساس و وجدان پہ چھاتی چلی گئ لیکن خرد  نےسر گوشی کہ کے اے شوق!  مچل، اے پاوں! ٹہر، اے دل کی تمنا! خوب تڑپ، آپ نے  رہوار شوق کو خانہ کعبہ کی طرف موڑ دیا موسم حج شروع ہو چکا تھا فریضہ حج وزیارت ادا کیا جب جمال الہی کی تجلیوں کے فروغ سے قلب دروں کندن ہوگیا تو دل بیتاب پر مدینہ منورہ کے احساسات چھاتے چلے گئے وہ سر زمین جس کے نام کو سنکر اہل ایمان کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں وہ نورانی گلیاں جن میں جاروب کشی کے لیے آنکھیں اور پلکے آرزو مند رہتی ہیں مسجد  نبوی کے وہ معطر منقش ستون جنہیں تصویروں میں دیکھ کر ہی احساس وجدان سجدہ ریز ہوجاتے ہیں وہ گنبدخضری جس میں سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر ساری کائنات کو روشن کرتی ہیں اب وہاں کی حضوری رسائی اور بایابی کی دھن میں پائے شوق وارفتہ وتند رو ہوجاتا رہا ہے جوں جوں منزل مقصود قریب آرہی ہے دل ودماغ اور روح کی تمام حسیات پر ادب واحترام کارنگ غالب ہوجاتا رہا ہے مقدر کی باریاب سے در حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ حضوری ہوتی ہے یہ اللہ کے حبیب صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کا آستانہ ہے یہاں خلقت کا ہجوم رہتا ہے یہاں تو شہنشاہ بھی گدا بن کے آتے ہیں یہ مقام تو فہم وادراک کی منزل سے بھی بالاتر ہے یہاں شرمساری کے جلووں میں امیدوں کا دیا جلتا ہے ۔اضطراب کے پس پردہ چین وسکون کی ہوا چلتی ہے وہ ادھر دائیں ہاتھ کومنبر نبوت ہے اور وہ ریاض الجنت یہاں قدم قدم پر انوار رحمت سجدہ ریز ہیں نور ونکہت کی زمین پر چاند سورج اور ستارے دست بستہ نور کی خیرات کے لیے کھڑے ہیں دن رات کی کسی گھڑی میں ایک پل کے لیے بھی یہ جگہ خالی نہیں رہتی ہے۔ دیوانے اور مستانے یہاں دھونی رمائے رہتے ہیں بیک وقت ستر ہزار فرشتے درودوسلام کے نغموں کے ساتھ یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں اہل محبت کا یہاں ہر دم ہجوم رہتا ہے اللہ ہو کی باز گشت فضا کو گرمائے رہتی ہے یہاں کا ایک سجدہ ہزاروں سجدوں پر بھاری ہوتا ہے۔ حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ رسالت میں باریاب ہیں دل کی بیتابی کو قرار مل رہا ہےاضطراب شوق پر حصول تمنا کی امیدوں کا غلبہ ہورہا ہے احساسات پرسکون کی خنکی چھائی ہوئی ہے رات اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے فجر صادق اپنے اجالے کو کائنات پر بکھیر نے کی تیاری کررہا ہے کہ اسی اثنا میں رحمت ونور کے پیغامبر صلی اللہ تعالی وآلہ وسلم اپنی نورانیت کے ساتھ عالم مثال میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے دلبند بدیع الدین قطب المدار کو اپنے دامن رحمت میں ڈھاپ لیتےہیں قطرہ سمندر سے ملکر سمندر ہونے جارہا ہے ذرہ آفتا ب بن رہا ہے معاً امیر کبیر حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم عیاں ہوتے ہیں بارگاہ رسالت سے حکم جاری ہوتا ہے اے علی اپنے نور نظر کو روحانیت کی تربیت دےکر اور رجل کامل بناکر میرے پاس لاؤ۔
باب شہر مدینۃالعلم نے علم اسرار عطا فرمادیا تو اب کس کا یارا ہے جو اسکی عظمتوں کی چوٹیوں پر نگاہ ڈال سکے ۔مولائے کائنات علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ  نے روح مہدی معود کے سپرد کردیا روح مہدی آخرالزمان نے ایسا مرتب کیا کہ اب اسکو سمجھنا آسان نہیں رہا ۔
نسبت اویسیہ سے مشرف ہونا: تاجدار اقلیم ولایت نے آپکو اپنے آغوش عاطفت میں  لیکر آپکے روحانیت کو صیقل فرمایا اور قلب کو متحمل بار ولایت عظمی بناکر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بشمول عواطف فرماکر خانہ نبوت میں اسلام حقیقی تلقین فرمائی اور اپنے جمال جہاں آرا سے آپکے قلب وروح کو مزین فرماکر شرف اویسیت سے ممتاز فرمایا اور ہندوستان جانے کی تاکید فرمائی۔
آپ وہاں سے ہندوستان تشریف لائے اور گجرات میں قیام فرمایا یہیں سے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا لاکھوں  انسانوں کو راہ ہدایت دیکھائی اور لاکھوں کو دائرہ اسلام کیا اس کے بعد مختلف شہروں میں قیام رہا اور ہرجگہ رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رہا آپ سخت ریاضت و مجاہدہ کرتے تھے عبادت اور ریاضت اور تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے آپ کے چہرے ہر ایسا نور تھا کہ جوشخص بھی ایک نظر آپ کے رخ انور کو دیکھ لیتا گرویدہ ہوجاتا تھا اکثر لوگ تو صرف آپ کے چہرے کو دیکھ کر ہی تائب ہوئے اور راہ ہدایت اختیار کی بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ کے حسن وجمال میں نورالہی کی جھلک آتی تھی جس کی وجہ سے دیکھنے والے بے اختیار سجدے میں گرجاتا تھا۔ اس لئے آپ چہرے پر نقاب ڈالے رہتے تھے ۔ آپ کی محفل میں جو بھی آتا آپ کی نظر کیمیا اثر سے تائب ہوکر سچا مسلمان بن جاتا تھا آپ کے خلفاء کی تعداد لاکھوں میں ہے جبکہ مریدین کی تعداد بے شمار ہے روحانیت میں آپ کے بلند مقام کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اکابراولیاء نے آپ کی صحبت اختیار کی اور فیض حاصل کیا ان میں  غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی، قاضی حمید الدین ناگوری ،مولانا حسام الدین مانکپوری ،  قطب اودھ حضرت  شاہ مینا،  حضرت خواجہ سید ابومحمد ارغوان  ، حضرت ابوالحسن طیفوری ، سید جمال الدین جان من ، حضرت اجمل بہرائچی، قاضی محمود کنتوری، قاضی شہاب الدین دولت آبادی، سلطان ابراہیم شرقی، حضرت قاضی صدر جہاں ، حضرت محمد غزنوی، حضرت شاہ بھیکا قنوجی ( رحمہم اللہ اجمعین) اور دیگر جلیل القدر  بزرگان دین کے اسمائے شامل ہیں ۔
 غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ النورانی  ایک سفر میں آپ کے ساتھ رہے اور فیوض و برکات حاصل کئے ۔ اس کا ذکر انہوں نے لطائف اشرفی میں کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
 حضرت بدیع الدین الملقب شاہ مدار بھی اویسی تھے نہایت بلند مشرب رکھتے تھے بعض نادرعلوم مانند ہم ہیماوسیما وکیمیا ورریما سے دیکھے گئے جو کہ اس گروہ میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوگا مکہ معظمہ کے ایک سفر میں ہم دونوں ہمراہ تھے اور اس استفادہ کیا۔                              (لطائف اشرفی حصہ دوم فارسی صفحہ 64)
حضرت مولانا ابوالفضائل محمد نظام الدین غریب  یمنی  لطائف اشرفی میں ایک عبارت نقل کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شاہ مدار نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کو خرقہ بھی عطا فرمایا تھا اور اس کے علاوہ بہت سے روحانی انعامات بھی فرمائے اسی لئےسلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی ان کا بے حد احترام کرتے تھے ان دونوں حضرات میں بڑی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سفر کے اختتام پر ایک دوسرے سے رخصت ہورہے تھے تو سیداشرف جہانگیر سمنانی اور حضرت شاہ مدار کی آنکھیں پرُنم تھیں۔
اویسیت کا مطلب:  قارئین !اویسیت کیا ہے ؟ اور اسکی شان کتنی نرالی ہے ؟ اسکے فہم وادراک کے لیے شاہ سمناں غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں تھوڑی دیر کے لیے حاضری دیتے ہیں آپ فرماتے ہیں کہ شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ کا گفتہ کہ قومے ازاولیاء اللہ عزّوجل باشند کہ ایشاں کہ را مشائخ طریقت وکبرائے حقیقت اویسیان نامندکہ ایشاں را درظاہر ہربہ پیری احتیاج بنود زیراکہ ایشاں راحضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم در حجرہ عنایت خود پرورش می دہند بے واسطہ غیرے چنانکہ اویس دادہ ایں عظیم مقامی بود وروش عالی ترکرااینجارسانند وایں دولت بکہ رونماید بموجب آیتہ کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہن یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔ (لطائف اشرفی ملفوظات حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ لطیفہ 14/واں )
 ترجمہ : شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں بزرگان دین مشائخ طریقت "اویسی""کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ عنایت میں بذات خود انکی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اس میں کسی غیر کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کس کی یہاں تک رسائی ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب آیتہ کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین المقلب شاہمدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند وبسے مشرب عالی داشتند وبعضے علوم نوادر از ہیمیاوکیمیا وریمیا ازایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے راباشد۔
(لطائف اشرفی فارسی صفحہ 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی )
 ترجمہ.حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بہ شاہمدار قدس سرہ بھی اویسی ہوے ہیں نہایت ہی بلند مرتبہ ومشرب والے ہیں بعض نوادر علوم جیسے ہیمیا سیمیا کیمیا ریمیا ان سے مشاہدہ میں آئے ہیں جو اس گروہ اولیاء میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے۔
قطب کا لغوی معنی: چکی کی کیل جس پر چکی گھومتی ہے۔مدارکامعنی 'سردارقوم،  زمین کی محور کا کنارہ ، ایک ستارہ کا نام جس سے قبلہ کا تعین کرتے ہیں۔
 قطب کا اصطلاحی معنی : قطب اسکو کہتے ہیں جوعالم میں منظور نظرحق تعالی ہو ہر زمانہ میں اور وہ بر قلب اسرافیل علیہ السلام ہوتا ہے ۔                                                (الدرالمنظم صفحہ50،  لطائف اشرفی)
اقطاب کی برکت سے عالم محفوظ ہوتا ہے: حضرت شیخ اکبر فتوحات کےباب تین سو تراسی میں لکھتے ہیں کہ قطب کے سبب سے اللہ تعالی محفوظ رکھتا ہےکل دائرہ وجودکو عالم کون وفساد سے اور امامین کی وجہ سے عالم غیب وشہادۃ کو اور اوتاد کی وجہ سے جنوب وشمال کو اور مشرق ومغرب کواور ابدال کی وجہ سے اور ولایتوں کو محفوظ رکھتا ہے اور قطب الاقطاب سے ان سب کوکیونکہ وہ تو وہ شخص  ہے جس پر سارے عالم کا امر دائر ہے۔
ایک قطب کے تصرف کی حد کیا ہے: سر کار غوث پاک عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں  کہ اقطاب کےلیے سولہ عالم ہیں اور ہر عالم ان میں سے اتنا بڑا ہے جو اس عالم کے دنیا و آخرت دونوں کو محیط ہے مگر اس امر کو سوائے قطب کے کوئی نہیں جانتا  ۔        (الدرالمنظم فی مناقب غوث اعظم صفحہ 58)
تمام اقطاب قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں: اقطاب جتنے ہوتے ہیں سب قطب المدار کے محکوم وماتحت  ہوتے ہیں اور یہ بارہ اقطاب جن کا ماسبق میں ذکر ہوا وہ قطب المدار کے محکوم ہوتے ہیں  اور اب بارہ قطبوں میں سے سات ہفت اقلیم کے ہیں یعنی ہر اقلیم میں ایک قطب اور پانچ قطب یمن کی ولایت میں رہتے ہیں انکو قطب ولایت کہتے ہیں قطب عالم یعنی قطب مدار کا فیض اقطاب اقالیم پر وارد ہوتا ہےاور اقطاب اقالیم کا فیض تمام اولیاءپرجاتا ہے اور یہی طریقہ قیامت تک رہیگا ۔   
(مرۃ الاسرار اردو صفحہ 938)
براہ راست حضرت سید ناسید بدیع الدین احمد قطب المدار زندہ شاہ مدار کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ ہے"طبقات شاہجہانی"اور علامہ ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی کی کتاب "تذکرہ مشائخ عظام" میں تحریر ہے کہ حضرت زندہ شاہ مدار نے کافی طویل عمر پائی اس لئیے آپ کے مریدین اور خلفا کا شمار غیر ممکن ہے"
مستند کتاب بحر ذخار "تاریخ سلاطین شرقیہ وصوفیاء جونپور "وغیرہ میں حضرت مدار پاک کے بہت سارے خلفا کے حالات تحریر ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ سلسلہ مداریہ انتہائی فیض رساں سلسلہ طریقت ہے اس سلسلہ کے جاری وساری ہونے پر بہت سارے علماء اہلسنت ومشائخ طریقت کی کتابیں شاہد ہیں ، ان میں سے چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں "مناقب العارفین"سمات الاخیار"مردان خدا"تواریخ آئینہ تصوف "کنزالسلاسل"گلستان مسعودیہ"رسالہ قطبیہ "مرأ ۃ مسعودی "اخبارالاخیار "مقالات طریقت"نزہتہ الخواطر"تذکرہ مشائخ بنارس"تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ"حیات اعلحضرت "الاجازت المتینہ"تاریخ مشائخ قادریہ"تذکرہ آبادانیہ "الشجرا ۃ الرفاعیہ"مزکورہ بالاکتابوں کےعلاوہ کئی درجن کتابیں آج بھی موجود ہیں جس سےسلسلہ مداریہ کی ہمہ گیریت اور اجراکا پتہ چلتا ہے لہذا بلا شک وشبہ سلسلہ عالیہ مداریہ جاری وساری ہے۔ اس سلسلہ عالیہ سے اجلہ اولیا ئے کرام وابستہ ہیں بس کسی بھی طرح ایک سنی صحیح العقیدہ مسلمان کواس سلسلہ عالیہ کے بابت سوخت ومنقطع کی بات کہنا مناسب نہیں۔
 قطب المدار کے تصرفات حیات وممات میں برابر ہیں: صاحب مطلع العلوم ومجمع الفنون ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت بدیع الدین قطب المدار کمالاتش درمملکت ہندوستان شہرت دارد وتصرفات آنجناب درحیات وممات برابر است۔
 ترجمہ: قطب المدار کے تصرفات حیات وممات میں برابر ویکساں ہیں۔   (مطلع العلوم ومجمع الفنون )
وہ چار بزرگ ہیں جومثل احیاءکے تصرف کرتے ہیں: صاحب مرأۃ الاسرار شیخ عبدالرحمن چشتی فرماتے ہیں کہ مرأۃ الاسرار کی تصنیف کے بارہ سال کے بعد 1065ہجری میں زیارت حضرت پیر ودستگیر معنوی خواجہ بزرگ معین الحق والدین چشتی قدس سرہ سے دوچار ہوا حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم کو چار مرد صاحب ولایت وصاحب تصرف کے درمیان جگہ  دی ہے جو قیام قیامت تک اپنی قبور میں مثل احیاء زندہ کی طرح اپنی قبر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمیشہ تمہارے ممدوومعاون رہیں گے۔
(1)مغرب کی طرف شیخ بدیع الدین شاہ مدار رضی اللہ عنہ
(2)مشرق کی طرف سید اشرف جہانگیر رضی اللہ عنہ
(3)شمال میں سید سالار مسعود غازی رضی اللہ رضی اللہ عنہ
(4)اور جنوب میں شیخ حسام الدین مانکپوری رضی اللہ عنہ
ان چارو ں کے درمیان تم ہمیشہ امن وامان میں رہوگے ۔
(بحوالہ سیرۃالاشرف جلد اول صفحہ  69مرأۃ الاسرارصفحہ 1252)
قطب المدار دنیا کے چارو ں گوشوں میں گشت کرتاہے: امام یافعی علیہ الرحمہ الحاوی میں ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ فتاوی حدیثیہ میں رقم فرماتے ہیں کہ القطب الغوث الفردالجامع جعلہ دائرافی الافاق الاربعۃ فی افق السماء وقد ستر اللہ احوالہ عن الخاصۃ والعامۃ غیرۃ الحق غیرانہ یری عالما کجاھل ابلہ کفطن تارکا اخذاقریبا بعیداسھلا عسراًامنا حذراومکانتہ من الاولیاءکالتقطۃ من الدائرۃاللتی ھی مرکز ھابہ یقع صلاح العالم ۔   (الفتاوی الحدیثیہ صفحہ 322)
 ترجمہ: قطب (مدار) جوغوث وفرد کے مقام ومراتب کا جامع ومتحمل  ہوتا ہے اس کواللہ تعالی دنیا کے  چاروں گوشوں میں گشت کراتا ہے جیسے آسمان کے چاروں طرف ستارے چکر لگاتے ہیں اور اللہ تعالی اسکی غیرت داری میں اسکے احوال کوخاص وعام سےپوشیدہ رکھتا ہے وہ عالم ہونےکےباوجود ناخواندہ لگتا ہے وہ ذہین ہوتے ہوئے بھی کم فہم معلوم ہوتا ہے دنیا سے بے نیاز ہوکر بھی کچھ دور سا لگتا ہے دردمند ہوتے ہوئے بھی تنگدل جان پڑتا ہے بے خوف ہونے کے باوجود سہما سہما محسوس ہوتا ہے اولیاء اللہ میں اسکا مقام ایسا ہے جیسے دائرہ کے مرکز نقطے کا اسی پرعالم کی  درستگی کا دارومدار ہوتا ہے۔
عبارت مزکورہ سے حضرت سید بدیع الدین احمد زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کی ایک اجمالی سوانح عمری ہے تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے آفاق عالم کا گشت فرمائی ایشیا،یورپ، امریکہ ،افریقہ اور آسٹریلیا گویا کہ پوری دنیا کے اکثر مقامات پر آپکے چلہ جات آپکے خلفاء کےمزارات اور آپکے نام سے منسوب دیگر نشانیاں آپکی عظمتوں کی یادگار ہیں حق تعالی نے اپنی غیرت کی قبا میں آپکے احوال کو اتنے جتن سے مستور فرمادیا ہے ۔
ملنگ کسے کہتے ہیں؟؟؟ لفظ ملنگ   اسی "سلسلے کی اصطلاح ہے   فیروز اللغات  میں لکھا ہے کہ ملنگ سلسلہ مداریہ سے وابستہ ہوتے ہیں   اور مشاہدہ ہے کہ ہندوستان میں شاید  ہی کوئی ایسا علاقہ ہوگا جہاں ملنگانِ پاکباز کی ڈیریاں اور ان سے منسوب نشانیاں نہ ہوں ۔حضرت سیدنا شیخ یٰسین جھونسوی قدس سرہ کی کتاب   مناقب العارفین میں لکھا ہے کہ  " حضرت شیخ حاجی محمد مداری رحمتہ اللہ علیہ دو واسطوں سے  ملک العارفین حضور سیدنا شاہ بدیع الدین مدار کے خلیفہ تھے " ملک العارفین صفحہ نمبر 125         حضور سیدنا خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ کو بھی سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت حاصل تھی۔  الشجرات الرفاعیہ  صفحہ نمبر  306        کتاب سمات الاخیار     صوفیاءبہار      بحر زخّار     ثواقب الآثار      تجلیات انوارفی شیوخ بہار         مکتوبات شیخ حسین نوشتہُ توحید        بحر الحقائق     مقصود الطالبین زادالسالکین وغیرہ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں وبیاں ہوجاتی ہے کہ سلسلہ مداریہ کی اجازت وخلافت  ہندوستان میں مروج تمام سلاسل عالیات کے مشائخ کے درمیان ہرزمانہ ہرصدی میں موجود پائی گئی ہے  ۔ مزید جانکاری حاصل کرنے لئے ان کتب کا ضروربالضرور مطالعہ کریں ان شاء اللہ عزوجل علم میں اضافہ ہوگا۔
    اخبارالاخیار، گلستان مسعودیہ، تذکرۃ الکرام، مرآۃ مسعودی، طبقات شاہجہانی، ناصرالسالکین، سیرالاخیار،الشجرات الرفاعیہ،تاریخ سلاطین شرقیہ وصوفیائے جونپور، اصول المقصود، بدایوں قدیم وجدید،تنویرالعین،مداراعظم، تذکرۃ المتقین، مقالات طریقت، جواہرہدایت عبدالقدیرمیاں، شاہ برکت اللہ حیات اورعلمی کارنامے،الاجازۃالمتینہ،تاریخ مداراعظم،فیضان اولیاء،ضرب یداللہی، سعی آخر،النوروالبہافی آسانیدالحدیث،حیات اعلحضرت،تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ،تاریخ مشائخ قادریہ ،تذکرہ علماء ہند، تذکرہ اکابر علمائے اہلسنت، فضائل اہلیبیت اطہار، کلیات امدادیہ، فصول مسعودیہ، مطلوب الطالبین،تذکرۃ الفقراء، تحفئہ چشتیہ، خم خانئہ تصوف، نصیبۃ الابرار، نقاءالسلافہ، اشجارالبرکات ،بحرذخار،کشف المحجوب، مشائخ گورکھپور،مکتوبات امام ربانی، مفتاح التوراریخ، تذکرہ سیداحمد باد، فتاوی مصطفویہ، تقویۃالایمان،تحفظ عقائد نمر، سوانح اعلیحضرت، معارف مثنوی، مایاجگت ہندی پتریکا، لطائف اشرفی، منہاج الطریقہ،سبع سنابل، شرح المطالب والدین مصطفے، تذکرہ علمائے بستی،معارف شارح بخاری، عوارف المعارف، بحرالمعانی، مرآۃالاسرار، منتخب العجائب، خوابوں کی بارات، مکتوبات قلمی حضورسیدالعلماء، ماہنامہ سلسلہ مکنپور شریف، رسالہ الامداد، تاریخ پورنیہ، صحائف اشرفی، سوانح باباکمال شاہ  وغیرہ۔
وصال مبارک:  وصال سے دس دن قبل 7 جمادی الاول 838 ہجری کو آپ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا !
حضرت خضر علیہ السلام کے مجھ پر احسانات ہیں وہ میرے مقام استمرار ( ہمیشگی ) پر بضد ہیں کہ یہ خلعت خاص میرا ہے میں ان سے انکار نہیں کرسکتا لہذا میری عمر کا پیمانہ لبریز ہوچکاہے آپ نے وصال  کے بعد کے حالات پر اکشافی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ، میرے خلفاء دنیا کےہر گوشے میں موجود ہیں ایک دور ایسا آئے گا کہ میرے دوستوں کو سخت امتحان سے گزرنا ہوگا جو بچیں گے وہ صاحب ایمان ہوں گے اور ان کی شفاعت کا وعدہ میرے نانا حضور ﷺ نے کیا ہے پھر قدرت ایسے لوگ بھیجیں گے جو گمشدہ امانت کو جو بکھری پڑی ہوگی اور معدوم ہوگئی ہوگی  اس کو فراہم کریں گے وہ حق  پر ہوں گے وغیرہ یہ خطبہ حجت المدار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ حی المدار ، اسرار بدیع ، جمال بدیع اور متعدد کتب کی روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار چارسو چالیس خلفاء ومرید ین کی موجودگی میں خطبہ دیا تھا اور اسی روز ایک ہزار چارسو بیالیس مرید ین کو خلافت سے سرفراز کیا تھا۔
(حوالہ: ماہنامہ ترجمان اہلسنت جلد 12 شمارہ 10صفحہ 265)
17 جمادی الاول 838 ہجری کو آپ نے وصال فرمایا  ۔انا للہ و انا الیہ راجعون
سلطان ابراہیم شرقی جو کہ آپ کے خلیفہ ہیں مزار شریف  اور قبا مبارک او راس کے اطراف میں چہاردیواری تعمیر کرائی ۔ بادشاہ عالمگیر اورنگ زیب علیہ الرحمہ و برادر عزیز داراشکوہ میں جب کہ جنگ ہوئی تو ظفر مندی و کامیابی کے سلسلے میں اورنگ زیب نے بارگاہ مدارالعالمین میں عرضی پیش کی تھی بطفیل اولیائے مدار اورنگ زیب کا کامیابی حاصل ہوئی جس کو داراشکوہ کا وزیر نعمت خاں علی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے دوبارہ اورنگ زیب بارگاہ مدارالعالمین میں حاضر ہوئے اور ایک رباعی پیش کی:
بیا کہ اوج کمالات را ظہور اینجا ست                           بیاکہ مرجع ہرقیصر و قصور اینجا ست
جناب  اقدس  شاہنشہ  مدار جہاں                                     بپائے دیدہ بیاؤ بیں کہ نورایجاست
ترجمہ:
ہر اوج  ہرکمال   کا  مظہر       ہے   اس    جگہ                  امید گاہ   شاہ   تونگر  ہےاس  جگہ      
آنکھوں کے بل جوار مدار جہاں میں آؤ                                  دیکھو کہ نورخالق اکبر ہے اس جگہ
اور آپ کے قبا مبارکہ کےدروازوں میں سنگ مرمر کی جالیاں نصب کرائیں اور جامع مسجد تعمیرکرائی کنوئیں بنوائے راستے درست کروائے  ۔
(بحوالہ:  فضائل اہلبیت اطہار و عرفان  قطب المدار صفحہ 209)
آپ نے چھ سو سال سے زائد عمر پائی لاکھوں خلفاء اور بے شمار مریدین چھوڑے مزارمبارک نواح قنوج میں موضع مکن پور ہے۔

Hazrat Khawaja Ahmad Qutub Chishti

حضرت خواجہ احمد قطب الدین چشتی قدس سرہ
راہنمائے سالکین پیشوائے عاشقین  رہبر دین ومتین حضرت خواجہ احمد قطب الدین چشتی قدس سرہ جامع کمالات شخصیت تھے  اپنے والد حضرت خواجہ قطب الدین مودودچشتی کے جانشین تھے علم و فضل اورروحانیت میں اعلیٰ مقام ہونے کے باوجودنہایت منکسرالمزاج شخصیت تھے اور ہر ایک سے شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔ آپ سید اشرف جہانگیر سمنانی نوربخشی  کے معاصرین میں تھے  انہوں نے لطائف اشرفی میں  آپ سے ملاقات کا ذکر کیا ہے  وہ لکھتے ہیں :
جب یہ فقیر حضرت خواجہ مودود چشتی قدس اللہ سرہ کے روضہ متبرکہ کی زیارت سے مشرف ہوا اور حضرت قطب المشائخ خواجہ قطب الدین مخدوم زادہ جو صاحب سجادہ تھے ان کی ملازمت میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ حلقہ میں بیٹھ کر ذکر جہر کر رہے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت خواجہ بزرگ کے زمانے سے ہمارے زمانے تک ذکر جہر مشائخ چشت کے خاندان میں ہوتا چلا آیا ہے۔
وصال مبارک :  حضرت خواجہ احمد قطب الدین نے 777 ہجری میں وصال فرمایا۔

Hazrat Shaikh Qawam Uddin Abbasi Lakhnowi



حضرت شیخ قوام الدین عباسی لکھنوی  قدس سرہ
رازہائے سر بستہ کے امین پیشوائے اہل یقین اولیاء وبزرگان دین حضرت شیخ قوام الدین قدس سرہ اپنے وقت کے مشائخین میں منفرد مقام رکھتے تھے تقویٰ و پرہیزگاری اور ریاضت و مجاہدے میں اپنی مثال آپ تھے آپ نے حضرت سید نصیرالدین روشن چراغ دہلوی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت کی اور ان کی صحبت میں رہے پیرومرشد نے خصوصی توجہ فرمائی اور طریقت کی تعلیم دی  اس کے بعد سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کئی برس  ان کی صحبت میں رہے اور ان کے زیر نگرانی ریاضت ومجاہدے کئے تکمیل روحانیت کے بعد آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ ان کے علاوہ آپ نے بہت سے مشائخ سے فیوض وبرکات حاصل کئےاور ان کی صحبت اختیار کی۔
لطائف اشرفی میں ہے کہ حضرت شیخ قوام الدین عباسی ادھمی قدس سرہ نے غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی  کوسفر و حضر میں ذکر کی تعلیم دی تھی اورآپ  اس پر پوری طرح کاربند تھے  اگرچہ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا اور یہاں تک کہ جنگ و جدال پر آمادہ ہوئے لیکن سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی استقامت کے ساتھ اسی معمول پر ثابت قدم رہے ۔ حضرت شیخ قوام الدین  قدس سرہ نے  قطب اودھ شیخ محمد مینا کو اپنی فرزندی میں لے کر  ان کی تربیت فرمائی اور روحانی منازل طے کرائیں آپ کے وصال کے بعد یہی آپ کے جانشین ہوئے اور سلسلہ چشتیہ کو پھیلایا  بعض کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ قوام الدین نے وصال سے قبل شیخ محمد مینا کو مخدوم شیخ سارنگ کے سپرد کردیا تھا انہوں نے ہی تعلیم طریقت کی تکمیل کرائی اور اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی۔
 وصال مبارک :  شیخ قوام الدین قدس سرہ  کو وصال لکھنو میں ہوا اور آپ کا مزار مبارک آستا نہ  عالیہ سرکار شاہ مینا   قدس سرہ کے قریب مرجع خلائق اور منبع فیوض و برکات ہے۔ 

Hazrat Khawaja Muhammad Parsa Al Bukhari

حضرت خواجہ محمد پارسا قد س سرہ
حضرت خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے سالکان طریقت اور واقف اسرار حقیقت تھے آپ کا اسم گرامی محمد بن محمد بن محمود البخاری ہے۔آپ کی ولادت 756 ہجری میں ہوئی آپ نے سلوک کی تعلیم حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند سے حاصل کی پھر حضرت خواجہ نے آپ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی اسی لئے آپ کا شمار حضرت خواجہ نقشبند کے مشہور خلفاء میں ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے آپ پر خصوصی توجہ فرمایا اور ظاہری و باطنی نعمتیں آپ کو عطافرمانے کے بعد ارشاد فرمایا " جو امانت اور حق خلفاء خاندان خواجگان قدس اللہ اسرارہم سے اس ضعیف کو پہونچاہے اور جو کچھ اس راہ میں ہم نے کسب سے حاصل کیا ہے اس کو ہم تجھے سونپتے ہیں جیساکہ برادار دینی مولانا عارف قدس سرہ نے تم کو سونپا۔ تم اس  امانت کو قبول کرو اور اسے خلق خدا تک پہونچاؤ خواجہ پارسا نے بہت کچھ عاجزی کی اور اس کو قبول کیا نیز حضرت خواجہ نے آپ سے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ تم کو  لے گئے۔                                        (حوالہ: حضرات القدس صفحہ224)
آپ مقرب بااللہ تھے اور جو آپ کی زبان سے نکل جاتا تھا وہی ہوجاتا تھا آپ غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی  کے معاصرین میں تھے۔
وصال مبارک:  حضرت محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیرومرشد کے حکم سے رشد وہدایت کا جوسلسلہ شروع کیا اسے آخری دم تک جاری رکھا آپ نے 73 سال کی عمر پائی آپ کی وفات مدینہ منورہ میں جمعرات کے روز چہار جمادی الآخر 822 ہجری کو ہوئی  آپ کا مزار پر انوار جنت البقیع میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مزار شریف کے قریب ہے۔                         (حوالہ : حضرات القدس صفحہ226)